تبسم فریدی کی علمی و صحافتی خدمات

مصنف:محمداسحاق

مبصر:ڈاکٹرعزیز سہیل

شہرنظام آباد اپنے علمی و ادبی سرگرمیوں کی وجہ سے ہندوستان بھر میں مقبول ہیں۔ یہاں کی ادبی انجمنوں نے اپنی سرگرمیوں کے ذریعہ سے ادب کا شستہ مزاج لوگوں میں پیدا کیاہے، یہاں کے اردو مشاعرے بھی کافی مقبول ہیں۔ نظام آبادکی اردوصحافت کا جب ذکر  آتا ہے توریاست تلنگانہ میں حیدرآباد کے بعد نظام آباد میں اردوصحافت کا مقام بلند ہے۔ یہاں سے چھ روزنامے ‘آٹھ ہفت روز اور چارماہنامے شائع ہوتے ہیں۔ نظام آباد میں اردوصحافت کوبلندمقام عطا کرنے میں ممتاز صحافی و جہد کار جناب تبسم فریدی مرحوم کابھی اہم رول رہاہے۔

        حالیہ عرصہ میں نظام آباد سے تعلق رکھنے والے نوجوان ریسرچ اسکالرمحمداسحاق کی تصنیف’’ تبسم فریدی کی علمی وصحافتی خدمات‘‘ کے عنوان سے منظرعام پرآئی ہے۔ یہ کتاب اردواکیڈیمی تلنگانہ اسٹیٹ کے جزوی مالی تعاون سے شائع کی گئی ہے۔ اس کتاب کا انتساب محمداسحاق نے اپنی ماں کی محبتوں کے نام معنون کیاہے۔

        اس کتاب کا پیش لفظ اردوکے متحرک جہد کار، صحافی محسن خان(حیدرآباد) نے رقم کیا ہے، حرف چند کے عنوان سے محمداسحاق نے اپنی بات کوبیان کیا ہے۔ اس کتاب کے موضوعات کچھ اس طرح ہیں ’صحافت کیاہے؟، ضلع نظام آباد کے تعلیمی ادارے، ضلع نظام آباد کے اخبارات کی تفصیلات ‘ تبسم فریدی راقم کے مطالعہ میں ‘شہر نظام آباد کی علمی وادبی سوسائٹیاں اور انجمنیں ‘ تبسم فریدی کے افسانے ‘تنقیدی جائزہ۔

        اس کتاب کے پیش لفظ میں محسن خان نے مصنف محمداسحاق کی خوبیوں اور صفات کوبیان کیاہے اورلکھا ہے کہ محمداسحاق کواردوادب سے بے لوث محبت ہے اور گہری عقیدت ہے۔ انہوں نے اس موضوع پر بڑی محنت سے کام کیاہے اور تبسم فریدی کی حیات‘ شخصیت اور ان کے فن کوسمجھنے کی بھرپورکوشش کی ہے اور اپنے آراء کودلائل کے ساتھ پیش کیا ہے۔

        حرف چند کے عنوان سے محمداسحاق نے اپنی بات بیان کی ہے، جس میں انہوں نے اپنے استاد محترم پروفیسر مظفر علی شہ میری کی تربیت کا ذکر کیا ہے ساتھ ہی دیگر اپنے کرم فرماؤں کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ یہ کتاب دراصل محمد اسحاق کے ایم فیل کا مقالہ ہے جو انہوں نے یونیورسٹی آف حیدرآباد سے مکمل کیا تھا، اس کتاب کا پہلا مضمون صحافت کیاہے؟ کہ عنوان سے شامل کتاب ہے، اس عنوان کے تحت محمداسحاق نے صحافت کا تذکرہ کیا ہے اور ہندوستان میں صحافت کے آغاز وارتقاء کوبیان کیاہے۔ ہندوستان میں اخبار کے آغاز سے متعلق لکھا ہے کہ ’ہندوستان میں اخبار کا آغاز 29جنوری1780ء کو کلکتہ سے ہوا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم جیمس آگسٹ ہکی نے دو پیج کا اخبار جو ہکی گزٹ، بنگال گزٹ یا کلکتہ جنرل اڈوائزریہ جاری کیا تھا‘۔ ۔ 1823ء میں اردو زبان کا پہلا اخبار جام جہاں نما کلکتہ سے شائع ہوا جس کے مدیر نشی سدا سکھ لال تھے۔ صاحب کتاب نے پروفیسر خواجہ احمد فاروقی کے حوالے سے ’دہلی اردو اخبار 1836 کا ذکر بھی اس مضمون میں کیا ہے۔ انہوں نے ہندوستانی صحافت کومختلف ادوار میں تقسیم کرتے ہوئے روشنی ڈالی ہے۔ اس باب میں فن صحافت کی اہمیت کوواضح کرتے ہوئے محمداسحاق نے لکھا ہے کہ ’’فن صحافت کوآج بھی عروج سلطنت کے تین ستونوں عدلیہ‘ عاملہ اورمقننہ کے بعد سلطنت کا سب سے اہم ستون قراردیاجاتا ہے یعنی صحافت کسی بھی ملک میں چوتھے ستون کادرجہ رکھتی ہے۔ دہلی اردو اخبار کے ایڈیٹرمولوی عبدالحق کوایک ایسے صحافی ہونے کا شرف حاصل ہے جنہوں نے اخبار کو سیاسی نظریہ کوفروغ دینے کے لیے شروع کیا حالانکہ اردوکاپہلا اخبار جام جہانما تھا‘‘۔

        زیرتبصرہ کتاب کا دوسراباب ضلع نظام آباد کی تاریخ کے عنوان سے شامل کیاگیاہے۔ محمداسحاق نے ضلع نظام آباد کی تاریخ کو مفصل انداز میں بیان کیاہے اوریہاں پرپچھلے ادوار میں قائم راشٹرکوٹ سلطنت ‘چالوکیہ خاندان ‘علاء الدین خلجی ‘محمدتغلق کی حکمرانی کا تذکرہ کیاہے۔ اس باب میں قلعہ نظام آباد کا بھی تفصیلی تذکرہ شامل ہیں۔

        اس کتاب کا تیسراباب ضلع نظام آباد کے تعلیمی ادارے کے عنوان سے شامل ہے۔ جس میں نظام آباد میں اسکول ایجوکیشن اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ باب بہت مختصر ہے جس کو طویل اور معلوماتی بنایا جاسکتا تھا۔

         نظام آباد میں اردوصحافت کا ارتقاء چوتھاباب ہے۔ اس عنوان کے تحت محمداسحاق نے نظام آباد میں اردو صحافت کے آغاز وارتقا کو بیان کیا ہے اورآزادی سے قبل نظام آباد میں اردوصحافت کا تذکرہ کرتے ہوئے غلام احمدکاشانہ کے ’’اہل دہ‘‘کاذکرکیاہے۔ آزادی کے بعدسب سے پہلے صحافی صابری کے روزنامہ’’ زندگی‘جاری کیا ہے، ‘معصوم رومانی کے روزنامہ سویرا‘ شرما صاحب کاروزنامہ عوام ‘مرتضیٰ مجتہدی کی ادارت میں ماہنامہ ’ رومان‘ کا ذکر بھی کیاہے۔ 11جولائی1953کوایم اے رشید کی ادارت میں ہفتہ وار اخبار للکار شروع ہوا۔ جس کے مطالعہ سے نظام آباد میں اردو صحافت کی تاریخ سے متعلق سیر حاصل معلومات ہوتی ہیں۔ اس باب میں انہوں نے جدول کے ذریعہ نظام آبادسے جاری ہونے والے روزناموں ‘ماہناموں اورہفتہ روزاخبارات کی فہرست شامل کی ہے۔

        زیر تبصرہ کتاب کے چوتھے باب میں محمد اسحاق نے تبسم فرید ی مرحوم کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’شہر نظام آباد کی اردو صحافت میں تبسم فریدی(مسکراتا ہوا فرید)کے نام سے جاننے پہچانے جاتے ہیں 1970ء سے اپنی صحافتی خدمات انجام دے رہے ہیں ان کی ادارت میں ’ تفریحات ‘کچھ عرصہ کے لئے شائع ہوتا رہا لیکن بعد میں کچھ وجوہات کی بناء بند ہوگیا۔ 1970ء میں ایک ہفتہ وار’پرچم اتحاد‘ نکلا جو 1988ء تک شائع ہوتا رہا، اس کے بعد تبسم فریدی کی ادارت میں یکم جون 1989ء سے ایک اردو روزنامہ ’’ نظام آباد ٹائمز ‘‘جاری ہوا۔ 1994ء میں چند وجوہات کی بناء اس اخبار کا نام ’’ نظام آبادمارننگ ٹائمز ‘کردیا گیا جو آج بھی اسی نام سے شائع ہوتا آرہا ہے اور تما ضلع کے اخبارات میں اردو کا معیاری اخبار مانا جاتا ہے۔ ‘‘اس باب میں محمد اسحاق نے عابد انصاری، خواجہ اسد علی جوہر، اختر امتیاز، ایم رشید مرحوم، جمیل نظام آبادی، این آر چھگل، ابرہیم عزیز، محمد یوسف الدین، حافظ سید معظم علی، سید معزالدین شاہین، سید نجیب علی، کاظم علی خان، شیخ مجاہدعلی زاہد، جمیل احمد خان، احمد علی خان، اشفاق احمد خان، محمد جاوید علی، ایم اے مقیت فاروقی، سید اسد، ایم اے ماجدو دیگر صحافیوں کا تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔

        زیر تبصرہ کتاب میں تبسم فریدی سے متعلق دیگر صحافیوں کی آراء کو بھی شامل کیا گیا ہے، اس کتاب کا پانچوں باب تبسم فریدی راقم کے مطالعہ میں کے عنوان سے شامل ہیں جس میں محمد اسحاق نے چار صحافیوں کے انٹرویو کے ذریعے تبسم فریدی کی شخصیت کے مختلف پہلووٗں کو اجاگر کیا ہے۔ محمداسحاق نے لکھا ہے کہ تبسم فریدی ایک نڈر‘بے باک صحافی اورظلم کے خلاف آواز ا ٹھانے والے شخص ہیں۔ وہیں دوسری طرف ادب کی دنیا میں بھی نام رکھتے ہیں۔ ان کے کئی افسانے بیسویں صدی رسالہ میں شائع ہوچکے ہیں ‘‘۔

         اس کتاب کاچھٹواں باب شہر نظام آباد کی علمی وادبی سوسائٹیو ں اورانجمنیں کے عنوان سے شامل ہیں۔ جس میں محمداسحا ق نے ادبی مرکز‘دائرہ ادب‘ ادارہ گونج‘ ادارہ ادب اسلامی ‘ کہکشاں لٹریری اینڈ کلچر سوسائٹی ‘گلستان اردو ادب‘ بزم اردوادب ‘بزم کاروان ادب‘بزم محبان اردو شکر نگر‘انجمن ترقی اردو کی خدمات کاتذکرہ کیاہے۔

        اس کتاب کاساتواں باب تبسم فریدی کے افسانوں کے عنوان سے شامل ہے، جس کے تحت افسانہ’ بدلہ ‘ میرے بھائی ‘بدگمان ‘قرض‘ جہنم‘ پانی رے پانی‘ الیکشن کا امیدوار کو شامل کیا گیاہے ساتھ ان افسانوں کا تنقیدی جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ اس کتاب میں فرید تبسم کی پروفیسر جمیل جالبی سے ملاقات کا ذکر بھی ہے جو ڈاکٹر عبدالقدیر مقدر کے رسالہ تمہید میں شائع ہوا تھا۔

        اس کتاب کے آخر میں حاصل مطالعہ کے تحت اس کتاب کے وجود میں آنے کے مقصد کوبیان کرتے ہوئے محمد اسحاق نے لکھا ہے کہ دوران تحقیق راقم نے محسوس کیاکہ ادب وصحافت کے تعلق سے جوموضوع انتخاب کیا ہے وہ کس قدر طویل ہے ایم فل کے مقالہ کے لیے ویسے بھی مدت بہت کم ہوتی ہے لیکن راقم الحروف حتی المقدور اپنے مقالہ کے ساتھ انصاف نہ کرسکا اس کا احساس ناچیز خاکسار کوبھی ہے۔ ‘‘

        بہر حال محمداسحاق نے ایک تبسم فریدی کی علمی وصحافتی خدمات موضوع کے تحت نظام آباد کی اردوصحافت اور تبسم فریدی کی شخصیت و خدمات کو بھر پورکو اجاگرکیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کتاب کی اشاعت میں مصنف نے عجلت کامظاہرہ کیا ہے اور کتاب کے موضوعات کی ترتیب کوملحوظ نہیں رکھا اور نہ ہی واضح سرخیوں کے تحت ذیلی موضوعات کوبیان کیاہے۔ ان خامیوں کے باوجود محمداسحاق کو اس ادبی کارنامے کی اشاعت پر صمیم قلب سے مبارکباد دی جاتی ہے اوران سے امید بھی ہے کہ اس کتاب کا اگلا ایڈیشن چند اصلاح طلب پہلووئں کو پیش نظر رکھ کر جلد ہی ضرور منظرعام پرلائیں گے اوراس پہلی کتاب میں ہونے والی متعدد اغلاط کا ازالہ ممکن ہوسکے گا۔ 193صفحات پرمشتمل اس کتاب کی قیمت200 روپئے رکھی گئی ہے جومحمداسحاق سے گولکنڈہ حیدرآباد سے فون نمبر:9948141640پر ربط پیدا کرتے ہوئے حاصل کی جاسکتی ہے۔

٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔