بے حیائی و بے پردگی اور اسلام

عبدالکریم ندوی

اس دنیائے فانی میں جتنے بھی مذاہب وادیان ہیں، ان کا طریقہ، اسلوب، تہذیب وتمدن جداگانہ ہے، ان کے مسائل کاحل بھی مختلف پیرائے میں پایا جاتا ہے لیکن ساری کائنات میں جس کااسلوب وطریقہ، تہذیب وتمدن صحیح اور جس میں امن وسلامتی کا مکمل انتظام پایا جاتا ہے وہ صرف مذہب ِاسلام ہے جس میں معاشرتی، سماجی، ازدواجی، خانگی وعائلی، دنیوی واخروی زندگی کے تمام مسائل کا حل موجود ومسلم ہے، آج اس پر آشوب وپرفتن دور میں سماجی ومعاشرتی اعتبار سے ہزاروں قسم کی برائیاں پائی جاتی ہیں جس کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنا مشکل ہی نہیں بل کہ ناممکن ہے، جن میں سر فہرست بے حیائی وبے پردگی، قتل وغارت گری، عدم ِ تعلیم کی بناء پر لوٹ مار، جنسی بے راہ روی، اخلاقی انار کی ہے، تہذیب وتمدن اور فیشن کے نام پر ملک میں کیا کچھ نہیں ہورہاہے، عورتوں کی حد سے بڑھی ہوئی آزادی، مکمل بے پردگی، مردوزن کا غیرمحدود اختلاط، شراب نوشی، جوا اور نائٹ کلبوں میں نوجوان مردوزن کا ایک ساتھ آزادانہ رقص کرنا وغیرہ انسانیت سوز اور اخلاقیت سوز حرکتیں ساری حدیں پار کرچکی ہیں، انٹر نیٹ کے غلط استعمال نے ہماری نئی نسل کے ذہنوں کو پراگندہ کردیا ہے، عشق بازی، پسند کی شادی اور گھر سے بھاگ جانے کے واقعات ہردن اخبارات کی زینت بنتے جارہے ہیں، غرض اس وقت سماج ہی نہیں بل کہ پوری دنیا تباہی کے دہانے پر ہے، انہیں برائیوں میں سے ایک ناسور برائی عورتوں کی بے حیائی اور بے پردگی ہے۔

انسانی دنیا پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ انسانی حیوانیت کہاں تک پہنچ چکی ہے، عورتوں میں بے حیائی اور بے پردگی دن بدن حیوانیت کے منازل طے کرتے ہوئے عروج وارتقاء پر گامزن ہے، اسلام نے عورت کو باحیاء اور باعزت بنایا اور اسے عفت وعصمت کی لڑی میں پرودیاہے ہر وقت اور ہر جگہ اسلام اس کی عصمت اور حیاء کے بقاء کے لئے احکامات عطاکرکے اعلیٰ پیمانے پر کارگر ثابت ہوا ہے، لیکن مغربی افکار حقوقِ نسواں کے نام سے اسلام جیسے مہذب دین کو داغدار کرنے اور عورت کے ردائے حیاء کو اتار پھینکنے، قبائے عصمت کو تارتار کرنے میں کوشاں وسرگرداں ہیں، جس سے سماج میں بے حیائی وبے پردگی کی سونامی لہر دوڑ رہی ہے، آئے دن عصمت دری کے واقعات رونما ہورہے ہیں، عریانیت وفحاشیت کا بول بالا ہے، مغربی تہذیب نے انسانیت کو حیوانیت کے قالب میں ڈھال کر مکمل درندہ صفت انسان بنادیااور اس تہذیب کے متوالے آنکھ بند کرکے اس کے پیچھے پیچھے چل دئیے ہیں اور آج سماج میں اسی کو شریف اور مہذب سمجھا جاتا ہے جو سر سے پیر تک مغربیت میں ڈھلا ہوا ہو، وضع قطع، عادات واطوار، رہن سہن غرض زندگی کے تمام نشیب وفرازمیں جو جتنا مغربی تہذیب کا نقال ہوگا وہ اتنا ہی مہذب شمارہوگا، آخر میں اس کا نتیجہ زنا جیسے گناہ تک پہنچ جاتا ہے، جس گناہ سے انسان اللہ کی ناراضگی اور دنیاہی میں عذاب کا مستحق بن جاتا ہے، اسلام نے عریانیت اور بے حیائی کو کسی قیمت پر بھی برداشت نہیں کیا اور اپنے ماننے والوں کو بے حیائی سے دور رہنے کی تاکید کی” وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَاوَمَا بَطَنَ “بے حیائی کے جتنے بھی طریقے ہیں ان کے پاس بھی مت جاوٴخواہ وہ علانیہ ہوں یا پوشیدہ(انعام؛۱۵۱)دوسری جگہ فرمایا”ولا تقربوا الزنا، انہ کان فاحشة وساء سبیلاً“ خبردار !زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیوں کہ وہ بڑی بے حیائی اور بہت بری راہ ہے، (بنی اسرائیل۳۲)اسلام نے اس کے قریب لے جانے والے جتنے بھی ذرائع ہیں ان کو اپنا نے سے سختی کے ساتھ منع کیاہے چہ جائے کہ زنا ہی میں مبتلا ہوجائے، پھر ساتھ ہی ساتھ اسلام نے جنت کی ضمانت لی ہے اس شخص کے لئے جو صرف دو چیزوں کی حفاظت کی ضمانت دیتاہے، ارشادِ نبوی ﷺہے”من یضمن لی مابین لحییہ ومابین رجلیہ اضمن لہ الجنة“کہ جو مجھے زبان وشرمگاہ کی حفاظت کی ضمانت دے اس کے لئے میں جنت کاضامن ہوں“(صحیح البخاری، کتاب بدیٴ الوحی ۶۴۷۴)۔

اسلام نے اس گناہ سے اجتناب کے لئے نکاح جیسی سنت کی تعلیم دی ہے جس سے انسانی زندگی زنا جیسی برائیوں سے کوسوں دور ہوجاتی ہے، مگر دورِ جدید میں زنا، فحاشی، بے حیائی، عریانیت کے مختلف ذرائع ووسائل پیدا ہوچکے ہیں، جس طرح ٹی وی (t.v)موبائل (mobail)اور دوسرے ذرائع ابلاغ میڈیا (media)یہ چیزیں بچوں کی اخلاقی کیفیت کو بدل کررکھ دیتی ہیں، جن کامظاہرہ آج طلبہ اپنے کلاس روموں میں اور دوستوں کے ساتھ استہزاء ً کرتے رہتے ہیں، آخر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بچہ جب نوجوانی کی دہلیز میں قدم رکھتا ہے تو اسی کا عادی اور شہسوار بن جاتا ہے، اسی طرح اسپورٹس (sports)بھی دور ِ حاضر میں بے حیائی پھیلانے کا ایک اہم ذریعہ ہے، ریسلنگ(wrestling)ٹینس(tennis)وغیرہ کھیلوں میں عورتیں برائے نام لباس پہن کر عریانیت کا مظاہرہ کرتی ہیں، افسوس در افسوس! مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ مردحضرات کے کھیلوں میں عورتوں کوکھیل کی زینت اور آنکھوں کی لذت کا سامان بنایا جارہا ہے ”جیسا کہ آج ساری دنیا کرکٹ (circket)کھیل میں عریانی عورتوں کا تماشہ دیکھ رہی ہے“ اوران کی تیراکی کے شرم ناک مظاہرے ٹی وی پر پیش کئے جاتے ہیں، جو آنکھوں کی لذت کا سامان ہے، اور نہ جانے کتنے ذرائع بے حیائی کے فروخت کرنے کے ہیں لیکن اس کے صحیح اور مکمل ہونے کا مداوا مذہب ِ اسلام کی تعلیمات وقوانین کو لاگو کرنا اور اس کو عملی جامہ پہنانا ہے، عورت کے تقدس کوبحال رکھنے کے خاطر اسلام نے ایک طرف اس کو وہ حقوق مرحمت فرمائے جو اس سے قبل دنیا کے کسی مذہب نے نہیں دئیے تھے، دوسری طرف اسے ایک قیمتی موتی کا مقام عطا فرماکر پردہ کی دولت سے مالامال کیا، انہیں کے تحفظ کے لئے چلنے پھرنے میں ان کوان حرکات وسکنات سے روکا جن سے مردوں کے دل ا ن کی طرف مائل ہوتے ہوں اوروہ کسی بڑے گناہ کا پیش خیمہ بن سکے، ارشاد ربانی ہے”ولا یضربن بأرجلھن لیعلم مایخفین من زینتھن“اور اس طرح زور زور سے پاوٴں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہوجائے(نور:۳۱)اسی طرح اس کی عصمت اور پاکدامنی کی بقاء کے لئے اسلام نے اوڑھنیوں اور حجاب کا رواج قائم کیا تاکہ معاشرہ کسی بگاڑ کا شکار نہ ہوسکے”یا ایھاالنبی قل لأزواجک وبنٰتک ونساء الموٴمنین یدنین علیہن من جلابیبہن “ائے نبی !اپنی بیویوں سے اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکایا کریں(احزاب :۵۹)۔

اگر عورتیں اپنی زندگی کو صحیح اسلامی تعلیمات کے مطابق گذارنے کی کوشش کریں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کو شہوت کی نگاہ سے دیکھنے کی تو دور کی بات، اپنے تصور میں بھی نہیں لائے گی، اور عورت اپنی تمام تر خوبیوں سے آراستہ وپیراستہ ہوکر اپنے شوہر کے لئے نیک رفیقِ سفر، اپنے والدین کے لئے چشمہٴ رحمت، اپنے بھائی کے لئے گلدستہ ٴ محبت، اپنی اولاد کے لئے گہوارہٴ الفت وچاہت اور سارے معاشرہ کے لئے نیک بخت ونیک سیرت کا مجموعہ بن کر ساری دنیا کو جنت نما بنا سکتی ہے اور دنیا میں پھیلنے والے تمام برائیوں کے لئے سدِ باب بن کرانسانیت کوبھولا ہوا سبق یاد دلا سکتی ہے، اور دنیا کی صحیح رہبری ورہنمائی کر نے کے لئے امام بخاری اورامام شافعی جیسی اولاد جنم دے سکتی ہے اور انسانیت کو جہنم کے دہانے سے نکال کر جنت کی لازوال نعمتوں کی طرف پھیر سکتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔