ایک ملاقات (1)

سعد احمد

تقریبا چار سے سات گھٹنے کا لمبا انتظار، ایک لمبا سفر اور ابو ظبی سے ٹرانسٹ فلائٹ کےجھمیلے نے مجھے اس قدر الجھا لیا تھا کہ میں اپنے ارد گرد سے گذرنے والے خوشکن چہرے، رنگا رنگی تہذیب، سلیقہ مند اور بے ڈھب زندگی دیکھ کر ان پر فتوے لگانے سے قاصر تھا۔ ہاتھ میں کافی کا گلاس، جیکٹ کے بڑے والے جیب میں قابل نظر انداز موبائل، ایک سیگریٹ کا پیکٹ، انتہائی مظبوط جوتے جسکے فیتے گویا کسی جانور نے چبالئے ہوں اور  خیرہ نگاھیں جس سے میں نے ابھی تک کسی شخصیت کے جزءدان کو چوما نھیں تھا۔

بالآخر قوانین کی دھکم پیل سے گذرنے کے بعد  میں اس قدر پر سکون ہوگیا تھا، گویا قیامت کے محاسبہ سے نجات ملی ہو۔ میں ٹھنڈی کافی کی مزیدار چسکیاں لیتا رھا۔ کئی بار مسکراتا اور گلاس کو کنارے ہونٹوں سے اور  کبھی دانت سے کاٹ  لیتا۔

اسی اثناء میں ایک ظاھراً عرب دوشیزہ مجھ سے کہیں زیادہ پریشان، میری طرح نظر کا چشمہ چڑھائے ہوئے، مضبوط لانگ بوٹ، پاؤں تک عبایہ قسم کا کوئی لباس پہنے ہوئے اپنے بڑے سے پرس کے اندرون تقریبا گمشدہ ہو جانے کے امکانات رکھتی ہوئی نظر آئی۔میں کچھ دیر تک اس کی پریشانی سمجھنے کی کوشش کرتا رہا پھر جب وہ حل ہوتی دکھائی نہ دی تو میں نے اس سے کہا محترمہ پلیز بیٹھ جائیے۔اور دم بھر سانس لیجیے۔ میں آپ کی مدد کرنے کا پرپوزل پیش کرنا نھیں چاہتا، شاید یہ آپ کے وقار کو ٹھیس پہنچا دے مگر خدا را تھوڑا سانس لیجیے۔

میرے کہنے پہ اس نے میری جانب نظریں اٹھائیں. اس کا نظریں اٹھانا اور میری نظروں  پر اس طرح گرا دینا، بڑا عجب تجربہ تھا۔ مجھے لگا جیسے کسی بندے نے خدا کے سپرد خود کو یہ کہہ کر کردیا ہو کہ مجھ سے یہ زندگی نھیں سنبھلی جاتی تو ہی سنبھال۔ ائیر پورٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے اس سے انگریزی میں گفتگو کرنے کی کوشش کی تھی۔ مجھے انگریزی اور ایئرپورٹ دونوں کی ہم آہنگیت پہ ضرب نھیں لگانی تھی۔لھٰذا میں نے اس سے انگریزی زبان میں ہی مزید پوچھا… وڈ یو لائک سم واٹر اور کافی؟

ہلکی سی جھجھک کے ساتھ اس نے قھوہ کہتے کہتے کافی کا کہا۔ میں منٹوں میں اس کے سامنے، کافی، فلافل اور پانی کے ساتھ حاضر تھا۔ اس کی پریشانی میں کمی آئی تھی۔اسنے اپنا بھاری بیگ، ہینڈ بیگ اور بھاری اورکوٹ ایک کنارے لگا دیا تھا گویا اس کی ساری فکر کسی نے کوڑیوں کے بھاؤ خرید لی ہو۔

اس کی خوش مزاجی اور سلیقہ مند گفتگو  نے مجھے مشرقی خاتون کے بارے میں پگھلنے پگھلانے کے شور کو در گذر کرتے ہوئےایک نئی رائے قائم کرنے کا موقعہ عطا کیا۔ گفتگو کے اعتبار سے وہ نہ تو مغربی انداز سے متاٴثر معلوم دیتی تھی اور نہ ہی مذہب کے نیرنگی خول کی دہائی کی قائل تھی۔ وہ عام سی لڑکی تھی جو عام نقطہ نظر سے اپنے اطراف کی چیزوں پر موئد و منحصر ہونے کے اظہار کو عین سچ سمجھتی تھی۔ اس کے سامنے نہ تو تہذیبوں کی تاریخ کھڑی تھی اور نہ مذھب کی تائید و اختلاف پر راہوں کی پیچیدگیاں پہیلی بجھاتی تھیں۔ اسکے لئے جسم اور روح کے گوناگوں مفاہیم کے درمیان توازن قائم رکھنا ہی حقیقی زندگی تھی۔باتوں باتوں میں ہم دونوں کی نگاہیں کئی مرتبہ ایک دوسرے سے ٹکراتی رہیں مگر ہر مرتبہ کبھی اسکی نگاہیں ہار جاتیں اور کبھی میری نگاہیں رستہ بدل لیتیں۔ ایک دو مرتبہ ہم نے ایک دوسرے کو نظر بھر دیکھنے کی کوشش بھی کی۔ نگاھیں ٹکرائیں۔ ہم نے اپنی جوانیوں کو پہاڑ جیسا طاقتور محسوس بھی کیا۔ اس احساس کا مزہ آج بھی مجھے یاد ہے۔ یقیناً اسے بھی یاد ہوگا۔مگر جوانی سے زیادہ اہم چیزوں میں ہم مشغول تھے۔ میرے کان اسکی زبان سے نکلتے ہوئے لفظوں  کو یادداشت کے بستہ میں بھرے دے رہے تھے۔ اس کی زبان ویسی ہی تھی جیسے میری۔۔۔ ٹوٹی ہوئی۔۔۔ سننے والے کو لکنت زدہ لگے۔۔۔ میں ٹوٹی ہوئی عربی جوڑ جوڑ کر بول رہا تھا۔ وہ ٹوٹی ہوئی انگریزی موڑ موڑ کر جوڑ رہی تھی۔ اردو اور فارسی کے الفاظ سے وہ مجھے ٹیکا دیتی۔ اور میں مشاھیر شعراء اور ادباء کا حوالہ دیکر اسے متوالا بنا دیتا۔ امرؤالقیس کا نام میں لیتا لبید کے قدموں پر بوسہ وہ دیتی۔ مقامات کا ذکر میں کرتا عوامی عرب زندگی اور مقامات کی بولتی کہانیوں کی گرہیں وہ کھولتی۔ نواس کی تنک مزاجی، بد مزاجی اور دل سازی کو چبھتی اٹھکیلیوں کا نام میں دیتا تو وہ اچھل کر اسکی شرابمستی، دل کی بستی اور سستی ماں کے شخصیت پہ ہجویہ لات رصید کرتی۔ وہی جذباتی پن، وہی بچپن اور وہی اکھڑ پن جسے میں جیتا تھا وہ سناتی تھی۔

معصومیت کے سازندوں کو وہ ساتھ اٹھا لاتی جب میں عرب کی  گندھی ہوئی سیاست کے بارے میں پوچھ بیٹھتا۔۔۔وہ کہتی۔۔۔ کہتی۔۔رکتی اور کہتی۔۔پتنگوں کے ناحق خون بہتے ہیں یہاں۔۔۔تم شمع کیوں اٹھاتے ہو جلانے کو۔۔۔ میں کہتا۔۔تم گور غریباں میں مدفون واحد مروت تو نھیں۔ ۔۔میں بھی اسی قبرستان کا مردار ہوں جسے قسمت کے فرستادہ نے دفن دور کیا ہے۔

میں اسکی آنکھوں  میں دیکھتا اور کہتا ہم  نےتمھیں جیا ہے….. اور  ہم وہ وحشی ہیں جو پیتے ہی نہیں کہ جی سکیں.. بلکہ جیتے چلے جاتے ہیں… وہ گندھی ہوئی سیاست کے بال و پر سنوار سنوار کر۔۔۔سلجھا سلجھا کر مجھے سمجھاتی کہ اسکا  چہرہ ممتا سے بھبھوکا ہوجاتا۔۔۔میں دیکھتا اور عجب طریقہ سے دیکھتا۔۔کہ کیسے کوئی اپنے معاشرہ سے ممتا بھرے انداز میں منسلک ہوسکتا۔۔۔ے . جیسے وہ ماں ہے پورے عرب معاشرہ کی۔۔ جسے اپنے بچوں کے ہر عیب۔۔ ہر مستی اور ہر کمزوری۔ ۔۔ مضبوطی کی وجھیں سب پتہ ہیں۔۔۔ واہ واہ۔۔۔ مجھے یہ جڑاؤ بہت اچھا لگتا۔۔۔ صوفیوں سے رغبت ہے میں اسے یہ بتا دیتا۔۔وہ جھٹ کہتی… لا.. لا…. اور اس. لالا کےدرمیان جو.. ٹہراؤ کے ساتھ اء. آ. آء…. اااآ…آتا.. وہ اللہ.. کتنی معنویت اور اعتماد تھا اس انداز میں… کہتی جھوٹ نہ بولو.. خاندان میں تمھارے  کوئی حجازی ضرور ہے۔۔۔ من ناحیۃ الامک او ابیک۔

میں کہتا واللہ کوئی نہیں۔ پھر میں اسے بتاتا کہ میرے اندر اور خاندان  کی کچھ عادتیں جاٹوں سے ملتی ہیں.. مجھے حیرت ہوئی جب اس نے کہا یعنی زت.. قبیلۃ الزت…. مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ اچھی خاصی اسکالر ہے جسے جاٹوں کے بارے میں خوب علم ہے۔ پھر میں اس سے نئے پرانے عرب ادباء کا ذکر چھیڑ دیتا اور وہ کہتی۔۔۔ لاباءس۔۔۔ یہ میرے شعور کا حصہ ہے اور میں اپنے شعور سے خوب واقف ہوں. پھر میں نے اس سےام کلثوم کے نغمے اور عمر شریف کے ڈائیلاگ  بھی سنے۔عرب خاندانوں کی رام کہانیاں سنیں۔ فلسطین کی آنتوں کی لمبائی ناپی اور اسرائیل کے دل میں دشنوں کی سجاوٹ دیکھی۔ میرے کان اس وقت کھڑے ہو ئے  جب اسنےمیری ماں کے بارے میں پوچھا۔۔۔ باپ کا پیشہ جاننا چاہا۔۔۔ اور اس قدر زور سے ہنستے ہوئے کہا کہ میں جانتی ہوں تم شیوخ میں سے ہو۔اسکا یہ کہنا تھاکہ میرا دل ناچ اٹھا، آنکھیں چمک پڑیں اور  میں فرط و مسرت سے کھڑا ہوگیا۔ اسے پھر کافی کی آفر  کی جو اسنے بڑے اپنے پن سے قبول کر لیں. ہم اس قدر اکسایٹڈ ہوگئے تھے کہ ہمیں جذبات کی تراش خراش اور جسم کی تئیں کوئی تجسس ہی نھیں تھا۔اسکے باوجود، ہماری جوانیوں کا کوئی نہ کوئی پہلو ایک دوسرے سے خوب ٹکراتا رہا۔ مگر ہمیں جس ٹکرانے کا مزہ سب سے زیادہ آرہا تھا وہ جوانی کا جوش تھا جہاں سے انسان  کولامتناہی مقصد ملتا ہے۔ اسکی جوانی کا وہ عنصر  جومجھے مطلوب تھا؛ لبالب تھا اور میری وہ جوانی جس سے وہ محظوظ ہو رہی تھی، ابلی پڑ رہی تھی۔ اسے کسی سے شکایت نہ تھی اور مجھے کسی کو ناراض کردینے کا غم نہیں تھا۔میرے سرجھکا دینے کی عادت پہ ایک اینٹھن طاری تھی اور اسکے سر پر سرتابی کا بھوت چڑھا تھا۔ اسنے میرے گاؤں اور قریہ کا پوچھا۔ بہنیں اور  انکےبچوں کا پوچھا۔ بھائیوں کی محبت کا جاننا چاہا۔ میں نے بھی سوالات کےموسم برپا کئیے۔ اسکے ماں باپ بھائی اور گاؤں کا پوچھا۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی ہمارا پورا کنبہ بومبنگ میں تہہ و بالا ہوگیا۔ ایک ٹوٹی ٹانگ کا بھائی رہ گیا ہے جو ملٹری کے زیر نگرانی ایک رفاہی تنظیم میں بھرتی ہے۔ وہیں کام کرتا ہے اور تعلیم بھی حاصل کر رہا ہے۔ ہمارے کنبہ کا قبرستان ہمارے ہی باغیچہ میں ہے۔ ہم اکثر رات وہیں گذراتے ہیں۔ ہمارے گاؤں کے وہ بوڑھے جو کام کی غرض سے باہر جاتے رہتے ہیں گاؤں میں داخل ہونے پہ ایک عام دعوت کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہم عورتیں اور مرد حضرات قبائلی رقص بھی کرتے ہیں۔قہوہ پیتے ہوئے ہم اپنے اپنے مردوں کے کتبے دیکھ کر انکا ذکر خیر کر لیتے ہیں۔ ہم آنسو بہانے کے قائل ہیں اور نہ ہی ماتم کے دیوانے۔ ہم قسمیں کھاتے ہیں کہ رسم وفا ہم نبھاتے رہیں گے۔

حق کی تلوار ٹوٹ گئی تو کیا غم ہم نیزے کے بھی دھنی ہیں اور زبان ہماری آج بھی پاک ہے۔ ہم پرجو تمھیں دکھ رھی ہے نہ وہ آزمائش ہے اور نہ لٹکتی تلوار۔ یہ ہماری تطہیر ہے۔۔۔ ہماری تطہیر۔ہم حق کو ایسے ہی جانتے ہیں جیسے رقاصہ تھرکتے پیروں میں گھنگھرو کی چاپ پہچانتی ہے۔ بلا کا جذبہ۔۔۔ بالکل سچ۔۔۔ خوف سے نابلد۔میں پل بھر کے لئے جذبات سے بھر گیا۔ کچھ بھی سمجھ نہ آیا۔ جی کرتا اسے سنتا رہوں۔ مگر وہ بھی کہاں ماننے والی تھی۔ اسے ہندوستانی معاشرہ پسند تھا۔ تکثیری خیال بھاتا۔ اسے ہندو فلسفہ جاننے کی للک تھی۔اسے اقبال سے لیکر غالب تک کا علم تھا۔ اسے  ستیا جیت رائے کے فلمیں، شاہ رخ خان، عامر خان اور امیتابھ بچن اچھے لگتے تھے۔ لنگی ڈانس اسے نہیں آتا تھا جسے وہ سیکھنا چاہتی تھی۔سیریلز کی دنیا اسکی دنیا کا ایک اہم حصہ تھے۔ہندوستانی، پاکستانی، ترکی، شامی اور انگلش سیریلز کا اسے عالمانہ حد تک علم تھا۔اس کا خواب تھا الف لیلہ ولیلہ کو وہ الف لیلہ ہندوستانی سیریل کی طرح اپنے ملک میں ڈاریکٹ کرے۔ اسے استار اکیڈمیز سے نفرت تھی۔ اسے ھندوستان جانا تھا۔ وہاں اسے دریا گنج، ڈالی گنج، علیگڈھ کی یونیورسٹی، جواہر لعل نھرو یونیورسٹی، اور دیوبند مدرسہ دیکھنا تھا۔ اسنے لکھنوی بریانی یوروپ میں کھائی تھی لھذا اسے اچھے خاصے ہندوستانی کھانے کا علم تھا۔ اور تمام کھانے وہ باقائدہ طور سے بنانا بھی جانتی تھی۔ اسے کھانے کا شوق اس قدر تھا کہ وہ ہندوستانی کھانے وہیں سیکھنا چاھتی تھی جہاں کے وہ پیداوار ہیں۔

ایسے گتھے ہوئے لوگ بہت پیارے لگتے۔ انکی سادہ زندگی، روزمرہ کی کھنکتی ہنسی، ان پر حاوی ہوتے ہوئے گرجدار قہقہے، قہقہوں کو پٹختی ہوئی چیخیں، مسکراہٹ کارَجواڑا خاندان، سسکتی آہوں کی ایک بہت بڑی پَرجا، پَرجوٹی کی بڑھتی ہوئی تعداد اسکے تجسس میں برابر اضافہ کرتے رہتے۔اپنی فلائٹ کے لمبے انتظار میں ہم بےشمار پہاڑوں کی چوٹیوں تک پہونچے، بعضے چوٹیوں کو سر بھی کیا، ایک چوٹی تو ایسی تھی جہاں چڑھنا آسان تھا مگر اترنا بہت مشکل… کہ اچانک اس نے کہا کہ میری شادی ہوگئی ہے۔ میرے عدم استفسار پہ اسکے ہوںٹوں پہ مسکراہٹ کھیل گئی۔ وہ ایسے اٹھی جیسے کامیابی کا ویراپّن لُوٹ کے بعد پُھرتی دکھاتا ہو۔ اسکی مسکراہٹ کا ماحصل گولف کی گیند کی طرح صحیح نشانے پہ کودا تھا۔

اسنے کہا آپ برا نہ مانے تو ایک اطلاع دوں میں نے آپ سے شادی کر لی۔ میری تعجب خیز نگاہوں نےاسکی شخصیت کے ارد گرد بھرپور دورانیہ ڈال دیا۔اسنے مجھ سے اپنی ہنسی روکتے ہوئے کہا کہ گھبرائیں نہیں ہم دونوں کی ذہنی ہم آہنگی ہی ہماری شادی ہے۔ ہم دونوں کی باقی چیزیں ملتی ہوں یا نہیں ذھنی رَو ضرورملتی ہے۔ میں ششدر رہ گیا۔میں حیران تھا کہ چند گھنٹوں کی ملاقات اتنی زود اثر بھی ہو سکتی ہے؟ واللہ، میرے لئے یہ  سب خیالی تھا جیسے میں کسی افسانوی خیمہ میں  گھس پڑا ہوں جہاں صحرا میں کوئی راہ بھٹکی ہوئی، غم کی ماری اپنے لئے جینے کی راہیں  گڑھ رہی ہو۔ مجھے انتی تیزرفتار زندگی میں سست تجربات پسند تو تھے مگر میری تہذیبی بنیادیں مجھے ڈھیلا کئیے دے رہی تھی۔۔۔میری ساخت پہ غالب میری تہذیب۔۔۔ اسکی شباہت کہہ رہی تھی کہ وہ(تہذیب) میری ماں نہیں بلکہ باپ ہے۔۔۔ اسکی شباہت کئی نسل پیچھے تک مجھ پر قابض تھی۔۔۔میرے اجداد جن کی شکلیں کئی نسل بعد بھی میں دیکھ سکتا تھا ان سب پر میری تہذیب، رنگ، بولی اور ہاؤ بھاؤ کی شکل میں حکومت کرتی تھی۔میری تہذیب۔۔ بیچاری۔۔ماضی میں شہنشاہیت کی عادی آج بھی اسکا انداز شاہانہ تھا۔آج بھی میری تہذیب کا ہر فرد شاہی کمّیت کا حامل تھا۔۔۔

یا خدایا، کیا ایسا بھی ہوتا ہے۔ آپکے اندر کیا کچھ نہیں ہے وہ انسے معلوم ہوتا ہے جو آپکے لئے بالکل انجانے ہیں۔ مگر جو ہمارے لئے آج انجانے ہیں کیا وہ واقعتاً انجانے ہیں….؟

میرے اس سوال پہ اسکی نگاہوں میں فکر مندی کی لہریں مَیں اس طرح محسوس کررہا تھا گویا میں ان لہروں کے کنارے پہ کھڑا آخری شاہد ہوں۔

اس نے مجھ سے کہا جذبات دل کا حصہ ہوتے ہیں اور دل جسم کا مرکز۔ ان سب پر ایک مدمست بھٹیارِن براجمان ہے وہ جب چاہتی، جہاں چاہتی جس راہ پہ چاہتی ہے عقل کے تازی گھوڑوں کو لگادیتی ہے۔ یہ دل ہی ہوتا ہے جو عقل کو نکیل لگاتا ھے۔ میرے سچے رہنما! دل اگر صاف ہو تو دل کی سن۔ یہ جس راہ پہ لے جائے اسی راہ پہ لگ جا۔ جسم کی ماہیت انکے لئے لذت انگیزہے جن  کی ساری راہیں مسدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ وہ چاھے خیالات ہوں یا اجسام ان کی حکومت روح تک تو پہونچ ہی نہیں سکتی۔ اور ہم دونوں کی روحیں ہم دونوں تک کبھی بھی پہونچ سکتی ہیں۔

میری فلائٹ کا اناؤنسمنٹ بھی ہوگیا تھا. وہ جاتے ہوئے مجھے  دیکھنا نہیں چاہتی تھی مگر آنسو کے کچھ قطرے، یادگار تبسم اور خالص جذبات کی ایک دلگیر تڑپ نے ایسی سازش  کی کہ….. کہ کہ… کہ کہ اسے  آنا پڑا، وہ پلٹی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے بالکل قریب آئی…اسکا آنا مجھے آج بھی یاد  ہے۔ وہ ایک مہذب  دوری پہ  رُکی۔ میرے اندر کے زخموں کو بھی لگنے لگا کہ آج انکے مندمل ہونے کا دن ہے۔ وہ رُکی۔ ۔۔وثوق کی  لگام تھامے ہوئے اور اسنے کہا! میرےرہنما، میرے دوست، دعا کرو کہ آج سے تمام لوگ جو تمھارے ارد گرد ہیں، اشیاء جو تمھارے ارد گرد  ہیں، واقعات جو تمہارے اوپر ڈنک مارتے ہیں، خوشیاں جو تمہیں نیلے بادلوں تک پہونچا دیتی ہیں۔۔۔ دعا کرو… دعا کرو سب سازشی ہو جائیں۔ ان کی سازشیں اتھل پتھل مچادیں، دنیا کو اس قدر اوبڑ کھابڑ راستوں پہ لے جائیں کہ ہم دو مسافروں کا پھر آمنا سامنا ہو۔ ہم دونوں کی گلیوں کے مہانے ایسے کھل جائیں کی دھوپ حالات کی چادر میں چھپے حشرات الارض کو موت کے گھاٹ اتار دے۔ میں نے ایک ایسا وجود محسوس کیا جو پہاڑ سے زیادہ طاقتور ہو مگر وہ خود کو کہیں چھپانا چاہتا ہو.۔۔۔ بے بسی سے۔

ہم گلے ملنے کی خواہشمند نہیں تھے نہ ہمارے جسم میں اتنی سکت تھی کہ ہم قربت نامی شئی سے مزید متعارف ہونے کی جسارت کرتے۔

۔۔۔۔

میری ملاقات کا یہ خاکہ زینب العریفی نامی ایک دوشیزہ کے ساتھ گذارے ہوئے چند ساعتوں کےنتیجہ میں  تخلیق ہوا۔ پچھلے دنوں مجھے اسکے مراسلات موصول ہوئے جسمیں یہ گذارش کی گئی تھی کہ اگر حالات بنتے نہیں تو بنائیے۔ مرد صرف مخلوق نہیں ہوتا، مرد خالق بھی ہوتا  ہے۔اور خالق چاہت کا مقبرہ بنا کر اس کو تکتا نہیں رہتا۔ چاہت کی تخلیق کر کے اسے فتح کرنے کی تگودو میں لگ جاتا ہے۔ یہی ادا اسے خالقِ اعلی سے قریب تر کر دیتی ہے۔ جلد آجائیے ورنہ فلسفہ کی ریشمی قبائوں کو بوسہ دینے کے بہانے سے عقلیت کے دود بےپرواہ جذباتیت کے تناور درخت کو چٹ کر جائیں گے۔جذبات پر وجہوں کی دیواریں کھڑی کر دی جایئں گی۔ اب آجائیے۔ پیاروں کو چھوڑنا زیادہ آسان ہے۔

اپنے خیالات کو مکمل کرنے کی راہ میں حائل تمام مخروطی حمائل کو آنکھ بند کرکے جھٹک دیجیئے۔ میں انتظار کی گھڑیوں کواب آپ کی طرف پلٹتی ہوں۔ صبر کے غلّک کو اب پھوڑ دیجیئے۔

زینب العریفی

٣ یولیو، ٢٠١٧

تبصرے بند ہیں۔