ایک روزہ شہید انسانیت کانفرنس 2017

زمرد مغل

ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ میں اتنے بڑے پیمانے پر غالباً اپنی طرح کی اولین کاوش کی صورت میں پونچھ کے نوجوانوں کی ایک تنظیم "انجمن اتحاد المسلمین” کی جانب سے "ایک روزہ شہید انسانیت کانفرنس 2017” کے عنوان سے ایک ایسی عالیشان تقریب کا انعقاد ہوا ہے جس کی مثال نہ صرف ریاست میں بلکہ پورے ملک میں بہت دنوں تک دی جاتی رہے گی.

اس کانفرنس میں عالمی پیمانہ پر شہرت یافتہ ایسے ایسے خطیبوں نے شرکت کی جن کو عوام نے اس سے پہلے صرف ٹیلی ویژن اور انٹرنٹ پر ہی دیکھا اور سنا ہوا تھا.

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نایب صدر ڈاکٹر سید قلب صادق، نیشنل سادھو سمیتی کےصدر اور کلکی دھام مندر کے مہنت آچاریہ پرومود کرشنم، نیشنل ملی کونسل کے سربراہ اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبر جناب کمال فاروقی، ڈیرہ بابا ننگالی صاحب کے سکھ مہنت بابا منجیت سنگھ جی، ہمالین ایجوکیشن مشن جموں کشمیر کے ڈائریکٹر خطہ پیر پنچال کے سرسید کے خطاب سے معروف فاروق مضطر،حضرت نظام الدین چشتی کی درگاہ کے سجادہ نشین سید سلمان چشتی کی جانب سے پونچھ روانہ کئے گئےنیشنل صوفی فورم کے ترجمان مولانہ مختار اشرف، آل انڈیا اتحاد ملّت اتر پردیش کے کنوینر سید معراج حیدر جیسے مدعو مہمانوں کےعلاوہ پونچھ ضلع کے ہر مکتب فکر ہر مسلک کے امام اور مولانہ نے اپنی موجودگی اور اپنے خطابات سے ملی اتحاد پر ایسی ایسی مدلل تقریریں کی کہ قریب چھہ ہزار کا مجمع جھوم جھوم اٹھا۔کرشن چندر پارک میں جب سنی شیعہ اتحاد زندہ بعد کے فلک شگاف نعروں کے درمیان ہندو مسلم سکھ اتحاد کا نعرے لگے تو سارا شہر فرط جذبات سے جھومنے لگا۔ یہ اپنی طرح کا پہلا منظر تھا جسے دیکھ کر سب کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے

ایک ہی اسٹیج پر جب ہندو مسلم سکھ سنی شیعہ بریلوی اجمیری دیوبندی اہل حدیث خطیب جب علاقے میں امن آشتی محبّت پیار دوستی کی بات کر رہے تھے تو یوں لگ رہا تھا کہ سارا قصبہ اس اجتماعی گفتگوکا صدیوں سے منتظر تھا۔ خواتین مرد بچوں جوانوں کالجوں اور مدرسوں کے طلبہ کے اس مخلوط مجمع میں جہاں سکھ کھڑا تھا وہیں ہندو پانی پلا رہا تھا، سنی قیادت کر رہا تھا تو شیعہ نظامت کر رہا تھا۔ ایک غضب کا منظر تھا جس کو زمانوں تک یاد رکھا جائے گا ۔

ڈسٹریکٹ اڈمنسٹریشن کے تمام اعلی عہدے داران انتظامات میں غرق تھے تو فوجی سربراہ اور پولیس انتظامیہ کے ہیڈ تقریر فرما رہے تھے… غرض کہ ایک عجیب و غریب منظر تھا، یہ طے کر پانا مشکل تھا کہ آخر یہ کس تنظیم عقیدے اجنسی ادارے ڈیپارٹمنٹ کا پروگرام ہے ۔ شیہد انسانیت حضرت امام حسین رضی الله تعالی اور کربلا سے منسوب اس تقریب میں جہاں تاریخ اسلام پر نگاہ دوڑائی گئی وہیں موجودہ وقت میں مسلمانوں کی شناخت کو مسخ کرنے کی عالمی سازش کو بے نقاب کیا گیا …جہاں ہندو مسلم سکھ بھائی چارہ کی ضرورت پر زور دیا گیا وہیں ملک میں ایک خاص نمائندہ سیاسی سوچ کی جانب سے ملک کے مسلمانوں کے ساتھ کی جا رہی زیادیتوں کا بھی سخت نوٹس لیا گیا، جہاں سنی شیعہ دیوبندی بریلوی اتحاد پر کھل کے مقامی علما نے بات کی وہیں شدّت سے اس بات پہ زور دیا گیا کہ ہم اپنے مکاتب و مدارس کی بنیادیں مضبوط بنا کر بچوں میں دنیوی علم کے ساتھ ساتھ خالص دین کے علم کو بھی رواج دیں.

تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا آغازہونے کے فورا بعد کانفرنس کے جوان سال کنوینر آصف میر نے مدعو مہمانوں کا شکریہ کرتے ہوئے سرسری طور پہ اس بات کی وضاحت کر دی کہ آخر پونچھ کے چند پڑھے لکھے نوجوانوں کو اس اسٹیج کو کھڑا کرنے کی ضرورت کیوں پڑی ۔ پروگرام کے آغاز میں ہی خواجہ اجمیر شریف کی بارگاہ سے اس کانفرنس کے اراکین کے حوصلہ کے بڑھاوے کے لئے بھیجے گیے اس پیغام کو مولانہ مختار اشرف نے پڑھا جو اجمیر سے خواجہ کی کی چھبیسویں پیڑھی میں شامل سید محمّد سلمان چشتی صاحب نے بھیجا تھا  ۔

دہلی سے تشریف لاۓ اور میڈیا کی دنیا میں مسلم نمائندگی کا چہرہ بن چکے کمال فاروقی نے اپنی تقریر میں کہا کے دنیا کی ہر جہالت نا انصافی بربریت اور ناکامیابی کا ایک ہی جواب ہے علم…..جب تک ملک کا مسلم بچہ دین اور دنیا کے علم کے میدان میں مد مقابل اکثریتی طبقہ کو بھرپور کمپٹیشن نہیں دے گا ملک میں مسلمانوں کی حالت نہیں سدھر سکتی، کمال فاروقی نے کہا یہ وقت ٹیلنٹ اور میرٹ کا وقت ہے، اگر آپ کے پاس یہ دولت نہیں ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ مسلم ہو یا ہندو، دلت ہو یا آدیواسی.. کمال فاروقی نے کہا ملی اتحاد کا جزبہ کوئی باہر سے آ کر ہمارے بیچ پیدہ نہیں کرے گا، یہی کانفرنس کے کنوینر آصف میر جیسے جوان کھڑے ہو کر پیدا کریں گے۔

ڈاکٹر قلب صادق نے اپنے مدلّل بیان میں کہا کہ کربلا کا معرکہ ہمارے سامنے ایک زندہ مثال ہے کہ کس طرح ایمان اور جوان مردی کے ساتھ  وقت کے یزید اور فرعو ن کے مقابلہ پر کھڑے ہو کر مقابلہ کیا جا سکتا ہے.. ڈاکٹر قلب صادق نے کہا کہ پونچھ کے چند غیور اور مثبت نظر جوانوں کی اس پہل سے سارے ملک کے سنی شیعہ بریلوی دیوبندی کوسبق حاصل کرنا چاہئے، کہ آخر کیوں کر مشترکہ اسٹیجوں پر ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر کھڑے رہ کے ہم قوم میں محبّت اور اتحاد کا پیغام دے سکتے ہیں ۔

سنبھل مرد آباد اتر پردیش کے مشہور ہندو مٹھ اور مندر کلکی دھام مندر کے مہنت اور قومی سادھو سمیتی کے صدر آچاریہ شری پرمود کرشنم نے جہاں اپنی خوبصورت آواز میں نعت و منقبت کے اشعار سے کانفرنس میں جوش بھر دیا وہیں انھوں نے کربلا اور امام حسین رضی الله تعالی کے پیغام کی روشنی میں تمام مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا کے کسی بھی عہد کے زمانے کے یزید کے ساتھ آپ تب تک نبرد آزما نہیں ہو سکتے جب تک آپ اپنے اندر حسینی کردار پیدا نا کریں گے .

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔