بچے بچے کی زبان پر ہو اردو

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

اردو کے لب ولہجہ، مٹھاس اور اپنایت کا ہر کس وناکس کو اعتراف ہے۔ متاثر کن گفتگو کی تعریف میں کہا جاتا ہے’بولی اس کی اردو جیسی‘۔ صاف، ستھری زبان میں بات کرتے دیکھ اکثر پوچھا جاتا ہے کہ کیا آپ لکھنؤ کے رہنے والے ہیں۔ لکھنؤ والوں کی زبان دانی کی چھاپ اب بھی ذہنوں پر موجود ہے۔ کبھی لب ولہجہ میں دہلی والوں کی پہنچان تھی۔ کیوں کہ اردو کو کھڑی بولی سے اس درجۂ کمال تک پہنچانے میں دہلی،لکھنؤ، حیدرآباد اور کلکتہ نے اہم رول اداکیا ہے۔ دہلی اور لکھنؤ کو اردو میں اسکول(دبستان) کی حیثیت حاصل ہے۔ دونوں شہروں کے ادبیوں اور شاعروں کو اپنی اردودانی پر فخر تھا۔ ان کی مقابلہ آرائیوں نے اردو کو سینچ کر تناور درخت بنادیا۔

 دہلی کی طرح اردو بھی اس شہر میں اجڑتی اور بستی رہی لیکن تقسیم وطن کی صورت میں ملنے والی  اورپھر اِس کے فوراًبعد شروع ہونے والی نقل مکانی سے اسے بہت نقصان پہنچا۔ اردو کیوں کہ عوامی زبانی تھی، اس لئے اس کی بازیابی کی کوششیں جاری رہیں۔ اردو دوستوں کی کوششیں اس وقت رنگ لائیں جب مارچ 1980میں اردو اکادمی دہلی کے قیام کا اعلان کیاگیا۔21 مئی1981 کو اس کا رجسٹریشن ہوا۔ اکادمی کے قیام میں یوں تو بہت سے لوگوں کی کوششوں کا دخل ہے لیکن کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، ساغر نظامی، خواجہ احمد فاروقی اور ڈاکٹر خلیق انجم کا رول بہت اہم رہا۔اکادمی سے چیئرمین، وائس چیئرمین اور سکریٹری کی حیثیت سے ملک کی اہم شخصیات وابستہ رہیں، جن کی وجہ سے دہلی اردواکادمی کو ملک کی دوسری اکادمیوں پرکئی لحاظ سے سبقت بھی حاصل ہوئی۔ اکادمی کے نو منتخب وائس چیئرمین پروفیسر شہپر رسول نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ دہلی کی موجودہ حکومت اردو کی ترویج وترقی کے تئیں سنجیدہ ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اردو کیلئے بنیادی اور ٹھوس کام ہو۔ گھر گھر تک اردو پہنچے اور دہلی کے بچے بچے زبان پر اردوہو۔

اکادمی کے منصوبوں کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر شہپر رسول نے کہاکہ ہماری پہلی کوشش ان کاموں کو پورا کرنے کی ہے جو ہر سال ہوا کرتے تھے لیکن ابھی تک نہیں ہوئے۔ اکیڈمی سے غلام ربانی تاباں، کلانند بھارتیہ، پروفیسر قمر رئیس، پروفیسر گوپی چند نارنگ، سید شریف الحسن نقوی، م۔افضل، پروفیسر الطاف احمد اعظمی، پروفیسر خالد محمود، اشتیاق عابدی، پروفیسرصادق، زبیر رضوی، منصور عثمانی، مرغوب حیدرعابدی، مخمور سعیدی، ڈاکٹر ماجد دیوبندی، انیس اعظمی وغیرہ جیسے اہم حضرات وابستہ رہے ہیں۔ ان بزرگوں نے جو کلینڈر تیار کیا، میں چاہتا ہوں وہ تمام کام ہوجائیں۔ اگر یہ کام مارچ تک نہیں ہوتے تومارچ میں ہمارا بجٹ پیش ہوجائے گا۔ بجٹ کی رقم خرچ نہ کرنے کے نتائج بہت خراب ہوتے ہیں۔ میں نے دسمبر میں اردو اکادمی کی ذمہ داری سنبھالی ہے۔ اس کے بعد ہم نے بہت تیزی سے کام کرنے شروع کئے ہیں۔ ’ٹام آلٹر کی یاد میں ایک شام‘ کے عنوان سے اکیڈمی نے شاندار پروگرام کیا۔ 5 فروری کو بین الاقوامی محفل داستان گوئی منعقد کی گئی۔ لال قلعہ کا مشاعرہ یادگار پروگرام ہوتا ہے۔ 15 سے 20 فروری کو کناٹ پلیس کے سینٹرل پارک میں ’جشن روایت اردو‘ منایاگیا۔ ابھی 24-23اور 25فروری کو سرسید پر بین الاقوامی سمینار ہوا۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کلینڈر کے مطابق کیا کام ابھی تک نہیں ہوسکے ہیں ؟ انہوں نے بتایاکہ اسماعیل میرٹھی پر لیکچر نہیں ہوسکا تھا۔ ذمہ داری سنبھالتے ہی سب سے پہلے اسے کرایا۔اکیڈمی مسودات کی اشاعت کیلئے مالی معاونت اور طبع شدہ کتابوں پر انعامات دیتی ہے۔ پچھلے سال کی کتب پر ابھی فیصلہ نہیں ہو سکا ہے، اس کو کرنا ہے۔ اکادمی کی جانب سے اہم موضوعات پر مونوگراف شائع ہوتے تھے، یہ سلسلہ بند ہے۔ ہمارا ارادہ ہے کہ مونوگراف میں ایسے موضوعات کو رکھا جائے گا جو نصابات میں شامل ہیں۔ اس طرح جو مواد یکجا ہوگا، وہ کتابی شکل میں شائع کیاجائے گا تاکہ طلبہ کو کورس کی کتابیں مل جائیں۔

ایوار ڈسے متعلق سوال کے جواب میں شہپر رسول صاحب نے کہاکہ بہادر شاہ ظفر ایوارڈ ملک کے کسی نامور ادیب کو اس کی خدمات کے اعتراف کے طورپر دیاجاتا ہے۔ اس ایوارڈ کے ساتھ ڈیڑھ لاکھ روپے کی رقم بھی دی جاتی ہے۔ اتنی ہی رقم برج موہن دتاتریہ کیفی ایوارڈ میں بھی دی جاتی ہے۔ ان دو بڑے ایوارڈ کے علاوہ اکادمی کی جانب سے تحقیق وتنقید، تخلیقی نثر، شاعری، صحافت، ترجمہ اور بہترین قوال کو ایوارڈ ز دیئے جاتے ہیں۔ بزرگ اور ممتاز ادیبوں کو دی جانے والی فیلو شپ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وظیفہ کیلئے تین افراد کو منتخب کیا جاتا ہے۔ ان کو ادب اعلیٰ خدمات کے اعتراف کے طورپر پانچ ہزار روپے ماہانہ اداکئے جاتے ہیں۔ اسی طرح بزرگ ضرورت مند مصنفین شعراء اور صحافیوں کو پانچ ہزار روپے ماہانہ دیاجاتاہے۔ اس اسکیم میں نامور ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کو یاپس از مرگ مستحقین کی بیوائوں، لواحقین کو بھی شامل کیا جاتا ہے، جنہیں تین ہزار روپے ماہانہ کے حساب سے ادائیگی کی جاتی ہے۔ اس اسکیم کا مقصد ان مستحق حضرات کی مددکرنا ہے جنہوں نے اردوزبان وادب کی ترویج وترقی میں کسب معاش کی پرواہ کئے بغیر اپنی پوری زندگی لگادی اور اب وہ یا ان کے لواحقین زمانہ کے نشیب وفراز کے شکار ہیں۔

اردو پڑھنے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی کیلئے اردو ٹاپرز طلبہ کو انعامات دیئے جاتے ہیں۔ اس اسکیم میں ایم اے، ایم فل میں اول ودوم پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کو، اردو سرٹیفکیٹ اور ڈپلوماکورس کے طلبہ کو اپنے سینٹر میں پہلی دوسری اور تیسری پوزیشن لانے کی بنیاد پر انعامات دیئے جاتے ہیں۔ کتابت وخطاطی مرکز اور اردو کمپیوٹر کورس کے طلبہ کو بھی انعامات پیش کئے جاتے ہیں۔ طلبہ میں اردو پڑھنے کا شوق اور قابلیت پیدا کرنے کیلئے پرائمری سے سکنڈری سطح تک کے طلبہ کیلئے تعلیمی وامنگ پینٹنگ مقابلے کرائے جاتے ہیں۔ اس میں مضمون نویسی، تقاریر، سوال وجواب(کوئز) خطوط نویسی، غزل سرائی، ڈرامہ، بیت بازی وغیرہ شامل ہیں۔ جن اسکولوں میں اردو کے اساتذہ نہیں ہیں لیکن طلباء اردو پڑھنا چاہتے ہیں، اردواکادمی ان اسکولوں میں اردو کی درس وتدریس کیلئے اساتذہ فراہم کرتی ہے۔ اکادمی کی جانب سے اسسٹنٹ ٹیچر کو 19541 روپے، ٹی جی ٹی کو 29190روپے اور پی جی ٹی کو 29610 روپے ادا کئے جاتے ہیں۔

 دہلی کی فعال ادبی وثقافتی انجمنوں کے اشتراک سے اردو اکادمی ثقافتی پروگرام یعنی قوالی، مشاعرہ، شام غزل،رسم اجراء کی تقاریب منعقد کرتی ہے۔ اکادمی کے پروگراموں میں یہ منصوبہ اس وقت شامل ہوا جب جگموہن اکادمی کے چیئرمین تھے۔ ان کے زمانہ میں مشاعرہ وغزل کا پروگرام ہوا جو انہیں بہت پسند آیا۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ اگر اکادمی مشاعرے اورکلچر ل پروگرام دہلی کے دیہات اور نوآباد کالونیوں میں منعقد کرے تودہلی سرکار ادکامی کو معینہ بجٹ سے الگ مالی مدد دے گی۔دہلی کے عوام کو اردو سے جوڑنے کیلئے یہ تجویز بہت معقول ہے لیکن اس پر بہت زیادہ عمل نہیں ہوسکا۔ ویسے اکادمی اردو ڈرامہ فیسٹیول، متفرق ادبی ثقافتی پروگرام، کتابوں کی نمائش اور دہلی کے دیگر لسانی اکادمیوں کے ساتھ مشترکہ پروگرام کرتی ہے لیکن اس سلسلہ کو آگے بڑھناچاہئے اور ان علاقوں تک پہنچنا چاہئے جہاں اردو بولنے، سمجھنے اور پڑھنے والے حضرات آباد ہیں۔

اکادمی کے منصوبوں میں اردو اسکولوں کی لائبریریوں کو کتب ورسائل فراہم کرنا، کوچنگ کلاسیز کا اہتمام اردو لیٹریسی سینٹرز قائم کرنا،پرائیویٹ لائبریریوں و مراکز میں اردو اخبارات کی فراہمی کتابت اور اردو کمپیوٹروشارٹ ہینڈمراکز کا قیام اور چھوٹے اخبارات ورسائل کو اشتہارات دینا شامل ہے۔ ڈاکٹر شہپر رسول صاحب کے مطابق کئی کام ابھی نہیں ہو پارہے ہیں جنہیں کیا جانا ہے۔ اشتہارات دینے میں کئی اخباروں کی ان دیکھی کرنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اس کیلئے مناسب طریقہ کار تیار کیا جارہا ہے تاکہ آئندہ اس معاملہ میں کسی کوشکایت نہ ہو۔ انہوں نے اخبارات کے گوشوں تک اخبارات نہ پہنچ پانے کے بارے میں کہاکہ مجھے اس بارے میں شکایات ملی ہیں لیکن اکادمی اردو اخبارات خریدنے کیلئے برابر رقم فراہم کررہی ہے۔ اس سلسلہ کو فی الوقت روک دیا گیا ہے۔ ہم نے دوبارہ سروے کرکے اسے جاری کرنے کو کہا ہے۔ دہلی کی سڑکوں پر لگے راستوں کے ناموں کے بورڈوں پر علاقوں کے ناموں کی غلطی کی طرف دھیان دلانے پر انہوں نے کہا کہ یہ کام ویسے تو ایم سی ڈی، این ڈی ایم سی کا ہے لیکن دہلی میں اردو ادکامی ہے تو لوگ امید کرتے ہیں کہ وہ ان ناموں کو صحیح کرائے۔ میں اس کی کوشش کروں گا۔

ایوان اردو اور امنگ رسائل کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا اچھے لکھنے والوں کو ان رسائل سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ معلوم کرنے پر کہ اس میں ملنے والا اعزازیہ دوسرے سے بہت کم ہے،انہوں نے کہا ہمیں اس کا احساس ہے،اگلے سال اس کے ریٹ میں تبدیلی آئے گی۔ اسی طرح کتابوں پرملنے والے انعامات کی رقم بھی آگے بڑھائی جانی ہے۔آپ کے زمانہ میں نیا کیا ہوگا اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر شہپر رسول نے کہا کہ زندگی کے تمام شعبۂ حیات ایک اجتماعی زوال کے پھیرمیں ہیں۔ ہر طرف کچھ نہ کچھ کمی نظرآتی ہے، بہتری بہت کم نظرآتی ہے۔ جو معیار ہمارے بزرگوں نے قائم کیا ہے اگر وہی معیار ہم حاصل کرلیں توبہت غنیمت ہے۔ بہتری کے امکانات موجود ہیں اگر ہم اکادمی کے کاموں کو اس ڈھرے، معیار پرلے آئیں تو پھر بہت کچھ نیا ہوگا۔ داراشکوہ لائبریری میں لائبریرین نہیں ہے، اسی طرح کئی اور جگہیں خالی ہیں ان پر تقرری ہونی ہے۔ کمیاں دور ہوں گی، معیاربڑھے گا تو بہتری اپنے آپ آجائے گی۔ اردو داں حضرات کا ساتھ اور ان کے نیک مشورے ہمیں برابر ملتے رہیں۔ اردو زبان سب کی ہے، اکادمی بھی سب کیلئے کام کرے گی چاہے نئے ہوں یا پھر پرانے چراغ۔

تبصرے بند ہیں۔