بھوک کا سایہ!

محمد خان مصباح الدین عالیاوی

اللہ نے انسان اور جانور میں فرق رکھنے کے لئے انسان کو عقلِ سلیم عطا کی جبکہ شکل وہئیت میں بھی فرق دیا باقی جبلتیں تقریبا ملتی جلتی ہی دی ہیں۔ ایک جبلت ہے بھوک، جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تواسکی پہلی پکاراپنے زندہ ہونے اور بھوکے ہونے کا اعلان کرتی ہے یعنی کہ پیدائش سے لیکر موت تک بھوک کا رونا جاری رہتا ہے۔ بھوک کی بھی بہت سے اقسام ہیں، اگر ہم نسل انسانی کی ابتداء دیکھیں تو شائد بابا آدم اور اماں حوا کی اللہ کے حکم کی نافرمانی کےپیچھے  بھوک ہی کارفرما تھی یعنی بھوک کا عمل جنت سے بے دخل کئے جانے سے پہلے ہی وجود میں آچکاتھا۔ جب اس دنیا میں انسان نے قدم جمانے شروع کئے تو پہلے پہل اپنے شکم پروری کی فکراسکی پہلی ترجیح رہی اسکے بعد جیسے جیسے دنیا کی آبادی بڑھتی گئی اور انسانی زندگی میں سمجھ بوجھ معاشرت وغیرہ نے جنم لیا تو بھوک کی قسمیں بھی بڑھنے لگیں۔

کسی کو صرف کھانے کے بھوک ہوتی تو کسی کو بڑا گھر بنانے کی توکسی کو اپنے اردگرد کے لوگوں پرحکمرانی کی بھوک ہوتی، غرض یہ سلسلہ ابتداء انسانی سے اب تک بہت زوروشور سے جاری ہے۔ بس اب بھوک کی قسموں اور انکی حد سے نکل کرہوس کی شکل میں ڈھلنے کا عمل جاری ہے۔ کبھی جانوروں کودیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ آج تک اللہ کے نظام کے مطابق اپنے پیٹ کوایک خاص حد تک بھرنے پرعمل پیرا ہیں جانور شکاری ہے تواپنے شکارکو اتنا کھا کرچھوڑ دیتا ہے جتنا اسکا پیٹ یا اسکے خاندان کا پیٹ اجازت دیتا ہے پھراسکے بچے کھچے پردوسرے جانورہلا بول دیں تووہ انکو آنکھ اٹھا کرنہیں دیکھتا ہے اگر جانور پالتو ہے یا انسانی زندگی کے کام آنے والا ہے تواسکا بھی اللہ نے ایک نظام رکھا ہے کہ وہ اتنا ہی کھاتا ہے جتنا کہ اسکو ضرورت ہے۔

اگر ہم انسان جنہیں اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل ہے اپنی بھوک کا موازنہ ان جانوروں سے کریں توشائد ہمارے سرشرم سے جھک جائیں۔ ہم اب بھوک کی حدیں پھلانگ کر ہوس کی حدود کوبھی پھلانگنے کے لئیے تیار بیٹھے ہیں۔ زندگی میں پہلی سانس کے ساتھ روکراپنی زندہ ہونے کی دلیل دینے اور بھوک کا اعلان کرنے والا انسان آج بھوک کی ایسی ایسی قسموں کے درمیان بنٹ گیا ہے کہ اسکواسوقت اس بات کااندازہ ہوتا ہے جب اسکے پاس اپنی ملامت کاوقت کم رہ جاتا ہے۔ آج ہم پیٹ کی آگ بجھانے کے علاوہ مادی پرستی کی بھوک میں اتنا آگے بڑھ گئے ہیں کہ سیاِہ سفید اچھا برا سب کی تمیز بھلا بیٹھے ہیں، آج ہمیں صرف یہ فکر ہے کہ اگر فلاں نے اچھا کپڑا پہنا ہے توہم اس سے بھی زیادہ مہنگا اور اچھا کپڑا پہنیں اگر کسی کے پاس اچھی گاڑی ہے توہمارے پاس اس سے زیادہ اچھی اور مہنگی گاڑی ہو، اگر فلاں کے بچے کسی اچھے اسکول میں پڑھتے ہیں توہمارے بچے اس سے زیادہ اچھے اور مہنگے اسکول میں پڑھیں اگر کوئی اچھے عہدے پرہے تو بھئی اس سے بڑا عہدہ ہونا چائیے اگرچہ یہ سب باتیں حسد اور جلن کے زمرے میں آتی ہیں لیکن اگرغورکریں تویہ بھوک ہے جو اپنی حد چھوڑکرہوس اور پھرحسد کاروپ دھارچکی ہے۔ہم معاشرتی طورپرانتہائی بھوکے ہیں کہ اپنے فائدے کے لئے اپنی عزت اپنی ماں بہن ملک تک کوداو پرلگا دیتے ہیں مگرپھربھی ہماری بھوک نہیں مٹتی ہے۔

یہ کبھی نا ختم ہونے والی بھوک کازہر صرف نچلے یا درمیانہ طبقے میں نہیں بلکہ معاشرے کے ہرطبقے میں عام ہوچکا ہے۔ صرف وہی بچے ہوئے ہیں جنکے پیٹ تو سائد خالی ہیں مگر انکے ضمیر , انکی نظریں آسودہ ہیں , انکے نزدیک ان دنیاوی چیزوں کی کوئی حیثیت نہیں یہ سب  عارضی ہیں جنکا انکی زندگی میں صرف اتنا عمل دخل ہے کہ زندگی عزت سے ایمان پر تمام ہوجائے۔ جبکہ ہمارے ہی معاشرے میں ایسے ایسے لوگ بھی ہیں جوحکمرانی کا تاج سجا کر عوام کا خون چوسنے کے لیے اپنے ڈنک عوام اور ملک میں گھونپ کربیٹھے ہیں مگر انکی بھوک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ انکی بھوک آج کی نہیں صدیوں سے انکے یہاں نسل درنسل منتقل ہوتی آئی ہے۔ جس طرح سے ملک کی دولت اور عوام کے پیسے پر یہ لوگ بادشاہوں کی طرح عیاشی کر رہے ہیں جبکہ ملک میں لوگ مہنگائی، بے روزگاری اور قحط سالی سے مررہے ہیں ملکی ادارے تباہ ہو رہے ہیں اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ خاندانی بھوکے ہیں انکی نظریں انکی شکلیں  بتاتی ہیں کہ ان صدیوں کے بھوکوں کی  بھوک  اب اپنی  حدوں سے نکل کرہوس کی آخری حدوں پرہے مگر انکی یہ بھوک کبھی ختم نہیں ہونی ہے بلکہ انکی آئندہ آنے والی نسلوں میں منتقل ہونی ہے۔

قارئین کرام!

ایک وہ بھوکے ہیں جو غربت کی جادر اوڑھ کر فٹپاتھ کی گود میں پیدا ہوتے ہیں اور وہیں پرورش پاکر جوان ہوتے ہیں , انکی آنکھوں میں اسکول اور کالج کا خواب ہوتا ضرور ہے مگر انکی وسعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ بھی اوروں کے بچوں کیطرح انکی صف میں شامل ہو سکیں انکی بھوک بس اتنی ہی ہوتی ہے کہ شام کو نکلنے والا دل میں یہ حسرت لے کر نکلتا ہے کہ رات کے کھانے کا انتظام ہو جائے اور صبح نکلنے والا دن کا بندوبست کرنے کی فکر میں رہتا ہے دنیا چاند ستاروں پے پہونچ رہی ہے یا سورج کی روشنی کو قید کر رہی ہے اس بات سے انہیں کوئی واسطہ نہیں بھوک اور غریبی کے سائے نے انکی دنیا پیٹ تک محدود کر دی ہے یہ ایک زندہ حقیقت ہے دنیا میں بہت سے مذاہب ہیں اور ان مذاہب میں کئی طرح کے تہوار ہیں لیکن ایک بھوکے اور تنگ دست کے لیے کوئی تہوار نہیں ہوتا اگر ایک دن کسی غریب کو بھر پیٹ کھانا مل جائے تو وہی اسکے تہوار کا دن ہوتا ہے ورنہ ہر روز وہ یہی تمنا کرتا ہے کہ اے کاش کوئی ایسی دوا ہاتھ لگ جاتی جو اس پیٹ کو بھوک سے آزاد کر دیتی, یہ بھوک کی آگ ہے جو بھائے نہیں بھجتی ہے. بھوک سبھی کے اندر ہے مگر بھوک کا رنک سبکا الگ الگ ہے آپ نے کبھی صحرا کی تپتی ریت پر ننگے پاؤں چلتے ہوئے، آنکھوں میں ٹوٹے پھوٹے سپنوں کے سنگریزے اکٹھے کرتا وہ انسان دیکھا ہے جو دن بھر کی تشنہء کام حسرتوں کا شکستہ سا خیمہ تان کر بدن پر زخموں کی چادر اوڑھے رات کو سو جاتا ہے۔لیکن خالی پیٹ اسے رات بھر نیند آتی ہی کہاں ہے۔ ۔۔وہ تو رات بھر سوچتا رہتاہے کہ کاش کوئی اس کی سبھی حسرتوں اور تمناؤں کے بدلے بس دوسوکھے ٹکڑے روٹی کے اسے وقف کر دے۔اس کے بدن کی وہ کیفیت جو رات بھر اسے سونے نہیں دیتی۔ وہ ہے ایسی ظالم بھوک جو بدن کو اندر ہی اندر کاٹ کھاتی ہے اور انسان کی بے بس روح پرواز کی جتن کرنے لگتی ہے۔بھوک بہت ظالم شئ ہے,صحرا سے اس کا بہت پرانا واسطہ ہے۔بلکل کبھی نہ اترنے والے کالے سائے کی طرح, اس کے آگے وہ انسان بے بس ہے جو ہر وقت ستاروں پر کمند ڈالنے کو پر تولتا رہتا ہے، وہ انسان جس کی دسترس میں کائنات کے کئی راز ہیں وہ آج تک بھوک کو زیر نہیں کر پایا۔کیونکہ وہ فطرت کی طاقت کے آگے بے بس ہے۔وہ بھوک اگاتے قحط کی جھاڑ جھنکار کے آگے بے بس ہے,وہ نہیں سمجھ سکا کہ کیوں بارشیں برسنا بند ہوجاتی ہیں ؟کیوں فصلیں ناکام ہو جاتی ہیں ؟ کیوں نہریں سوکھ جاتی ہیں ؟۔کیوں اس کرہء ارض کے 80 کروڑ انسان رات کو بھوکے سو جاتے ہیں جب کہ یہاں روزانہ پکی ہوئی خوراک کا 40فیصد حصہ ضائع ہو جاتا ہے

آج پیٹ کا بھوکا دولت کے بھوکوں سے آس لگا کر بیٹھا ہے کہ وہ اسے شکم سیر کرینگے جو ممکن ہی نہیں ایک بھوکا بچہ امیر شہر سے فریاد کر رہا ہے کہ:

  میں کہیں بھوک سے نہ مر جاوں اے امیر شہر

   گر مستقبل ہوں تمہارا تو بچا لو مجھکو

کاش ایسا ہوتا مگر دعوی کرنے والے ہزارو ملینگے جو چیخ چیخ کر آپ سے کہینگے کہ ہم نے بھوک اور غریبی کا سایہ دیکھا ہے فٹپاتھ کی گود دیکھی ہے اس لیے میں یہ وقت نہیں بھولونگا, مگر ایسا کبھی نہیں ہوا ہر پیٹ کا بھوکا شکم سیر ہونے کے بعد,اپنا دن پلٹ جانے کے بعد کسی دوسری بھوک کا شکار ہوجاتا ہے اور اپنے ماضی کو دیکھنا گوارہ نہیں کرتا کیونکہ اس کے لیے وہ مایوسی کا دن تھا_

اللہ ہم سب کو  اسلام اور اسکی تعلیمات کا بھوکا بنائے آمین

تبصرے بند ہیں۔