اے غزہ والو! تمہاری عظمت کو سلام

شاہ مدثر

اے غزہ والو! تمہاری عظمت کو سلام!

 کیا صبر ہے اور کیا قربانی!

 یہ مقامِ بلند اور یہ عزیمتِ بے مثال !

آج فلسطین میں اہلِ ایمان کو اتنی بڑی آزمائش  کے بعد بھی زندہ وسلامت دیکھ کر ان کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں اور یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ. سرزمینِ فلسطین  کے مسلمان ایک طویل عرصے سے اسرائیلی فوجیوں  کے ظلم اور استبداد کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ان کے جسم کی پور پور زخموں سے چُور ہے اور ان کا بدن خون سے لہولہان ہے۔ لیکن اپنے ایمان اور اپنی آزادی کی حفاظت کے عزم اور جدوجہد میں الحمدللہ انھوں نے کوئی کمی نہیں آنے دی۔ ہر دور میں اور ہرحال میں اپنی قوم کی حفاظت اور بیت المقدس کی آزادی کی جدوجہد میں قربانیوں اور استقامت کی ایک ایسی تاریخ رقم کی ہے جو  ساری دنیا کے مسلمانوں  کے لیے روشنی کا مینار ثابت ہوگی۔ اس وقت فلسطین  میں جو معرکہ اپنے شباب پر ہے، اس میں ایک طرف اسرائیلی فوج اپنے تمام ہتھیاروں کے ساتھ فلسطینی قوم کے سامنے کھڑی ہے،، تو دوسری جانب فلسطینی قوم کے نوجوان،بوڑھے، بچے اور خواتین سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں، اس معرکہ میں اب تک 60سے زائد فلسطینیوں نے جامِ شہادت نوش کیا ہے،۔ احتجاج اور قربانیوں کا یہ حال ہے کہ شہدا کے سروں کی فصل کاٹی جارہی ہے مگر سرفروشوں کی فراوانی میں کوئی کمی نہیں۔ ہر گھر ماتم کدہ بن گیا ہے مگر خون اور آنسو اس تحریک کے لیے استقامت بن  رہےہیں اور فلسطین  کا بچہ بچہ آزادی کا علَم لے کر اُٹھ کھڑا ہوا ہے، فلسطینی عوام نے واپسی کی کشتیاں جلا دی ہیں۔ اب دشمن ان کی کنپٹی پر بندوق رکھ کر انھیں خاموش نہیں کرسکتا۔ یہ اہلِ غزہ تو اللہ کے ہاں بھی سرخرو ہوں گے اور دنیا میں بھی سربلند ہیں۔

سوال یہ ہے کہ پوری امت جو ڈیڑھ ارب نفوس پر مشتمل ہے اورپچاس سے زائد مسلم ممالک ہیں، ان کی طاقتیں کہاں کھوگئی؟ اے کاش کہ غیرت ایمان جاگ اٹھے اور مسلمان حکمران اپنے اس بنیادی فریضے کی ادائیگی کے لیے متفق ومتحد ہوجائیں۔ آزاد ملکوں کے مسلمان حکمران کیا سوچ رہے ہیں۔ ؟وہ تو بے بس نہیں، البتہ  بے حس وبے حمیت ضرور ہیں۔ اللہ کرے کہ ان میں سے کسی کے اندر غیرت ملی جاگ اٹھے اور وہ مظلوموں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے قابل ہوجائیں۔

اے ملت اسلامیہ!

گزشتہ دنوں کا تازہ ترین حملہ سفاکی کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ معصوم بچے، بے گناہ عورتیں، بزرگ مرد اورروزہ دار فلسطینی روزے اور نماز کی حالت میں اسرائیلی بموں کا نشانہ بن رہے ہیں۔

ہائے دلخراش مناظر، دل رنج والم سے پاش پاش ضرور ہوچکا ہے۔ ‌ آنکھیں ان معصوموں کی تڑپتی ہوئی بے گور وکفن لاشوں کو اور موت کے انتظار میں بیٹھے ہوئے لاڈلوں کو دیکھ کر دل ضرور فگار ہوچکا ہے مگر اللّٰہ تعالیٰ کی مددونصرت کا وعدہ شاملِ حال ضرور ہے۔۔کیونکہ مسلمانوں کو بھی دین اسلام کی طرح ابدیت حاصل ہے کہ وہ دنیا میں مثل خورشید اپناسفر طے کرتی ہے کہ مغرب میں ڈوبتی ہے تو مشرق میں ابھر جاتی ہے۔ اس قوم کو دنیا کی کوئ سفاک قوم یکسرختم نہیں کرسکتی۔ یہ ایسی قوم ہے کہ اس کا مطلوب ومقصود شہادت ہے،یہ بزدل قوموں کی طرح چھپ چھپا کر جینے والی قوم نہیں ہے۔یہ شیر کا دل اور حق کی خاطر شاہین کا تجسس رکھنے والی قوم ہے اس کو تم کہاں کہاں کتنے دنوں تک کچلوگے۔ مسلمان کا شیوہ زمانے کے رُخ پرچلنا، اور مصائب اور مشکلات کے آگے سپر ڈالنا نہیں بلکہ مخالف لہروں سے لڑنا اور حالات کے رُخ کو موڑنا ہے۔۔

  تندی بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے

امت مسلمہ کی بے حسی

اسرائیلی فوج کے مظالم ہر انتہا کو پار کرگئے ہیں اور دنیا کی بے حسی افسوس ناک اور شرم ناک ہے لیکن یاد رہےکہ مسلم حکمرانوں اور پوری اُمت مسلمہ کے لیے خاموش تماشائی کا کردار دنیا اور آخرت دونوں میں خسارے کا سودا ثابت ہوگا قرآن نے مسلمانوں کے لیے صحیح موقف کو بالکل واضح کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَاوَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا o (النساء75 )

آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔

لیکن افسوس  کہ ہم اپنا سبق بھول چکے، اور اپنی ذمہ داریوں سے راہِ فرار اختیار کرتے نظرآرہے ہیں۔ جان لیں کہ فلسطینیوں سے ہمارا ایمانی رشتہ ہے، ہمارے یہ دینی بھائی قبلۂ اول کی آزادی کی لڑائی لڑرہے ہیں، ضرورت تو اس بات ہے کہ ہم اپنے بھائیوں سےصبر و استقامت   حاصل کریں، ان کی قربانیوں کا درس معاشرے میں عام کرتےرہیں، بیت المقدس کی آزادی کا شعور امت میں بانٹیں، اپنی مخصوص دعاؤں میں فلسطینی قوم کو یاد رکھیں،

لیکن صد افسوس ہماری بے حسی پرہمیں فلسطینی بھائیوں کی کوئی خبر نہیں، ہم تو اپنے مقاصد کو پورا کرنے میں مصروف ہیں۔ بلکہ ہمارے دماغوں پر ائی،پی،ایل کرکٹ کا نشہ چڑھ چکا ہے، ہرطرف زبانوں پر کرکٹ کے تذکرے ہیں، بالخصوص نوجوان طبقہ اس نشہ میں مست ہے۔

عموماً یہ نوجوان نماز کے بعد بھی مسجد کے باہر کھڑے ہوکرکرکٹ پراپنی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے نہیں شرماتے۔ عام حالات میں اس میں کوئی قباحت بھی نہیں، مگر  فسلطین کی ہولناک صورت حال جاننے کے باوجود یہ تبصرے زوال کی علامت ہیں۔

الاماشاءاللہ۔۔ معاشرے میں ایسے نوجوان ابھی الحمدللہ موجود ہے جن کے ایمان زندہ ہے،وہ فلسطینیوں پر تبصرہ  کرتے ہیں، ان کے حق میں فکرمند بھی رہتے ہیں۔ یقیناً آج ہمارے درمیان  کوئی عمر بن خطاب اور صلاح الدین ایوبی نہیں ہے، لیکن ان جیسا عزم، حوصلہ،ہمت،جرات،استقامت فلسطینی قوم کے اندر موجود ہے۔

اے کاش کہ ساری امت میں یہ روح زندہ ہوجائے۔ اے فرزندانِ اسلام! ذرا سوچو، کہیں ہماری حالت بھی فلسطینوں بھائیوں جیسی ہوگئی تو تب ہم کیا کریں گے؟

ماہِ رمضان کی ان مبارک لمحوں میں فلسطینوں بھائیوں کے حق میں ضرور دعائیں کریں۔ ان کے عزم و حوصلے کی سچی داستانیں مسلمانوں میں عام کریں۔ تاکہ ناسازگار حالات میں ہم ثابت قدم رہے سکیں۔  اللّٰہ تعالیٰ اہلِ غزہ کی مدد فرمائیں، اور انہیں دنیاوآخرت میں سرخروئی عطاکریں. آمین۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔