خوش آمدید اے ماہِ صیام!

آصف اقبال انصاری

یوں تو ہرلمحہ، ہر دن، ہر ہفتہ، ہر ماہ اور ہر سال رب لم یزل کی عطا کردہ ہیں،مگر ان میں بعض کو بعض پر کچھ فضیلت حاصل ہے۔ جیسے رات کے آخری حصے کو پورے دن پر فوقیت حاصل ہے،ایسے ہی جمعہ کا دن ہفتے کے تمام ایام پر فضیلت رکھتا ہےاسی لیے اسے” سید الایام” کہا جاتا ہے، بالکل اسی طرح رب تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ایک ایسا مہینہ عطا فرمایا ہے جس کو "سید الشہور” کہتے ہیں جو سال کے تمام مہینوں کا سردار ہے اور وہ ہے ماہ مبارک یعنی ” رمضان المبارک”۔

”رمضان“ عربی زبان کالفظ ہے، جس کے معنی ہیں ”جھُلسادینے والا“ اس مہینے کا یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ اسلام میں جب سب سے پہلے یہ مہینہ آیا تو سخت اور جھلسادینے والی گرمی میں آیا تھا۔ لیکن بعض علماء کہتے ہیں کہ اس مہینے میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی خاص رحمت سے روزے دار بندوں کے گناہوں کو جھلسادیتے ہیں اورمعاف فرمادیتے ہیں، اس لیے اس مہینے کو ”رمضان“ کہتے ہیں۔ (شرح ابی داؤد للعینی ۵/۲۷۳)

رمضان رحمت کا خاص مہینہ

اللہ تعالیٰ نے یہ مبارک مہینہ اس لیے عطا فرمایا کہ گیارہ مہینے انسان دنیا کے دھندوں میں منہمک رہتا ہے جس کی وجہ سے دلوں میں غفلت پیدا ہوجاتی ہے، روحانیت اور اللہ تعالیٰ کے قرب میں کمی واقع ہوجاتی ہے، تو رمضان المبارک میں آدمی اللہ کی عبادت کرکے اس کمی کو دور کرسکتا ہے، دلوں کی غفلت اور زنگ کو ختم کرسکتا ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرکے زندگی کا ایک نیادور شروع ہوجائے، جس طرح کسی مشین کو کچھ عرصہ استعمال کرنے کے بعداس کی سروس اور صفائی کرانی پڑتی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی صفائی اور سروس کے لیے یہ مبارک مہینہ مقرر فرمایا۔

روزے کا مقصد

روزے کی ریاضت کا بھی خاص مقصد اور موضوع یہی ہے کہ اس کے ذریعے انسان کی حیوانیت اور بہیمیت کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی اورایمانی وروحانی تقاضوں کی تابعداری وفرماں برداری کا خوگر بنایاجائے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں نفس کی خواہشات اور پیٹ اور شہوتوں کے تقاضوں کو دبانے کی عادت ڈالی جائے اور چوں کہ یہ چیز نبوت اور شریعت کے خاص مقاصد میں سے ہے اس لیے پہلی تمام شریعتوں میں بھی روزے کا حکم رہا ہے، اگرچہ روزوں کی مدت اور بعض دوسرے تفصیلی احکام میں ان امتوں کے خاص حالات اور ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، قرآنِ کریم میں اس امت کو روزے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایاگیا ہے: یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔ (سورة البقرہ آیت ۱۸۳) ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے (روزوں کا یہ حکم تم کو اس لیے دیا گیا ہے) تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔

کیوں کہ یہ بات یقینی ہے کہ نفس انسانی انسان کو گناہ، نافرمانی اور حیوانی تقاضوں میں اسی وقت مبتلاکرتا ہے جب کہ وہ سیراور چھکاہوا ہو، اس کے برخلاف اگر بھوکا ہوتو وہ مضمحل پڑا رہتا ہے اور پھر اس کو معصیت کی نہیں سوجھتی، روزے کا مقصد یہی ہے کہ نفس کو بھوکا رکھ کر مادّی وشہوانی تقاضوں کو بروئے کار لانے سے اس کو روکا جائے تاکہ گناہ پر اقدام کرنے کا داعیہ اور جذبہ سُسْت پڑجائے اور یہی ”تقویٰ“ ہے۔

اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ عالم بالا کی پاکیزہ مخلوق (فرشتے) نہ کھاتے ہیں، نہ پیتے ہیں اورنہ بیوی رکھتے ہیں، جبکہ روزہ (صبح صادق سے غروب آفتاب تک) انہی تین چیزوں (کھانا، پینا اور جماع) سے رکنے کا نام ہے، تو گویا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو روزے کا حکم دے کر ارشاد فرمایا ہے کہ اے میرے بندو! اگر تم ان تینوں چیزوں سے پرہیز کرکے ہماری پاکیزہ مخلوق کی مشابہت اختیار کروگے تو ہماری اس پاکیزہ مخلوق کی پاکیزہ صفت بھی تمہارے اندر پیدا ہوجائے گی اور وہ صفت ہے: لاَیَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَا اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُوٴْمَرُوْنَ۔ (سورئہ تحریم) ترجمہ: وہ (فرشتے) خداکی نافرمانی نہیں کرتے کسی بات میں جو ان کو حکم دیتا ہے اور جو کچھ ان کو حکم دیاجاتا ہے اس کو فوراً بجالاتے ہیں۔

  رمضان المبارک وہ مہینہ ہے کہ جس کی تیاری حضور صلی اللہ علیہ وسلم ماہ شعبان المعظم سے ہی کیا کرتے تھے، بیہقی میں امام بیہقی نے حضرت سلمان فارسی سے  ایک روایت نقل کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ شعبان کی آخری تاریخ کو ہمیں ایک خطبہ دیا،اس میں آپ نے فرمایا:”اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے،اس مہینے میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے،اس مہینے کے روزے اللہ نے فرض کیے ہیں،اس مہینے کی فرض عبادت کا ثواب ستر فرضوں کے برابر ہے۔

 یہ صبر کا مہینہ ہے،یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے،یہی وہ مہینہ ہے جس میں بندوں کے رزق میں اضافی کیا جاتا ہے۔ (اس کے بعد آپ نے فرمایا) اس ماہ مبارک کا پہلا حصہ "رحمت”ہے،درمیانی حصہ”مغفرت”ہے، اور آخری حصہ”جہنم سے آزادی”ہے۔

حضرت ابو سعید خدری رض روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دروازوں میں سے کوئی بھی رمضان المبارک کی آخری رات آنے سے پہلے بند نہیں کیا جاتا،پھر جب روزہ دار پہلا روزہ رکھتا ہے تو اس کے گزشتہ سارے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں اور اس روزہ دار کے لیے روزانہ صبح کی نماز سے لے کر غروب آفتاب تک ستر ہزار فرشتے اللہ تعالیٰ سے مغفرت چاہت رہتے ہیں۔ (الترغیب والترہیب)
حضرت ابن عباس رض سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ جنت ماہ رمضان کے لیے شروع سال سے اخیر سال تک سجائی جاتی ہے،جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو جنت(اللہ تعالیٰ سے) عرض کرتی ہے اے اللہ!اس مبارک مہینہ میں اپنے بندوں میں سے کچھ بندے میرے اندر قیام کرنے والے مقرر فرما دیجیے (جو عبادت کر کے میرے اندر داخل ہو سکیں)۔ (جمع الفوائد)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو جنتوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں اور رمضان المبارک کے مہینہ میں اللہ تعالیٰ روزانہ رات کو(روزہ)افطار کے وقت ساٹھ ہزار آدمی جہنم سے بری فرماتے ہیں۔ جب عید الفطر کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اتنی تعداد میں لوگوں کو جہنم سے بری فرماتے ہیں جتنی تعداد میں مجموعی طور پر پورے مہینے میں آزاد فرماتے ہیں یعنی ساٹھ ساٹھ ہزار تیس مرتبہ،جن کی مجموعی تعداد اٹھارہ لاکھ ہوتی ہے۔ (الترغیب والترہیب)

حضرت حسن رض سے روایت ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جل جلالہ رمضان المبارک میں ہر شب چھ لاکھ آدمیوں کو جہنم سے بری فرماتے ہیں اور رمضان المبارک کی آخری شب ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اتنی تعداد میں(آدمیوں کو دوزخ سے)بری فرماتے ہیں جتنی تعداد میں آج رات تک پورے مہینے میں آزاد فرمائے ہیں۔ (الترغیب والترہیب)

حضرت علی رض سے روایت ہے کہ جب رمضان شریف کی پہلی رات ہوئی تو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم (لوگوں کو خطاب کرنے کے لیے) کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کر کے ارشاد فرمایا: اے لوگو! تمہاری طرف سے تمہارے دشمن جنات کے لیے خداوند تعالیٰ کافی ہیں اور اللہ نے تم سے دعاء قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خوب سن لو! اللہ تعالیٰ نے ہر سرکش شیطان پر سات فرشتے (نگرانی کے لیے)مقرر فرمادیے ہیں،لہذا وہ اب ماہ رمضان گزرنے تک چھوٹنے والے نہیں ہیں۔ اور یہ بھی سن لو! رمضان المبارک کی پہلی رات سے اخیر رات تک (کے لیے) آسمان کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور اس مہینے میں دعا قبول ہوتی ہے۔ (کنزالعمال)

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے روزہ کے اسرار و رموز بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے روزے کے تین درجے ہیں:

ایک عوام کا روزہ
دوسرے خواص کا روزہ
تیسرے خاص الخواص کا روزہ

عوام کا روزہ وہ ہے کہ کھانے، پینے اور نفسانی خواہشات کی تکمیل سے باز رہنا، یہ روزہ کا سب سے ادنی درجہ ہے۔ خواص کا روزہ یہ ہے کہ فقط کھانا، پینا نہ چھوڑے بلکہ اپنے تمام جوارح کو ناشائستہ حرکات سے باز رکھے۔ اور خاص الخواص کا روزہ یہ ہے کہ آدمی اپنے دل کو ماسوی اللہ کے خطرے سے بچائے اور اپنی ذات کو اللہ جل جلالہ کے سپرد کردے یہ روزہ کا سب سے اعلیٰ ترین درجہ ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ہم از خود کس درجہ میں داخل ہیں؟؟ کیا ہم روزہ کے اصل مقصد کے تابع ہیں؟کیا ہماری بھوک پیاس رب کے غضب کو بجھا پائے گی؟ کیا ہم اس مرتبہ کو پہنچ پائے گیں، جہاں ہمارا رب ہمیں دیکھنا چاہتا ہے؟؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنی غفلت اور سستی کی چادر میں لپٹے ہونے کے سبب، ہمارا بھوکا پیاسا رہنا اس حدیث کی تمہید بن جائے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ” بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کے روزے سے سوائے بھوکا پیاسا رہنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا” اگر ایسا ہے تو بڑے گھاٹے کا سودا ہے، بڑی ہلاکت ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب ضرورت طلب بات یہ ہے کہ رمضان المبارک میں خاص طور پر گناہوں سے پرہیز کرنا نہایت ضروری ہے، ہر موٴمن کو یہ طے کرلینا چاہیے کہ اس برکت ورحمت اورمغفرت کے مہینے میں آنکھ، کان اور زبان غلط استعمال نہیں ہوگی، جھوٹ، غیبت، چغل خوری اور فضول باتوں سے مکمل پرہیز کرے، یہ کیا روزہ ہوا کہ روزہ رکھ کر ٹیلی ویژن کھول کر بیٹھ گئے اور فحش وگندی فلموں سے وقت گزاری ہورہی ہے، کھانا، پینا اورجماع جو حلال تھیں ان سے تو اجتناب کرلیا لیکن مجلسوں میں بیٹھ کر کسی کی غیبت ہورہی ہے، چغل خوری ہورہی ہے، جھوٹے لطیفے بیان ہورہے ہیں، اس طرح روزے کی برکات جاتی رہتی ہیں۔

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَةٌ فِیْ اَن یَّدَعَ طَعَامَہ وَشَرَابَہ۔ (صحیح بخاری ۱/۲۵۵) ترجمہ: جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے باطل کام اور باطل کلام نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یعنی روزے کے مقبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کھانا پینا چھوڑنے کے علاوہ معصیات ومنکرات سے بھی زبان ودہن اور دوسرے اعضاء کی حفاظت کرے، اگر کوئی شخص روزہ رکھے اور گناہ کی باتیں اور گناہ والے اعمال کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے روزے کی کوئی پروا نہیں۔ (معارف الحدیث۴/۰۰۰۰)

ان تمام احادیث شریفہ کا مدعا یہ ہے کہ روزے کے مقصد (تقویٰ) اور رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں کے حصول کے لیے معصیات ومنکرات سے پرہیز نہایت ضروری ہے، اس کے بغیر تقوے کی سعادت سے متمتع نہیں ہوسکتا۔

انسان کا شرف و اعزاز اس بات میں ہے وہ نفسِ سرکش کو قابو میں لاکر،اپنی خواہشات پر غالب آکر فرائض عبدیت بجالائے اور اپنا منشائے تخلیق پورا کرے،معرفت الہی اور رضائے خداوندی کی تلاش و جستجو اس کا مقدم اور اہم فریضہ ہے۔

یاد رکھیں!! حقیقی بندگی اور حقیقی بندہ وہی ہے جو  ہر لحظہ، ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والا ہو، یہی وہ خاصیت ہے جو انسان کو نورانی مخلوق سے برتر بناتی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رحمت سے ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، رمضان المبارک کی قدردانی کی توفیق بخشے اور اس بابرکت مہینے کے اوقات کو صحیح طور پر خرچ کرنے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین!

تبصرے بند ہیں۔