تبصرہ – نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل

نام کتاب: نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل
مصنف: محی الدین غازی
صفحات: ۱۳۲؍، قیمت: ۱۰۰؍روپے
سن اشاعت: ۲۰۱۵ء
ناشر: ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس، جامعہ نگر۔ نئی دہلی۔۲۵، موبائیل نمبر:9891051676
مبصر: سدید ازہر فلاحی، استاذ جامعہ اسلامیہ شانتاپرم کیرلا
نماز دین کا ستون اور ایمان کا اولین مظہرہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ ’اقامت صلوۃ‘کی تاکید آئی ہے ۔مگر قرآن میں نہ کہیں ’صلوۃ‘ کا تعارف آیاہے اور نہ اس کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ’صلوۃ‘ دیگر عبادات کی طرح ابراہیمی روایت کا حصہ تھی۔ بنی اسماعیل نماز سے واقف ہی نہ تھے بلکہ نماز ادا بھی کرتے تھے۔ سورہ توبہ اور سورہ ماعون میں مشرکین کی نمازوں پر تنقید بھی کی گئی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کی روشنی میں نماز کی بگڑی ہوئی شکل کو درست کرکے اسے صحابہ میں رائج کردیا۔صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر نمازکا طریقہ سیکھا اورصحابہ کے بعد آنے والے مسلمانوں نے ان کو دیکھ کر اور ان کے پیچھے نماز یں ادا کرکے یہ عبادت سیکھی۔ اسی طرح مسلمانوں نے نسل در نسل نماز کا طریقہ سیکھا۔ اس حقیقت کو نگاہوں میں نہ رکھنے کی وجہ سے لوگوں میں کئی مغالطے پیدا ہوئے۔ایک طرف حدیث کی حجیت کا انکار کرنے والوں نے قرآن میں مذکور اصطلاح ’صلوۃ ‘کی محض اس وجہ سے من مانی تاویلات کیں کہ مسلمانوں میں رائج نماز کا قرآن میں تفصیلی ذکر نہیں ہے۔دوسری طرف روایت پرستوں نے دین میں اخبار آحاد کے صحیح مقام میں غلو کرتے ہوئے یہ دعوی کیا کہ انہی روایتوں کے سہارے دین کی عمارت قائم ہے اور ان کے بغیر نماز، روزہ ، زکوۃ اور حج جیسی بنیادی عبادات بھی انجام نہیں دی جاسکتیں۔جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ نماز امت نے احادیث سے نہیں سیکھی بلکہ بخاری و مسلم جیسے محدثین نے بھی نماز اس وقت کی امت سے سیکھی تھی۔
نماز کے موضوع پر علمائے سلف و خلف نے بہت کچھ لکھا ہے لیکن ڈاکٹر محی الدین غازی کی تازہ کتاب’نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل‘اس موضوع پر ایک منفرد تصنیف ہے۔ یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ نماز کے موضوع پر امت مسلمہ کی پوری علمی تاریخ میں یہ اس نوعیت کی پہلی کاوش ہے۔یہ شاہکار تصنیف کئی برسوں کے فکر وتحقیق کا نچوڑ ہے۔ نماز کے موضوع پر سلف و خلف میں سے اعتدال پسند علماء نے بھی داد تحقیق دی ہے اور اپنے مسلک کی برتری کے علمبردار متعصب علماء نے بھی اس پر لاکھوں صفحات سیاہ کیے ہیں۔ ان سب کے ہاں یہ چیزتقریباً تسلیم شدہ ہے کہ روایات ہی کے واسطے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ ہم تک پہنچاہے۔ان کا سارا زور اس پر بات صرف ہوا ہے کہ روایات کو جمع کرکے اور ان کی تحقیق کرکے یہ ثابت کیا جائے کہ نماز کا صحیح طریقہ کون ساہے۔اس کے نتیجے میں ہر مسلک کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف ہمارا طریقۂ نماز ہی صحیح ہے اور اس کے علاوہ ہر طریقہ غلط ہے۔
اس عام رویہ کے برعکس زیر نظر تصنیف میں نمازکے اختلافات کو بالکل مختلف زاویہ سے دیکھا گیا ہے ۔اسے آپ Paradigm Shift سے تعبیر کرسکتے ہیں۔اس کتاب میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ نمازکا طریقہ روایتوں کے ذریعے نہیں بلکہ امت کے عملی تواتر کے ذریعے نسل در نسل منتقل ہوتاچلاآرہا ہے۔نمازکے جتنے طریقے امت میں رائج ہیں سب درست ہیں۔ اس لیے کہ ان سب طریقوں کے حق میں امت کے عملی تواتر کی مضبوط دلیل ہے۔ نماز کے مختلف طریقوں کو ائمہ فقہ کی جانب منسوب کرنا بھی صحیح نہیں ہے۔کیونکہ امت نے ان اماموں سے نماز کا طریقہ نہیں سیکھابلکہ ان اماموں نے امت سے نمازکا طریقہ سیکھاہے۔نماز میں اجتہاد کا کوئی دخل نہیں ہے بلکہ یہ سراسر توقیفی عمل ہے۔اماموں کا کام بس یہ تھا کہ انہوں نے اپنے ہاں رائج نماز کے طریقے کی تدوین کردی۔
اس میں شک نہیں کہ نماز ،روزہ، زکوۃ ، حج اور بعض دیگر امور کے سلسلے میں یہ رائے بعض محقق علماء کے ہاں ملتی ہے کہ یہ چیزیں درحقیقت امت کے عملی تواتر سے منتقل ہوتی چلی آرہی ہیں۔علامہ ابن عبدالبر اس عملی تواتر کو نقل الکافۃ عن الکافۃ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کے لیے متقدمین کے ہاں تعامل، توارث اورنقل الخلف عن السلف کی تعبیرات بھی ملتی ہیں۔ لیکن چونکہ عام طور پر ہماری علمی روایت میں سنت (جو امت کے عملی تواتر سے منتقل ہوتی چلی آرہی ہے) اور حدیث ( جو اخبار آحادکا مجموعہ ہے)کو گڈمڈ کردیا جاتا ہے اس لیے عملی تواتر کو اصول کی سطح پر ماننے کے باوجود علماء اس کی تطبیق میں یا تو بخل برتتے ہیں یا غلطی کرجاتے ہیں۔کچھ علماء یہ تو مانتے ہیں کہ نماز کی متفق علیہ چیزیں(مثلاً فرض نمازوں میں رکعتوں کی تعداد، نماز کے ارکان وغیرہ )عملی تواتر سے منتقل ہوئی ہیں لیکن جہاں تک اس کی مختلف فیہ جزئیات کا تعلق ہے (مثلاً رفع یدین، آمین بالجہر، امام کے پیچھے فاتحہ کی قرأت وغیرہ) وہ ان پرعملی تواتر کا اصول منطبق نہیں کرتے بلکہ ان کے سلسلے میں روایات ہی کو دلیل راہ بناتے ہیں۔اسی طرح کچھ فقہاء صرف ان مسائل میں عملی تواتر کا ذکر کرتے ہیں جن کے سلسلے صحیح اورواضح روایات موجودنہیں ہوتیں (مثلاًفرض نمازوں میں جہری و سری قرأت، عورتیں کے رکوع اور سجدے کی ہیئت )۔مالکیہ نے عملی تواتر کوایک شرعی دلیل کے طور پر تسلیم کیا ہے مگرانہوں نے اسے صرف اہل مدینہ کے ساتھ خاص کردیا ہے (جسے وہ تعامل اہل مدینہ کہتے ہیں)اور اپنے مسلک کی تائید میں اس کو استعمال کرتے ہیں۔ زیر نظر کتاب کے مصنف کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے عملی تواتر کے اصول کا انطباق نماز کے تمام فروعی اختلافات پر کرکے یہ بتادیا ہے کہ امت کے عملی تواتر کی دلیل درحقیقت وہ شاہ کلیدہے جس کے ذریعے نمازسے متعلق تمام اختلافات چشم زدن میں حل ہوجاتے ہیں۔
مصنف اس بات کو بڑی شد و مد کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ نماز کے جتنے طریقے امت میں رائج ہیں وہ سب درست اور سنت کے مطابق ہیں۔تمام طریقے مسلمانوں تک عملی تواترکے ذریعے منتقل ہوئے ہیں ۔کسی علاقے میں ایک طریقے کو زیادہ رواج ملا تو کسی دوسرے علاقے میں دوسرے طریقے کو رواج ملا۔روایات کی کثرت وقلت یاصحت و ضعف کی بنا پر ان میں سے کسی طریقے کو راجح یا مرجوح ، افضل یا غیر افضل نہیں قراردیا جاسکتا۔
مصنف نے امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم کے حوالے سے اختلافِ تنوع کے موضوع پر بہت قیمتی گفتگو کی ہے۔ ایک کام کو کرنے کے متعدد طریقے ہوں اور سب درست ہوں تو ہر ایک کو اختیار ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ طریقے پر عمل کرے۔ اس نوعیت کے اختلاف کو اختلاف تنوع کہتے ہیں۔ نماز سے متعلق امت کے مختلف مسالک میں موجود اختلافات دراصل اسی نوعیت کے ہیں۔ ان میں تشدد حرام ہے۔ ان کے سلسلے میں صحیح رویہ یہ ہے کہ سبھی طریقوں کو درست تسلیم کیا جائے ۔ یہ تسلیم کیا جائے کہ رفع یدین کرنے والا بھی سنت پر عمل کررہا ہے اور رفع یدین نہیں کرنے والا بھی سنت پر عمل پیرا ہے ،آمین بالجہر کہنا بھی مسنون ہے اور آہستہ آمین کہنا بھی مسنون ہے۔
نماز سے متعلق کچھ اختلافات فقہی فیصلوں کی بنیاد پر ہوئے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو نمازکا طریقہ بتایا تھا مگریہ نہیں بتایا تھاکہ کون سا عمل واجب ہے اور کون سا عمل سنت۔نماز کے ہر جزئیے سے متعلق فقہی حکم متعین کرنے کا کام فقہاء نے انجام دیا۔ فقہی حکم متعین کرنے میں فقہاء کے درمیان اختلاف بھی ہوا ہے۔ مصنف کے بقول اس نوعیت کااختلاف صرف اسی وقت ظاہرہوتا ہے جب کوئی بھولے سے یا عمداً کسی نماز کے عمل کو چھوڑدیتا ہے۔مصنف نے فقہی حکم متعین کرنے میں بعض فقہاء کے غیر محتاط اور شدت پسندانہ رویہ پر بھی تنقید کی ہے۔مثلاً کسی فقیہ کے نزدیک نماز کا ایک عمل واجب کی حد تک مطلوب ہوجاتا ہے اور دوسرے فقیہ کے نزدیک مکروہ تحریمی کی حد تک غیر مطلوب۔ مصنف نے یہ واضح کیا ہے کہ یہ فقہاء کا نقطۂ نظر ہے جو اسے اختلافِ تضاد بنا دیتاہے۔ ورنہ حقیقت میں یہ بھی تنوع کااختلاف ہی ہے۔
مصنف نے نماز کے سلسلے میں Shift of emphasis کی بات بھی کہی ہے۔ ہمارا سارا زور نماز کے طریقے پر ہوتا ہے۔ جبکہ نماز کی کیفیت پر زیادہ زور دینا چاہیے۔یہ بات قابل غور ہے کہ قرآن میں کئی مقامات پر سچے اہل ایمان کی نمازوں کی کیفیت کی تصویر کشی کی گئی ہے اور منافقین کی اس بات پر مذمت بھی کی گئی ہے کہ وہ سستی اور بے دلی کے ساتھ نمازیں ادا کرتے ہیں۔ لیکن کہیں بھی نماز کی ادائیگی کا طریقہ بیان نہیں کیا گیا ہے۔ قیام، رکوع اور سجود کا ذکر توہے مگر اس کا مقصد بھی نماز کا طریقہ یا اس کے ارکان بتانا نہیں بلکہ کیفیات ہی طرف توجہ دلانا ہے۔ نماز کے طریقے کے سلسلے میں چھوٹی چھوٹی باتوں پرلڑنے والوں نے اس کی روح اور اسپرٹ کو ضائع کردیا ہے۔
اس کتاب کی تالیف کا مقصد جہاں موضوع سے متعلق علمی الجھنوں کے جنگل کو صاف کرنا ہے وہیں امت میں اتحاد و اتفاق کے مشن کو آگے بڑھانا بھی ہے۔نماز اتحاد امت کا درس دیتی ہے اورخدا کے بندوں میں ہرقسم کی تفریق مٹاتی ہے۔ مگر اسی نماز کو فرقہ بندی کی سب سے بڑی علامت بنادیا گیا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہی ہے نماز کے اختلافات کو صحیح زاویۂ نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ تنوع کے اختلاف کو تضادکا اختلاف سمجھ لیا گیا۔ امت میں رائج نماز کے سبھی طریقے مسلمانوں کے بے نظیر عملی تواتر سے ثابت ہیں۔ اس روز روشن کی طرح عیاں حقیقت کو روایت پرستی اور مسلک پرستی کے غبار میں گم کردیا گیا۔زیر تبصرہ کتاب ایک نیا انداز فکر تشکیل دیتی ہے جس کے ذریعے امت کے افتراق و انتشار کے ایک بڑے سبب کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔
اس وقت جبکہ امت کا ہر گروہ اپنے مسلک کا علم بلند کرکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سکھائے ہوئے نماز کے طریقوں میں سے اپنے اختیار کردہ طریقے کے علاوہ تمام طریقوں کے خلاف محاذ آرائی کیے ہوئے ہے اورعملی تواتر کی مضبوط بنیادوں پر منتقل ہوتی چلی آرہی سنتوں پر روایات کانشتر چلارہاہے، ہر مسلک و مشرب کے علماء کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے اور مسلکی تعصب کی عینک اتار کرپڑھنی چاہیے۔ اس کتاب میں پیش کردہ نقطۂ نظر کو عوام میں زیادہ سے زیادہ فروغ دینا چاہیے تاکہ نمازوں کے نام پر انتشار و افتراق کی صورت حال کا خاتمہ ہو اور امت میں اتحاد و اتفاق کی سبیل پیدا ہو۔

تبصرے بند ہیں۔