کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

آج کے اس مغرب زدہ دور میں دینی تعلیم کے بہم پہنچانا اور امت مسلمہ کو دینی تعلیم فراہم کرنا نہایت ضروری ہے، آج ہر شخص دینی تعلیم سے منہ موڑ کر عصری تعلیم کے حصول میں منہمک اور مشغول نظر آتا ہے، ہر شخص کا مطمح نظر اور مقصود دنیاداری ہوچکی ہے، سب یہ چاہتے ہیں کہ اپنے بچوں کو زمانے اور حالات کے موافق عصری تعلیم سے آراستہ کریں، انگریزی تعلیم دلوائیں، انہیں ڈاکٹر، انجنیئر، سائنٹسٹ بنائیں، انہیں مختلف عصری شعبہ جات سے منسلک کریں، اس طرح والدین اپنے بچوں کو دنیوی تعلیم سے آراستہ وپیراستہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس میں کوئی خرابی نہیں ہے، ضرور اپنی اولاد کو عصری تعلیم سے آراستہ کریں، عصری تعلیم کوئی شجر ممنوعہ نہیں ہے، عصری تعلیم ضرور حاصل کریں، اپنے بچوں کو عصری تعلیم مہیا کر کے ان کا قوم کا راہنما ورہبر اور سچا ہمدرد، بہی خواہ انسان بنائیں، لیکن اگر یہ عصری تعلیم کا حصول دینی تعلیم سے بیگانہ اور جاہل ہو کر ہوتا ہے، تو یہ ایک مسلمان کے لئے زہر ہلاہل ہے، صرف عصری تعلیم پر توجہ اور دھیان کا مبذول کرنا اور دینی تعلیم سے روگردانی کرنا یہ امت مسلمہ کی نسل نو کے لئے تباہی وبربادی اور ان کی دین ودنیا دونوں کے لئے نقصاندہ اور بربادی کا باعث ہوسکتا ہے، اسی کو اکبر الہ آبادی نے کہا ہے:

تم شوق سے کالج میں پھلو پارک میں پھولو

جائزہے غباروں میں اڑوچرخ پہ جھولو

بس اک سخن بندہ عاجزکی رہے یاد

اللہ کو اور اس کی حقیقت کو نہ بھولو

 یہی خطرات کو بھانپتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا تھا :

یورپ میں بہت روشنی علم وہنر ہے

حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیوان ہے یہ ظلمات

رعنائی تعمیر میں، رونق میں، صفا میں

گرجوں سے کہیں بڑھ کر کے ہیں، بنکوں کے عمارات

ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جوا ہے

سود ایک کا لاکھوں کے لئے مرگ مفاجات

یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت

پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات

بے کاری وعریانی ومے خواری وافلاس

کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کی فتوحات

وہ قوم کے فیضانِ سماوی سے ہو محروم

حد اس کے کمالات کی ہے برق وبخارات

اکبر الہ آبادی اور علامہ اقبال کے تفکرات اور خیالات کو سامنے رکھ یہ بات بلا جھجک کہی جاسکتی ہے علوم عصریہ کا حصول بھی دین کا ایک حصہ ہے، ضرور حاصل کئے جائیں، لیکن ایک مسلمان خودی او رخدا کو بھول کر صرف برق وبخارات میں لگ جائے یہ ایک مسلمان کے لئے بالکل زیب نہیں دیتا، مسلمان کا مقصود اصلی تو اللہ کی عبادت ہے، اس لئے ایک مسلمان فیضان سماوی اور تعلیمات خداوندی اوامر نبوی وارشادات پیغمبری سے تہی دست اور بے گانہ نہیں ہوسکتا، یہ اس کے لئے نہایت پر خطر اور کھٹن راستہ ہے جو اس کی تباہی وبربادی کا باعث بن سکتا ہے۔

 موجودہ المیہ یہ ہے کہ موجودہ عصری علوم کو معرفتِ رب او رخدمت انسانیت سے کاٹ دیا گیا، اس لئے سارے عالم میں یہ واقعات سامنے آرہے ہیں جو جتنا بڑا تعلیم یافتہ ہے وہ اتنی بڑی چوری اور رشوت ستانی او ر گھوٹالے میں ملوث ہے، ایک طرف لڑکیوں کے لئے اعلی تعلیم کے ادارے قائم ہورہے ہیں، دوسرے طرف مہیلا عدالتوں اور دار القضاء میں طلاق وخلع کا بازار گرم ہے، شرح پیدائش گھٹتی جارہی ہے، مادری شفقت سے دل خالی ہوتے جارہے ہیں، انجنیئروں او رڈاکٹروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہے، او ردار المعمرین، آرام گھر، اولڈ ایج ہوم کی تعمیرات کا سلسلہ بھی جاری ہے، جو نیوکلیر کا مالک ہے، وہی انسانیت کا قاتل ہے، دنیا کا سب سے بڑا ڈاکو اور چور ہے، دوائیں اصل مواد سے خالی ہوتی جارہی ہیں، ڈاکٹر مردوں سے بھی حصول مال کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، اس قدر اندھا دھن عصری تعلیم اپنی نسل نو کو فراہم کر کے زہر مول نہیں لے سکتے

علامہ اقبال نے کہا:

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر

لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ

ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم

کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما

لے کے آئی مگر تیشہ فراہاد بھی ساتھ

حدیث وسیرت کے بعد فقہی عبارتوں کا جائزہ لیا جائے تو متعدد جگہوں پر فقہاء نے عصری فنون حاصل کرنے کو فرض کفایہ قرار دیا ہے، عصری علوم ڈاکٹری اور انجینئرنگ حاصل کرنا ضرویری ہے، تاکہ انسانی ضرورتیں پورا کرنے میں خود کفیل رہے اور اسباب کے درجے میں سائنس وٹکنالوجی کے ذریعہ ملک وقوم کی حفاظت ہوسکے، اور ذریعہ معاش کا بھی سامان ہوجائے، اس کے لئے مغربی نصاب ونظام کے جراثیم سے پاک عصری اسکولوں کاقائم کرنا اسلامی معاشرہ کے لئے ضروری ہے، مختصر یہ کہ دشمن عصری تعلیم کے راستہ سے پوری قوم کو فکری غلامی میں جکڑ رہا ہے کالجس اور اسکول بچوں کے دینی حیاء، انسانی اقدار، بلند کردار کے اجتماعی خود کشی کے اڈے بن چکے ہیں ۔ یہ بات اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ اسلام کی نظر میں عصری فنون کی اہمیت ضرور ہے لیکن دینی علوم سے صرف نظر کر لیا جائے، ہمارے انجنیر اور ڈاکٹر کو اپنی مذہبی بنیادی معلومات بھی نہ ہوں، ضروریات دین سے ناواقف اورا سکے حاصل کرنے والوں کو بندہ شکم اور بندۂ شہوت بنا کر چھوڑ دیا جائے، والدین کے رشتہ کا تقدس اور بے داغ جوانی سے وہ بے بہرہ ہوں، دیانت داری، انسانیت نوازی کا کوئی جذبہ ان کی تحقیق وملازمت میں کوئی جگہ نہ رکھتا ہو ایسا نہیں ہوسکتا۔

اس لئے آج کے اس دور میں جزء وقتی صباحیہ ومسائیہ مدارس اور مکاتب کی اہمیت نہایت ہی زیادہ بڑھ جاتی ہے ؛ تاکہ امت مسلمہ جو کہ عصری تعلیم کے حصول میں لگی ہوئی ہے اس کو دین کی ابتدائی معلومات، قرآن، حدیث، طہارت نماز، روزہ، زکوۃ حج اور دیگر اسلامی تعلیمات سے روشناس کروایا جائے، اس کے لئے ہر جگہ ہر گلی کوچے میں صباحیہ ومسائیہ مدارس اور جزء وقتی مکاتب کھولیں جائیں، جہاں دینی تعلیم اور قرآن وحدیث کی معلومات کو بہم پہنچانے کا نظم منظم طریقے پر موجود ہو۔

اس طریقے سے عصری علوم میں مصروف طلبہ کی اخلاقی، دینی، روحانی تربیت کا سامان کیا جاسکتا ہے، ان کو عصری علوم کے ساتھ قرآنی علوم بہم پہنچائے جاسکتے ہیں، یہ مکانتب اور جزء وقتی مدارس جو جگہ جگہ اور ہر گلی کوچے میں پھیلے ہوئے ہیں، ان کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے، تاکہ اس مغرب زدہ ماحول میں مسلمان نسل نو کی دین کی آبیاری اور اخلاقیات کی تخم ریزی اور دینی جذبات اور اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محبت قرآن کی عظمت، تعلیمات رسول کی محبت یہ مسلمان بچوں کے اندر رونماہو، ان جز وقتی مدارس میں جہاں ناظرہ قرآن کی تعلیم ہوں، وہیں دینیات اور اردو کی تعلیم کا بھی بندوبست ہو، اس لئے آج ہماری نسل نو کو سوائے انگریزی ہندی اور مقامی زبانوں کے اردو زبان جو کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے علمی میراث کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں، اس زبان سے ان کی ناواقفیت بڑھتی جارہی ہے، ہم قرآن کورومن انگلش میں پڑھنا چاہتے ہیں، اس لئے ان جزء وقتی مدارس اور صباحیہ ومسائیہ مکاتب کی ضرورت واہمیت سے بالکل انکار نہیں کیا جاسکتا، اس سے اگر ہم اپنی اولاد کو دینی تعلیم سے بے گانہ کر کے صرف عصری تعلیم میں مصروف ومنہمک رکھا تو ہماری اولاد جہاں دین وایمان سے ہاتھ دھو بیٹھی گی، ان کا دین وایمان ان کا ایقان، اللہ اور اس کے رسول کی عظمت کے نقوش ان کے دل سے مٹ جائیں گے، وہی یہ نسل اخلاقیات سے بھی عاری، مادہ اور معدہ کی پرورش کی خوگر ہوجائے گی، سوائے مادیات کے اس کا رجحان اور کسی چیز کی طرف نہ ہوگا، وہ ڈاکٹر اور انجنیر بن کر قوم کے خدمت گذار نہیں بنیں گے، خدمت خلق کے جذبے بالکل عاری ہوں گے، وہ غریب لوگوں کی خون پسینے سے کمائی ہوئی کمائی ہو اپنے خواہشات نفس اور لذات دنیا کی تکمیل کا ذریعہ بنائیں گے۔

ان مکاتب ومدارس کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا :

’’ ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہیں مدارس میں پڑھنے دو، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ جو کچھ ہوگا میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہو، اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح ہوگاجس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ برس کی حکومت کے باوجود آج ’’غرناطہ ‘‘ اور ’’قرطبہ‘‘ کے کھنڈرات او ر’’ الحمراء‘‘ کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی ’’آگرہ ‘‘ کے ’’تاج محل‘‘ اور دلی کے ’’لا ل قلعہ‘‘ کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا‘‘(ماہنامہ دار العلوم دیوبند، دسمبر : ۹۴)

مولانا آزاد  تحریر فرماتے ہیں :

’’ میں جو نئی تعلیم یافتہ حضرات کا ہمیشہ شاکی رہتا ہوں، تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی ہر گذشتہ خوبی کو ان سے دور پاتا ہوں، اور ان کی جگہ کوئی نئی خوبی مجھے نظر نہیں آتی، ہماری گذشتہ مشرقی معاشرت، اوضاع واطوار، اخلاق وعادات، طریق بود وماند یہ سب کے سب انہوں نے ضائع کردیئے، اخلاق وتمدن کے بعد مذہب کا نمبر آیا اور جدید تعلیم وتہذیب کے مندر پر مذہب کی قربانی بھی چڑھائی گئی، خیر مضائقہ نہیں، خرید وفروخت کا معاملہ ہے، اور متاع بھی بہا ہاتھ آتی ہو، تو دل وجان تک کو ا سکی قیمت میں لگادیتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ دے کر وہ کونسی چیز ہے، جو ہاتھ آئی، علم؟نہیں، اخلاق؟ نہیں، تہذیب ومعاشرت؟ نہیں، ایک پوری انگریزی زندگی ؟ نہیں، ایک اچھی مخلوط معاشرت، یہ بھی نہیں، یہ کیا بدبختی ہے کہ جیب اورہاتھ دونوں خالی ہے ‘‘( موج کوثر: ۲۵۸۔۲۵۹)

مفکر اسلام ابو الحسن علی ندوی ؒ نے فرمایا تھا:

’’ ہر جگہ مکاتب اور جزء وقتی مدارس کا جال پھیلا، قریہ قریہ، گاؤں گاؤں، دیہات دیہات، ہر جگہ مکاتیب اور جزء وقتی مدارس ہونا چاہئے،اس لئے کہ جب انقلاب آئے تو ان گاؤں دیہاتوں تک پہنچتے پہنچتے اپنی موت آپ مرجائے گا‘‘۔

اور ایک جگہ علامہ ندوی ؒ فرماتے ہیں:

’’اگر کسی ماں کی گود سے بچہ چھین لیاجائے تو کہرام مچ جاتا ہے، لوگ دوڑ پڑتے ہیں، پوری بستی میں ہنگامہ ہوجاتا ہے اور یہ ڈر ہوجاتا ہے کہیں فساد نہ ہوجائے، اس وقت ایماندار ماؤں کی گود سے نہایت اطمینان سے بچے چھینے جارہے ہیں، لیکن ہمیں اس کا احساس تک نہیں ( یعنی ایمانی ماؤں کے گود سے ان کے بچے ان کی غیر ایمانی ذہن سازی کر کے چھینے جارہے ہیں (مکاتب کی اہمیت اکابر امت کی نظر میں : ۶)

اس لئے ہر مسلمان عصری تعلیم حاصل کر رہے بچے کو ان جزء وقتی مدارس اور صباحیہ وعشائیہ مکاتب میں دینی تعلیم کا نظم ضرور کرنا چاہئے، کہ ان کی پرورش وپرداخت دینی مزاج اور دینی رخ پر ہو، یہ ملحد اور دہریہ نہ بن جائیں، یہ خدا کی خدائی کے منکر، رسول کی رسالت سے بیگانہ اور شریعت کی تعلیمات سے نا آشنا رہ جائیں، صرف انہیں سوائے لوگوں کے پیسوں پر نظر کے ان کا کوئی مطمح نظر نہ رہ جائے۔

اس لئے ان جز وقتی مدارس کی اہمیت اس بات سے دوچند ہوجاتی ہے کہ یہ جزء وقتی مدارس علوم عصریہ کو حاصل کرنے والے طلبہ کے لئے ان کی دینی استقامت، ان کی اخلاقی بالیدگی اور درستگی اور ان کے قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے آگاہی اور معرفت کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔

اس لئے ضرورت اس بات کہ ہے کہ اپنی اولاد کو عصری تعلیم سے آراستہ ضرور کریں، لیکن دینی تعلیم سے پہلو تہی کرنا یہ ان کی اسلامی زندگی کے لئے بڑی پرخطر راہ ہوسکتی ہے، جس کا انجام بھی بہت برا ہوسکتا ہے، اس میں یہ جز وقتی مدارس اور صباحیہ ومسائیہ مکاتب بہت اہم رول ادا کرسکتے ہیں، اس طرح کے مداس کو عام کیاجائے، نسل نو کی ایمان واسلام اور معرفت رب ورسول کو باقی رکھنے کے لئے جدوجہد کی جائے، ان مکاتب اور جزء وقتی مدارس کو امت مسلمہ میں خوب فروغ دیا جائے کہ ہر گلی کوچہ میں جہاں مسلمان￿وں کی آبادی ہے مسلمان بچوں کی ایمان کی حفاظت اور ان کی اخلاقیات کی درستگی اوران کی معرفت خداوندی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور لگاؤ کو پیدا کرنے کے لئے اس طرح کے مدارس کی اہمیت وافادیت نہایت دو چند ہوجاتی ہے۔

 جو اپنے بچوں کو مکمل وقت فارغ کر کے دینی تعلیم سے آراستہ نہیں کرسکتے، اپنی اولاد کو ڈاکٹر انجنیر اور دیگر شعبہائے عصری علوم سے وابستہ کرنا چاہتے ہیں، ان کے لئے یہ جزء وقتی مدارس کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہیں، اللہ عزوجل ہمیں ان جز ء وقتی مدارس کی اہمیت وافادیت کو سمجھ کر ان سے استفادہ کرنے اور اپنے ایمان واسلام اور اسلامی شناخت وتشخص کے بقاء وبرقراری کی توفیق عطا فرمائے۔

تبصرے بند ہیں۔