‘باعزت بری’ منفرد کیوں ہے؟

خالد سیف اللہ اثری

منیشا بھلا اور ڈاکٹر علیم اللہ خان کے مشترکہ قلم اور اردو میں مضامین پبلیکیشنز (مضامین ڈاٹ کام) سے آنے والی کتاب “باعزت بری” ان بے گناہ مسلم نوجوانوں کی داستان ہے جو دہشت گردی کے الزامات میں پولیس کے مظالم کا شکار ہوئے اور بعد میں باعزت بری ہوئے۔ یہ کتاب میز اور کرسی پر بیٹھ کر لکھا گیا کوئی تحقیقی مقالہ نہیں بلکہ یہ ایک جوکھم بھرا فیلڈ ورک ہے جو گھر جاجا کر بڑی ہی عرق ریزی اور جاں فشانی سے صفحہ قرطاس پر منتقل کیا گیا ہے۔ یہ کتاب عملی صحافت کا ایک اعلی نمونہ ہے جو تعمیری اور حقیقی صحافت کے بنیادی نقوش طے کرتی ہے۔

اس کتاب کا قاری کتاب پڑھتے پڑھتے اس کی کہانیوں کے اندر گم ہوجائے گا اور ان کہانیوں کے کرداروں میں اپنا کردار تلاش کرنے لگے گا۔ یہ کتاب کبھی آپ کو آب دیدہ کردے گی تو کبھی آپ پر لرزہ طاری کردے گی۔ یہ کتاب کبھی آپ کو ہم دردی اور رحم دلی کے جذبات سے معمور کردے گی تو کبھی آگ بگولہ کردے گی۔ یہ کتاب ایک طرف مظالم ومصائب کی دل خراش داستاں ہے تو دوسری طرف صبر واستقامت کا کوہ گراں۔ یہ کتاب مبنی بر حقیقت ایسی داستانوں پر مشتمل ہے جسے پڑھ کر پورے تن بدن میں جھرجھری سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ یہ کتاب سنگ دلوں کو موم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب ہندوستان کے بے بس قانون کی نقاب کشائی کرتی ہے۔

یہ کتاب لاچار عدلیہ کی کم زوریوں کو واشگاف کرتی ہے۔ یہ کتاب پولیس اور سسٹم کے ظلم وبربریت کا نقشہ کھینچتی ہے۔ یہ کتاب محض چند بے گناہوں کی آب بیتی بیان نہیں کرتی بلکہ قاری کو یہ طرز فکر عطا کرتی ہے کہ انھیں آب بیتیوں میں نہ معلوم کتنی ناگفتہ آب بیتیاں ہیں جو ہمارے ارد گرد گردش کررہی ہیں۔ ان داستانوں کو آج کے کشیدہ حالات میں قلم بند کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ یہ صحیح معنوں میں نہایت بہادری اور دلیری کا کام ہے۔ ایسے وقت میں جب وطن عزیز کی میڈیا چند ہاتھوں میں کھیل رہی ہو، اس بے باک کتاب کا آنا اپنے آپ میں ہواؤں کا رخ پھیرنے جیسا ہے۔ واقعتاً مینشا بھلا اور ڈاکٹر علیم اللہ خان نے یہ کتاب لکھ کر پوری صحافت کی طرف سے نہ صرف فرض کفایہ ادا کیا ہے بلکہ ان کا کفارہ بھی ادا کرے گی۔ یہ دونوں صاحبان تبریک سے زیادہ تعظیم اور تقدیس کے مستحق ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔