باسط ؔ بھوپالی کی صحافت اور نثرنگاری

عارف عزیز(بھوپال)

سرزمین بھوپال کے ممتاز شعراء کی اگر مختصر ترین فہرست بنائی جائے تو اس میں محمد عبدالباسط بھوپالی کا نام ضرور شامل ہوگا، بعض وجوہ سے انہیں اپنے ہم عصر اور ساتھی شعری بھوپالی کی طرح ملک گیر شہرت حاصل نہیں ہوئی لیکن شاعری کے معیار اور وزن کے لحاظ سے وہ کسی طرح شعری بھوپالی سے کم نہیں بلکہ ایک منفرد مقام کے حامل ہیں جن کے شعری کمالات پر صفحات کے صفحات رقم کئے جاسکتے ہیں۔
لیکن میراموضوع باسط بھوپالی کی شاعری نہیں نثرنگاری اور صحافتی خدمات ہیں۔ اس حیثیت باسط صاحب زیادہ نمایاں نہیں ہوسکے، جس کی وجہ ان کا فطری رجحان ہے، جو شاعری کی طرف مائل تھا اور بڑے سے بڑے مضمون کو وہ ایک مصرعہ یا شعر میں باندھ دیا کرتے تھے ان کا مشہور شعر ہے ؂
سارا عالم آئینہ باسط
جیسی نگاہیں، ویسے نظارے
اس شعر کی تفسیر وتشریح نثر میں کی جائے تو اس کے لئے ایک طویل مضمون درکار ہوگا، پھر بھی وہ جذب وتاثر پیدا نہیں ہوسکتا، جو غزل کے اس شعر میں سمٹ آیا ہے، تاہم باسط بھوپالی کی نثر بھی اپنی شستگی وشائستگی کے باعث قارئین کی توجہ مبذول کرا لیتی ہے، جس پر نہ سطحیت کا الزام عائد کیا جاسکتا ہے نہ اسے کمتر مانا جاسکتا ہے۔
باسط بھوپالی پہلی مرتبہ صحافت کے شعبہ میں کوئی 1938ء میں داخل ہوئے، جب وہ ایک سیاسی ہفت روزہ ’’بھوپال ٹائمز‘‘ کے اعزازی مدیر بنائے گئے یہ وہی دور تھا جب بھوپال ریاست کے عوام شخصی اقتدار کے زیر سایہ سانس لے رہے تھے اور اخبار نکالنا یا اس کا ایڈیٹر بننا جان جوکھم کا کام تھا، لیکن باسط بھوپالی نے ملک وقوم کے تئیں اپنے فرائض کا احساس کرکے نہ صرف اس اخبار کی ذمہ داری قبول کی بلکہ اخبار کے تعلق سے جملہ امور کو مستقل مزاجی کے ساتھ انجام دے کر بھوپال کے شہریوں میں سیاسی بیداری پیدا کرنے کیلئے اپنی قلمی کاوشوں کا استعمال کیا ۔ شاعر کی حیثیت سے لوگ انہیں پہلے سے جانتے تھے، ان کے اشعار پڑھے اور سنے جاتے تھے، عوامی جلسوں میں ان کی پرجوش نظمیں کورس کی شکل میں گائی جاتیں اور پسند کی جاتی تھیں۔ اب بھوپال کے شہری اس ہفت روزہ کے صفحات پر ان کی پرجوش تحریریں پڑھنے اور ان پر سردھنے لگے لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصہ تک جاری نہیں رہ سکا کیونکہ باسط صاحب ’’بھوپال ٹائمز‘‘ کے لئے اپنی ذہنی اور قلمی صلاحیتیں صرف کرنے میں اتنے منہمک ہوگئے کہ اپنی معاشی ضروریات پر خاطر خواہ توجہ نہ دے سکے، یہاں تک کہ ان کی اقتصادیات درہم برہم ہوگئیں اور آخر کار انہیں اپنے وطن کو خیرباد کہنا پڑا۔ ۱۵۔۲۰ سال غریب الوطنی کی زندگی گزارنے کے بعد باسط بھوپالی کو وطن کی محبت پھر واپس لے آئی لیکن اب ان کا شہر بھوپال پہلے جیسا نہیں رہا تھا، اس میں انقلابی تبدیلیاں آگئی تھیں۔ ملک کے آزاد ہونے کے بعد بھوپال ریاست بھی انڈین یونین میں ضم ہوگئی، پورے ہندوستان کی طرح یہاں کے شہری بھی اگرچہ آزاد فضا میں سانس لے رہے تھے لیکن شخصی اقتدار کی جگہ چیف کمشنری راج نے لے لی تھی ، عوام بالخصوص مسلمان اس کے ظلم واستبداد کا شکار بن رہے تھے۔ باسط صاحب کو اس نئی فضا میں خود کو ڈھالنے میں کافی وقت لگا، انہوں نے زندگی کا ایک طویل عرصہ اس شہر میں گزارا تھا عوام وخواص ان کی شخصیت اور خدمات سے واقف تھے، کافی جدوجہد کے بعد انہیں میونسپل محکمہ میں ملازمت مل گئی اور مئی 1956ء میں مقامی میونسپل کے ترجمان کی حیثیت سے ایک جریدہ ’’ناگرک‘‘ نکالنے کا فیصلہ ہوا تو اس کا ایڈیٹر باسط بھوپالی بنادیئے گئے، یہ ایک سہ ماہی رسالہ تھا جو 1956ء سے 1958ء تک باسط صاحب کی ادارت میں شائع ہوتا رہا، یہ پرچہ اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں نکلتا تھا، اردو ایڈیٹر کے فرائض باسط بھوپالی انجام دیتے رہے۔
’’ناگرک‘‘ کیونکہ میونسپل کا رسالہ تھا اور اس محکمہ کا براہ راست تعلق شہری ضروریات ومسائل سے رہتا ہے، خاص طور پر حفظان صحت، شہر کی صفائی، آب رسانی، مکانات کی تعمیر، تفریح گاہوں اور پارکوں کا انتظام، سڑکوں کی درستی، موسمی امراض کا مقابلہ اس محکمہ کی ذمہ داری تھی اور اس بارے میں شہریوں کی تربیت ونگہداشت بھی اس کے مقاصد میں شامل تھے۔ ’’ناگرک‘‘ کے ذریعہ باسط صاحب نے ان ہی امور پر توجہ دی، ایک طرف عوام میں شہریت کے تئیں ذمہ دار پیدا کرنے کی کوشش کی تو دوسری جانب وہ محکمہ بلدیہ کو عوام کی ضروریات ومسائل کی طرف توجہ دلانے میں مصروف رہے تاکہ اس محکمہ کے ذریعہ شہریوں کی خدمت میں کسی طرح کی کوتاہی نہ ہوسکے۔
باسط بھوپالی بنیادی طور پر ایک شاعر تھے لیکن روز اول سے ’’ناگرک‘‘ کے صفحات پر انہوں نے جو لکھا اس کے لئے زبان نہایت سادھا اور سلیس اختیار کی، ’’ناگرک‘‘ کے پہلے شمارے میں ’’پہلی بات‘‘ کے عنوان سے تحریر ایڈیٹوریل سے بھی اس کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ شہری مسائل کے تئیں عوام کے ذہن سازی کو کتنی اہمیت دیتے تھے ملاحظہ ہو:
’’ناگرک‘‘ کا مطالعہ ہر پڑھے لکھے شہری کے لئے مفید ہے، اس میں جہاں آپ کو میونسپلٹی کی ضروری کارروائیاں اور قواعد ملیں گے، وہیں آپ کو حفظان صحت وغیرہ کے متعلق اچھی معلومات بھی حاصل ہوں گی۔ میونسپلٹی اور اہل شہر کا تعلق اہل نظر سے پوشیدہ نہیں۔ ہماری تمام سماجی اور شہری ضروریات کا کچھ نہ کچھ تعلق میونسپلٹی سے ضرور ہوتا ہے۔ شہر کی صفائی، آب رسانی، مکانات کی تعمیر، سڑکیں بنانا، نالیوں کو درست حالت میں رکھنا، وبائی بیماریوں کے انسداد کیلئے دوڑ دھوپ، آگ بجھانے کے لئے فوری انتظام کرنا، تفریح گاہوں اور پارکوں کو بنانا اور ایسے کتنے کام ہیں جو میونسپلٹی کرتی ہے اور ہر شہری کا ان تمام کاموں سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ جہاں میونسپلٹی ہماری خدمت کرتی ہے اور ہماری بھلائی کے لئے اچھی اچھی اسکیمیں چلاتی ہے۔ وہیں وہ مختلف قسم کے قواعد وضع کرتی ہے، ٹیکس بھی وصول کرتی ہے۔ اس لئے ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم میونسپلٹی کی تمام کارروائیوں سے خبردار رہیں، جن سے غفلت ہمارے لئے نقصان دہ ہوسکتی ہے، ناگرک کی زبان آسان اور عام فہم ہوگی تاکہ اس کے پڑھنے والوں کا حلقہ زیادہ سے زیادہ وسیع ہوسکے۔‘‘
(ناگرک ماہ مئی ،پہلا شمارہ صفحہ اول)
باسط بھوپالی بنیادی طور پر ایک تخلیق کار تھے اور شعر وادب سے ان کی وابستگی نہایت گہری تھی اس لئے انہوں نے اپنے رسالہ کو شہری مسائل اور بلدیہ کے کاموں کی روئیداد بیان کرنے تک محدود نہیں رکھا بلکہ شروع سے اس پر توجہ دی کہ بھوپال کے شعر وادب کی رفتار کا بھی اس سے اندازہ ہو۔ اس مقصد سے انہوں نے ہم عصر شعراء کی تخلیقات کو ہی ’’ناگرک‘‘ کے صفحات پر جگہ نہیں دی، اہم تخلیقات کے تراجم شائع کرنے کے ساتھ ساتھ اس عہد کی اہم سیاسی شخصیات کا تعارف بھی کرایا، ان کی یہ بھی کوشش رہی کہ نئے لکھنے والوں کو ’’ناگرک‘‘ کے صفحات پر موقع ملے تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو، ایسے ہی بعض فن کاروں کی تخلیقات پر انہوں نے نوٹ لکھ کر اس کی اہمیت کو دوبالا کرنے کی سعی کی، حمیدیہ کالج میں اردو کے اسسٹنٹ پروفیسرآفاق احمد نے ’’گیت اور عمل‘‘ کے عنوان سے دوگیتوں کا اردو میں ترجمہ کیا تو اس کو اپنے تعریفی نوٹ کے ساتھ شائع کیا۔ اسی طرح نوجوان ارشد صدیقی نے انگریزی نظموں کا اردو میں ’’بسنت کا آخری پھول‘‘ کے عنوان سے ترجمہ کیا تو اپنے نوٹ کے ساتھ اسے بھی جریدے کی زینت بنایا، انہوں نے ’’ناگرک‘‘ کی تدوین کے ساتھ جہاں اہم موضوعات پر ادایئے تحریر کئے وہیں دیگر عصری امور پر بھی قلم اٹھایا، اگست 1956ء کے شمارہ میں ایسا ہی ایک مضمون بعنوان ’’ننھے دشمن‘‘ سپرد قلم کیا، جو باسط صاحب کی ڈرامہ نویسی کے دور کی یاد تازہ کرتا ہے ، چار صفحات پر مشتمل فیچر نما یہ مضمون باسط بھوپالی کے ڈرامہ نگاری کے گہرے شغف اور مکالمہ نویسی پر ماہرانہ قدرت کا ظہار ہے۔ مولانا آزاد کی مختصر سوانح حیات، وزیر اعلیٰ کیلاش ناتھ کاٹجو کا تعارف بھی انہوں نے اپنے قلم سے کرایا ، مذکورہ مضامین کو باذوق قارئین نے دلچسپی سے پڑھا اور ان کو سراہا، ’’ناگرک‘‘ میں شائع مکتوب سے اس کی تفصیل معلوم ہوتی ہے۔ افسوس کہ ’’ناگرک‘‘ طویل عرصہ تک جاری نہیں رہ سکا اور دو سال کے بعد بند ہوگیا، دوسری مرتبہ 1982ء میں یہ منظر عام پر آیا اور خالدہ بلگرامی صاحبہ کی زیر ادارت میں اس کے چند شمارے شائع ہوئے لیکن دور اول میں اس رسالہ نے بھوپال کی سیاسی، سماجی اور تہذیبی زندگی پر گہرے اثرات ڈالے اور بند ہونے کے بعد عرصہ دراز تک اس کی کمی محسوس ہوتی رہی۔
باسط بھوپالی خاص خیال رکھتے کہ کوئی بھی اہم واقعہ، سیاسی وسماجی تبدیلی یا تہذیبی سرگرمی ہوتو ’’ناگرک‘‘ کے صفحات پر جگہ ضرور پالے، اسی طرح میونسپل کا بجٹ اور اس کے ذریعہ منظور شدہ ترقیاتی منصوبوں کا تجزیہ ہو یا دوسرے سماجی واقتصادی امور حسب حیثیت ’’ناگرک‘‘ میں انہیں نمائندگی دی جاتی، مضامین کی ترتیب میں بھی ایک سلیقہ ہوتا، بحیثیت مجموعی وہ اپنے رسالہ کو زیادہ سے زیادہ مفید، اصلاحی اور دیدہ زیب بنانے کی کوشش کرتے، جس کا ایڈیٹر کے نام خطوط میں اکثر اعتراف ہوتا اور ایسے خطوط لکھنے والوں میں وزیر اعلیٰ کیلاش ناتھ کاٹجو سے لے کر انقلابی شاعر عمران انصاری، سہیل اعظمی، عمیق حنفی جیسی قابل ذکر شخصیات شامل ہوتیں۔
فضل علی کمیشن کی رپورٹ پر حکومت ہند نے صوبوں کی تشکیل جدید کی اور اس کے نتیجہ میں ریاست مدھیہ پردیش کا قیام اور اس کا دارالحکومت بھوپال کو بننے کا اعزاز حاصل ہوا تو باسط بھوپالی نے اس فیصلے پر اپنی گہری مسرت کا اظہار کرتے ہوئے ایک طویل اداریہ تحریر کیا۔ جس میں انہوں نے مذکورہ فیصلہ کو دور رس اثرات کا حامل قرار دیتے ہوئے کہا
’’یکم نومبر 1956ء کو بھوپال نئے مدھیہ پردیش کی راجدھانی بن رہا ہے۔ جو انقلاب اس چھوٹے سے شہر میں ہونے والے ہیں ان کے آثار نمایاں طور پر نظر آنے لگے ہیں۔ اتنے بڑے صوبہ کی راجدھانی بن جانے کی صورت میں شہر میں جہاں ہزاروں قسم کی تبدیلیاں اور امید افزا ترقیاں ہوں گی وہیں مشکلات اور مصیبتوں کے طوفان بھی آئیں گے جن کے مقابلہ کیلئے شہر میں بسنے والے ہر ایک ناگرک کو کمربستہ اور تیار رہنا چاہئے۔ اگر ہم نے آبادی کے اس مختلف الخیال اور بڑھتے ہوئے سیلاب کو اسی سمجھداری اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے اندر جذب نہ کیا اور اپنی طرف سے پوری پوری مہمان نوازی کا ثبوت نہ دیا تو جہاں آنے والے پریشانی میں مبتلاہوں گے ہمیں بھی چین اور سکون نصیب نہ ہوگا۔‘‘
(ناگرک اگست 1956)
اس اقتباس سے باسط بھوپالی کی عمیق نظر سماجی شعور اور حالات کے تجزیہ کی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’ناگرک‘‘ اگر مستقل جاری رہتا تو بھوپال کی سیاسی، سماجی، تہذیبی اور ادبی تاریخ کا آج ایک اہم مآخذ شمار ہوتا۔

(بشکریہ یو این این)

تبصرے بند ہیں۔