تبلیغی جماعت ۔ تاریخ کے  موڑ پر

پروفیسر محسن عثمانی  ندوی 

    آج  دنیا میں کون ہے جوتبلیغی جماعت کے نام اور کام سے واقف نہیں۔ دنیا کے ہر ملک میں شہر بہ شہر  قریہ بہ قریہ تبلیغی جماعت کے قافلے سواریوں پر ٹرینوں پراور پیدل چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آگیاعین سفر میں اگر وقت نماز تو پلیٹ فارم پر بھی قبلہ روہو کر جماعت کے ساتھ وہ نمازپڑھتے ہوئے نظر آئیں گے۔ لوگ انہیں دیکھتے ہیں تو کسی اور دنیا کے لوگ نظر آتے ہیں، زبانیں مسنون دعائوں اور ذکرسے تر، چہرہ پر نور، تمدن کی خوش جمالیوں سے دور، آنکھوں میں نیند کا خمار اور شب بیداری کے آثار، پیشانیوں پر سجدوں کے نشان، لباس گرد آلود، رخت سفر بردوش، دین کا درد اور جوش، دور سے دیکھ کر لوگ ان کو پہچھان لیتے ہیں۔ یہ نماز اور کلمہ کی دعوت دینے والے لوگ ہیں، یہ مسجدوں میں ٹھہرتے ہیں یہ شہروں اور گاوں کے راستوں میں اپنا سامان اٹھائے ہوئے چلتے ہوئے نظر آئیں گے

                                یہ تیری گلیوں میں پھر رہے ہیں جو چاک  داماں سے لوگ ساقی

                                کریں گے تاریخ مئے  مرتب  یہی  پریشاں سے لوگ ساقی

                                 لبوں پہ ہلکی  سی مسکراہٹ   جلو  میں صد  انقلاب  رقصاں

                                 نہ جانے آتے ہیں کس جہاں سے یہ حشر داماں سے لوگ ساقی

  مولانا الیاس  نے  میوات میں لوگوں کے  اعمال اور ایمان  کی اصلاح کے لئے یہ تحریک شروع کی تھی  اور دیکھتے دیکھتے یہی تحریک ساری دنیا میں پھیل گئی ہر جگہ سماجی  سطح پر انقلاب رقصاں تھا، مولانا الیاس اکیلے  چلے تھے لیکن  لوگ ساتھ آتے گئے  اور کارواں بنتاگیا  اور اب  ان کے قدموں کے نشاں کواور غبار کارواں کو  ہر جگہ لوگ بچشم سر دیکھ سکتے ہیں۔ عرب وعجم مشرق ومغرب  کے لوگ کاروان تبلیغ میں شریک اور سرگرم سفر نظر آتے ہیں، تبلیغی جماعت بہت اہم  اور قابل قدر جماعت ہے، ہمیں اکثر محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک انقلابی نوعیت کی خانقاہ ہے۔ تزکیہ باطن، تطہیر نفس، ذکر وعبادت، دعاء ومناجات، سنتوں پر عمل تبلیغی جماعت کی امتیازی صفت ہے  اور یہی خصوصیات  خانقاہوں کی بھی رہی ہیں۔ پہلے لوگون میں دین کی طلب ہوتی تھی  اور وہ دور دراز کا سفر کرکے خانقاہوں اور روحانی مرکزوں تک پہونچتے تھے، مولانا الیاس نے دیکھا کہ  اب وہ پہلے جیسی دین کی  طلب باقی نہیں رہی ہے اور دین حاصل کرنے کا شوق نہیں رہا  تو انہوں نے متحرک اور سرگرم سفر خانقاہوں کا نظام قائم کردیا، پہلے پیاسا کنویں کے پاس جاتا تھا  طلب کی کمی کو دیکھ کر  مولانا الیاس نے اپنی ذہانت سے  اور مجتہدانہ فکر سے  یہ انتظام کیا کہ اب کنواں پیاسوں کے پاس چلا جائے، یہی نظام ہے جسے لوگ تبلیغی جماعت کے نام سے یاد کرتے ہیں، لوگ اپنا وقت فارغ کرکے  جماعت میں شریک ہوتے ہیں اور دین کی بنیادی باتیں سیکھتے ہیں اور ذکر وعبادت کا اہتمام کرتے ہیں۔ تبلیغی جماعت کے کارناموں کا سب کو اعتراف ہے ۔ یہ معمولی کارنامہ نہیں کہ تبلیغی جماعت کی  وجہ سے  لاکھوں لوگ جو بے نمازی تھے نمازی بن گئے  اور جو  پہلے سے نمازی تھے وہ  شب بیدار، تہجد گذار بن گئے۔ دینی بیداری کا نیا  منظر لوگوں کے سامنے آیا۔ اور ہندوستان میں بقائے  اسلام کے لئے  جو لوگ فکر مند تھے  ان کو اطمنان حاصل ہوا کہ اس جماعت کے ذریعہ  لاکھوں لوگوں کی دینی اور روحانی تربیت کا انتظام ہورہا ہے، اور اس دریا کے پانی کے ہلکورے  دوسرے ملکوں کے ساحل کو چھور رہے ہیں۔ بلکہ ابر رحمت بن کر ہر جگہ برس رہے ہیں۔

      تبلیغی جمات کے لئے تعریف کے تمام الفاظ کم ہیں، ایسی عالمگیر تحریک کے ذمہ داروں سے ادب واحترام کے ساتھ تاریخ کے موڑ پر کچھ معروضات پیش کرنے کا جی چاہتا ہے، اور یہ کہنے کا جی چاہتا ہے کہ ’’ خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے ‘‘   اگرمرکزنظام الدین  سے  فتنہ وفساد  اور خون خرابہ اورباہمی حرب وضرب کی خبریں ملنے لگیں تو ہر مسلمان کو تکلیف ہوتی ہے ایسا لگتا ہے کہ اب  وہاں چاک جگر محتاج رفو  ہو گیا ہے، الزام ودشنام، بہتان طرازی، عیب جوئی  مخالفت اور تشدد کا ماحول پیدا ہوگیا ہے، تبلیغ کے کام کی قدر کرنیوالوں کو شرمندگی ہونے لگی ہے، تبلیغی جماعت پرکچھ تنقیدیں کی گئی ہیں اور ان تنقیدوں میں وزن بھی ہے مثال  کے طور پر جماعت میں کافی وقت دینے پر بھی دین کا جامع  تصور لوگوں کو نہیں مل پاتا ہے  قرآن کے مطالعہ اور سیرت کی کتابوں سے کسی کو کوئی شغف نہیں ہوتا ہے صرف تبلیغی نصاب اور فضائل کی کتاب سے لوگ  وابستہ نظر آتے ہیں اور صرف ان ہی کو حرز جاں بناتے ہیں۔ اس کے جواب میں یہ کہنا کہ فضائل کی کتابوں میں بھی  قرآنی آیات موجود ہیں غلط جواب ہے۔ کسی بھی کتاب میں جس میں قرآن کی آیات  ہوں کیا وہ کتاب  قرآن کا بدل بن سکتی ہے ؟

     تبلیغ کے مرکزمیں کون فریق حق پر ہے اورکون غلطی پر ہے  اور منجھدار سے کشتی کو کیسے نکالا جاسکتا ہے ان باتوں کا فیصلہ کرنا  باہر کے کسی آدمی کے لئے ممکن نہیں لیکن  ایک عرصہ سے  جو باتیں سننے میں آرہی ہیں اور محسوس کی جارہی ہیں ان کی روشنی میں یہ کہنے کی جسارت کی جاتی ہے کہ جب مقبولیت بہت بڑھ جاتی ہے  اور جب قربانیوں کے بعد فتوحات کا دور آتا ہے  اور دولت امنڈ کرکے آتی ہے  اور سیم وزر کی ریل پیل ہوتی ہے تو اس آزمائش میں بہت کم لوگ  خود کو  درویشانہ اور قلندرانہ مقام پر باقی رکھ پاتے ہیں دولت کی آزمائش فقر کی آزمائش سے زیادہ شدید ہوتی ہے  حضرت عمر کے زمانہ میں جب جلولہ فتح ہوا تھأ  تو تین کروڑ کا مال غنیمت ہاتھ آیا تھا، مسجد نبوی میں دولت کا انبار لگا تھا، شام کا وقت تھا، سیم وزر کے انبار پر چادر ڈال دی گئی تھی، صبح  جب ہوئی تو حضرت عمر  دولت کے انبار کو دیکھ کر رونے لگے  جب لوگوں نے دریافت کیا تو کہا کہ جہاں دولت کا قدم آتا ہے  وہاں رشک بھی آتا ہے اور حسد بھی آتا ہے  جس کے نقصانات ہوتے ہیں۔ فتنے  سر اٹھاتے ہیں۔ اور اس کا تجربہ کئی دینی اداروں میں ہو چکاہے، ہم دعاء کرتے ہیں کہ تبلیغ کے ذمہ داروں کو اللہ تعالی فریب نفس اور نفسانیت سے بچائے  اور ان کو استغناء پر قائم رکھے  استغناء وہ زرہ ہے  جو ہر حال میں انسان کو  شیطان کے حملہ سے روکتی ہے  اور شیطان انسان کے لئے زرکو ہمیشہ قاضی الحاجات بنا کر پیش کرتا ہے۔

 دوسرا معروضہ ادب واحترام کے ساتھ یہ ہے کہ  اسلام میں بغیر امیرکے کسی تنظیم کا  تصور نہیں کیا جاسکتا ہے، جس دین میں یہ حکم ہو کہ سفر میں بھی کسی کو امیر بنالینا چاہئے  اس دین میں ایک پوری دینی تحریک بغیر کسی مستقل امیر کے ہو اور صرف شوری کا نظام ہویہ نا قابل تصور بات ہے اور خلاف سنت ہے، اصحاب شوری یا ارباب حل وعقد کا کام ہے کہ وہ  امیر کا انتخاب کریں اور امیر کے انتخاب کی ہمیشہ ضرورت پیش آتی رہتی اس میں موروثی  نظام سے  بچنے کی بھی کوشش کرنی چاہئے  عالم اسلام میں اور بر صغیر میں کئی اہم دینی تحریکات  موجود ہیں اور ان کی عظیم الشان خدمات ہیں، ان کے اندر موروثیت  کے نظام کی خرابی نہیں پائی جاتی ہے  حدیث میں خلافت راشدہ کونمونہ بنانے کا حکم دیا گیا ہے جس میں موروثی نظام نہیں تھا، ’’علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین ‘‘ اس وقت  عالم اسلام میں موروثیت اور ملوکیت کا نظام  جہاں جہاں ہے  وہ غلط ہے یہ علماء کا فریضہ ہے کہ وہ  احتساب کے فریضہ سے غافل نہ ہوں۔ ’’ ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات ‘‘

     تبلیغی جماعت کے کاموں کا ایک مخصوص دائرہ ہے  اور میدان عمل کی اس کی اپنی ترجیحات ہیں اور یہ ترجیحات منزل من اللہ نہیں ہیں کہ ان میں کمی بیشی نہ ہوسکے  یہ تبلیغ کے ذمہ داروں کا کام ہے کہ حالات کے لحاظ سے کاموں کی  ترجیحات کے بارے میں غور کریں تاکہ ملت مسلمہ دین دار ہونے کے ساتھ زیادہ باشعور ہوسکے تبلیغی جماعت کے چھ اصولوں میں ایک  اصول اکرام مسلم بھی ہے  اس میں احترام آدمیت اور خدمت انسانیت  کا بھی اضافہ کردیا جائے  توشاید  اس پر عمل  ہندوستان میں اور عالمی حالات میں اسلام اور مسلمانوں کے حق میں اچھی فضا پیدا کرنے میں اور دعوت کے کام میں معاون ہو ۔ اس وقت شدید ضرورت اس بات کی ہے  کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات  انسانی اور اخلاقی  بنیادوں پر قائم ہوں اس ضرورت  کا اندازہ  ہر اس شخص کو ہوگا  جو فکر امروز اور اندیشہ فردا رکھتا ہو۔ تبلیغ کے کام میں تبلیغی نصاب اور کتاب فضائل  پڑھی جاتی ہے یہ اچھی کتابیں ہیں لیکن  ان کتابوں پر عمل کرکے ایک انسان  قائم اللیل اور صائم النہار  اور متقی اور پر ہیزگار  اور زاہد وعابد بن سکتا ہے  لیکن باشعور انسان نہیں بن سکتا ہے  اور با شعور انسان کی  اہمیت کیا ہے  اس کو اس حدیث سے  سمجھناچاہئے  جس میں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا  کہ’’ ایک عالم(باشعور  انسان) کی فضیلت  ایک عابد پر ایسی ہے  جیسے میری فضیلت تم میں ایک  ادنی انسان پر‘‘۔ با شعورعالم انسان وہ ہے  جسے  تاریخ کا  اور ملک اور دنیا کے حالات کا  اور وقت کے تقاضوں کا علم ہو اور  خاص حالات میں وہ  دین کو  غالب کرنے  کا طریقہ جانتا ہو۔ شعور پیدا کرنے کے لئے  باشعور علماء کی کتابوں کا مطالعہ  مفید ہوسکتا ہے۔ تبلیغی کام میں عوام اور خواص دونوں شامل ہیں کم از خواص  اورتبلیغ کے کاموں کے ذمہ دار  حضرات کی ذہنی تربیت کے لئے فکر انگیز کتابوں کا مطالعہ بے حد ضروری ہے، مرکز کی طرف سے ان کو اس کی تلقین کی جانی چاہئے  اس سلسلہ میں کئی مصنفین  کا نام لیا جاسکتا ہے لیکن ان پر اتفاق  اہل تبلیغ  نہیں کرسکیں گے اس لئے  صرف  ایک ایسی شخصیت کانام  لینا مناسب ہو گا  جن کا مولانا الیاسؒ  سے ربط خاص تھا  اور جنہوں نے مولانا الیاس ؒ کی شخصیت اور ان کی دینی تحریک پر کتاب  بھی لکھی ہے  اور وہ مولانا  ابو الحسن علی ندوی کی شخصیت ہے  اور تبلیغی جماعت کے بہت سے ذمہ دارحضرات ان سے ارادت کا تعلق بھی رکھتے ہیں عوام کو نہ سہی لیکن خواص کو اور ان لوگوں کو جو مختلف شہروں میں تبلیغی کام کے ذمہ دار ہیں مرکز تبلیغ کی طرف سے  یہ تلقین کی جائے کہ وہ  مولانا علی میاں کی کتابوں ’’انسانی دنیا پر مسلمانوں کی عروج وزوال کا اثر ‘‘  اور ’’ اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش  ‘‘ ’’سیرت سید احمد شہید ‘‘ اور’’ تاریخ دعوت وعزیمت ‘‘ وغیرہ کا مطالعہ کریں اور قرآن مجید اور سیرت نبوی  کی کتابوں کو خاص طور پر مطالعہ میں داخل کریں تاکہ تبلیغی جماعت کی تحریک  ایسے ہوشمند اور  باشعور لوگوں کی تحریک بن سکے جودنیا میں دعوت اورمختلف حالات میں خدمت  اسلام کی تاریخ سے واقف ہوں۔

  ادب اور احترام کے ساتھ تبلیغی جماعت کے ذمہ داروں کے لئے یہ مخلصانہ  معروضات پیش کی گئی ہیں، اندیشہ ہے کہ  یہ معروضات  در خور اعتناء  نہ ہوسکیں گی، پھ’ل کی پتی سے ہیرے کا جگر نہیں کٹتا ہے اور   فقہ کا مسئلہ بھی  ہے کہ نماز میں امام  اگر اس شخص کا لقمہ قبول کرلے  جو نماز میں شامل نہیں ہے  تو اس سے  امام کی نماز باطل ہوجاتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔