بابری مسجد کا وصیت نامہ

ڈاکٹر ایم اعجاز علی
(سابق ایم پی)
ایودھیا:۔صبح ہونے والی ہے۔دسمبر 1992 کی 6؍تاریخ ہے۔ خدا جانے آج میرے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔ پورے ملک میں اس کو لے کر ہلچل ہے۔حالانکہ مرکزی حکومت نے میرے ساتھ کسی طرح کا غلط نہ ہونے کی ذمہ داری لے رکھی ہے۔ریاستی حکومت نے میری حفاظت کے لئے سپریم کورٹ میں حلف نامہ تک دے رکھا ہے۔ لیکن پھر بھی رات بھر مجھے نیند نہیں آئی۔ کچھ باتیں میرے سینے میں محفوظ ہے۔جسے میں وصیت کے طور پر تمہارے سامنے رکھ دینا چاہتی ہوں۔مغل بادشاہ اول کے سپہ سالار میر باقی نے نماز پڑھنے کے لئے 425سال پہلے مجھے قائم کیا تھا۔ اسلامی قانون کے مطابق مجھے جائز زمین پر ہی قائم کیا جا سکتا ہے۔آج اس علاقہ میں مندر ، گرجا گھر ، گرودوارہ سب ہے لیکن نہ جانے میں کس سازش کی شکار ہو گئی کہ آج میری جان پر بن آئی ہے۔بہر حال تجربہ کی کچھ بات رکھ لو تاکہ مستقبل میں تمہارے کام آئے ۔ اگر آج میں شہید کر دی گئی تو بھی کہانی یہیں ختم نہیں ہوگی کیونکہ یہ دوبھائیوں کے بیچ دعویداری کا معاملہ ہے۔ حالانکہ 1949-50سے اب تک مقدمہ چل ہی رہا ہے لیکن جس معاملے میں سیاست داخل ہو جائے وہ معاملہ جلد ٹھنڈا نہیں ہوتاہے۔آئین ساز ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی برسی کی ہی طر ح ہر سال 6دسمبر کو مجھے لے کر بھی تب لوگ سالگرہ منانا شروع کر دیں گے۔ایک بھائی یوم فتح منائے گا تو دوسرا بھائی یوم سیاہ۔اس سالگرہ کی تپش میں ڈاکٹر امبیڈکر کی برسی پیچھے نہ چلی جائے جب کہ اب تک تو 6دسمبر کو پورے ملک میں بابا صاحب پر ہی دھومچتی رہے ہے ۔ مجھے تو لگتا ہے کہ 6دسمبر کی تاریخ انتخاب کرنے کے پیچھے بھی ایک سازش ہی ہے۔لیکن میں تم سے ایک بات کہہ دینا چاہتی ہوں کہ اس مسئلے پر دونوں بھائی بیٹھ کر آپس میں سمجھوتہ کر لو تو زیادہ بہتر ہوگا ورنہ ووٹ کی سیاست کی خاطر اس طرح کی کشیدگی ملک کے مفاد اور سماج کے مفاد میں کبھی صحیح ثابت نہیں ہوئے ہیں۔آپ سبھی لوگ غور کرو کہ گاندھی جی کی قیادت میں آزادی کی لڑائی غریبی ، مہنگائی ،بے روزگاری ،بد عنوانی ،لوٹ ۔ کھسوٹ جیسے مدعوں کو سامنے رکھ کرہی کی گئی تھی۔فرنگی بھاگے اور 69برسوں سے یہاں ہندوستانیو ں کی حکومت چل رہی ہے لیکن بنیادی مسائل آج تک حل نہیں ہوئے بلکہ ان کا گراف دنوں دن اونچا ہوتا چلا گیا ہے۔دراصل آزاد ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں نے ووٹ کی سستی سیاست میں ایسے مذہبی مدعوں کو قومی سیاست میں بلند رکھا کہ بنیادی مسائل کی اندیکھی ہوگئی جس نے ملک کے لوگوں کو بری طرح سے جکڑ لیا ہے۔ گذشتہ 60-70برسوں سے چلی آرہی سیاست کا یہ سلسلہ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ اس سے ملک میں آخر کار لاقانونیت پھیل جائے گی۔لہٰذا میں تم سبھوں سے التجا کرتی ہوں کہ مذہبی مدعوں کو چھوڑ روٹی ، کپڑا اور مکان کی لڑائی لڑو۔ بجلی ، سڑک اور پانی کو سیاسی مدا بناؤ ۔ تحریک سے کھیت ۔ کھلیان ، اناج اور فصل کی پیداوار کی طرف عام لوگوں کا رُخ موڑو۔ یاد رکھو مذ ہب صرف جینے کی راہ کا نام ہے،یہ آپس میں لڑنا جھگڑنا نہیں سکھاتا ہے۔ہندوستان میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ تمہارا یہ وطن زمین ،پانی، آب و ہوا سے بھرا پڑا ہے اور ہندوستانی قوم بھی بہت محنت کش ہے۔ پھر یہاں دانشوروں کی بھی کمی نہیں ہے۔ کل ملاکر ہم دنیا بھر میں پھر سے نمبر۔1طاقت بن کر ابھر سکتے ہیں، شرط ہے کے سیاست کی سمت کی تبدیلی ہو ۔ اب تک کے سیاسی رہنماؤں سے سیاسی سمت بدلنے کی امید نہیں کی جا سکتی ہے ۔ اس کام کے لئے کسی ایسی نئی لیڈر شپ کو سامنے لانا ہوگا جو سماجی خدمت میں ،کھیت۔ کھلیان، پگڈنڈی،گاؤں ، گھر ، تھانہ ،کورٹ وغیرہ کا چکر کاٹتے ہوئے سیاست کی گلیاری میں داخل ہواہو، چاہے وہ گائے چرانے والے، میلا سر پر ڈھونے والے یا چائے بیچنے والے کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔
بہر حال فجر کی نماز کا وقت ہو چلا ہے ا ب مجھے اجازت دو۔ آج بچ گئی تو پھر ملیں گے اور اگر نہیں بچی تو میری شہادت کے صدقہ میں اتنا ہی کرنا کہ ہر سال 6دسمبر کو اس عزم کے ساتھ میری سالگرہ مناناکہ ملک سے غریبی ، بھوکمری، بے روزگاری ، بد عنوانی،شراب خوری کو دور کرنا ہے اور ملک کے سبھی لوگوں کو مل کر ہندوستان کو’’عظیم طاقت ‘‘ بنانے کی مہم چلانا ہے۔ یاد رکھو ہندوستان جیسے ملک کو دیوالیہ سے پہلے روزی ۔ روٹی ، وددیالیہ اور شوچالیہ چاہئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بابری سے پہلے ملک کے باشندوں کو برابری بھی چاہئے۔ اچھا تو ہم چلتے ہیں،خداحافظ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔