بے شک دلوں کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے

عائشہ صدیقی

معاشرے پر نگاہیں اگرڈالی جائیں تو ہر شخص پریشان حال دیکھائی دیتا۔ گھروں میں نحوستوں نے ڈیرا جما کر سکون کو برباد کر رکھا ہے۔ ٹینشن، ڈیپریشن تو تقریباً ہر ایک کا بنیادی مسئلہ بن چکا ہے۔ کاروبار میں تنگی محسوس ہوئی تو قرض کا سہارا لینا پڑا۔ اور جب قرض لیا تو یہ الگ وبال جان بن گیا کہ اس کی ادائیگی کیسے ہوگی؟ ادائیگی کا جب کوئی بندوبست نا ہوسکا تو سود اور رشوت سے کام چلا کر اپنی روحانیت کا خود اپنے ہاتھوں سے قلع قمع کردیا۔ اس طرح اضطراب کو مزید تقویت ملی۔ سکون کی تلاش میں شراب کو فوقیت دی۔ اسی طرح یکے کے بعد دیگرے معاشرہ گناہوں میں مبتلا ہوا۔ اور انہیں گناہوں کے اثرات جب گھر میں داخل ہوئے تو سب کا چین وسکون چھین لیا پھر جھگڑے اور فسادات روز کا معمول بنتے گئے۔ جب روحانی سکون کے متلاشی کو سکون میسر نا ہوا تو پھر وہ آخری راہ کا چناؤ کرلیتاہے:

اب تو گھبرا کر کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کر بھی چین نا آیا تو کدھر جائیں گے

خودکشی کا پھندا یہ سوچ کر چوم لیا جاتا ہے کہ یہاں چین نہیں ملا کیا معلوم وہاں راحتیں میسر ہو جائیں۔ خودکشی اسلام میں حرام ہے۔ اور ظاہر سی بات ہے حرام کردہ احکام کو جب بندہ بخوشی گلے لگائے گا تو کیا آرام وسکون ملے گا۔ ؟ بلکہ وہاں بھی بے سکونیاں اسکی منتظر ہونگی۔ کہا جاتا تھا کہ مغربی ممالک میں خودکشی عام ہے اور وہ اس سے بیخبر ہیں کہ وہ کس اضطراب کا شکار ہیں۔ لیکن اب مسلم ممالک میں بھی خودکشی کا رجحان بڑھتا چلا جارہا ہے۔ یہ بے سکونی، ٹینشن، ڈیپریشن، سب ذکر خداوندی سے دوری کے سبب ہے۔

قرآن مجید میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں:

الا بذکر للہ تطمئن القلوب(الرعد آیت 28)

بے شک دلوں کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے۔

یعنی انسان پوری دنیا میں سکون کی تلاش کر لے نہیں ملے گا۔ کیونکہ حق تعالیٰ نے خود بتا دیا کہ دلوں کا سکون میری یاد میں ہے۔ جب دلوں میں سکون ہوگا تو ظاہراً بھی طمانیت جھلتی نظر آئے گی۔ جو قلب میں یاد خدا بسائے گا وہ روحانی سکون پائے گا۔

؂نہ دنیا سے نہ دولت سے نہ گھر آباد کرنے سے 
تسلی دل کو ملتی ہے خدا کو یاد کرنے

محبوب العلماء والصلحاء حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتھم العالیہ فرماتے ہیں کہ جب شیطان کسی کو اپنے قبضے میں لینا چاہتا ہے تو وہ اللہ کی یاد سے غافل کردیتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔ "استحوذ علیھم الشیطن فانسٰھم بذکر اللہ”(سورۃ المجادلۃ آیت 19)

شیطان نے اس پر غلبہ پایا اور اسے اللہ کی یاد سے غافل کردیا۔ اللہ کے ذکر سے دل کو پھیر کر شیطان انسان کو گناہوں سے ایسا کھیلاتا ہے جیسا کہ بچے گیند کے ساتھ کھیلا کرتے ہیں۔

لفظ ذکر عربی زبان کا ہے قرآن مجید میں کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ

"انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون” (سورۃ الحجرآیت 9)

اس نصیحت نامہ کو ہم نے ہی نازل کیا اور اس کی حفاظت کے ہم خود ہی ذمہ دار ہیں۔ تو یہاں لفظ ذکر نصیحت کے معنی میں ہے۔ ایک جگہ فرمایا۔ ” فذکرونی اذکرکم” (سورۃ البقرہ آیت 52)
تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گایہاں لفظ ذکر اللہ کی یاد کے معنی میں ہے۔

مومنیں کی صفتوں میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے ہیں۔ اللہ رب العزت خود سورۃ الاحزاب میں فرماتے ہیں کہ

ترجمہ:۔ (مومنیں کی صفات بیان کرنے کے بعد فرمایا)اور بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں ان سب کے لئے مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔

ذکر دو طرح سے کیا جاتا ہے لسانی ذکر جو باقاعدہ زبان سے ادا کیا جاتا ہے اور سنا بھی جاتا ہے۔ ایک قلبی ذکر کیا جاتا ہے جو کہ دل ہی دل میں ہوتا ہے ساتھ بیٹھا شخص بھی آواز نہیں سن سکتا۔

یہ ذکر خفی بھی کہلاتا ہے۔ عموماً ہم کہیں خوبصورت منظر دیکھیں تو بے اختیار لب پر ماشااللہ، سبحان اللہ جاری ہو جاتا ہے۔ رب ذوالجلال کی قدرت پر اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ یہ ذکر لسانی میں شامل ہیں کیونکہ ذکر زبان سے ادا ہو رہا ہے۔
ذکر قلبی میں یہ سہولت رکھی ہے کہ یہ چلتے، پھرتے، اٹھتے، بیٹھتے ہر وقت کیا جاسکتا ہے۔ اور قلبی ذکر اللہ کو لسانی پر فضیلت دی گئی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس ذکر کو فرشتے سنتے نہیں اس ذکر سے جس کو سن لیتے ہیں ستر گنا زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ (بہیقی)

حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ کہ اللہ کا ذکر ایسی کثرت سے کیا کرو کہ لوگ تمہیں مجنون کہنے لگیں۔

آج خانقاہوں پر لوگ طرح طرح کے فتوے لگاتے ہیں۔ برا بھلا کہتے ہیں۔ حالانکہ ان خانقاہوں کی اللہ کے ہاں بہت قدر و منزلت ہے ان خانقاہوں کامقام و رتبہ بتلانے کے لئے تو کئی احادیث مبارکہ میں فضائل وارد ہوئے ہیں۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو ان خانقاہوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت بھی سنوار رہے ہیں۔ اور جن کے دل اللہ کے ذکر سے غافل نہیں ہوتے ان کی تو شان میں رسول اللہﷺ نے فرمایا حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ قیامت کے دن اللہ جل شانہ بعض قوموں کا حشر فرمائیں گے کہ ان کے چہروں میں نور چمکتا ہوگا وہ موتیوں کے ممبروں پر ہوں گے۔ لوگ ان پر رشک کرتے ہوں گے۔ وہ انبیاء اور شہدا ء نہیں ہونگے کسی نے عرض کیا یارسول للہ !آپ ان کا حال بیان فرما دیجیے کہ ہم ان کو پہچان لیں۔ فرمایا۔ وہ لوگ جو اللہ کی محبت میں مختلف جگہوں اور مختلف خاندانوں سے آکر ایک جگہ جمع ہوگئے ہوں اور اللہ کے ذکر میں مشغول ہوں۔ (اخرجہ الطبرانی)

ایک جگہ مزید فرمایا کہ جب جنت کے باغوں پر گزرو تو خوب چرو۔ کسی نے عرض کیا یارسول للہ!(ﷺ )جنت کے باغ کیا ہیں ؟ ارشاد فرمایا کہ ذکر کے حلقے۔ (اخرجہ الطبرانی)

آج تک جتنے اؤ لیا اللہ گزرے ان کا کوئی وقت ایسا نہیں گزرا جو یاد خدا سے غافل ہو۔ ہر گھڑی اللہ ہی اللہ کی صدائیں ہوتی تھیں یہاں تک کہ جب حضرت جنید بغدادی ؒ کا انتقال ہونے لگا تو کسی نے کہا حضرت کلمہ پڑھ لیجیے حضرت جنید بغدادیؒ کہنے لگے میں کسی وقت بھی اس کو نہیں بھولا (یعنی یاد دلاؤ اگر میں کسی گھڑی اپنے اللہ کو بھولا ہوں)

ذِکرُاللہ کے جہاں اتنے فضائل ہیں وہیں لاتعداد فوائد بھی ہیں۔ اللہ کی یاد جب انسان کے لب وقلب میں سرایت کر جاتی ہے تو سکون اور طمانیت بھی رچ بس جاتی ہے۔ انسان کی تمام تر پریشانیاں خود بخود دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ دل میں فرحت سرور اور انبساط پیدا ہوجاتا ہے۔ دل اور چہرہ پرُنور ہوجاتا ہے۔ ذکر کا نور دنیا میں بھی ساتھ رہتا ہے اور قبر میں بھی ساتھ رہتا ہے۔ ذکر دلوں کو زندہ کرتا ہے۔ حافظ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ اللہ کا ذکر دل کے لئے ایسا ہے جیسے مچھلی کے لئے پانی۔ اور ایک جگہ آیا ہے کہ ذکر دل اور روح کے لئے روزی ہے۔ ذکر ایسا نشہ ہے جسکا اثر نہ ختم ہونے والا ہے۔ ایسا سکون ولذت جو باقی رہنے والی ہے۔ اللہ کا ذکر دلوں سے ظلمت مٹا کر حلاوت ایمانی عطا کرتا ہے۔ روح وقلب کو طمانیت بخشتا ہے۔ اللہ کا ذکر جب دلوں میں بس جاتا ہے تو پھر کوئی طاقت اس سے دور نہیں کرسکتی۔ جتنا ہم اللہ کا ذکر کریں گے قرب الٰہی اتنی زیادہ نصیب ہوگی۔ جتنی ہم غفلت برتیں گے اتنی دوری ملے گی۔ کیونکہ

؂نجات ملتی ہے اسکو یقین کرے جو قلب سے ذکر اللہ
ذکر سے بڑھ کر نہیں ہے عمل کوئی،ہے فرمان رسول اللہ

اللہ پاک ہمارے قلب و روح کو اپنی یاد سے مالا مال فرمائے (آمین)

تبصرے بند ہیں۔