ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جسے؟

ایم شفیع میر

اس دنیا میں حیات جاوداں کسی کو میسر نہیں جو بھی آیا اس نے اپنے وقت مقررہ پر دائمی مفارقت دی۔ اس کائنات میں ہزاروں عظیم ہستیوں نے آنکھ کھولی ، جن کی جلائی ہوئی شمعوں سے زندہ قوموں کوسیدھا راستہ ملتا ہے۔ توحید و سنت کی دعوت کے ایسے ہی کارواں کے ایک رہنما ’’ حضرت علامہ مولانا صدرالدین شاہ صاحب‘‘ بھی تھے جو ہم گزشتہ برس ہم سے جدا ہوئے۔ اُن کے جانے سے علاقہ میں جو خلاء پیدا ہوئی ہے اسے پورا کرنا محال سا لگتا ہے۔ کیونکہ کچھ لو گ ایسے ہوتے ہیں جن کے چلے جا نے سے مد تو ں ان کا خلا باقی رہتا ہے۔یہ سچ ہے کہ مولانا صاحب کی علمی شخصیت سے یہاں کا ہر انسان متاثر ہے اور واقف ہے لیکن اگر ہم نے نئی نسل کے سا منے ان جیسی شخصیتوں کا صحیح تعارف نہیں کرایا تو یہ ایک بہت بڑی نا انصافی ہو گی کیونکہ نئی نسل ان کی سیرت و کردارسے یکسر محروم ہو جائے گی جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہو گا کہ ماضی حال سے جدا ہو جا ئے گا کیونکہ حا ل اور مستقبل سے آگا ہی ماضی کو جا نے بغیر ممکن نہیں۔ جبکہ حال اور مستقبل کوجوڑ نے وا لی یہی وہ عظیم شخصیتیں ہیں جن کی فکر انگیز تقریروں اور نگاہ بلند تجربات سے ہم ا پنے حال کو ماضی کے آئینے میں نہ صرف دیکھتے ہیں بلکہ ما ضی میں ہوئی غلطیوں سے عبرت بھی حا صل کر تے ہیں۔ پھر آج جو شخصیتیں ہمارے درمیان سے چلی جا تی ہیں ان کا نعم البدل تو کیابدل ہی مشکل سے ملتا ہے۔ غم تو ضرور ہے لیکن موت اور زندگی کی دوستی کب ہوئی زندگی ہمیشہ اس جنگ میں شکست کھا جاتی ہے۔ داعی ٔدین حضرت علامہ مولانا صدر الدین صاحب اب ہمارے درمیان تو نہیں لیکن اُن کی ولولہ انگیز تقریروں اور اُن کی انمول نصیحتوں سے ہم اپنی زندگی کو ایک صحیح راہ پر ڈالنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ مولانا صاحب گزشتہ برس 3 رمضان المبارک مطابق 21جون2015؁ کوزندگی کی 76 بہاریں دیکھنے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، ’’ انا للہ وا نا الیہ راجعون ‘‘
مولانا صاحب نے بنیادی تعلیم اپنے والد بُزرگ مرحوم غلام محی الدین شاہ سے حاصل کی مرحوم کے والد غلام محی الدین شاہ مفتی گُول گلاب گڑھ تھے جنھوں نے گول گلاب گڑھ کو دینی روشنی سے منور کیا۔ غلامی محی الدین شاہ صاحب نے دینی تعلیم لاہور پاکستان سے حاصل کی تھی تقسیم ہند سے قبل ہی مرحوم غلام محی الدین شاہ نے تمام دینی کتابیں اور قرآن پاک لاہور سے یہاں لائے تھے جو آج بھی موجود ہیں۔ مرحوم غلامی محی الدین شاہ صاحب ایک شہرت یافتہ عالم دین تھے یہ وجہ تھی کہ مرحوم غلام محی الدین شاہ کے علم دین سے جگمگاتے چمن میں ایک گل کھل اُٹھا جس کا نام صدر الدین رکھا گیا، مولانا صدر الدین شاہ صاحب نے اپنے والد سے ہی دینی تعلیم حاصل کی اور بعد میں انہوں نے وقتاً فوقتاً کئی دینی اداروں میں تعلیم حاصل کر کے کئی سال تک وادی کشمیر میں امامت کے فرائض انجام دئے۔  گول میں عالم کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے انہیں گول مرکزی جامع مسجد کے لئے بطور امام و خطیب منتخب کیا گیا اور انہوں نے خوش اسلوبی سے تقریباً 58 سال تک امامت کے فرائض انجام دئے۔  اس مدت کے دوران مرحوم نے جو نقوش چھوڑے ہیں وہ نا قابل فراموش ہیں۔  مرحوم نے گول کی عوام کی نہ صرف دینی لحاظ سے خدمت کی بلکہ باقی دیگر کاموں میں بھی پیش پیش رہے اور اکثر اگر کوئی بھی بڑا قدم اُٹھانا تھا چاہئے وہ دینی ہو یا دنیاوی وہ مولانا صدر الدین سے ہی پوچھا جاتا تھا۔  مولانا صدر الدین مرحوم نے اپنی رہبرانہ صلاحیتوں کی وجہ سے گول کی عوام کے دلوں میں اپنا مسکن بنا لیا تھا۔ عوام گول انہیں کافی عزت سے نوازتے تھے۔ مرحوم کو گول کی عوام نہ صرف ایک امام کی حیثیت سے بلکہ ایک ولی (یعنی گھر کے سب سے بڑا فرد) مانتے تھے۔  سنہ 1967ء میںحضرت علامہ مولانا صدر الدین شاہ صاحب نے جیل بھی کاٹی جو کہ ان کی عوام کے تئیں ہمدردی اور خدمت ِ خلق کے جذبے کا ایک واضع ثبوت ہے۔ سن 1987ء میں مرحوم نے ریاست جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات میں بطور آزاد امیدوار ایک بار حصہ لیا۔  اُس کے بعد مولانا نے یکسرسیاست سے کنارہ کشی کی تھی۔  مرحوم کا کہنا تھا کہ وہ الیکشن صرف اور صرف عوام کی خدمت فلاح و بہبو دکے لئے لڑ رہے تھے تا ہم وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے اور انہوں نے زیادہ دیر تک سیاست میں رہنا پسند نہیں کیا اور عبادت ِ الٰہی میں مشغول ہوگئے۔
آپ نے شہرت یافتہ عالم دین اور شعلہ بیان خطیب کے طور پر اپنا لوہا منوایا، اپنی ساری زندگی فی سبیل االلہ وقف کر دی۔آپ نے اپنی زندگی میں علم دین کی ایسی شمعیں روشن کیں جوقوم کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنا۔ آپ کا کردار پورے ضلع پر ظاہر ہے ، جس کا اعتراف اس وقت علماء کرام اور عام لوگ بھی کر رہے ہیں۔ آپ حق بات کہنے سے کبھی نہیں ہچکچائے ، آپ سچے محب رسولؐ تھے۔ آپ کی آنحضور ؐ سے عقیدت و محبت کا یہ حال تھا کہ شرک و بدعت کی مزمت کرتے کبھی گھبراتے نہیں تھے، آپ بے خوف حق بیان کرتے، قرآن و حدیث سناتے اور اللہ کی طرف بلاتے تھے۔ علم دین کو پھیلانے کی خاطر آپ کو جن جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑاوہ لاجواب ہیں ،آپ نے عاجزانہ طور پر توحید کی دعوت اپنی زندگی کی آخری سانس تک جاری رکھی۔ علاقہ گُول جو کہ نہایت ہی پسماندہ اور بچھڑا ہوا علاقہ ہے۔ پسماندہ اور بچھڑے ہوئے اس علاقہ میں حق بات سمجھانے کے لیے آپ نے دن رات ایک کر دیئے۔ علاقہ میں آپ کی محنت سے بہت زیادہ پیغام توحید پھیلا۔ آپ اپنی زندگی کے آخری دنوں تک دین کا کام کرتے رہے۔ آپ باطل کے خلاف کھڑے ہونے سے کبھی نہ کتراتے۔  قرآن و حدیث کی برکت کی وجہ سے باطل پرست آپ سے دور بھاگتے تھے۔ آپ نے اللہ کی محبت پانے کے لیے جو دین کا کام کیا ہے وہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ آپ عالم بالعمل تھے۔آپ نے توحید و سنت کو پھیلانا اپنی زندگی کا نصب العین بنا رکھا تھا۔ یوں کہنا بجا ہوگا کہ حلقہ انتخاب گُول ارناس کے ہم عصر لوگوں میں سب سے عظیم انسان ’’مولانا صدر الدین ‘‘ تھے۔
آپ فن خطابت میں بھی اپنی مثال آپ تھے ،آپ کا تقریری اسلوب اور گلوگیر آوازاور حسرت و اندوہ سے بھرا ہوا لہجہ جس میں آپ کی آواز نہ اونچی اورنہ دھیمی سامعین کے کانوں سے ٹکراتی تو ہر ایک آنکھ نیم آبدیدہ ہو جاتی ہر آنکھ اشکبار ہو جاتی ہر عاشق ِ رسول کا دل تڑپ تڑپ جاتا، آنکھوں سے آنسوں اُبل پڑتے اور ہاتھ اُٹھاتے ہوئے اللہ کے حضور دست بد عا ہو جاتے کہ اللہ ہمارے گناہوں کو معاف فرما۔ مولانا صاحب کی یہ جگر دوز آوازلطیف احسا سات کے ساتھ درد کا دھواں آنسووں کو زبر دستی آنکھوں تک کھینچ لاتا اورسا معین پر رقت کی کیفیت طاری ہوجاتی اور پھرآپ اپنے آنسوں پونچھتے ہوئے اپنی فکر انگیز تقریرکو اختتام کرتے ہوئے یہ کہتے ……
یا الٰہی ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو
جب پڑے مشکل شے مشکل کشا کا ساتھ
کس کس طرح سے آپ کی خوبیوں کو گنا جائے مجھ ناچیز میں اتنی ہمت کہا ں کہ میں آپ کی تمام خوبیوں کو صفحہ قرطاس پہ اُتار سکوں۔ آپ نے اپنی پوری زندگی جس  صبر، حوصلے اور خاموشی سے گزاری وہ لا مثال ہے، آ پ خاموش اور تنہا رہتے، آپ سے جو ایک بار ملتا تو بار بار آپ سے ملنے کی تمنا کرتا، آپ کی خوش مزاجی، گلاب کی پنکھڑیوں کی طرح نازک، پرنور، ہنستا اورمسکراتا ہو چہرا، بات کرتے تو منہ سے پھول جھڑتے، آپ کی طبیعت نہا یت حق پسند واقع ہوئی۔ قدرت نے آپ کے اندر بہت سی ایسی خصوصیات ودیعت رکھی تھیں جو آپ کو اپنے معا صرسے ہمیشہ ممتاز رکھتی تھی اورآپ کی اس امتیا زی شان سے پورے علاقے کے لوگ اعتراف کر تے ہیں اور ان کے تعلق سے بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے اور اس میں کو ئی مبالغہ بھی نہیں کہ آپ نے دین ِ اسلام کی خاظر اپنی تمام تر صلا حیتوں کو بروئے کار لایا اور پھر اس کے توسط سے عزت اور شہرت کے وہ منازل طے کئے کہ علاقہ میں ایک ایسی شناخت اور پہنچان ہوئی جس کی کو ئی نظیر نہیں-
گو کہ آپ کی زندگی میں آپ کا واسطہ باد صبا سے کم اور مصیبتوں سے زیادہ پڑالیکن مرد آہن اورگو ہر بے بہا تمام حالات کا مقابلہ حسن خو بی اور جواں مردی سے کرتے ہوے زندگی کی 76 بہا ریں دیکھ کر اس خاکی دنیاکو اپنے وجود سے ہمیشہ کے لئے محروم کر دیااور اُس دنیا کی طرف چلا گیاجہاں دنیا کے جھمیلے اور رات دن کی تھکادینے والی مصروفیات، حاکم اور محکوم کا فرق، اپنے معاصر کی نکتہ چینی، عزیز واقارب اور بھائی بہنوں کی ناز آفریں اب سب کچھ ختم کر کے رحمت اور مغفرت والے کے دربار میں جہاں صرف ایک حاکم کی حاکمیت ہو گی جہاں ہر معاملہ عدل و انصاف کے ساتھ ہو گا اب وہاں آپ آسودہ خاک ہو چکے ہیں۔ اللہ مغفرت فر مائے، اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت الفردوس عطا فرمائے۔ بحرحال آپ کا اس دنیا سے چلا جانا علاقہ گُول میں انجام دی ہوئی اپنی بے لوث خدمت کے تعلق سے ایک عظیم سانحہ ہے جس کو یقینا آج بھی عظیم سانحہ کی طر ح محسوس کیا جا رہا ہے اور ہمیشہ آپ کی اس کمی کو محسوس کیا جائے گا۔
یادوں کے پھول سوکھ جائیں اس لئے
آنکھوں کو اشکبار کیا ہے کبھی کبھی!!!!!

تبصرے بند ہیں۔