باغ سخن کا گل تازہ

حقانی القاسمی

وجدان کی سانسیں صحت بخش یا گہری نہ ہوں تو پھر شاعری چھوٹی رہ جاتی ہے۔
مقام شکر ہے کہ احمد اشفاق کی تخلیقی سانسوں میں اتنی حدت، وسعت اور ندرت ہے کہ وہ بھیڑ میں بھی اپنا نام پتہ بتا دیتی ہے ۔ آج جبکہ ہم عصر شعری افق پر اپنے تخلیقی تیور ‘ تمازت اور تمکنت سے چونکانے والے لہجے کم ہوتے جارہے ہیں ۔ وہی عمومیت، تکراریت اور یکسانیت کی فضا اور مماثلت کا موسم ہے ۔ تو ایسے میں کوئی نیا طور ‘ نئی برق تجلی دکھائی دے جائے تو نظر ٹھہر سی جاتی ہے ۔ احمد اشفاق کے سخن میں وہ کیفیت سحر ہے کہ ان کی شاعری سے سرسری نہیں گزرا جاسکتا ‘ ان کے شعر رک کر دیکھنے اور سوچنے کا تقاضا کرتے ہیں کہ اس میں توجہ کھینچنے والے سارے تلازمے موجود ہیں اور شعر کے ماورا بھی وہ موجیں ہوتی ہیں جو انسانی ذہن کو نئے پانیوں کا پتہ دیتی ہیں اور پرانی لفظیات، استعارات و علائم میں بھی ندرت و تحیر کی بجلیاں پیدا کر دیتی ہیں۔
احمد اشفاق نے زندگی ‘ زبان اور زمانہ کی تروینی کے جوہری عناصر کو اپنے تخلیقی احساس و اظہار میں اس طرح تحلیل کر دیا ہے کہ یہ شاعری کائنات اور متعلقات حیات کی تفہیم و تعبیر کے ساتھ نئے تخیلی جزیروں کے مد و جزر سے آگاہ کرتی ہے اور سمن زار اظہار کے نئے برگ و بار اور بہار سے بھی۔
احمد اشفاق کی شاعری کا سارا حسن معاشی ہجرت اور وطن سے جذباتی قربت کے تجربے میں مضمر ہے ۔ ہجرت کی آگ نہ ہوتی تو مٹی کی مہک اور وطن کی خوشبو سے یہ شاعری گلزار نہ بن پاتی۔ انہوں نے خارجی ماحول اور تغیرات کو بھی ذہن کے موسموں کا محرک عنصر اور انگ بناکر اپنے داخلی آہنگ کو زندہ و تابندہ رکھا ہے ۔دیار غیر کے افق پر انہیں اپنی مٹی کا ہی چاند چمکتا نظر آتا ہے اور یہی چاند اس تمازت کو سکون و اطمینان عطا کرتا ہے جو اجنبیت یا ہجرت کی وجہ سے اکثر ذہنوں میں پیدا ہو جایا کرتی ہے:

ہجرتوں میں بڑی تمازت ہے
لمحہ لمحہ پگھل رہا ہوں میں

عذاب ہجر کے لمحات ہم بھلا نہ سکے
دیار غیر میں اک پل سکون پا نہ سکے

ہر گھڑی ہر ایک لمحہ بے کلی پردیس میں
اک اذیت ہے مسلسل نوکری پردیس میں

ٹوٹ کر ملتا ہے جب مجھ سے کوئی ہم وطن
حوصلوں کو ملتی ہے اک پختگی پردیس میں

ہجرت اور زندگی کے انتشار ‘ تصادم اور تناقض نے انہیں جن حقائق سے آشنا کیا ہے ۔ وہ سب ان کی شاعری کا حصہ بن چکے ہیں اسی لئے کائنات اپنی کلیت کے ساتھ ان کی شاعری میں منکشف ہو رہی ہے ۔متلازم لفظیات، متضاد کیفیات اور متناقض کرداروں کے ذریعہ جس جہان شعر کی انہوں نے تشکیل کی ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ شاعر کی سائیکی نے ان تمام سمتوں کو سمیٹ لیا ہے جس کی طرف انفرادی ‘ اجتماعی وجود کا ذہنی ‘ مادی ‘ روحانی اور اخلاقی سفر ہوتا ہے :

بظاہر لب پہ ہے ان کے تبسم
پس الفت عداوت ہو رہی ہے

ریاکاری لئے جاتی ہے سبقت
حقیقت سر جھکائے رو رہی ہے

کیسے کہہ دوں کہ دوست ہیں میرے
پیٹھ پر وار کر رہے ہیں لوگ

گاؤں صحرا میں ہو گیا تبدیل
گھر کو گلزار کررہے ہیں لوگ

صلہ بس یہ ملا ترک وطن کا
ہماری گھر میں وقعت ہو رہی ہے

یہ اشعار شاعر کی عصری حسیت سے آگہی اور مشاہدات اور تجربات کی وسعت کا بھی پتہ دیتے ہیں۔
احساس کے وسیع تر منطقہ کے ساتھ اسالیب کی آگہی نے اظہار کے نئے دائرے بھی تشکیل دیے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے اظہار کی عمومی راہ و روش اختیار کی ہو بلکہ وہ اظہار کی ان وسعتوں کو بروئے کار لائے ہیں جس کی تمنا ہر حساس تخلیقی ذہن کو ہوتی ہے کہ ۔ حبس اور گھٹن میں آوازیں دم توڑ دیتی ہیں ۔ احمد اشفاق نے اپنے اظہار کو کشادگی عطا کی ہے اس لئے کہیں طنز ‘ تو کہیں استفہامیہ اور استعبادی طریق کار سے کام لیا ہے اور کہیں کہیں تو لہجے کا تیکھا پن اک عجب سا لطف دے جاتا ہے:

آج اس کے جنازے میں ہے اک شہر صف آرا
کل مر گیا جو آدمی تنہائی کے ڈر سے

فاصلہ اب بہت ضروری ہے
تری قربت سے جل رہا ہوں میں

احمد اشفاق کی شاعری میں جمالیاتی تجربے کی تہ داری اور ہمہ گیری ہے ۔یہ صدائے بازگشت نہیں ہے بلکہ اس نئی شعری آواز کی جستجو ہے جو گلوبلائزیشن‘ اربنائزیشن اور صارفی نظام کے ردعمل کے طور پر ابھری ہے ۔ اس لئے لہجہ میں کہیں کرختگی اور شعلگی بھی ملتی ہے ۔سماج کی بے چہرگی ‘ کائنات کے بحران اور آشوب دہر کا احساس نہ ہوتا تو شاید ان کا لہجہ بھی بہت دھیما ہوتا ۔
’دسترس ‘ کی شاعری احساس کے پژمردہ، مضمحل لمحوں کو تازگی، شادابی اور زرخیزی عطا کرنے اور ذہن و ضمیر کو مرتعش کرنے والی ہے اور اس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ تخلیق کار؍ فن کار؍ شاعر کے ذہن سے ہجرت کر کے قاری کے قلب میں قیام کی پوری قوت رکھتی ہے ۔
[کمپیوٹر اسکرین پر سوچی ہوئی ایک تحریر]

تبصرے بند ہیں۔