ایک سال میں دوسو کتابیں کیسے پڑھیں؟

     ایک شخص نے وارین بفیٹ(Warren Buffet)سے دریافت کیاکہ ان کی کامیابی کا رازکیا ہے؟توانھوں نے کتابوں کے ایک ڈھیرکی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا’’روزانہ ایسے پانچ سوصفحات پڑھاکرو،اسی طرح تمھارے علم میں اضافہ ہوگااوروہ مجموعی طورپرتمھاری شخصیت کی تعمیر کرے گا،تم میں سے ہر شخص ایسا کرسکتاہے،مگرمجھے یقین ہے کہ تم میں سے بہت سے لوگ ایسانہیں کریں گے۔۔۔‘‘۔جب میں نے پہلی بار دوسال قبل بفیٹ کایہ مقولہ پڑھا ، تو مجھے احساس ہوا کہ میری زندگی میں کچھ غلط ہورہا ہے !

    وہ دسمبر2014ء تھا، مجھے میری پسندیدہ جاب مل چکی تھی،جہاں ایک دن میں اپنے کام میں مشغول ، اپنی آفس میں بیٹھا سوچ رہاتھا ’’خدایا! اگرمیں چالیس سال تک یہیں پڑارہا ،توپھر فائدہ کیا ہے ؟ میں اس حالت میں مرنا نہیں چاہتا ۔۔۔‘‘مجھے محسوس ہوا کہ کچھ  غلط ہے ،پھرمیں نے اپنی اب تک کی زندگی پر غور کیا، میرے ذہن میں آیا کہ پڑھنے کے دوران میں اعلیٰ نمبرات سے پاس ہوتارہا، اچھے اساتذہ کی رہنمائی حاصل رہی ،سب میری تعلیمی و اخلاقی کارکردگی کے مداح تھے،اچھے کالج میں داخلہ بھی مل گیا،تعلیم سے فراغت کے بعد اپنی پسند کی جاب بھی مل گئی، میں تو فاتح تھا ، میں نے زندگی کے ریس میں باز ی مار لی تھی ، میں اپنے خوابوں کی دنیاکو حقیقتاً حاصل کر چکا تھا ، مگر اس کے باوجودمجھے لگاکہ کچھ تو بہت زیادہ غلط ہورہاہے ۔روزانہ میں اپنی پسندیدہ جاب کی میز پر بیٹھ کر جب ارد گرد کے لوگوں کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کرتا ،تووہ مجھے خالی لگتیں ، بالکل خالی ، میرے من میں کچھ سوالات تھے اور جواب مل نہیں رہا تھا ۔

     جنوری2015ء میں میں نے بفیٹ کا مذکورہ بالا مقولہ پڑھا،اس کے بعد میں نے کتابوں کے مطالعے کا فیصلہ کر لیا ،میں نے فیصلہ کیا کہ تب تک پڑھتا رہوں گا،جب تک کہ ان سوالات کے جوابات نہیں مل جاتے۔میں ایک دن میں پانچ سو صفحات تو نہیں پڑھ سکا،مگر گزشتہ دوسالوں کے دوران میں نے شروع سے آخر تک چار سو سے زیادہ کتابیں ضرور پڑھ ڈالی ہیں ،مطالعہ کرنے کاوہ فیصلہ میری زندگی کانہایت اہم فیصلہ تھا،کتابوں نے مجھے سفر کرنے کا حوصلہ بخشا،کتابوں ہی کی وجہ سے میں نے اپنی جاب چھوڑی ، کتابوں کی وجہ سے مجھے اپنی زندگی میں کئی رول ماڈلز اور ہیروز ملے اور مجھے کائنات کی حقیقت کاعلم حاصل ہوا ،جہاں میں کچھ بھی نہیں تھا ۔

     ایسا لگتا ہے کہ سال بھر میں دو سو کتابیں پڑھنا ایک حیرت انگیز بات ہے ، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے ، ایسا کرنے کے لیے بس ایک معمولی حساب کتاب کے عمل سے گزرنااور کچھ درست ذرائع اختیار کرنے ہوں گے :

1-شروع کرنے سے پہلے ہی ہتھیارنہ ڈالیں :

    اعدادوشمار کے خم و پیچ میں یقین رکھنے والے انسان کو جب یہ مشورہ دیا جائے کہ ’’تم روزانہ پانچ سو صفحات پڑھا کرو‘‘تواس کا فوری ردِ عمل یہ ہوگا کہ ’’ایسا ناممکن ہے‘‘  پھریہ بھی ہوگا کہ ایسا شخص بغیر سوچے سمجھے اپنے خیال کی تائید میں دلیلیں بھی دینے لگے،مثلاً کہے کہ ’’میں بہت مصروف ہوں ‘‘،’’مجھ سے اتنا زیادہ نہیں پڑھا جائے گا‘‘،یایہ کہ’’کتابیں پڑھنا میرا ذوق ہی نہیں ہے ‘‘؛لیکن اگر ہم تھوڑی سنجیدگی اورگہرائی سے سوچیں توکیا جاتا ہے؟مثلاًیہ سوچیں کہ اگر واقعتاً ہم سال میں دو سو کتابیں پڑھنا چاہیں ، تو کیا کرنا پڑے گا؟دوسال پہلے میں نے بھی رک کر اس کا حساب لگانے کی کوشش کی تھی ،تب مجھے پتا چلا کہ سال میں دو سو کتابیں پڑھنا قطعی مشکل نہیں ہے ،یہ بالکل بفیٹ کے قول کے مطابق ہے کہ ایسا ہر شخص کرتو سکتا ہے ،مگر اکثر لوگ کرتے نہیں ہیں ۔

2-سادہ سا حساب لگائیں :

 ایک سال میں دوسو کتابیں پڑھنے میں کتنا وقت لگ سکتا ہے؟اس سلسلے میں پہلے ہم دوقسم کے اعداد و شمار کوپیشِ نظر رکھتے ہیں :

اول:اوسطاً ہر امریکی ایک منٹ میں دوسو سے چارسو الفاظ تک پڑھتا ہے(یہ اوسط درجے کی رفتار ہے،آپ ایک منٹ میں میری طرح چار سو الفاظ بھی پڑھ سکتے ہیں )

دوم:عموماً غیر افسانوی کتابوں میں پچاس ہزار الفاظ ہوتے ہیں ۔

 اب ہم انھیں کلکیولیٹ کرتے ہیں توپتا چلتاہے کہ دوسو نان فکشن کتابوں کے کل الفاظ دس ملین(ایک کروڑ)ہوتے ہیں ،دس ملین الفاظ کو چار سو ورڈز فی منٹ میں تقسیم کریں تو کل پچیس ہزار منٹ بنتے ہیں اور پچیس ہزار منٹ کو ساٹھ سکنڈس میں تقسیم کرتے ہیں ،تو چار سو سترہ(417)گھنٹے بنتے ہیں ۔معلوم ہوا کہ ہمیں سال بھر میں دوسو کتابیں پڑھنے کے لیے محض چار سو سترہ گھنٹے خرچ کرنے ہوں گے ۔

مجھے پتا ہے کہ اگر آپ کا دماغ بھی میرے جیسا ہے ،تو ممکن ہے وہ’’چار سو سترہ گھنٹے ‘‘ کاعلم ہوتے ہی سُن ہونے لگے ،آپ سوچیں گے کہ ہم میں سے اکثر لوگ توہفتے میں عموماً چالیس گھنٹے کام کرتے ہیں ،تو وہ سالانہ چار سوسترہ گھنٹے پڑھ کیسے سکتے ہیں ؟ لیکن ذرارکیے، دماغ کے الجھاوے میں آنے کی بجاے ہم دیکھتے ہیں کہ چار سو سترہ گھنٹوں کی حقیقت کیا ہے۔۔۔؟

3-بادی النظرمیں چارسوسترہ گھنٹے واقعی بہت لگتے ہیں ؛لیکن ان کی حقیقت جاننے کے لیے آئیے ہم چیک کرتے ہیں کہ عام طورپر ایک امریکی شہری سوشل میڈیااور ٹی وی پر سال بھر میں کتنے گھنٹے صرف کرتا ہے :

سال میں 608گھنٹے سوشل میڈیا پر

اور1642 گھنٹے ٹی وی پر

 اوہ!گویا کل 2250گھنٹے ہم لوگ یوں ہی ضائع کردیتے ہیں ،اگر ان اوقات کو آپ پڑھنے میں خرچ کریں ،تو سال میں ایک ہزار کتابیں پڑھی جاسکتی ہیں ، یعنی مجموعی طورپر بہت ساری کتابیں پڑھناکوئی مشکل نہیں ہے،ہمارے پاس مطلوبہ وقت موجود ہے،البتہ افسوس ناک صورتِ حال یہ ہے کہ ہم اہم اور غیر اہم کاموں کے درمیان فرق نہیں کرپاتے ، ہمارے پاس پڑھنے اور مطالعہ کرنے کے لیے وقت نہیں ہے ؛لیکن ٹوئٹراور سوشل میڈیا پر وقت گزاری کے لیے ، اوٹ پٹانگ قسم کی پارٹیوں میں شرکت کے لیے یا گھر بیٹھے ٹی وی کے بکواس پروگرامز دیکھنے کے لیے کافی وقت ہوتا ہے،دراصل ہماری ذہنیت ایسی بنی ہوئی ہے کہ مطالعہ کرنا کافی محنت طلب کام ہے اوراس وجہ سے ہم مطالعے سے بھاگتے ہیں ۔

4-ہم سب کو پتاہے کہ مطالعہ کرنا اہم اور فوائد و منافع سے بھرپور عمل ہے ، ہمیں اس کا بھی احساس ہے کہ ہمیں خوب خوب مطالعہ کرنا چاہیے ؛لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایسا کر نہیں پاتے ،جو احساس و ادراک ہے ،اسے ہم عملی جامہ نہیں پہنا پاتے،میں خود اپنے بارے میں بھی یہی کہتا ہوں ۔میں یہاں کچھ ایسے طریقے تحریر کرتا ہوں ،جو ہمیں اپنے اندرذوقِ مطالعہ کی تخلیق و افزایش کے حوالے سے بہتر نتائج دے سکتے ہیں :

1-ماحول سازی:

اگر آپ نشہ خوری سے خلاصی چاہتے ہیں ، تو کیا آپ کوکین ،ڈرگس یا نشہ آور چیزوں کو اپنے کمرے یا گھر کے آس پاس رکھیں گے؟ظاہر ہے کہ ایسا نہیں کریں گے، اسی طرح آج کل میڈیا کو ایسا بنادیا گیا ہے کہ لوگوں کواس کی لت سی لگ جاتی ہے اور ان کے لیے اس سے بچ پانا ایسے ہی مشکل ہوتا ہے ،جیسے ڈرگس سے پیچھا چھڑانا ۔کسی بھی چیز کو بدلنے کے لیے سب سے بڑا عامل ماحول ہوتا ہے،پس اگر آپ مطالعہ کرنا چاہتے ہیں ،تو آپ اپنے اردگرد سے ان تمام چیزوں کو دور رکھیں ،جو آپ کی توجہات اور خیالات کو منتشر کرتی ہیں ،دوسرے یہ کہ کتابیں ایسی جگہ رکھیں ،جہاں سے انھیں آسانی سے ،کسی بھی وقت ا ٹھا کر پڑھا جاسکے ۔

میں بہت زیادہ سفر کرتا ہوں ؛لیکن اس سے میرے شغلِ مطالعہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا ،میں جہاں بھی رہوں ،کتابیں ساتھ رکھتا ہوں ،پس حسبِ خواہش کوئی بھی کتاب نکال کر پڑھنے لگتا ہوں ،میرے موبائل Desktopپر صرف دو Appsہیں :ایکKIndleجو مطالعہ کرنے کے لیے ہے اور دوسر ا App اپنی روٹین اورنظام الاوقات طے کرنے کے لیے ۔

 2-اپنی روٹین بنائیے!

    طرزِ حیات کوبدلنے کے لیے محض قوتِ ارادی کافی نہیں ہے؛کیوں کہ یہ اکثر تب آپ کو دھوکہ دے دیتی ہے،جب آپ کو اس کی زیادہ ضرورت ہو؛لہذا قوتِ ذہنی پر اعتماد کرنے کی بجاے آپ اپنے روزوشب کا ایک شیڈول بنا لیجیے ،اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ ہر حال میں اپنے مقررہ شیڈول پر عمل کرنے کے عادی ہوجائیں گے ،اگر Habit scienceسے واقفیت نہیں رکھتے ،تو آ پ TynanکیSuper Human by Habitپڑھیے،اس کتاب کے مشمولات انتہائی عملیت پسندی پرمبنی ہیں اور میں بھی عملیت پسندی پر ہی زور دیتا ہوں ۔ہرکام کے لیے نظام الاوقات متعین کرنے کی وجہ سے میں ذہنی ،فکری وعلمی اعتبار سے کئی سال آگے نکل چکاہوں ،یہ الگ بات ہے کہ بعض دفعہ میں نے ایسی غلطیاں بھی کیں ،جو نہیں کرنی چاہیے تھیں ، اگر مجھے اپنی پچھلی زندگی مل جائے ،تو میں اپنے ساتھ ایک Habit Coachرکھنا چاہوں گا۔میرا نظریہ یہ ہے کہ کسی اچھی کتاب میں ایک انقلابی نکتۂ خیال کاپڑھ لینا ہزاروں ڈالر سے زیادہ قیمتی ہے ، پس اگر کوچ آپ کو ایک مزید اچھی کتاب کامطالعہ کرنے کی رہنمائی کرے ، تو گویا آپ کوان پر خرچ کیے گئے اپنے پیسوں کی قیمت مل گئی ۔

3-مختلف موضوعات کو پڑھیے!

 جب آپ پڑھنا شروع کریں ،تو ہر قسم کے موضوع پر پڑھیں ،کسی خاص موضوع پر انحصار مت کریں ،اگر آپ خوب پڑھنا چاہتے ہیں ،توآپ کو موضوع یا ذریعۂ مطالعہ کے سلسلے میں محدود نہیں ہونا چا ہیے ؛چنانچہ میں مطبوعہ کتابیں بھی پڑھتا ہوں ،اپنے موبائل پر بھی مطالعہ کرتا ہوں ،آڈیوبک بھی سنتاہوں اور یہ کام میں ،پارک کے بنچ پر،بسوں میں ، بیت الخلا میں ؛ہرجگہ کرتا ہوں ۔ آپ اپنے ذوقِ مطالعہ کو موقع پرست بنائیے ، جہاں بھی مطالعہ کرنے کا موقع ملے ، اسے استعمال کیجیے اور اگر موقع نہ مل رہاہو ،تو اس کی جستجو میں رہیے۔ اگرمیں نے مطالعے کی عادت نہ ڈالی ہوتی ، تو شاید اب تک میں اپنی وہی پسندیدہ ملازمت کررہا ہوتا،وہیں اپنے آفس کی میز پر ہوتا ،دزدیدہ نظروں سے گھڑی کی سوئیوں کو دیکھتا رہتا اور سوچتا کہ اگر میں اسی حالت میں مرگیا ، توکیا ہوگا۔اگر آپ کو اپنے ذہن میں ابھر نے والے سوالات کا جواب چاہیے تو مطالعہ کیجیے ، آپ کو اپنے سوالوں کا،توقع سے بھی زیادہ اوربہتر جواب ملے گا! !

تحریر:Charles Chu۔ ترجمانی :نایاب حسن

تبصرے بند ہیں۔