بلیک ہول

محمد عرفان ندیم

10اپریل کی صبح نو بجے دنیا بھر کے آسٹرونومسٹ، سائنسدان، ماہرین فلکیات اور سائنس کے لاکھوں کروڑوں اسٹوڈنٹ ٹی وی اسکرینوں پر نظریں جمائے بیٹھے تھے، ’’ایونٹ ہورائیزن دوربین پروجیکٹ‘‘ کے ماہرین نے دس دن پہلے کانفرنس کر کے خبر دی تھی کہ وہ ایک بہت بڑے بلیک ہول کی تصویر لینے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور دس اپریل کو وہ یہ تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں گے۔ دس اپریل کی صبح جیسے ہی نو بجے ماہرین نے ایم ستاسی نامی کہکشاں کے بلیک ہول کی تصویر میڈیا کے سامنے پیش کر دی اور اس کے ساتھ ہی سائنس نے تسخیر کائنات کا ایک بہت بڑا سنگ میل عبور کر لیا۔ سائنسدان کہتے ہیں کہکشاؤں کے مرکز میں کہیں بہت بڑا خلا ہوتا ہے اور جو چیز بھی اس خلاکے نزدیک جاتی ہے اس کے اندر غائب ہوجاتی ہے اورفطرت اور سائنس کے سارے اصول بلیک ہول کے گرد پہنچ کر بے اثر ہو جاتے ہیں۔ سائنسدان جس بلیک ہول کی تصویر لینے میں کامیاب ہوئے ہیں یہ ایک بہت بڑا بلیک ہول ہے جس کی لمبائی چار سو ارب کلومیٹر ہے۔ یہ ہماری زمین کے مجموعی حجم سے تیس لاکھ گنا بڑا ہے اور یہ ہم سے تقریباً پچاس کروڑ کھرب کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے،ماہرین نے اس کی یہ تصویر دنیا کے مختلف حصوں میں نصب آٹھ دوربینوں کے ذریعے لی ہے۔ یہ دوربینیں دنیا کے آٹھ مختلف مقامات جس میں ہوائی کے جزیرے، شمالی امریکا، جنوبی امریکا، جنوبی پول اور یورپ کے متعدد مقامات پرنصب کی گئی تھیں، ان دوربینوں کو ایک دوسرے سے سیٹلائٹ کے ذریعے رابطے میں رکھا گیاتھا۔ یہ بلیک ہول ہمارے پورے نظام شمسی سے بڑا ہے،یہ سورج سے چھ اعشاریہ پانچ ارب گنا بڑا ہے اور سائنسدانوں کے خیال میں یہ اب تک دریافت ہونے والے بلیک ہولز میں سب سے زیادہ وزنی ہے۔ اس سائنسی دریافت کے آنے والے زمانے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے شاید فی الحال ہم اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ اگرپوری انسانی تاریخ کو سائنس و ٹیکنالوجی کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم کیا جائے تو ہزاروں سالوں پر مشتمل پوری انسانی تاریخ میں سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی جتنی پچھلے پانچ سو سالوں میں کی ہے۔ اگر آج پندرویں صدی کا کوئی انسان زندہ ہوجائے اور اپنے ارد گرد پھیلی سائنسی حقیقتوں کو دیکھے تو لامحالہ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گا کہ یہ وہ دنیا نہیں ہے، شاید یہ کوئی جنت ہے یا جہنم۔ 1500میں دنیا کی مجموعی آبادی پانچ سو ملین تھی اور آج یہ آبادی سات بلین کی حدوں کو چھو رہی ہے، 1500میں انسانی اشیاء و خدمات کی قیمت کا اندازہ دو سو پچاس بلین ڈالرفی سال تھا اور آج یہ ساٹھ ٹریلین ڈالرہو چکا ہے۔ 1500میں انسان ایک دن میں 13ٹریلین کلوریز انرجی استعمال کرتے تھے اور آج ہم 1500ٹریلین کلوریز انرجی استعمال کر رہے ہیں۔ ذرا تصور کریں آج کا اکیلا ایک جنگی جہاز پندرویں صدی کی کسی بھی سپر پاور کو تہس نہس کر سکتا تھا،موجودہ دور کے صرف تین چار بحری جہاز پندرویں صدی کی ساری بحری تجارت کا سامان اپنے دامن میں سمیٹ سکتے تھے،صرف ایک سنگل کمپیوٹر ماضی کی تمام لائبریریوں میں موجودلاکھوں مخطوطوں کا ریکارڈاپنے اندر سمو سکتا تھا اور آج ایک بینک کے پاس ماضی کی تمام ریاستوں سے بڑھ کر سرمایہ موجود ومحفوظ ہے۔ 1500میں شاید ہی کوئی ایسا شہر ہو جس کی آبادی ایک لاکھ سے زائد ہو، اکثر عمارتیں مٹی اور گارے سے بنائی جاتی تھیں، تین منزلہ عمارت کو فلک بوس عمارت کہا جاتا تھا، گلیوں میں کیچڑ، گردو غبار اور مٹی کے ڈھیر ہوا کرتے تھے۔ 1500 میں گلی محلوں میں واحد آواز گدھوں گھوڑوں اور دوسرے جانورو ں کے ہنہنانے کی ہو تی تھی، کبھی کبھار کسی ہتھوڑے یا آری کی آواز سنائی دیتی تھی۔ سورج غروب ہوتے ہی شہروں کے سارے افق تاریک ہو جاتے تھے، رات کی تاریکی اور اداسی میں کہیں کوئی لیمپ جلتا ہوا دکھائی دیتا تھا، ذرا تصور کریں اس دور کا کوئی انسان اگر آج لندن، پیرس، نیو یارک، ٹوکیویا کابل، دلی، کراچی اور ڈھاکہ کو دیکھ لے تو وہ اس دنیا کو جنت یا جہنم سمجھنے پر مجبور نہیں ہو گا۔ سولہویں صدی کے آغازتک کسی انسان نے دنیا کے گرد چکر نہیں لگایا تھا، یہ 1522میں ممکن ہوا جب میگلن بہتر ہزار کلومیٹر مہم سر کر کے اسپین واپس لوٹا، اس مہم میں اس کو تین سال لگے اور جہاز کے عملے کے سارے لوگ راستے میں مر گئے۔ 1873میں یہ ممکن ہوا کہ ایک امیر برٹش سیاح80دنوں میں دنیا کے گرد چکے لگا سکے اور آج ایک مڈل کلاس کے لیے بھی ممکن ہے کہ وہ مناسب رقم کے ساتھ صرف اڑتالیس گھنٹوں میں پوری دنیا کے گرد گھوم لے۔ 1500میں انسان صرف زمینی سیارے تک محدود تھے، وہ ذیادہ سے ذیادہ درختوں یا پہاڑوں پر چڑھ سکتے تھے یا کوئی تین چار منزلہ ٹاور کھڑا کر سکتے تھے، فضا ؤں میں اڑنے اور آسمان کی سیر کرنے کا حق صرف پرندوں تک محدود تھا، 1969میں انسان چاند پر قدم رکھ کر پرندوں سے یہ حق چھین چکا تھا۔ پچھلے پانچ سو سالوں میں سب سے اہم ترین لمحہ وہ تھا جب16 جولائی کو امریکی سائنسدانوں نے 5:29:45پر ایٹم بم بنا کر انسانی تاریخ کا رخ موڈ دیا، اس لمحے سے پہلے انسان تاریخ کا صرف رخ موڑ نے کی صلاحیت رکھتا تھا لیکن اس لمحے کے بعد سے انسانوں نے تاریخ کے خاتمے کا نقارہ بھی بجادیا۔ ایٹم بم کی ایجاد کے بعد انسان نے زمینی سیارے کی تباہی پر کیسے قدرت حاصل کی اس کا اندازہ صرف پاک بھارٹ ایٹمی جنگ سے کیا جا سکتا ہے۔ اگر پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے خلاف ایٹمی طاقت استعمال کرتے ہیں تو تباہی کا منہ زور طوفان دونوں ممالک کو راکھ کا ڈھیر بنا دیگا۔ ایٹم بم چلنے کے فورا بعد کم از کم دو کروڑ انسان فوری طور پر مر جائیں گے،سسک سسک کر مرنے والوں کی تعداد بھی کروڑوں میں ہو گی اور ایٹم بم چلنے کے چند دن بعد تک پورے جنوبی ایشیا کی نصف سے زائد آبادی موت کی وادی میں اتر چکی ہوگی۔ اوراگر دونوں ملک ذیادہ تعداد میں ایٹم بم چلاتے ہیں تو پاکستان اور بھارت کیساتھ ساتھ ہمسایہ ملک چین میں بھی ایک ارب تیس کروڑ انسان جان کی بازی ہار جائینگے۔ ایٹمی اثرات کے سبب غذائی اشیاء اور فصلوں پر زہریلے ذرات انہیں ناقابل استعمال بنا دینگے۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ آئندہ چند برسوں میں قحط کی وجہ سے پاکستان اور متاثر ہونے والے پڑوسی ممالک کے لگ بھگ دو ارب انسان بھوکے مر جائینگے اور دنیا بھر میں زرعی پیداوار دس فیصد کم ہو جائیگی۔ ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے ہوا میں دس لاکھ ٹن وزنی دھویں کا بادل پچاس کلو میٹر بلندی تک پھیل کر پوری دنیا کو گہرے اندھیرے کی چادر میں ڈھانپ دیگاجس کی وجہ سے سورج کی کرنیں کرہ ارض تک نہیں پہنچ پائیں گی اور یہ دنیا برفانی دور کی زد میں آجائیگی۔ کرہ ارض کے گرد اوزون کی حفاظتی تہہ ستر فیصد تک ٹوٹ جائیگی جس کے جان لیوا اثرات کے سبب بے شمار انسان اور حیوانات اپنی زندگیوں سے محروم ہو جائینگے۔ ان ایٹمی دھماکوں کے مابعد اثرات برسوں تک انسانی اور حیوانی زندگیوں کے علاوہ زرعی پیداوار پر بادلوں کی بارش برساتے رہیں گے۔ یہ صرف پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑنے کے نقصانات ہوں گے جبکہ پوری دنیا اس وقت ایٹمی ہتھیاروں کے ڈھیر پر بیٹھی ہے، یہ تعداد اتنی ذیادہ ہے کہ اگر یہ سب ایک ساتھ چل جائیں تو نہ صرف یہ کہ اس کرہ ارض کا نام و نشان مٹ جائے گا بلکہ ہمارے پڑوسی سیارے بھی ہماری تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔ دنیا میں سب سے ذیادہ ایٹمی میزائل اور ایٹم بم روس کے پاس ہیں، روس اس وقت6800 وارہیڈز کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے، دوسرے نمبر پر امریکا ہے جس کے اسلحہ خانے میں 6600 ایٹمی وار ہیڈ شامل ہیں۔ اگر صرف ان دو ممالک کے ایٹمی ہتھیار چلا دیئے جائیں تو ساری دنیا کی تباہی کے لیے کافی ہیں۔ فرانس کے پاس 300 وارہیڈز اور چین کے پاس 270 وارہیڈز موجود ہیں۔ پانچواں نمبربرطانیہ کاہے جس کے پاس 215 وارہیڈز ہیں۔ پاکستان اس فہرست میں چھٹے نمبرپرہے، پاکستان کے پاس 140 وارہیڈز جبکہ بھارت 130 وار ہیڈز کے ساتھ ساتویں نمبر پرہے۔ اسرائیل 80 اعلانیہ ہتھیاروں کے ساتھ آٹھویں نمبر پر اور شمالی کوریا 20 ہتھیاروں کے ساتھ نویں نمبر پر ہے۔ مجموعی طور پر اس وقت دنیا کے پاس 14555اٹم بم موجود ہیں اور ظاہر ہے یہ کسی جگہ پرسجا کر رکھنے کے لیے نہیں بنائے گے، یہ چلانے کے لیے بنائے گئے ہیں ا ور ایک نہ ایک دن یہ ضرور چلیں گے، وہ وقت کب آتا ہے، جلد یا بدیر اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ باقی تفصیلات میں آپ کے ساتھ اگلے کالم میں شیئر کروں گا۔

تبصرے بند ہیں۔