ہر سانس کے ساتھ زندگی میں گھلتا زہر

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

دہلی، این سی آر کو گزشتہ کئی دنوں سے دھول، دھویں ‘دھند’ نے ڈھک رکھا ہے۔  اسی کے ساتھ ہوا میں گھولے زہر کو لے کر بحث جاری ہے۔ این جی  ٹی نے دہلی میں پھیلی ہوائی کثافت کو روکنے کیلئے فوری اقدامات کرنے کو کہا ہے، جس میں دس سال پرانے ٹرکوں کی دہلی آمد پر پابندی، پی ایم 10 کی مقدار جہاں بھی 600 مائکرو گرام فی مربع میٹر ہو وہاں پانی کا چھڑکاؤ اور دھواں پیدا کرنے والی صنعتی یونٹس کو 14 نومبر تک بند کرنا شامل ہے، تو لیفٹیننٹ گورنر نے کھلے میں ہو رہے تعمیری کاموں کو روکنے کا حکم دیا ہے۔ دہلی ہائی کورٹ نے اسماگ کے قہر سے بچاو کے لئے پانی کا چھڑکاؤ کرنے سمیت کئی ہدایات دیں ہیں ۔

عدالت نے حالات کو ایمرجنسی کی حالت قرار دیتے ہوئے مسنوئی بارش کرانے کے لئے ‘کلاؤڈ شیڈنگ ‘ کرانے پر بھی غور کرنے کو کہا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن نے اسے زندگی کے حق کا معاملہ مانتے ہوئے حکومت کو نوٹس جاری کیا۔ دہلی حکومت نے اسکولوں کو اتوار تک بند کر، لوگوں کو بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلنے کی ایڈوائزری جاری کی اور 13 سے 17 نومبر تک گاڑیوں کو آڈ، ایون نمبروں کے مطابق چلانے کا فیصلہ لیا، عوام کی سہولت کے لئے چار دن تک ڈی ٹی سی بسوں کو بغیر کرایہ کے چلایا جانا طےتھا۔ این جی ٹی کے آڈ۔ ایون پر کچھ بنیادی سوال اٹھانے کے بعد دہلی سرکار نے  اپنے فیصلے پر یو ٹرن لے لیا۔

زہریلی ہوا نے پچھلے سال بھی انہیں دنوں میں دہلی والوں کی سانس پھلا دی تھی۔ اس وقت دیوالی کے پٹاخوں ، ہریانہ، پنجاب میں پرالی جلانے سے نکلے دھویں کو دھند کی وجہ بتایا گیا تھا۔ دیوالی پر اس سال سپریم کورٹ نے پٹاخے بیچنے پر پابندی لگائی تو کئی لوگوں نے اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی، جبکہ عدالت نے متنبہ کیا تھا کہ اس کا سیاسی فائدہ نہ اٹھایا جائے۔ سپریم کورٹ دہلی کی آب و ہوا کو لے کر فکر مند تھا۔ صاف پانی تو خرید کر پیا جا سکتا ہے لیکن سانس اسی ہوا میں  لینا ہے۔ ہوا چھوٹے بڑے، امیر غریب، رنگ، ذات اور مذہب کا فرق نہیں جانتی۔ دہلی پولیوشن کنٹرول کمیٹی کے گزشتہ دو سال کے اعداد پر نظر ڈالیں تو دیوالی کے مقابلے میں دیوالی کے کچھ دن بعد ہوا کی کثافت زیادہ خطرناک رہی ہے۔ معیار کے مطابق ہوا میں پی ایم 2.5 کی 100 اور پی ایم 10 کی مقدار 100 سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔

اس سال دیوالی 19 اکتوبر کو تھی اس دن ہوا میں پی ایم 2.5 کی مقدار 229 مائکرو گرام فی مربع میٹر رہی۔ 7 نومبر کو یہ 540 مائکرو گرام فی مربع میٹر ہو گئی جبکہ پچھلے سال 759 مائکرو گرام تک پہنچ گئی تھی۔ ہوائی آلودگی دہلی این سی آر میں یکساں نہیں ہے بلکہ علاقہ وار اس میں فرق پایا جاتا ہے۔ مثلاً اس سال ہوا کا انڈیکس پنجابی باغ 626، آر کے پورم 471، آنند وہار 495 اور مندر مارگ پر 564 ریکارڈ کیا گیا جبکہ 2016 یہ بل ترتیب 783، 713، 848 اور 690 تھا۔

جب بھی دہلی میں اسماگ چھاتا ہے تو اس کی ذمہ داری ہریانہ پنجاب کے سر تھوپ دی جاتی ہے۔ اس سال بھی یہی ہوا۔ کہا یہ گیا کہ ہریانہ، پنجاب سے کھیتی کے باقیات جلانے کا دھواں ہوا کا بہاؤ کم ہونے کی وجہ سے یہاں جم گیا۔ سوال یہ ہے کہ جب ہوا کا بہاؤ کم تھا تو یہ دھواں دہلی کیسے اور کتنے دن میں پہنچا؟  دراصل دہلی کی ہوا کو اتنا زہریلا بنانے میں خود دہلی این سی آر سب سے بڑا مجرم ہے۔ ہوا کا بہاؤ کم ہونے کی وجہ سے باہر سے اڑ کر آئے دھویں کی مقدار بے حد کم ہے۔ موٹر گاڑیوں سے نکلنے والی نائٹروجن آکسائڈ گیس اور فیکٹریوں سے نکلا دھواں دہلی کی ہوا کو خراب یا بے حد خراب بناتا ہے۔ یہ سلسلہ سال بھر جاری رہتا ہے۔ سردی آنے پر یہ آلودگی اوپر نہیں جا پاتی الٹے ماحول میں گھومتے زہریلے ذرات ٹھنڈے ہو کر زمین پر آ جاتے ہیں ۔ اس طرح تباہی آسمان سے برستی ہے۔

دہلی میں ہوائی آلودگی کی بڑی وجہ یہاں بڑھ رہی موٹر گاڑیاں ، ٹریفک جام اور راجدھانی سے سٹے علاقوں میں ماحولیات کے سلسلے میں برتی جارہی کوتاہی ہے۔ ہر دن باہر سے آنے والے کوئی اسی ہزار ٹرک یا بسیں یہاں کے حالات کو اور سنگین بنا رہی ہیں ۔ دہلی میں ہر ماہ پندرہ سو نئی موٹر گاڑیاں سڑک پر آ جاتی ہیں ۔ دو پہیا گاڑیاں ، گرامین سیوا، بیٹری رکشہ اور پرانے اسکوٹر یا موٹر سائیکل پر بنائے گئے سامان ڈھونے والے رکشے الگ ہیں ۔ گاڑیوں کی آبادی کوکنٹرول کرنے کا کوئی طریقہ نہیں اپنایا جا رہا۔ سی آر آرآئی کی رپورٹ کے مطابق راجدھانی کے پیرا گڑھی چوک سے ہر روز ہزاروں گاڑیاں گزرتی ہیں ۔ ان کے جام میں پھسنے اور اوور لوڈ ٹرکوں سے زیادہ کاربن نکلتی ہے۔ اسی طرح کالندی کنج مہا مایا فلائی اوور، این ایچ 24، نہرو پلیس سے ایرپورٹ جانے والی سڑک اور کناٹ پلیس کے پاس کستوربا گاندھی مارگ پر گاڑیوں کے رینگتے ہوئے چلنے کی وجہ سے انسے نکلا کاربن ماحول کو کالا کرتا ہے۔ یہی حال دہلی کے دوسرے علاقوں کا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق دہلی کی سڑکوں پر ہر روز قریب چالیس ہزار لیٹر ایندھن محض جام میں پھنس کر برباد ہوتا ہے۔ ماہرین کی مانیں تو ہوا کے ساتھ زہریلے ذرات کے گھلنے میں سب سے بڑا ہاتھ دھول اور مٹی کے ذرات کا ہے۔ یہ قریب 24 سے 25 فیصد ہے۔ اس کی  وجہ سے دہلی کا کوئی بھی علاقہ ایسا نہیں ہے جہاں یہ مقررہ  حد سے چار گنا زیادہ نہ ہو۔ پی ایم زیادہ ہونے کا مطلب ہے آنکھوں میں جلن، پھیپھڑوں میں خرابی کی شکایت کے ساتھ استھما، کینسر اور دل کے مریضوں کا بڑھنا۔

صفدر جنگ اسپتال میں شعبہ امراض قلب کے ذمہ دار اور  سانس مرض کے ماہر ڈاکٹر جے سی سوری کے  مطابق  دھند کے چار دنوں میں او پی ڈی آنے والے مریضوں میں 15 فیصد کا اضافہ ہوا۔ میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر کے کے اگروال کا کہنا تھا کہ اس وقت جو دھند ہے، وہ پھیپھڑوں اور دل دونوں کے لئے خطرناک ہے۔ ہوا میں سلفر ڈائی آکسائڈ کی زیادتی کی وجہ سے کرونک برونکائٹس ہو سکتا ہے۔ وہیں ہوا میں موجود نائٹروجن آکسائڈ کی بڑھتی سطح سے استھما ہونے کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ ایمس کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رندیپ گلیریا کا کہنا ہے کہ ہوائی کثافت کا اثر پورے جسم پر ہوتا ہے۔ اس لئے پچھلے کچھ برسوں میں 30 ہزار لوگوں نے آلودگی کی وجہ سے دم توڑ دیا ہے۔

جیسے جیسے حالات بہتر ہوں گے لوگ اس کو بھول جائیں گے یا بھلا دیں گے۔ شہروں میں رہ رہے لوگوں کے پاس نہ آلودگی کے بارے میں سوچنے کا وقت ہے نہ اسے دور کرنے کا۔ سرکاریں بھی جانتی ہیں اس لئے رسمی باتیں یا یوجنایئں بنا کر واہ واہی لوٹتی ہیں۔ میڈیا کے پاس بھی بنیادی مسائل کے لئے بہت کم جگہ ہے۔ ماحولیات سے متعلق بنے قوانین کو انتظامیہ کے لئے لاگو کرانا مشکل ہوتا ہے  کیونکہ قانون بنانے والے ہی اس کو توڑنے کا کام کرتے ہیں ۔ یا پھر قانون توڑنے والوں کو سیاست دانوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ اس سے حالات اور بد سے بدتر ہوتے جاتے ہیں ۔

اس کا نمونہ دہلی والوں نے دیکھ لیا۔ اس لئے عوام کو خود آگے آکر ماحول کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی ہوگی۔ ساتھ ہی سرکاروں پر بھی دباؤ بنانا ہوگا کہ وہ ماحول کے معاملہ میں کسی طرح لاپرواہی کو برداشت نہ کرے، شہر میں جگہ جگہ ہوا کو صاف کرنے کے لئے ائر کلینر لگائے جائیں ۔ دھول کو اڑنے سے روکا جائے اور بغیر روکاوٹ والا ٹریفک نظام تیار ہو، تاکہ ہم سب کو صاف ستھرا ماحول  مل سکے۔ کیونکہ اسی میں ہمیں سانس لینا  اور زندہ رہنا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔