بچوں کی تربیت کا مسئلہ – نزاکتیں اور ذمہ داریاں (4)

تحریر: ڈاکٹر بشریٰ تسنیم           ترتیب:عبدالعزیز
بچے کے ذہن میں مثبت طرز فکر پہنچاتے رہنا چاہئے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹا سا بچہ شاید ہماری بات نہیں سمجھ رہا، مگر وہ اس کے ذہن میں ریکارڈ ہوتی جاتی ہے اور جب، جہاں جس طرح وہ بات کارآمد ہو، ذہن وہاں منتقل کر دیتا ہے۔
چند سال کا بچہ جب ذرا سمجھ دار ہوجاتا ہے تو وہ ایک چھوٹا سائنس دان ہوتا ہے۔ گھٹنوں کے بل چلنے کی عمر سے لے کر تین چار سال تک وہ ہر نئی شئے تک پہنچنے اور پرکھنے کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔ اپنی ذہنی استعداد کے مطابق بہت کچھ خود ہی سیکھ اور سمجھ لیتا ہے۔ یہ وہ ذہنی استعداد ہے جو رحم مادر سے لے کر باہر کا ماحول اسے فراہم کرتا ہے۔ اس کا لاشعور جو تربیت پاچکا ہوتا ہے وہ شعوری طور پر اس کا اظہار کرنا چاہتا ہے، تاکہ اگلے مرحلے میں وہ مزید اپنے ذہن کی نشو و نما کرسکے۔
بچے کی روحانی غذا شروع دن سے اسی طرح بڑھانی چاہئے جیسے کہ جسمانی غذا بتدریج بڑھائی جاتی ہے۔ اگر جسمانی غذا شروع دن سے ناقص ہوگی، کم ہوگی، بروقت نہ ملے گی تو بچہ جسمانی طور پر کمزور ہوگا۔ مختلف بیماریوں کا شکار ہوجائے گا اور وہ معذور بھی ہوسکتا ہے، اگر چہ وہ صحت مند پیدا ہوا ہو۔
بالکل اسی طرح شروع دن سے روحانی غذا بروقت نہ ملے گی، نامکمل اور ناقص ہوگی تو بچہ روحانی طور پر کمزور، بیمار اور شاید معذور ہوگا۔ جس طرح حاملہ عورت کو کچھ بیماریوں سے بچاؤ کیلئے حفاظتی ٹیکے لگانا ضروری سمجھا جاتا ہے، اسی طرح روحانی بیماریوں سے بچنے کیلئے بھی پیدائش سے پہلے حفاظتی اقدامات کرنے ہوں گے اور پیدائش کے بعد بھی ان کا علاج کرنا ہوگا۔ اور وہ نیت کی درستگی، فرائض کی ادائیگی میں پابندی، قلب و نگاہ کو شعوری مسلمان بنانے کے علاوہ اور کیا ہے؟
ہم اپنے بچوں کی صحت کے بارے میں تو فکر مند رہتے ہیں کہ اس کا رنگ کیوں پیلا پڑ رہا ہے؟ اسے بھوک کیوں نہیں لگ رہی؟ اسے نیند کیوں نہیں آتی؟ پھر ہم اپنی استطاعت کے مطابق اچھے اچھے ڈاکٹروں سے اس کا علاج معالجہ کراتے ہیں، لیکن عجیب بات ہے کہ ہم اپنے اسی بچے کی اخروی زندگی اور خود اس زندگی میں روحانی اور تہذیبی ترقی کیلئے ویسے فکر مند نہیں ہوتے۔ اس میں پائی جانے والی کمی کیلئے کسی اچھے دانش مند اور نیک سیرت انسان سے رجوع کرنے کی کوشش نہیں کرتے، جس طرح اپنے بچے کی جسمانی صحت کے بارے میں لاپروائی برا فعل ہے، اسی طرح بچے کی روحانی زندگی سے لاتعلقی بھی نہایت غلط اقدام ہے۔
جسمانی غذا اور روحانی غذا کے ساتھ ساتھ جسمانی و روحانی لباس کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ جسمانی لباس بچے کو عمر، موسم اور حالات کے لحاظ سے پہنایا جاتا ہے۔ چند دن کے بچے کو چند سال کے بچے کی خوراک اور چند سال کے بچے کو ایک جوان بچے کی خوراک دینا مناسب نہیں۔ جس طرح چند دن کے بچے کا لباس چند سال کے بچے کو اور کسی جوان کو چند سال کے بچے کا لباس زیب نہیں دیتا اور نہ عقل اس کو قبول کرتی ہے، اسی طرح روحانی لباس یعنی تقویٰ کا لباس بھی عمر، موسم، حالات اور ذہنی استعداد کے مطابق ساتھ ساتھ تیار کرتے رہنا ضروری ہے بلکہ تقویٰ کا لباس و خوراک اس سے بھی زیادہ حکمت عملی اور احتیاط کا متقاضی ہے۔
بچہ بہت جلد اپنے والدین کی خوشی و ناراضی کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ ماں بھی بچے کو سمجھانے کی خاطر اسے باپ کی ناراضی کا احساس دلاتی ہے یا اس کے خوش ہونے کی وجہ بتاتی ہے کہ کس کام سے ابو ناراض اور کس سے خوش ہوں گے۔ اسی طرح شروع ہی سے بچے کے دل اور دماغ میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور خوشی کا احساس دلانا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کس قدر مہربان ہے اور ہر چیز وہی عطا کرنے والا ہے۔
بچے کو احساس دلایا جائے کہ وہ محبت کرنے والی ہستی باری تعالیٰ ناراض ہوجائے تو پھر سب ناراض ہوسکتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی سب کے دلوں میں یہ خیال ڈالتا ہے کہ بچے سے محبت کی جائے، پیار کیا جائے، اس کو اچھی اچھی چیزیں لاکر دی جائیں۔ بچے کے دل میں یہ یقین بٹھا دیا جائے کہ اگر اللہ تعالیٰ کوئی چیز دینا چاہے تو وہ مل سکتی ہے۔ اس لئے اللہ کو ہمیشہ راضی اور خوش رکھنے کیلئے ہر اچھا کام کرنے کا جذبہ بچے کے ذہن، قلب اور سانسوں تک میں اتار دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کو خوشبو کی طرح بچے کے دل میں بٹھا دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کا تعارف: مہربان، شفیق، پیار کرنے والا، ہر چیز سے آگاہ اور وحدہٗ لاشریک کے طور پر کرایا جائے۔
بچے کی شخصیت کا خاکہ بن جانے کیلئے پہلے پانچ سال اہم ہیں۔ باقی عمر اس خاکے میں رنگ بھرتے رہنا ہے۔ کسی بھی عمارت میں بنیادوں کی جو اہمیت ہوتی ہے، عمر کے ابتدائی پانچ سال کی حیثیت بھی ویسی ہی ہے۔ سفید اور کورے کپڑے پر جو رنگ چڑھ جائے وہ ساری عمر باقی کے رنگوں میں اپنی جھلک دکھاتا رہے گا۔ سفید اور کورے کپڑے پر جو رنگ چڑھ جائے وہ ساری عمر باقی کے رنگوں میں اپنی جھلک دکھاتا رہے گا۔ خارجی ماحول اور عارضی حالات بچے کو کسی وقت بدل بھی دیں، اس تبدیلی میں یہ ابتدائی عمر کے احساسات ضرور اپنا حصہ محفوظ رکھیں گے۔ یہ عمر انسان کے عیوب و محاسن کی نشان دہی کر دیتی ہے۔ اس کے بعد تعلیم و تربیت، ماحول اور حالات یا تو عیوب کو اجاگر کرتے چلے جاتے ہیں یا محاسن کو اور اسی کے مطابق دماغی نشو و نما ہوتی چلی جاتی ہے۔
مسلمان ماؤں کیلئے بچے ہی ان کے امتحانی پرچے ہیں، جس کے جتنے بچے اس کے اتنے ہی پرچے اور انہی پرچوں کے نتیجے پر ان کی دنیا و آخرت کی کامیابی کا دار و مدار ہے۔ ان پرچوں کا نتیجہ بھی خود اللہ تعالیٰ نے تیار کرنا ہے۔ کامیاب ہونے پر انعام سے نوازنا ہے اور انعام بھی کیا ہے؟ جنت جیسی عظیم نعمت اور اپنی رضا کی بشارت اور رب سے ملاقات کی نوید۔
اسکول بھیجنے سے پہلے بچے میں اپنے مسلمان ہونے پر فخر کاجذبہ ضرور پیدا دینا چاہئے۔ اسکول کا ماحول گھر کے اور مسلمان والدین کے ذہن سے مطابقت رکھتا ہو تو بہت خوش نصیبی ہے۔۔۔ ورنہ والدین کو بہت سمجھ بوجھ اور ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا۔ دین داری کو احساس کمتری کا نشان نہ بنایا جائے۔ دین اسلام کے بارے میں کسی معذرت خواہانہ طرز عمل سے اسے بچایا جائے۔ بچے کے دل میں یہ جرأت پیدا کی جائے کہ وہ پورے یقین کے ساتھ جانے اور اظہار کرے کہ اس کا لباس اسلامی ہے اور یہی سب سے بہتر ہے۔ اس کا طریقہ سب سے اچھا ہے۔ والدین کے خود اپنے ایمان میں پختگی ہوگی تو وہ اپنے بچے کو بھی یہ چیز بہتر طریقہ سے منتقل کرسکیں گے۔ بچے کو اتنا وقت ور ہونا چاہئے کہ وہ دوسروں کو دلیل اور شائستگی کے ساتھ بدل دینے کا اور خود کو بہتر راستے پر گامزن رکھنے کا احساس زندہ رکھ سکے۔
مسلمان ہونے پر احساس تشکر و مسرت پیدا کیا جائے۔ دوسرے مسلمانوں کو اپنے اوپر استہزاء کا موقع نہ دیا جائے۔ بچے کو یہ یقین دلایا جائے کہ جو آپ کا لباس ہے، جو آپ کا طریقہ ہے وہی اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب سے اچھے ہیں تو ان کا بتایا ہوا طریقہ بھی سب سے اچھا ہے۔
بچے کے دل میں شیطان سے نفرت بٹھائی جائے۔ ساری گندی باتوں کا سکھانے والا شیطان ہے۔ وہ ہی اصل دشمن ہے۔ غصہ، نفرت، عداوت کے تمام احساسات اسی دشمن اور اس کا کہنا ماننے والوں کے خلاف ہوں۔
والدین کا اپنا طرز عل بچوں کیلئے سب سے بڑا استاد ہے۔ بچے خاموشی سے اس طرز عمل کو دیکھتے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کو دوستوں کے ساتھ گفتگو کرتے یا آپس میں کھیلتے اور پلاننگ پر غور کرتے ہوئے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے والدین، رشتہ داروں اور استادوں سے حقیقت میں کیا سیکھ رہے ہیں اور ’’کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا‘‘ کی حیثیت بھی سمجھ میں آجاتی ہے۔
چوتھا مرحلہ: نماز کی پابندی کیسے کرائی جائے؟
ایک مسلمان گھرانے کا ماحول بچے کو ایک ڈیڑھ سال کی عمر میں رکوع و سجود، اذان اور نماز سے آشنا کر دیتا ہے۔ گھر کا ماحول نمازی ہوگا تو بچہ لاشعوری طور پر اس کو زندگی کا ایک جزو سمجھے گا۔ پھر جس بچے کی تربیت کیلئے دعا اور دوا کا اہتمام، نکاح کے رشتے میں جڑنے کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا، لازماً اللہ تعالیٰ ایسے ماں باپ کیلئے آسانیاں فراہم کرے گا۔
نماز جتنی اہم عبادت ہے، شیطان کو اس کی پابندی اتنی ہی گراں گزرتی ہے۔ وہ نماز کو مشکل ترین کام بناکر مسلمانوں کو رب سے دور کرنا چاہتا ہے، اسی لئے نفس پہ اس کی ادائیگی گراں گزرتی ہے۔ والدین کو چاہئے کہ وہ خود اپنی نمازوں کی حفاظت کریں۔ ’’بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے‘‘۔ مرد حضرات خود با جماعت نمازی کی پابندی کریں، لڑکوں کو مسجد میں محبت اور شفقت سے لے جائیں۔ ننھے لڑکے کو مسجد سے محبت، انس اور تعلق پیدا کروانا چاہئے، جس طرح بچہ باپ کے ساتھ باہر جانے اور کچھ حاصل کرنے کے شوق میں خوشی خوشی بازار جاتا ہے بالکل اسی طرح مسجد میں جاکر خوشیوں کے حصول اور کچھ پالینے کی آرزو پیدا کی جائے۔
اللہ تعالیٰ سے محبت اور شکر گزاری کے جذبات پیدا کرنا والدین کی ذمہ داری ہے، جو بچہ اپنے رب کا شکر گزار ہوکر آسودگی کی دولت پالیتا ہے، اسی کے والدین کامیاب ہیں۔ نماز کو بچے کے ذہن میں اس حقیقت کا حصہ بنایا جائے کہ جو نعمتیں، خوشیاں ملی ہیں، اسے ان کا شکریہ ادا کرنا ہے اور پھر مزید چیزیں بھی تو مانگتی ہیں۔ بچے کو روز مرہ کی ننھی منی آرزوئیں اپنے رب کے سامنے پیش کرنے کا سلیقہ سکھایا جائے۔ ہر مشکل کام میں اسے اللہ سے مدد مانگنے کا، اللہ سے قربت کا احساس دلایا جائے۔
نماز کی پابندی کروانے کے سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ اسے ابتدا میں یعنی تین سال کی عمر ہی سے ضرور اپنی نماز ادا کرنے کے دوران اپنے ساتھ رکھا جائے۔ دن میں پانچ مرتبہ کی ادائیگی اس کی آنکھوں کے سامنے اور شعور کے اندر، رچ بس جائے۔ اسی عمر سے نماز کے کلمات یاد کروانے شروع کر دیئے ہیں۔ جتنے بھی کلمات ترجمے کے ساتھ یاد ہوجائیں انہی کے ساتھ نماز کی ادائیگی شروع کروائی جائے۔ لڑکے تو مسجد میں جاکر رکوع و سجود کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ لڑکیوں کو بھی گھر میں ا س کی مکمل پہچان کروائی جائے۔ شروع میں بچے کو ایک نماز اور وہ بھی صرف فرض کی عادت ڈالی جائے اور یہ فجر کی نماز ہے۔ بچہ چاہے جس وقت بھی سوکر اٹھے اسے معلوم ہوجائے کہ اٹھنے کے بعد پہلا کام نماز کا ہوتا ہے۔ پہلے وضو اور نماز پھر ناشہ۔۔۔ صبح اپنے رب کے حضور حاضری کا تصور اس کے لازمی معمولات کا حصہ بن جائے۔ یہ عمل ایک سال تک جاری رکھا جاسکتا ہے، پھر پوری نماز فجر کی فرض و سنت کے ساتھ پابندی کرائی جائے۔
دوسری نماز جس کی پابندی آسان ہے وہ مغرب کی نماز ہے۔ چند ماہ ان دو نمازوں کی پابندی ہو۔ پھر بہ تدریج باقی نمازیں اور رکعتوں کے لحاظ سے بھی پہلے صرف فرائض، پھر سنت موکدہ کی پابندی کروائی جائے۔ چار پانچ سال تک مکمل توجہ، شعور اور دعا و یقین کے ساتھ کی جانے والی یہ محنت انشاء اللہ کبھی رائیگاں نہ جائے گی۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔