ایران کی امریکا اسرائیل دشمنی: حقیقت یا ڈرامہ

ڈاکٹر احید حسن

عہد حاضر میں مسلم ممالک جس اہم مسئلہ سے دو چار ہیں وہ ہے ان کے اپنے درمیان موجودہ دوست اور دشمن میں ادراک کا فقدان یہی وجہ ہے کہ ان کی ہر سیاسی ونظریاتی پالیسی اکثروبیشتر ناکامی کا شکار ہورہی ہے چنانچہ جب تک مسلمانان عالم اپنے درمیان اور اطراف میں رہنے والے دوست ودشمن کی صحیح شناخت نہیں کرتے یہ افسوسناک سلسلہ جاری رہے گا۔

یہ بات تو امریکی بھی جانتے ہیں کہ ایران ان کا دوست نہیں اور ایران بھی جانتا ہے کہ امریکی ان کے دوست نہیں. ان تعلقات میں کوئی دوستی دشمنی نہی ہوتی صرف مفادات ہوتے ہیں اور اس وقت اسلام کے خلاف محاذ پر دونوں کے مفاد ایک ہیں۔ مثال کے طور پر اسرائیل اور امریکہ کی کیا دوستی ہو سکتی ہے؟؟؟؟ جب کہ تاریخ میں یہودیوں کو ہمیشہ مارنے والے عیسائی. اور عیسائیوں کے نبیوں تک کو قتل کرنے والے یہودی رہے ہیں ….. یہ آج ایک دوسرے کے دوست کیسے ہو گئے؟

وہ ایسے ہوئے کہ دونوں کے مفادات ایک ہو گئے ہیں . خدا نخواستہ اگر آج دنیا سے تمام مسلمانوں کا خاتمہ ہو جائے تو کیا دنیا میں امن ہو جائے گا؟ ہرگز نہی پھر عیسائی اور یہودی آپس میں لڑیں گے. اگر یہودیوں کا خاتمہ ہو جائے تو عیسائی آپس میں ایک دوسرے کے خلاف لڑیں گے. فلوقت ایران اور امریکہ ایک کیمپ میں ہیں مسلمانوں کے خلاف جہاں تک بات ہے ایران پر حملے اور پابندیوں کے بیانات کی. تو یہ نورا کشتی آج کی تو نہی. تیس سال سے جاری ہے… ہر کچھ دن کے بعد ایک ڈائیلاگ "اوئے چھڈاں گے نئیں ” دونوں طرف سے جاری ہوتا ہے اور خوب گرما گرمی دکھائی جاتی ہے لیکن اس تیس سالہ زبانی جنگ میں ہوا کیا؟؟؟ کچھ بھی تو نہی سواے نورا کشتی کے.

اور اس کی وجہ ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کو خطرہ اسلام سے… اسلامی نظام سے ہے …. دنیا میں دو بھی اسلامی نظام کا نعرہ لگائے گا امریکہ اور اس کے حواری فورا چڑھ دوڑھیں گے اس پر(سواے ایران کے. کہ ان کا اسلامی انقلاب سی آئ اے سپانسرڈ تھا)۔

ایران کو بھی اسی بات سے خطرہ ہے جس نے دونوں کو اکھٹا کر دیا ہے.. اکھٹے ضرور ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہی کہ کوئی پیار کا رشتہ ہے، مفادات کی دوستی ہے صرف… اس دوستی میں بھی امریکہ یہ کبھی نہی چاہے گا کہ ایران زیادہ ہی طاقتور ہو جاے… اور یہ بھی نہی چاہے گا کہ فلوقت ایران بدنام ہو… اسے ہیرو کے طور پر پیش کرنا مجبوری ہے کہ نورا کشتی جاری رکھی جائے۔

شاہ ایران کے دور پر سرسری نگاہ ڈالنے کے لئے تاریخ کے چند اوراق پلٹتے ہیں ہاد ہوگا کے اکتوبر ١٩٧١ء میں ایرانی شہنشاہیت کی ڈھائی ہزار سالہ تقریب (یوم سائرس) ایران اور اسرائیل نے بیک وقت منائیں سائرش (دارا) شہنشاہ ایران نے اسی مہنہ میں کوئی ڈھائی ہزار سال قبل بابل کے یہودیوں کو آزادی دلائی تھی اس سلسلہ میں جیوش کرانکل میں طبع شدہ ایک اقتباس، بیسویں صدی میں ایران اسرائیل تعلقات کے پس منظر پر روشنی ڈالتا ہے جو دونوں کے درمیان صدیوں سے موجود ہے۔

اسرائیل کا منصوبہ ہے کے ایران کی طرح ایرانی شہنشاہیت کی ڈھائی ہزار سالہ تقاریب بیک وقت اسرائیل میں بھی منعقد کی جائیں ان تقاریب کے موقع پر رائشونگ ژیوان کی بستی کو ایرانی یہودیوں سے معنون کرکے ایرانی شہنشاہ سائرش کے نام سے منسوب کر دیا جائے جس نے اپنے دور اقتدار میں بابل میں پھنسے ہوئے یہودیوں کو غدرا اور نہمیہ کی سرکردگی میں فلسطین جانے کی اجازت دی تھی سائرس سے منسوب اس بستی کی ایک سڑک کا نام شاہ ایران کے اعزاز میں شارع رضا شاہ پہلوی رکھا جائے گا (جیوش کرانکل 10 ستمبر 1971)۔۔۔

دنیا جانتی ہے کے خمینی انقلاب سے پہلے شاہ ایران نے کس طرح عرب اسرائیل جنگوں میں اسرائیل کا بالواسطہ ساتھ دیا تھا دوران جنگ شاہ نے نہ صرف یہ کے خلیج میں اسرائیلی تینکروں کو تحفظ فراہم کیا بلکہ بلاروک ٹوک اسرائیل کو تیل کی فراہمی جاری رکھی مسلم دنیا یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی کہ ایران نے ایک دن کے لئے بھی بطور احتجاج اسرائیل کو تیل کی سپلائی بند نہ کی اس آنکھ کھول دینے والی واقعہ کی آئندہ کسی مرحلہ پر وضاحت کی جائے گی۔ یہاں اس تاریخی واقعہ اور حقیقت کا ذکر محض اس غرض سے کیا گیا ہے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ خمینی انقلاب سے کہیں پہلے شاہ کے دور میں ایران اسرائیل تعلقات کس درجہ استوار تھے انقلاب کے بعد تو ان معنی خیز رشتوں میں کئی گناہ اضافہ اور گیرائی پیدا ہوگئی اسرائیل، ایران عراق جنگ کے ابتداء ہی سے خمینی حکومت کی مادی اور اخلاقی امداد جاری رکھے ہوئے ہے۔

خمینی کے موجودہ دور میں اسرئیل نے نہ صرف یہ کہ ایران کو اسلحہ کی سپلائی کرکے ایران عراق جنگ میں اس کی حمایت کی بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر عراق کی ایٹمی تنصیبات کو بمباری کرکے تباہ کردیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاہ کے عہد سے لیکر خمینی دور تک ایران، اسرائیل اشتراک اور روابط فروغ پاکر باقاعدہ ایک خطرناک مہم جوہانہ اتحاد کی شکل اختیار کرچکے ہیں جس کا مشترکہ مقصد مشرق وسطٰی پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔

اسلام کے نام پر ایران میں انقلاب کا عمل پورا کرنے کے بعد آیت اللہ خمینی نے ببانگ دُہل خود کو عالم اسلام کا بلاشریک غیرے ورحانی ودنیوی پیشوا ہونے کا دعوٰی شروع کیا۔ ایک موقع پر تو اس کی شیعی حکومت نے یہ دعوٰی کیا کہ اسلام کی خاطر اس نے اپنے فوجی دستے لبنان میں اُن مسلم فلسطینیوں کی امداد کے لئے بھیج دئے ہیں جو اسرائیل اور اس کے ایجنٹوں کے ہاتھوں قتل وغارت کا شکار ہیں لیکن جب اصلیت منظر عام پر آئی تو ایرانی دعوٰی کی قلعی کھل گئی کیونکہ یہ شیعہ فوجی دستے درحقیقت یہودیوں اور عیسائی ملیشیاء کے اشتراک سے مسلمانوں کا قتل عام کرتے رہے۔ساری دنیا کو علم ہوچکا تھا کے صابرہ اور شطیلہ کے فلسطینی کیمپوں میں مسلمانوں کے خون سے جو ہولی کھیلی گئی اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

بین الاقوامی ہفتہ روزہ نیوزویک نے اپنی 4 اکتوبر 1982ء کی اشاعت میں صفحہ ٩ پر اس وحشیانہ قتل عام کی تفصیل شائع کی ہے اس چونکا دینے والی رپورٹ کا ماخذ وہ عینی شاہد تھے جو ان غیر ملکی میڈیکل مشنوں میں شامل تھے جو صابرہ اور شطیلہ کے فلسطینی کیمپوں میں طبی امداد فراہم کرنے پر مامور تھے نیوزویک کی اس مصدقہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ قتل عام میجر حداد کی عیسائی ملیشیاء نے اسرائیلی فوجوں کی مدد سے کیا اور یہ کہ عیسائی ملیشیاء کی دو تہائی نفری شیعہ فوجیوں پر مشتمل تھی جسے اسرائیل فوجیوں کی عملی اعانت حاصل تھی اس طرح شیعہ فورسسز جسے خمینی حکومت نے فلسطینیوں کی امداد کے لئے بھیجنے کا دعوٰی کیا تھا اصل میں مسلمانوں (اہلسنہ) کو تباہ کرنے میں برابر اسرائیل کا ہاتھ بٹاتی رہی اس طرح ستمبر 1982ء میں وہ شیطانی منصوبہ منظر عام پر آگیا جس کے تحت صابرہ اور شطیلہ کے کیمپوں میں فلنجسٹ، عیسائیوں ، یہودیوں اور شیعوں کی مشترکہ کمان میں یکجا ہوکر مسلمانوں کے بھیانک قتل عام کا ارتکاب کیا تھا اور آج تک یہ عمل جاری ہے ان تین  رپورٹ کی تردید کی اور نہ ہی اس قتل عام کی ذمہ داری قبول کی خمینی خود ساختہ پیشوائے اسلام کو تو اتنی اخلاقی جرآت بھی نہ وہئی کے اس نے اسلام دشمن اور مسلم کش کاروائی میں اپنی شیعہ عمل ملیشیاء کے ملوث ہونے کے الزام کی زبانی تردید ہی کی ہو اس امر کا ذکر بے محل نہ ہوگا کے ستمبر 1983ء کے اس تاریخی اور لرزہ خیز سانحہ سے پی ایل اور کے سربراہ یاسر عرفات کو خمینی کے اصل روپ کو پہچاننے میں مدد ملی اور اس واقعہ سے جونہی ان کو اسلامی طاقتوں کے خلاف ایران اسرائیل کے گٹھ جوڑ کا یقین ہوگیا تو یاسرعرفات نے نام نہاد اسلامی مملکت ایران سے اپنے ہر طرح کے تعلقات ختم کرلئے شاہ کے دور میں ایران اسرائیل تعلقات جوباہمی اشتراک مقاصد کی بنیاد پر استوار ہوئے تھے بتدریج فروغ پاکر انقلابی دور میں مضبوط تر ہوگئے دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیئے کے ایرانی انقلاب دراصل ماضی کے شیعہ یہودی باہمی رشتوں کی ایک حقیقی اور مثالی تجدیدی شکل ہے۔

صابرہ اور سطیلہ پر شیعہ عمل ملیشیاء کے دوبارہ حملوں اور قتل وغارت کا بھی یہی مقصد تھا اور مارچ اپریل 1986ء میں عمل ملیشیاء کا حالیہ حملہ لبنان میں فلسطینی مسلمانوں کی مدافعانہ جنگی طاقت کو یکسر ختم کرنے کے ارادہ سے کیا گیا ہے تاکہ لبنان میں یہودی، عیسائی اور شیعہ کی متحدہ حکومت کا قیام ممکن ہوسکے۔

خمینی برانڈ چھاپ کی اسلامی حکومت نے ایرانی سنی  مسلمانوں کے خلاف ذیل کے غیر اسلامی اقدامات کئے۔

١۔ ایرانی دستور کے دفعہ 12 اسلام کی بجائے ریاست کے مذہب کوشیعیت سے مشروط وہ مخصوص کرتی ہے اور ایرانی اہلیان اسلام اہل السنہ کو دوسری نسلی اور مذہبی اقلیتوں کی طرح سمجھتی ہے۔

٢۔ کوئی مسلم اہل السنہ ریاست کے 23 صوبوں میں سے کسی ایک میں بھی (حالانکہ چھ صوبے مسلم اکثریت کے ہیں ) کبھی گورنر مقرر نہیں کیا گیا۔

٣۔ مسلمانوں (اہلسنہ) کو اجازت نہیں کہ وہ اپنی الگ مسجد تعمیر کرسکیں یہاں تک کے تہران میں جو ایران کا سب سے بڑا شہر ہے آج بھی وہاں مسلمانوں کی کوئی اپنی مسجد نہیں۔

٤۔ مسلمان (اہلسنہ) کو کابینہ اور ایرانی پارلیمنٹ میں کوئی نمائندگی نہیں دیگئی۔

یہ مختصر کوائف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خمینی کی شیعہ حکومت کے دیدہ و دانستہ معاندانہ رویے کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں یہ اقدامات نہ صڑف یہ کہ غیر اسلامی ہیں بلکہ صرایحا اسلام دشمنی کے مترادف ہیں مذہبی تعصب سے ہٹ کر موجودہ ایرانی حکومت میں انسن دوستی کا بھی بڑا فقدان ہے کیونکہ اس نے اپنی چالیس فیصدی آبادی (اہلسنہ) کو نہ صرف ان کے بنیادی حقوق سے محروم کررکھا ہے بلکہ ان کے اکثریتی صوبوں میں قتل وغارت گری کا بازار گرم کر رکھا ہے۔

متذکرہ مختصر حقائق اور واقعات نجات، دہندہ اور ربانی اسلامی مملکت ایران کے کارہائے نمایاں کی محض ایک جھلک ہے یہ انکشافات ان لوگوں کے لئے جو خمینی انقلاب کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں آنکھ کھولنے کے لئے مواد بہم پہنچاتے ہیں۔

امریکہ ایران اور اسرائیل اعلانیہ دشمنی اور خفیہ دوستی سے دنیا کی رائے عامہ کو ہمیشہ کیلئے بے وقوف بنانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں ۔ تینوں ممالک کے درمیان جاری دشمنی کو زمینی حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو صرف الفاظ کی جنگ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ یہ صرف ظاہری طور پر ایک دوسرے سے دشمنی کا ڈھونگ رچاتے ہیں ۔ جیسا کہ ایران کی ایک جیل میں زیرحراست صحافی نادر کریمی نے 2009ء  میں یہ انکشاف کیا تھا کہ تہران اور تل ابیب کے درمیان گہرے دوستانہ لیکن خفیہ تعلقات قائم ہیں اور دونوں ممالک اپنے اپنے میڈیا کو ایک دوسرے کیلئے تیار کردہ دشمنی کے غبارے میں ہوا بھرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں دراصل اس مخالفت کے پردے میں وہ ایک دوسرے کے نفع کا ساماں کررہے ہیں۔

ایران امریکہ اور اسرائیل دشمنی میں سخت تلخ لہجہ استعمال کرکے عالم اسلام کی رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنا چاہتا ہے او ر اسی طرح مرگ بر اسرائیل کا نعرہ لگاکر اپنے آپ کو فلسطینیوں کا ہمدرد ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے حالاں کہ حقیقت میں فلسطینیوں کے حقوق کے دعوے بھی نمائشی اور کھوکھلے ہیں۔

John Hopkins یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر(Trita Parsi)کی کتاب (The treacherous alliance,Secret dealings of iran with Israel and America)کتاب پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالنے سے معلوم ہوا کہ اسکے مؤلف نے ایران امریکہ اور اسرائیل کے کلامی جنگ کے پس پردہ گہری دوستانہ تعلقات کے موضوع پر بہت ہی مدلل اور حاصل سیر بحث کی ہے۔ جسمیں 8 جولائی 1980ء  کو ارجنٹائن کے ایک مال بردار طیارے (جو اسرئیل سے اسلحہ لے کر ایران جاتے ہوئے سوویت ترکی کی سرحد کے قریب گرکر تباہ ہو گیا تھا )کا واقعہ مستند ریفرنس کے ساتھ مذکور ہے۔ اور اسی طرح 1985ء میں اسرائیل کی کوششوں سے لبنان میں قید امریکیوں کی رہائی کے بدلے امریکا او ر ایران میں اسلحہ فروخت کا معاہدہ طے ہوا اس معاہدے کے تحت امریکا نے ایران کو 3000 ٹینک شکن میزائل اور زمین سے فضا میں مار کرنے والے (Hawk) میزائل فروخت کیے تو اسوقت اسرائیل نے وعدہ کیا تھا کہ وہ فروخت کردہ امریکی اسلحہ ایران پہنچائے گا۔ پھر 3 نومبر 1984 ءلبنانی رسالہ’’الشراع‘‘ نے اپنی اشاعت میں اسرائیل کے راستے ایران کو امریکی اسلحہ فروخت کرنے کا اسکینڈل منکشف کیا۔ کتاب میں مذکورہ واقعات اور مشرقی وسطی کے حالیہ زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر مر گ بر اسرائیل ، مرگ بر امریکا ،امریکا شیطان بزرگ جیسے سیاسی نعروں کو خمینی اشتھاری کمپنی کی پیداوار قرار دینا بجا ہوگا۔ ان نعروں کا مقصد عالم اسلام کے سادہ لوح مسلمانوں کو کلامی جنگ کا سراب دکھا کر پس پردہ اپنے مخصوص ایجنڈے کی ترویج کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ایک زمانہ تھا جب سادہ لوح مسلمان خوارج کے کھوکھلے نعروں سے متاثر ہو گئے تھے اسی طرح آجکل بھی کئی حضرات ایران کی حالیہ شعبدہ باذی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔

شیعیت کو عام طور سے اسلام کا ایک فرقہ یا مکتب فکرکہا جاتا رہا ہے اور شیعہ ریاست ایران کو دنیائے اسلام کی ایک اکائی سمجھا جاتا ہے اس انداز فکر کی اور اسرائیل کے درمیان موجود دیرینہ تعلقات اور روابط، یکساں عزائم اور یکجہتی کا بھید خمینی انقلاب کے ساتھ کھل کر سامنے آگیا۔ انقلاب ایران کے فورا بعد ایرانی توسیع پسندی کا آغاز عراق کے خلاف معاندانہ پروپیگنڈہ سے ہوا تمام ایرانی سرکاری ذرائع ابلاغ نے عراقی عوام کو اپنی حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے لئے دن رات ایک کردیا عراق کے خلاف اس پروپیگنڈہ کا نتیجہ یہ نکلا کے دونوں ریاستیں دست وگریباں ہوگئیں اس تباہ کن جنگ سے ایک بار پھر کہیں زیادہ واضح طور پر ایران اسرائیل دیرینہ گٹھ جوڑ اور عزائم کی قلعی کھل گئی۔

"Yedioth Ahronoth ,یدعوت احرنوتھ” نامی عبری اخبار لکھتا ھے کہ ایران اسرائیل ظاھری دشمنیاں دکھاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ھے کہ اسرائیلی 30 بلین کی سرمایہ کاری ایرانی سرزمین پے ھورہی ھے۔۔!

اخبار کی مطابق علی الاقل 200 اسرائیلی کمپنیوں کیساتھ ایران کے مضبوط تجارتی روابط ہیں جن میں سے اکثر تیل کمپنیاں ہیں جو ایران کے اندر توانائی کے شعبہ میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ اسرائیل میں ایرانی یہودیوں کی تعداد تقریبا 20 لاکھ کے قریب ھے جو کہ ایران میں موجود انکے سب سے بڑے دیدیا شوفط نامی حاخام مرجع جوکہ ایرانی حکمرانوں خاص کر جعفری وغیرہ کے مقرب ھے، سے تعلیمات لیتے ہیں۔ اور ان لوگوں کو اسرائیلی فوجی قیادت،سیاست اور عام تجارتی کنٹریکٹنگ میں بھت زیادہ اثر و رسوخ حاصل ھے۔ طہران میں یہودی معبد خانوں کی تعداد 200 سے تجاوز کرچکی ھے جبکہ صرف طہراب میں سنیوں کی تعداد 15 لاکھ ھونے کے باوجود ایک بھی سنی مسجد نھیں ۔!!
امریکہ اور اسرائیل کے اندر ایران اور یہودی حاخامات(مذھبی پیشواوں ) کے درمیان رابطوں کا گرو ایک اوریل داویدی سال نامی حاخام ھے جوکہ ایرانی ھے۔ کینڈا بریطانیہ فرانس میں موجود یہودیوں میں سے 17000 ایرانی یہودیوں کے پاس تیل کمپنیوں کی نہ صرف ملکیت اور شئیرز ھیں بلکہ ان میں سے لوگ ھاوس آف لارڈز (House of Lords) کے ممبرز بھی ہیں۔ ایران امریکہ میں موجود اپنے یہودیوں کی وساطت سے وھاں موجود یہودی لوبیز کے ذریعہ امریکی ممکنہ کسی بھی حملے سے اسکو باز رکھتی ھے جسکے مقابل میں ایران یہودی کمپنیز کو مشترکہ تعاون فراہم کرتی ھے۔

امریکہ میں موجود یہودیوں میں سے 12 ھزار ایرانی ہیں جو کہ یہودی لوبیز میں نہ صرف بھت اثر و نفوذ رکھتے ہیں بلکہ بھت سے لوگ کانگریس اور سینٹ کے ممبرز بھی ہیں۔ خاص ایرانی یہودویوں کیلئے اسرائیل کے اندر ریڈیو سٹیشنس ہیں جن میں سے ایک "radis” راڈیس” نامی مشہور ریڈیو سٹیشن ھے بلکہ انکے ھاں اور بھی ایرانی تعاون سے اس طرح کے ریڈیو سٹیشنس قائم کئے جاچکے ہیں۔

اسرائیل کے بعد ایران میں سب سے زیادہ 30 لاکھ یہودی آباد ہیں جنکی رشتہ داریاں ابھی تک اسرائیلی یہودویوں سے قائم و دائم ہیں ۔
اسرائیل میں یہودی بڑے بڑے حاخامات ایرانی شھر اصفھان کے یہود میں سے ہیں جنکو ٹھیک ٹھاک مذھبی اور فوجی اثر و رسوخ حاصل ھے جو کہ اصفہان معبد خانوں کے تھرو ایران سے تعلقات رکھتے ہیں۔

اسرائیلی وزیر دفاع شاءول موفاز ایرانی یہودی ھے جسکا تعلق اصفھان شھر سے ھے جوکہ اسرائیلی فوج کے اندر ایرانی ایٹمی پروگرام پر حملوں کی سخت مخالفین میں سے ایک ھے، سابق اسرائلی صدر ،موشیہ کاتسف کا تعلق بھی اصفھان سے ہی تھا اسی وجہ سے احمدی نجاد خامنائی اور پاسداران انقلاب کے رہنماؤں کیساتھ اسکے مضبوط مراسیم تھے۔ انکے مطابق حضرت یوسف علیہ اسلام کے بھائی بنیامین علیہ السلام کا آخری آرام گاہ ایران میں ھے اسی وجہ سے یہودی القدس شھر کی طرح ایران کیساتھ بھی ٹوٹ کے محبت کرتے اور چاھتے ہیں دنیا بھر سے یہودی لوگ وھاں زیارت یا حج پے جاتے ہیں ۔
یہودی فلسطین سے بھی زیادہ ایران کا احترام اس لئے بھی کرتے ہیں کیونکہ یزدجرد کی بیوی شوشندخت کا تعلق ایران سے تھا اور وہ خبیث قسم کی یہودیہ عورت تھی۔ یہودیوں کے لئے ایران سائرس کی زمین ہے کیونکہ وھاں  "استرومردخاي” مقدس "دانیال” حبقوق” وغیرہ مدفون ہیں جوکہ یہودیوں کے مطابق انبیاء اور مقدس لوگ ہیں۔ دنیا جانتی ہے کے خمینی انقلاب سے پہلے شاہ ایران نے کس طرح عرب اسرائیل جنگوں میں اسرائیل کا بالواسطہ ساتھ دیا تھا دوران جنگ شاہ نے نہ صرف یہ کے خلیج میں اسرائیلی تینکروں کو تحفظ فراہم کیا بلکہ بلاروک ٹوک اسرائیل کو تیل کی فراہمی جاری رکھی مسلم دنیا یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی کہ ایران نے ایک دن کے لئے بھی بطور احتجاج اسرائیل کو تیل کی سپلائی بند نہ کی اس آنکھ کھول دینے والی واقعہ کی آئندہ کسی مرحلہ پر وضاحت کی جائے گی یہاں اس تاریخی واقعہ اور حقیقت کا ذکر محض اس غرض سے کیا گیا ہے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ خمینی انقلاب سے کہیں پہلے شاہ کے دور میں ایران اسرائیل تعلقات کس درجہ استوار تھے انقلاب کے بعد تو ان معنی خیز رشتوں میں کئی گناہ اضافہ اور گیرائی پیدا ہوگئی اسرائیل، ایران عراق جنگ کے ابتداء ہی سے خمینی و اس کے بعد کی ایرانی  حکومت کی مادی اور اخلاقی امداد جاری رکھے ہوئے ہے۔

١۔ اسرائیل نے عراق کے ایٹمی ری ایکٹر کی تنصیبات پر براہ راست جارحانہ بمباری کی۔

٢۔ اسرائیل، ایران کو خفیہ طور پر جنگی اسلحہ اور سامان حرب کی سپلائی تسلسل سے جاری رکھے ہوئے ہے۔

٣۔ ایران اور اسرائیل کے مابین اسلحہ کی بہم رسائی کا خفیہ معاہدہ بین الاقوامی خبر رساں ایجنسیوں کی رپورٹوں سے منظر آم پر آگیا اور سرکاری ذریعوں سے جن کی تصدیق بھی ہوگئی۔۔۔

ان اطلاعات اور انکشافات میں سے چند خبریں اور ان کی تصدیقی رپورٹیں ذیل میں تاریخ وار درج کی جاتی ہیں ۔۔۔

١۔ 21 اکتوبر 1980ء کو پیرس کے ایک اخبار افریق ایسی نے اپنے ایک مراسلہ نگار کے حوالے سے یہ رپورٹ شائع کی کہ اسرائیلی فوجی اور سویلین ماہرین، ایران عراق جنگ کے تیسرے ہی دن ایران اسٹاف کمانڈر کی مدد کے لئے تہران پہنچ گئے تھے ان اسرائیلی ماہرین کا تعلق خفیہ ادارہ موساد سے ہے۔۔۔

٢۔ 2 نومبر 1980ء کو لندن کے ہفت روزہ آبزرور نے یہ خبر شائع کی کے اسرائیل بحری جہازوں کے ذریعہ جنگی اسلحہ تسلسل سے ایران بھیجا جارہا ہے۔۔۔

٣۔ مورخہ 3 مومبر 1980ء کو مغربی جرمنی کے جریدہ ڈآئی ویلٹ نے لکھا کے اسرائیل نے ایران کو امریکی اسلحہ خصوصا 40 لڑاکا طیاروں کے فالتو پرزے فراہم کئے۔۔۔

٤۔ مورخہ 24 جولائی 1981ء کو فرانسیسی روزنامہ فگارو نے اطلاع دی کے خمینی کے ایک نمائندے نے لندن میں خفیہ طور پر ایک کمپنی سے رابطہ کیا جو اسرائیل کے لئے کام کرتی رہی ہے۔۔۔

٥۔ مورخہ 24 جولائی 1981ء کو ارجنٹائن کے دو روزناموں کرونیکا اور لاپرتسا نے تصدیق کی کہ سویت یونین کے علاقہ میں گر کر تباہ ہونے والا ارجنٹائن کا جہاز اسرائیل سے جنگی سامان لے کر ایران جارہا تھا۔۔۔

٦۔ مورخہ 27 جولائی 1981ء کو مغربی جرمنی کے میگزین ڈرسپاگل نے ایسی ہی ایک اطلاع دی کے خمینی کو اسرائیل کے ایماء پر مختلف یورپی ایجنسیوں کے توسط سے اسلحہ فراہم کیا جارہا ہے۔۔۔

٧۔ مورخہ 28 جولائی 1981ء کو ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر ہاشم رفسنجانی نے ایران براڈکاسٹنگ کمپنی اور روزنامہ کیہان کو بیان دیتے ہوئے تسلیم کیا اور تصدیق کی کہ تباہ ہونیوالا ارجنٹائن کا مال بردار جہاز جس کا ذکر اوپر میں آچکا ہے اسلحہ لیکر تہران آرہا تھا۔

٨۔ مورخہ 20 اگست 1981ء کو ایران کے سابق صدر نے امریکن ٹیلیفون اے بی سی کے پروگرام نائٹ لائن کو یہ بتان دیا کہ انہوں نے اسرائیل سے اسلحہ کی فراہمی کی مخالفت کی تھی اور عراق سے امن کے معاہدہ کی تجویز پیش کی تھی لیکن ایران کے مذہبی حکمرانوں نے ان کی ہر تجاویز مسترد کردی تھیں ۔۔۔

٩۔ مورخہ 22 اگست 1981ء کو ایران کی خبررساں ایجنسی فارس نے ایران کے وزیر خارجہ حسین موسوی کا ایک بیان شائع کیا جس میں انہوں نے سابق صدر کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے وضاحت کی کہ ایرانی حکومت نے جو اسلحہ حاصل کیا تھا وہ اسرائیلی تھا جو یقینا ایران کے صدر اور چیف کمانڈر بنی صدر اور اسرائیل کے مابین کئے گئے معاہدہ ہی کے تحت آیا ہوگا۔۔۔

١٠۔ مورخہ 31 اکتوبر 1981ء کو ارجنٹائن کے ہفت روزہ سیون ڈیز نے چند ایسی اہم دستاویزات شائع کیں جن سے یہ راز آشکار ہوا کے تل ابیت سے تہران بیھجے جانے والے سامان حرب کی ترسیل کا علم امریکہ کو پوری طرح تھا۔۔۔

١١۔ مورخہ 5 نومبر 1981ء کو پیرس میں شائع ہونیوالے میگزین ایف ایس ڈی نے یہ خبر شائع کی حالانکہ اسرائیل کے وزیراعظم بیگن عراق کے خلاف خمینی حکومت کی امداد باقاعدگی سے جاری رکھے ہوئے تھے پھر بھی وہ چاہتے تھے کہ اسلحہ فراہمی اور خمینی سے اسرائیل کے تعلقات کو صیغہ راز میں رکھا جائے۔۔۔

١٢۔ مورخہ 5 دسمبر 1981ء کو عوامی جمہوریہ آسٹریا کے روزنامہ فاکس بلاٹ نے اس ثبوت میں یہ ایران اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ ہے لکھا مختلف یورپی حکومتوں کے توسط سے خمینی حکومت اور اسرائیل کے درمیان خفیہ رابطہ اور سامان حرب کی مسلسل فراہمی کا نکشاف کیا۔

١٣۔ مورخہ یکم جنوری 1983ء کو برطانوی ٹیلفون پروگرام پنوراما میں اسرائیل سے ایران کو اسلحہ کی فراہمی کے سلسلے میں کئے گئے معاہدوں اور مذاکرات کی سنسنی خیر تفصیلات نشر کی گئیں ۔۔۔

١٤۔ مورخہ 8 فروری 1982ء کو امریکہ کے اسٹیٹ سکریٹری آف اسٹیٹ برائے مشرقی وسطٰی نیکولس اے فلیوٹس نے امریکی ایوان نمائندگان کی مشرقی وسطٰی سے متعلق کمیٹی کے سامنے اپنی تقریر میں ایران اسرائیل تعلقات اور اشتراک کی تصدیق کی ساتھ ہی اس امر کا بھی انکشاف کیا کہ امریکہ نے بیگن سے ایران کو اسرائیلی اسلحہ کی ترسیل کے مسئلہ پر مذاکرات بھی کئے تھے۔۔۔
یہ چند اطلاعات اور ان کی تصدیق جو بین الاقوامی اخبارات وجرائد میں شائع ہوئیں نہ صرف ایران، اسرائیل تعلقات کا پتہ دیتی ہیں بلکہ اس بات کی غمازی بھی کرتی ہیں کے مشرق وسطی کے مسلم ممالک کے خلاف دونوں کے عزائم اورمقاصد میں یک جہتی اور ہم آہنگی موجود ہے فی الحال ان کا ہدف عراق ہے ساتھ ہی اسرائیل ایران مشترکہ محاذ، بتدریج عالم اسلام کے دوسرے ممالک میں جگہ بنارہا ہے مسلمانوں کے خلاف ان کی مشترکہ سازش اور اس سے پیدہ شدہ خطرناک اثرات کا بہتر طور پر اندازہ لگانے کے لئے حال ہی کی ایک مثال زیادہ معاون اور مؤثر ثابت ہوگی۔

2008ء یا 2009ء میں جب ’’طالبان نے ’’نیٹو سپلائی لائن‘‘ بند کر دی تھی تو امریکہ کو ’’شیطان‘‘ اور اسرائیل کو ’’ناجائز ریاست‘‘ کہنے والے ’’ایران‘‘ ہی نے اپنا پاس سے راہ داری ’’عطا‘‘ فرمائی تھی۔خامنائی اور احمدی نژاد نے اس صدی کے دو بڑے انکشافات کرکے اسلامی دنیا کی آنکھیں کھول دیں ،خامنائی نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ عراق اور افغانستان پر حملے کے لئے امریکہ کو ایران نے اکسایا،خامنائی کا یہ انٹرویو یوٹیوب پر اس وقت بھی موجود ہے، ایرانی صدر احمدی نژاد نے الیکشن کے دوران اپنا شناختی کارڈ دکھایہ جس سے معلوم ہوا کہ نژاد ایک یھودی خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔

خامنائی کے اس بیان پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ خود کو مسلمان کہنے والا ملک ایران لاکھوں مسلمانوں کے خون کا ذمیدار کیسے ہوسکتا ہے؟کیا جنگ کے خوفناک نتائج سے ایران ناواقف تھا؟ کیا اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ لاکھوں مسلمان شھید کئے جائیں گے ہزاروں مسلمان لڑکیوں کی عصمتیں لوٹی جائیں گی؟ لوگ بے گھر ہوجائیں گے بچے یتیم ہوجائیں گے مسلمانوں کے معدنی ذخائر پر کفار قابض ہوجائیں گے؟یہ سب جانتے ہوئے ایران نے امریکہ کو حملے کی دعوت کیوں دی؟کیا ایران عراق کا پرانا تنازع اسکا سبب بنا؟اگر سبب یہی تھا تو افغانستان سے کیا لڑائی تھی ایران کی؟ افغانستان کے مسلمانوں سے کس بات کا بدلا لیا ایران نے؟بات دراصل یہ تھی کہ ایران امریکہ کا ھمیشہ پٹھو رہا ہے کویت کی جنگ کے بعد ایران کو خلیجی ممالک کی پولیس کا کردار ادا کرنے کو کہا گیا لیکن ایران افغانستان کے مسلمانوں سے خوفزدہ تھا اور جانتا تھا کہ افغان مجاہد کسی صورت میں ایران کو رافضیت پھلانے اور کفار کے ساتھ ملکر مسلمانوں کا خون بہانے نہیں دیں گے،اور عراقی مجاہدوں سے تو اسکا پالا پہلے ہی پڑچکا تھا اور ایران کا منصوبا یہ تھا کہ افغانستان اور ایران پر امریکا کی مدد سے حکومتیں قائم کرنے کے بعد خلیجی ممالک پر اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے دھونس سے حکومت کرے گا،افغانستان اور عراق کے شیعہ نے کفار کا بھرپور ساتھ دیا،عراق میں شیعہ ڈیتھ اسکاڈ کے نام سے پولیس بنائی گئی جنہوں نے لاکھوں مسلمانوں کو گھروں سے نکال کر شھید کیا اور ہزاروں لڑکیوں کی عصمتیں لوٹیں آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے،افغانستان میں ہزاروں کی تعداد میں شیعہ فوج میں بھرتی ہوئی،افغانستان کے ہزارہ جن سے بھنگیوں کا کام لیا جاتا تھا امریکیوں کے آتے ہی شیر بن گئے اور خوب ڈالر لیکر مسلمانوں کی مخبریاں کرتے رہے،اسی عالم میں ایران نے پاکستان کے رافضیوں کو ہتھیار اور پیسہ دینا شروع کیا حکومت،فوج اور بیوروکریسی میں آنے کے لئے شیعہ کی بھرپور مدد کی اور امریکہ سے امداد دلاکر پاکستان کی بیٹیوں کو فروخت کروایا،ایران اس خطی کی قوموں کی ذھنیت اور دینی رجحان سے خوب واقف ہے۔ایران جانتا تھا کہ اگر پاکستان میں کوئی قوم اسکے مقابلے میں کھڑی ہوئی تو وہ پٹھان اور بلوچ ہیں ، جس کے بارے میں وہ امریکہ کو مطلع کرچکا تھا۔ آج بلوچستان اور فاٹا کے علائقون میں جو آپریشن ہورہے ہیں وہ بھی ایران کے کہنے پر ہورہے ہیں ۔ باتیں کڑوی ہیں لیکن سچ یہی ہے کہ مسلمان کا سب سے بڑا دشمن شیعہ ہے جو اصل میں یھودی کی نسل سے ہے اور یھودی کو اللہ نے مسلمان کا سب سے بڑا دشمن بتایہ ہے،احمدی نژاد کا یھودی ہونا ثابت ہوچکا ہے اور خامنائی کا انکشاف اس بات کی طرف اشارہ کرچکا ہے کہ عراق ہو یا افغانستان اور پاکستان رافضی شیعہ کفار کے ساتھ ملکر مسلمانوں کے گلے کاٹ رہے ہیں ،اور ساری دنیا کے مسلمانوں کے آنکھوں میں دھول جھونک کر امریکہ ایران کی دشمنی کا ڈرامہ رچا رہے ہیں ۔ایرانی مسلمانوں سے دشمنی کی وجہ سے امریکہ کا ساتھ دیں یا امریکہ کی دوستی کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف کام کریں … نتیجہ دونوں کا ایک ہی ہے. جب تک دونوں کا مقصد ایک ہے.
سوئم یہ کہ پرشیئن گلف جس کا ذکر نیوز ویک میں آیا ہے ایک متنازعہ اصطلاح ہے ایران یہ گوارہ نہیں کرتا کے کوئی ملک اس کو عربین گلف (خلیج عرب) کا نام دے ایرانی زعماء مصر ہیں کے اس کو پرشیئن گلف کا نام دیا جائے ایران کا یہ غیرضروری اصرار عربوں سے اس کی شدید نفرت کی غمازی کرتا ہے خلیجی علاقہ میں مسلمان اپنی کثرت تعداد کے سبب ممتاز اور نمایاں مقام رکھتے ہیں اور انہی عربوں کے ہاتھوں ماضی میں مجوسی ایران پر اسلام کا پرچم لہرایا تھا عہد ماضی میں ایران پر مسلمانوں کا تسلط حاصل کرنا، ایرانیوں کے دل میں آج بھی نفرت کا کبھی نہ بجھنے والا آتشکدہ بھڑکائے ہوئے ہے ماضی میں مسلمانوں کایہ اقدام (فتح ایران) ایران کی نظر میں آج بھی ناقابل فراموش اور ناقابل معافی ہے۔ امریکا کے ایک سابق سفیر فرڈ ہوو، جو امریکی دفترخارجہ میں شام سے متعلق امور کے نگران بھی رہ چکے ہیں نے کہا ہے کہ ایرانی عہدیداروں کی اکثریت اسرائیل کے بجائے سعودی عرب کو اپنا دشمن اول خیال کرتی ہے۔

مبصرین کے خیال میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان صرف فکری اختلاف نہیں بلکہ ایران کی در پردہ اسرائیل کی حمایت بھی سعودی عرب کے لیے ایران سے دوری کا موجب ہے۔ امریکا کے سابق سفیر کے ایرانی عہدیداروں کے بیانات کے انکشاف پر بات کرتے ہوئے سعودی عرب کی شاہ عبدالعزیز یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر محمد آل زلفہ نے کہا کہ "سنہ 1979ء کے انقلاب ایران کے بعد تہران سعودی عرب کو دشمن اول قرار دے رہا ہے۔ جہاں تک ایران کی اسرائیل دشمنی کی باتیں ہیں وہ صرف دکھاوا ہیں۔ حقیقت میں ایران عرب ممالک سے نفرت کرتا اور انہی سے دشمنی کرتا ہے لیکن یہ تسلیم کرتا ہے کہ سعودی مملکت تمام عرب ممالک کا دفاعی حصار ہے۔ اس لیے عربوں کو خوش کرنے کے لیے اسرائیل کی مخالفت کا بھی دعویٰ کیا جاتا ہے”۔

سعودی دانشور کا کہنا تھا کہ ایران اسی طرح مقبوضہ عرب علاقہ ہے جس طرح اسرائیل مقبوضہ عرب شہروں پر قائم ہے۔ ایران نے حزب اللہ عرب ممالک کو تقسیم اور کمزور کرنے کے لیے قائم کر رکھی ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب ایران اور اسرائیل ایک ہی میز پر بیٹھے عرب ممالک کے خلاف گٹھ جوڑ میں مصروف ہوں گے۔

کویت کے ایک مؤقر اخبار "الرائے” کی رپورٹ کے مطابق سابق امریکی سفیر کا کہنا ہے کہ شام کے مسئلے پر ان کی کئی بار ایرانی حکام سے ملاقاتیں اور مشترکہ اجلاس ہوتے رہے ہیں ۔ فریڈ ہوو کے بقول میں نے ایرانی عہدیداروں کو قریب سے دیکھا اورسعودی عرب کے بارے میں ان کے تاثرات کا جائزہ لیا ہے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ایرانی حکام اسرائیل کے بجائے سعودی عرب کو اپنا اصل دشمن سمجھتے ہیں ۔ شام کے معاملے میں تو سعودی عرب ان کا حقیقی دشمن ہے۔

پہلے اس نے عراق کے ساتھ لڑائی کی۔ اور پھر اپنی انٹیلی جنس کے ذریعے بالآخر صدام کو پھانسی لگوائی اور عراق میں شیعہ حکومت قائم کروا دی۔ کچھ ایسا ہی حال لبنان، اردن اور شام میں بھی کیا جا رہا ہے تاکہ عرب کو کمان کی طرح گھیرے میں لے لیا جائے جس کی نچلی طرف سمندر ہو اور اوپر ’’متحدہ شیعہ اسٹیٹ‘‘۔

اسرائیل نام نہاد شیعہ جہادی تحریک کے شیعہ لیڈر  حسن  نصر اللہ کو اب تک کیوں قتل نھیں کر رہی ؟؟ حالانکہ لبنان بلکہ اسکے گھر کے اوپر فضاوں میں انکے جنگی طیارے گھوم رھے ھوتے ہیں جبکہ فلسطین میں اپنے مخالفین کو چن چن کے شھید کردیا جاتا ھے مساجد تک کو نھیں چھوڑتے۔

ایران اسرائیل کیساتھ دشمنی کا ڈھونک رچاکر کس طرح عرب ممالک کو دھوکہ دے رھا حالانکہ ایران کے اندر یہودی 200 کمپنیوں کو سرمایہ کاری میں فوقیت دی جارہی ھے۔ ۔!!

اور کیا آپ جانتے ہیں کہ یہودی بستیوں میں بسنے والوں کی سب سےبڑی تعداد کا تعلق ایرانی یہودیوں کی ھے ؟؟
یہ تمام معلومات جاننے کے بعد آپ کو یہ حدیث پاک اچھی طرح سے سمجھ میں آجائیگی:

عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال : قال رسول الله ﷺ : ﴿ يَتْبَعُ الدَّجَّالَ مِنْ يَهُودِ أَصْبَهَانَ سَبْعُونَ ألْفاً عَلَيْهِم الطَّيَالِسَةُ ﴾. رواه مسلم.﴾.

انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اصفھان کے 70 ھزار یہودی دجال کی پیروی کریں گے ان پر طیالسہ ( یعنی سبز و سیاہ رنگ کے چوغہ نما لباس)” ھونگے۔۔ مسلم شریف

ایرانی سیاست کا کمال دیکھیے کہ کس طرح سے ’’اہل سنت والجماعت‘‘ کے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے۔ اب اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم تاریخ کے صفحات سے سبق حاصل کریں اور بے وقوفوں کی جنت میں پودینے کے باغ کاشت کرنا چھوڑ دیں ، اور ایران کے کردار کو تاریخ کے آئینے میں دیکھتے ہوئے حلب میں شیعہ ملیشا کے ہاتھوں مسلمانوں کے حالیہ قتل عام اور پردہ نشین ماؤں بہنوں ، بیٹیوں کی عصمت دری کے دل خراش واقعات کو یاد رکھتے ہوئے اپنی آنکھیں کھولیں اور حالات و واقعات کا زمینی حقائق کی روشنی میں جائزہ لیں۔

فاعتبروا یا اولی الابصار

حوالہ جات:

http://www.urdumajlis.net/threads/22832/
http://forum.mohaddis.com/threads/%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%84-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B4%DB%8C%D8%B9%DB%8C%D8%AA-%D9%88%D8%B5%DB%81%D9%88%D9%86%DB%8C%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86-%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82%D8%A7%D8%AA-%D9%88%D8%B1%D9%88%D8%A7%D8%A8%D8%B7.7536/
http://forum.mohaddis.com/threads/30-%D8%B3%D8%A7%D9%84-%D8%B3%DB%92-%D8%A7%D9%85%D8%B1%DB%8C%DA%A9%DB%81-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%84-%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86-%DA%A9%D9%88-%D8%AF%DA%BE%D9%85%DA%A9%DB%8C%D8%A7%DA%BA-%DB%81%DB%8C-%D8%AF%DB%8C%D8%AA%DB%92-%D8%A2%D8%B1%DB%81%DB%92-%DB%81%DB%8C%DA%BA%D8%8C-%D9%BE%D8%AA%DB%81-%DA%BE%DB%92-%DA%A9%DB%8C%D9%88%DA%BA-%D8%9F%D8%9F.28240/
http://forum.mohaddis.com/threads/%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%84-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA%D8%8C-%DB%81%D9%85%D8%A7%D8%B1%D8%A7-%D8%A7%D8%B5%D9%84-%D8%AF%D8%B4%D9%85%D9%86-%D8%B3%D8%B9%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%B9%D8%B1%D8%A8-%DB%81%DB%92-%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%B9%DB%81%D8%AF%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D8%B1.24396/
http://chitralexpress.com/archives/13121

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔