تاریخ کا سبق

ممتاز میر

یہ عجیب اتفاق ہے کہ ہم نے آج تک ہٹلر کو کبھی برا کہا نہ لکھا۔ ہم نے ہٹلر کا ہمیشہ دفاع کیا۔ہٹلر کوئی صاحب ایمان نہ تھا کہ ہم اس می، مومنو، کی صفات ڈھونڈی۔ وہ ایک حکمرا، تھا اور بوجوہ اسے Totaliterian حکومت چاہئے تھی۔اور آج صاحب ایمان سعودی والے بھی ایسے ہی حکومت چلا رہے ہیں۔ پھر یہ صحیح اور وہ غلط کیوں ؟ہٹلر سے ہماری ہمدردی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جرمنی کا ڈکٹیٹر حکمراں ہونے کے باوجود تاریخ میں وہ انہی لوگوں کا ستایا ہوا ہے جن کے ستائے ہوئے نہ صرف ہم ہیں بلکہ اب تو ساری دنیا ہی ان کی ڈسی ہوئی ہے۔ گذشتہ نصف صدی سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہم من حیث القوم اس کے لئے روتے نہیں تھکتے کہ یہودی ہر طرح سے مسلمانو، کو اور اسلام کو بدنام کر رہے ہی۔

ان کا میڈیا جس پر وہ پوری طرح قابض ہیں مسلمانوں کی غلط تصویر پیش کر رہا ہے۔ ہمارے علماء، رہنما ڈانشور اس نتیجے پر پہونچے ہیں کہ یہودی یا صیہونی اس دنیا سے اسلام اور مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دینا چاہتے ہیں۔ اور اس کے لئے وہ ہر ممکن ہتھکنڈہ استعمال کر رہے ہیں۔ کیا ایسا وہ صرف ہمارے ساتھ کر رہے ہیں ؟کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہی سب کچھ ہٹلر کے ساتھ بھی ہوا ہو؟حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہمارے صحافی ہمارے لکھاری اور دانشور ہی نہیں ملکوں کے سربراہ تک یہ کہتے ہیں کہ جرمنی مین ۶۰ لاکھ یہودیو، کا ہولوکاسٹ ایک افسانہ ہے۔حقیقت سے اس کا دور دور تک تعلق نہیں۔ باقاعدہ اعداد و شمار کی مدد سے یہ بات ثابت کی جاتی ہے۔

وجہ یہ ہے کہ یہودی عیسائی دنیا کو مجرم ضمیر بنا کر ان سے اپنے ناجائز مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے۔جس میں وہ کامیاب بھی رہے۔ان تمام حقائق کے باوجود ہمارے صاحب علم اور صاحب مطالعہ حضرات جب بھی قلم اٹھاتے ہیں ہمارے دشمنوں کے اگلے ہوئے نوالے ہی چباتے ہی،۔ ہم نے کبھی نہی، سوچا کہ خود ہمارے دماغون پر کس طرح قبضہ جما لیا گیا ہے۔

ہم پہلے بھی کئی بار لکھ چکے ہی، کہ فی زمانہ ہمارے نزدیک سب زیادہ مجبور و بے بس اور مظلوم قوم امریکی ہی،۔ یہ سب مسائل ہمارے ساتھ بھی ہی، مگر ہم کمزور قوم ہی،۔ امریکی دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور قوم ہیں مگر خود اپنے گھر مین غلامی زندگی گزار رہے ہیں۔ ۱۶ دسمبر کے سہ روزہ دعوت دہلی کایہ اقتباس پڑھئے اور امریکیوں کے Frustration کا اندازہ لگائیے۔’’امریکہ آخر صیہونی اسٹیٹ کی سرپرستی اس قدر کیوں کر رہا ہے کہ اسے اپنے وقار کا بھی خیال نہیں رہا۔ عمومی جواب اس کا یہ ہے کہ امریکی ڈیپ اسٹیٹ پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔

امریکہ کا کوئی سنٹرل بینک نہیں ہے۔اس کا کاروبار یہودی برادران کے بینک کے توسط سے چلتا ہے۔ بیوروکریسی مکمل طور سے یہودیوں کے تسلط میں ہے۔ خارجہ پالیسی یہودی کنٹرول کرتے ہیں۔ کوئی چھوٹا بڑا مسئلہ یہودیوں کی مرضی کے بغیر حل نہیں ہوتا۔صدر امریکہ پوری طرح یہودیوں کے سرکاری اور غیر سرکاری مشیروں کے سامنے سر نگوں رہتا ہے۔ یعنی کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ کی رگ جاں یہودیوں کے پنجے میں ہے۔اس صورت میں کون ہے جو یہودی لابی کو ناراض کرکے کوئی فیصلہ کرے گا۔حکمراں ریپبلکن پارٹی تو یہودی حکم کے بغیر کچھ کر ہی نہیں سکتی۔ اپوزیشن ڈیموکریٹک پارٹی بھی اسے بہت زیادہ ناراض نہیں کر سکتی۔۔۔لیکن اب اس تازہ مسئلے(یروشلم)میں دیکھنا ہے کہ پوری عالمی رائے عامہ کو نظر انداز کرکے امریکی انتظامیہ کس طرح کام کرتی ہے۔ یہودی لابی کو منانے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔ امریکی یہودی اس پوزیشن میں ہی، کہ کسی بھی وقت اسٹیٹ میں کوئی بڑا بحران پیدا کر سکتے ہی،۔ ‘‘

اس اقتباس کو پڑھنے کے بعد ہٹلر کی آدھی ادھوری سوانح Mein Kampf بھی پڑھ لیجئے۔ کیا ایسے ہی حالات اس وقت جرمنی میں نہی، تھے؟ہٹلر بچہ تھا اور یہودیوں کے ہاتھو، اپنے ملک کی درگت بنتے دیکھ رہا تھا۔ ویسے تو دنیا کے بڑے بڑے صحافی یہ لکھ چکے ہیں کہ دونوں جنگ عظیم یہودیوں کی کارستانی ہے مگر چلئے ہم مان لیتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کا ذمے دار ہٹلر تھا۔ مگر پہلی جنگ عظیم کا کیا؟اس وقت تو وہ بچہ تھا۔ دراصل پہل جنگ عظیم اور جرمنی میں یہودیوں کی ریشہ دوانیوں نے ہی ہٹلر کو ہٹلر بنا یا تھا۔کیا آج امریکہ دنیا پر ہٹلر سے زیادہ ظلم نہیں کر رہا ہے۔Weapons o f Mass Destruction کا ناٹک کرنے والے امریکہ نے ہی تو سب سے پہلے Weapons of Mass Destruction نہ صرف بنائے تھے بلکہ چلائے بھی تھے۔ حیرت ہے کہ دنیا کی چھ ارب آبادی مین سے کوئی نہی، سوچتا کہ بڑا گنہگار ہٹلر تھا یا امریکہ کا وہ صدر جس نے جاپان پر اس وقت ایٹم بم گرانے کا حکم دیا تھا جب جاپان ہتھیار ڈال چکا تھا۔ ایسا کیو، ہے کہ ہٹلر تو بدنام ہو امگر امریکہ کے اس صدر کا نام شریفو، کی فہرست می، ہے ؟کوئی اس کا نام تک نہیں جانتا؟ہمیں دوسروں سے اتنی شکایت نہیں جتنی ’’مومنوں ‘‘ سے ہے۔اوپر کا اقتباس بتاتا ہے کہ سب یہودیوں کی وجہ سے ہے اور یہودیوں کی زلف گرہ گیر کے اسیر’’ کافروں ‘‘ کے ساتھ مومن بھی ہیں۔ ۔۔آج امریکہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ملک بنا ہوا ہے۔ بلکہ دنیا ی، جہاں کہیں بھی دہشگ گردی ہورہی ہے امریکہ اس میں کسی نہ کسی طور پر ملوث ہے۔اب سوال یہ ہے کہ یہ سب بند کیسے ہوگا؟

ہماراخیال یہ ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی۔ دیکھئے!تاریخ میں جرمنی بطور ملک بدنام نہیں ہے۔ ہٹلر بطور حکمراں بدنام ہے۔
اسی طرح امریکہ کا کوئی حکمراں آج بدنام نہیں ہے۔ پورا امریکہ بطور ملک بدنام ہے۔ حالانکہ امریکہ کا ہر نیا حکمراں ظلم و ستم میں دہشت گردی می، جھوٹ بولنے می، ہٹلر کا باُپ ثابت ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ اب کوئی حکمرا، یہودیو، کا قلع قمع نہی، کریگا بلکہ اب یہ ناخوشگوار فرض عوام انجام دی، گے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب کسی ملک کی عوام انھیں اپنے ملک میں گھسنے نہیں دے گی۔ بس جو جہاں موجود ہے وہیں مرے گا یا کسی طرح بچ جائیگا۔ مستقبل میں کوئی دوسرا فلسطین نہیں بنے گا۔ انشا ء اللہ

تبصرے بند ہیں۔