ملک زادہ کو اعظم گڑھ کا خراج محبت

حفیظ نعمانی
محب و عزیز عمیر منظرصاحب تشریف لائے اور چند منٹ کے بعد انھوں نے بیگ سے ایک کتاب نکال کر دی اور کہا کہ ملک زادہ ڈاکٹر منظور پر جو آل انڈیا سیمینار اعظم گڑھ میں ہوا تھا یہ کتاب اس میں پڑھے گئے مقالوں کا مجموعہ ہے۔ میری دلچسپی کو دیکھتے ہوئے مزید وضاحت کی کہ یہ ممتاز ادیبوں کو موضوع دے کر لکھوائے گئے مقالے ہیں۔ یقیناآپ پسند کریں گے۔
یہ عام بات ہے کہ کسی بھی شخصیت پر کوئی کتاب چھاپی جاتی ہے اور مضمون نگار کو پابند نہیں کیا جاتا تو کتاب کا تین چوتھائی حصہ ان مضامین اور واقعات سے بھرا ہوتا ہے جو ہر کسی کو اچھے لگتے ہیں۔ میرا مزاج ہے کہ میں کتاب کو ابتدا سے انتہا تک پڑھتا ہوں۔ اگر کوئی پڑھا ہوا حصہ سامنے آئے اور پھر آئے یا بار بار آئے تو وہ کسی سے بھی برداشت نہیں ہوتا۔ جناب حکیم نازش احتشام اعظمی صاحب نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیاہے کہ ۳۵۷ صفحات کی کتاب میں سب کچھ اگر نہیں تو زیادہ تر بلکہ بہت زیادہ نیا ہے۔ اگر کوئی بات بار بار آئی ہے تو وہ صرف کب پیدا ہوئے کہاں پیدا ہوئے؟ گاؤں کا نام غیر شاعرانہ بلکہ کریہہ الصوت یا دیوار اور چھت اور گاؤں کی گلیاں یا ابتدائی تعلیم، پھر اعلیٰ تعلیم پر پی ایچ ڈی۔یہ باتیں اگر مضمون نگار کی اجازت سے حذف کرکے صرف ابتدا کے ایک یا دو مضامین میں رہنے دی جاتیں تو کتاب اور خوبصورت ہوجاتی۔
ڈاکٹر صاحب ہشت پہلو شخصیت کے مالک تھے۔ حکیم نازش صاحب نے اس کا فائدہ اٹھایا اور ان کے ہر پہلو پر موزوں شخصیت سے مضمون لکھوائے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ایک شاہ کار تیار ہوگیا۔ حکیم صاحب نے پروفیسر خالد محمود صاحب سے درخواست کی تھی کہ وہ ملک زادہ کی تحریروں میں چھپے سفر نامے کو مضمون بنا دیں اس مسئلہ میں پروفیسر صاحب کو چھان بین میں ناکامی ہوئی اور انہیں یہ لکھنا پڑا کہ ڈاکٹر صاحب نے سفر تو بہت کیے لیکن سفر نامہ نہیں بنایا۔ خالد محمود صاحب رقم طراز ہیں کہ سفر نامہ وہ ہے جس میں سفر نامہ نگار نے بیرونی دنیا کے ہر منظر کو اپنے اندر جذب کیا ہو اور اپنے احساسات، جذبات اور تجربات کو قلم بند کیا ہو۔ ملک زادہ صاحب کا طرز سفر یہ رہا کہ ہوائی جہاز سے اترے ، قیام گاہ پہنچا دئے گئے۔ وہاں سے مشاعرہ گاہ پہنچادئے گئے۔ مشاعرہ سے فارغ ہو کر قیام گاہ آئے اور سو گئے۔ اور مشاعرہ کس نے کرایا۔ کہاں ہوا۔ کون کون شاعر تھے۔ کسے زیادہ داد ملی اور انہیں نذرانہ کتنا ملا؟ پروفیسر صاحب کے بقول ملک زادہ صاحب نے خود ہر جگہ کی سیر کی مگر اس میں اپنے قاری کو شریک کرنے کی کوشش نہیں کی۔
ہر مضمون نگار کے دماغ پر ان کی سوانح ’’رقص شرر‘‘ چھائی ہوئی رہی اور وہ کتاب واقعی اتنی بھاری ہے کہ جو کوئی ملک زادہ پر کچھ بھی لکھے گا اس میں کہیں نہ کہیں رقص شرر آجائے گی۔ اور اس لیے آجائے گی کہ وہ سب رقص شرر میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ ۳۵۷ صفحات میں ۳۳ مقالے ہیں اور ہر مقالہ ایسا ہے کہ اس سے ایک نئی شکل سامنے آتی ہے۔کہیں کہیں اعظم گڑھ کے ذکر میں مولانا عبدالسلام صاحب اور علامہ شبلی کے ہی دوسرے شاگرد اقبال سہیل کا ذکر کئی بار نظر آیا ہے۔ ورنہ ان کا مولانا آزاد کو موضوع بنانا اور ان کی عظمت کا پورا احترام کرتے ہوئے غبار خاطر کے مولانا آزاد میں وہ کہنا جو ایک ناقد کو کہنا چاہیے ملک زادہ کو بہت بلند کردیتا ہے۔
لکھنؤ والوں کو بجا طور پر ناز تھا کہ انھوں نے ڈاکٹر ملک زادہ کا حق ادا کرنے میں ا متیاز حاصل کرلیا ہے۔ لیکن اعظم گڑھ نے آل انڈیا سمینار کرکے اور اتنے بلند اور با مقصد مقالے لکھوا کر اپنا پرچم بہت بلند کرلیا۔ یہ کتاب جس کا نام ’’ملک زادہ منظور احمد شخصیت اور فن‘‘ ہے ایسی یا اس سے بہتر کتاب اب ترتیب دینا آسان نہیں ہوگا۔اس کتاب میں بھی بار بار کہا گیا ہے اور جو ہمیشہ کہا جاتا رہے گا کہ ان کی نظامت نے ان کی پوری شخصیت کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ یہ بات وہ ہے جو ہر ایک نے لکھی ہے۔ اور کیسے نہ لکھتا کہ یہی حقیقت ہے ۔ لیکن میں نے اپنے ایک مضمون میں اس کا اشارہ کیا تھا کہ یہ ان کا شوق نہیں ان کی ضرورت تھی۔ وہ اگر سعودی عرب میں ہوتے اور ان کی دو بیگمات اور دونوں کے بچے ہوتے اور وہ بغیر اعتراض اور احتجاج کے ایک رات ایک گھر میں اور دوسری رات دوسرے گھر میں رہتے اور سوتے اور یہ معمول کی بات ہوتی تو وہ ہر رات شہر سے باہر رہنے کی کوشش نہ کرتے۔ وہ خود لکھتے ہیں کہ دبئی کے ایک مشاعرہ میں ’’ہوٹل ہالی ڈے ان ‘‘ میں بھیج دیا جہاں تنہا میرا قیام تھا۔ ہالی ڈے ان کی صاف شفاف اور سکون پرور فضا میں کشش تو بے پناہ تھی۔ پھر ہندوستان کے ان قصباتی مشاعروں کو یاد کیا جن میں کسی ایک کمرے میں زمین پر گندہ فرش بچھا تھا اور دو درجن شعراء کے ساتھ راتیں گذاری تھیں اور اپنا سامان اٹھا کر پیدل بس اڈے تک آنا پڑا تھا۔
اب ذرا تصور کیجیے کہ دبئی کے ہوٹل ’’ہالی ڈے ان‘‘ کی کشش اور دبئی کے معیار کا معاوضہ گھر کی حسین راتیں چھوڑ کر ڈاکٹر صاحب چلے گئے تو اس گندہ فرش پر جہاں دو درجن شاعر متشاعر پڑے تھے وہاں رات گذارنے کے لیے ایک اتنی بڑی شخصیت کو کیا ضرورت پڑی تھی؟ مجھے یاد ہے سنبھل سے فرمائش آئی کہ اس سال مشاعرہ میں ساغر اعظمی کو بھیج دیجئے۔ وہ بہت لحاظ کرتے تھے۔ ہم نے ان سے کہا تو جواب ملا کہ حکم سر آنکھوں پر آپ سنبھل والوں سے کہہ دیجیے گا کہ میرا قیام وہاں کرائیں جہاں فلش ہو۔ غور کیجئے کہ کیا حیثیت تھی ساغر کی ملک زادہ کے سامنے؟ اس پوری کتاب میں ایک کمی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی دوہری زندگی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اگر ان سے یہ شرعی غلطی نہ ہوئی ہوتی تو نظامت ہوتی مگر مہینے میں زیادہ سے زیادہ دو چار مشاعروں کی۔
ان باتوں کا اشارہ میں پہلے بھی کرچکاہوں ۔ وہ میرے ایسے دوست تھے کہ ایک دن دو بجے پریس آئے اور کہا تین گھنٹے خالی کرو لیلا سنیما میں امراؤ جان لگی ہے۔ سالی کو پڑھاتے پڑھاتے برس گذر گئے ذرا دیکھیں تو کہ یہ وہی ہے یا کوئی اور؟ کبھی اس پر غور کرنے کی کوشش نہیں کی کہ میرے اندر انھوں نے کیا دیکھا کہ دوستی نہیں عاشقی کا تعلق رکھا۔ شاید جو باتیں کسی سے نہ کہی ہوں وہ بھی کہہ دیا کرتے تھے۔ میں نہیں بتا سکتا کہ دوسری شادی کا، جذبات کا دور ختم ہونے کے بعد ان کے اوپر کتنا بوجھ تھا۔ ان کا دادھیال کچھوچھہ شریف کے بزرگوں سے ملتا تھا اور نانیہال شیخ الاسلام حضرت مولانا مدنی سے اور انھوں نے لکھنؤ کے اس ماحول میں ایک شیعہ لڑکی سے نکاح کرلیا۔ وہ اگر ایک ممتاز استاذ وہاں نہ ہوتے جہاں ایک سے ایک حسین لڑکی پڑھ رہی تھی تو بات دوسری تھی۔ اس شادی کے بعد انہیں اور نہ جانے کیسے کیسے تبصروں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کو اپنے آپ کو نظامت میں جس چیز نے جھونکا وہ ان کی یہ محبت تھی جس کی اتنی بڑی قیمت انہیں ادا کرنا پڑی کہ وہ ایک عظیم شاعر اور عظیم ناقد ادیب اور دانش ور تسلیم نہیں کیے گئے۔
ملک زادہ کی نثری تصانیف متعدد ہیں اور ان میں سے ہر ایک کو کسی نہ کسی حیثیت سے اہمیت بھی حاصل ہے لیکن ان میں شاہ کار کا درجہ رقص شرر کو حاصل ہے۔ رقص شرر کے لیے ہی سردار جعفری کا یہ لکھنا کہ وہ آل احمد سرور کی ’’خواب باقی ہیں‘‘ مسعود حسین خاں کی ’’ورودِ مسعود‘‘ اور اختر الایمان کی ’’اس آباد خرابے میں‘‘ سب سے ممتاز ہے معمولی بات نہیں ہے۔ اور دبے دبے یادوں کی برات سے تو ہر کسی نے اسے بہت بلند کہا ہے۔
ان کا شعری مجموعہ شہر ستم صرف یہ ثابت کرتا ہے کہ اگر وہ اس میدان میں سنجیدہ ہوتے تو نہ جانے کتنے بڑوں کے برابر یا ان سے بھی بلند ہوتے۔ مگر مٹھی بھر غزلوں اور چند نظموں سے انھوں نے یہ ثابت کیا ہے اگر چاہتا تو دریا میں بھی گھوڑے دوڑاتا۔
اس پورے ذخیرہ میں ڈاکٹر فیاض حمید علیگ ہی ایک ایسے مقالہ نگار ہیں جنھوں نے ڈاکٹر صاحب کی صرف گل پوشی نہیں کی ہے بلکہ نظامت میں عمر قریشی کو ان سے اوپر دکھایا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ جن لوگوں نے عمر قریشی کو دیکھا ہے۔ وہ گواہی دیں گے کہ وہ واقعی جادو گر تھے اور تمام رات مجمع چاہے جیسا ہوا سے قابو میں رکھتے تھے۔ انھوں نے رقص شرر کے بارے میں بھی لکھا ہے کہ اس میں خود ستائی ہے اور خود نمائی کی بہت سی باتیں ہیں۔ ا نھوں نے دوسری باتوں کے علاوہ نظامت کو ہی ۔ان کا کہنا ہے کہ مشاعروں کا ناظم اسٹیج پر دنیا کا سب سے بڑا منافق ہوتا ہے جس کو ایک لفافہ کے عوض ساری رات منافقت کرنا پڑتی ہے۔ اگر لب و لہجہ سخت استعمال کیے بغیربھی کہا جائے تو یہ تو حقیقت ہے کہ ناظم کو جھوٹ بھی بولنا پڑتا ہے۔ اور ڈاکٹر صاحب شاید یہ بات ہم دونوں سے زیادہ جانتے تھے۔ مگر صرف لفافہ ہی نہیں اور بھی کچھ تھا جو انہیں دھرتی دھرتی پربت پربت لئے پھرتا تھا۔ اسے وہی جانتے ہیں یا ان کے رازدار۔
بہرحال وہ سب ان کے ساتھ گیا۔ اس وقت تو میرے پیش نظر یہ کتاب ہے جس نے ان کا حق ادا کردیا ہے۔ شاید حکیم نازش اعظمی جیسی محنت کوئی اور نہ کرسکے۔ میرے پاس یہ کتاب نہ تبصرے کے لیے آئی تھی نہ تعارف کے لیے۔ میں صرف حکیم صاحب کو خراج محبت ادا کرنے کے لیے لکھ رہا ہوں جن سے میری کوئی ملاقات نہیں ہے۔ بغیر اجازت کے میں نے اتنا لکھ دیا ہے تو یہ بھی لکھ دوں کہ دہلی میں البلاغ پبلی کیشنز ابوالفضل انکلیو نئی دہلی 110025ملک زادہسے یہ کتاب 500/-روپے میں ملے گی۔

تبصرے بند ہیں۔