’’سفیران حرم‘‘

تاریخ کے اوراق

ابوذرعبد الاحد فرقانی 

            روئے زمین پر آباد تمام چھوٹے بڑے ممالک کے باہمی رشتے تجارت اور معاشیات پر مبنی ہیں۔ تجارت کے فروغ سے ہی اقتصادی ترقی اور استحکام کا سلسلہ شروع ہوتا ہے نیز دیگر عوامل بھی تجارتی رشتوں میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ثقافتی معاملات میں بھی مضبوطی پیدا ہوتی ہے اور ایک دوسرے پر انحصار ہو جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں یہ انحصار ناگزیر بھی ہو جاتا ہے۔ مثال کے طورپر عرب و ہند کے روابط سفر حج کے ہی حوالہ سے ہیں۔

            سر زمین حجاز اسلامی وراثت کے خزانوں سے مالا مال ہے۔ یہاں مسلمانوں کے دو مقدس ترین شہر مکہ مکرمہ  اور مدینہ منورہ آباد ہیں۔ تاریخ اسلام میں رونما ہونے والے تمام سیاسی و سماجی اور معاشرتی انقلابات اور یہاں کے تہذیب وتمدن کے عروج کی عینی شاہد یہ ارض پاک دنیا بھر کے مسلمانوں کی ذہنی و قلبی توجہ کا مرکز ہے۔ چناں چہ ہندوستانی مسلمانوں کی کشش کے اسباب بھی یہی ہیں۔ ساحل سمندرپر واقع یہاں کا اقتصادی شہر جدہ، نہ صرف عازمین حج کے لیے مکہ مکرمہ کا داخلی باب ہے بلکہ دنیا بھر کے تاجروں کو بحراحمر میں داخلہ کا پروانہ یہیں ملتا ہے۔ یہاں لنگر انداز ہونے والے جہاز نہ صرف زائرین حرمین کو لے کر آتے ہیں بلکہ ہندوستانی تاجروں کوبھی ان کے سامان تجارت کے ساتھ لاتے ہیں۔ سامان تجارت میں اہل عرب کے پسندیدہ ہندوستانی مصالحے، ہیرے جواہرات، صندل، عود و عنبر اور تمام خوشبوجات کے ساتھ دیگرضروری اشیاء بھی شامل ہیں۔

            عازمین حج کی آمد سے اہل عرب کا ہندوستانی تاجروں کے ساتھ ربط و ضبط بڑھا اور تجارتی سلسلہ جو پہلے ہی سے تھا اس کو بھی فروغ ملا۔ بحری و بری راستوں سے کارواں بنا کر آنے والے عازمین حج اور تاجرایسے دشوار گذار اور پرخطر راستوں سے گذرتے تھے جہاں بحری قزاقوں، رہزنوں اور بالخصوص صفوی شیعوں سے مقابلہ رہتا تھااور ہندوستان سے آنے والے سندھی تاجر اور زائرین کو جن میں بیشتر سنی مسلمان ہی تھے 712-664 عیسوی میں بلکہ مغلیہ دور میں بھی یعنی اٹھارویں صدی عیسوی تک بحری سفر کے لیے خلیج فارس یا بحر احمر سے ہو کر آنا پڑتا تھا۔ سولہویں صدی عیسوی تک بحر ہند پر پرتگالیوں کی حکم رانی اور بحری قزاقوں کا بے انتہاتسلط تھا۔ جبراً پرتگالیوں کا سامان بھی لادنا پڑتا تھا اسی لیے بحرہند سے بحر احمر تک کا سفر بڑا جان جوکھم کا ہو گیا تھا۔

            مشہورمورّخ بدایونی نے’’ آئین اکبر ی‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک وقت ایسا آیا کہ مغل حکمرانوں نے حجاج کے لیے نامساعد حالات کے پیش نظر سفر مکہ پر پابندی عائد کردی۔ حالاں کہ مغل شہنشاہ و سلاطین حجاج کرام کی بڑی حوصلہ افزائی اور دست گیری کرتے تھے اور ان کے لیے خصوصی جہازوں کا نظم بھی فی سبیل اللہ کرتے تھے بالخصوص مصر و شام سے آنے والوں کے لیے مقامات مقدسہ کے نگراں خلفاء بھی عازمین حج کے حفاظتی انتظامات کے لیے تمام سہولتیں مہیا کراتے اور کافی خرچ کیا کرتے تھے۔ مغلوں کے عہد سلطنت میں صوبہ گجرات کے ساحل سورت کو ’بندر مبارک‘ یا ’باب مکہ ‘کے نام سے موسوم کیا گیا تھا۔ بنگال، بیجاپور اور گول کنڈہ کے حکمرانوں نے بھی عازمین حج کے لیے جنوبی ہند کے ساحلوں کا استعمال کیا۔ اکبر کے عہد حکومت میں پہلی بار سفر حج کے لیے سرکاری خزانہ سے سبسیڈی کا اہتمام کیاگیا۔ اکبر اعظم نے ہی مکہ مکرمہ میں حاجیوں کے لیے ہسپتال بنوایا (سوریہ فاروقی1994) 1575 کے بعد پرتگالیوں کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت بحر احمر میں حجاج کرام کے جہازوں کو جدہ تک کا سفر بحفاظت کراناطے ہوااور اکبر نے ہی شام و مصر کی طرز پر ہر سال ہندوستان سے بھی حاجیوں کے قافلے بھیجنے کا حکم صادر کیا اور اس کار عظیم کے لیے اپنے ایک مصاحب خاص عبد الرحیم خان خاناں کو ’’میر حج‘‘ مقرر کر دیا اور تین بحری جہاز مختص کردیے اور ایک سرائے بھی بنوادی۔ جان فریرکائنے (حاجی محمد امین)کے بقول جدہ جانے والا 1400سے1600  ٹن کا وزنی جہاز تقریباً 1700  زائرین حج کو لے جاتا تھا۔ یہ سلسلہ کم و بیش جہاں گیر اور شاہ جہاں کے عہد تک چلا اور میر حج کا عہدہ بر قرار رہا اور مکہ معظمہ کو مالی استعانت بھی جاری رہی۔ اس میثاق (سمجھوتہ) کے باوجود اُسی زمانہ میں ایک غیر معمولی واقعہ یہ ہوا کہ رحیمی نام کے بحری جہاز کوجو جہاں گیر بادشاہ کی والدہ مریم زمانی المعروف بہ جودھا بائی کی ملکیت تھا 1613 عیسوی میں پرتگالیوں نے پکڑ لیا۔ بحر ہند میں اپنی نوعیت کا یہ سب سے بڑا جہاز تھا۔ 1500 ٹن کا یہ جہاز اتنے ہی مسافروں کو لانے لیجانے کی وسعت رکھتا تھا۔ اس کو یوروپ میں عازمین حج کا سب سے بڑا جہاز سمجھا جاتا تھا۔ مغل جو ہمیشہ سے پرتگالیوں کی محافظت اور نگہبانی پر انحصار کرتے آرہے تھے انہوں نے اس سانحہ کو سلطنت مغلیہ کی تحقیراور مذہبی امور کی اہانت سمجھااور اس احساس کے ساتھ ہی برطانوی لوگوں کے لیے جو 1608 سے مغلوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کی ناکام کوشش کرتے رہے تھے مغلوں کا رویہ کچھ نرم ہونے لگا اور اسی سے ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام کی راہیں آسان ہو گئیں اورآخر کارفرنگیوں کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام کا اجازت نامہ مل ہی گیا۔

            شہنشاہ اورنگ زیب جو تمام دیگرمغل بادشاہوں میں سب سے زیادہ کٹر مذہبی مسلمان سمجھا جاتا تھا جحاج پر  بے دریغ خرچ کرتا تھا۔ اورنگ زیب ہر سال کم از کم دو جہاز تمام مسلمانوں کے علاوہ علماء اولیا کو بھی حج کے لیے بھیجتا تھا۔ جے بی تاورنیر کا کہنا ہے کہ اورنگ زیب کے یہ جہاز عازمین حج کو بلا معاوضہ لے جاتے تھے۔ اورنگ زیب کے عہد میں تو عام لوگوں کے علاوہ درباری امراء اور حرم شاہی کی کنیزیں بھی اس کار عظیم میں شریک رہتی تھیں۔ خود اورنگ زیب کی بیٹی زیب النساء نے اس وقت کے ایک بڑے عالم دین (اسکالر) صفی ابن ولی القزوینی کو قرآن کریم کی تفسیر لکھنے پر مامور کیا اور ذات خاص سے ان کی کفالت کی۔ یہ تفسیر’’ زیب التفسیر‘‘ کے نام سے مشہور ہے اسی معرکتہ الآرا ء تصنیف کے صلہ میں حج کرایا۔ صفی القزوینی1676  عیسوی مطابق 1087 ہجری کے ماہ شوال کی 15 تاریخ کو سلامت رازنامی جہاز سے سفر حج پر روانہ ہوااور 3 ذی الحج کو مکہ مکرمہ پہنچا۔ قزوینی نے ’’انیس الحج‘‘ نام سے ایک سفر نامہ لکھا ہے یہ تاریخ حج پر ایک بڑا مفصل اور مستند سفر نامہ ہے جو ممبئی کے پرنس آف ویلز نامی کتب خانہ میں محفوظ ہے۔ (سدا شو گور کشکر1983 )

            مغلوں کے زمانہ میں حج پر بھیجنے کے لیے چار وجوہات ہوتی تھیں۔ ’مذہبی فریضہ کی ادائیگی‘، ’مذہبی تعلیم کا حصول‘، ’ کسی اچھے کارنامہ کا صلہ یانا کامی اور کسی جرم کی پاداش۔ انفرادی صلاحیت کو اجاگر کرنے یا سیاسی جلا وطنی کے لیے بھی حج پر بھیج دیا جاتا تھا۔ کبھی کبھی کسی خطا کار مصاحب یا دانشور کو حج پر بھیج دینے کی تہدید (دھمکی) بھی کی جاتی تھی۔

            ہمایوں کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے اپنے بھائی کو اندھا کر کے حج پر بھیج دیا۔ اس نے چار بارحج کیا اوربا ٓلاخر1557 عیسوی میں مکہ مکرمہ میں ہی اس کا انتقال ہو گیا۔ اکبر نے ایک بار اپنے اتالیق بیرم خاں کواس کے ناروا سلوک پر مشتعل ہو کرحج پر جانے کا حکم صادر کر دیا۔ بیرم خاں دہلی چھوڑ کر گجرات کی جانب روانہ ہو گیا لیکن اس سے قبل کہ جہاز پر سوار ہو تا راستہ میں احمد آباد کے قریب ایک افغان کے ہاتھوں ماراگیا۔ جہاں گیر نے بیماری کے دوران صحیح علاج نہ ملنے پر فارس سے آئے ہوئے اپنے حکیم الصدر (چیف میڈیکل افسر)کو مکہ بھیج دیا۔ اورنگ زیب کا ایک اہم قاضی جو قاضی القضاۃ تھا اور اکثر اورنگ زیب کی مخالفت کرتا تھا، اورنگ زیب نے اس سے استعفیٰ دے کر حج پر چلے جانے کو کہہ دیا۔ اور اس طرح حجاز تاج شاہی کے حریص شاہ زادوں، باغیوں، نافرمانوں اور شکست خوردہ نوابین و امراء کے لیے ایک پر کشش و محفوظ جائے اماں بن گیا اور شریف مکہ بھی مغلوں کے بیش بہا تحائف وصول کرتے رہے۔ 984سے 989  ہجری یعنی 1576-1582  عیسوی کے دوران شہنشاہ اکبر کے میر حج نے مکہ اور مدینہ کے باشندوں میں چھ لاکھ روپے کی رقم تقسیم کی اور شریف مکہ کی خدمت میں بیش بہا نذرانے اور تحائف پیش کیے۔ 1659 عیسوی میں اورنگ زیب نے شریف مکہ کو 660 ہزار روپے کے تحفے پیش کیے۔ مغل سمجھتے رہے کہ شریف مکہ کی یہ مالی اعانت اور نذر گذاری ہندوستانی زائرین کی فلاح اور دربار شاہی سے کسی طرح ناراض ہو کر مکہ میں پناہ گزینوں کی خیر خواہی میں یا بوقت ضرورت ان کو تنگ کرنے میں بھی شریف مکہ کے ذریعہ معاون ثابت ہوگی۔ بسااوقات شریف مکہ بھی اپنے نمائندوں کو مغل شہنشاہوں سے حمایت طلبی کے لیے بھیجتے تھے۔

            حیرت ناک اور دل چسپ بات یہ ہے کہ بے پناہ وسائل ہوتے ہوئے بھی کوئی مغل شہنشاہ، حیدرآباد کا کوئی نظام، بنگال، بیجاپور، گجرات اور گول کنڈہ کا کوئی نواب یا کوئی بھی ریاستی گورنریا صدر کبھی خود حج کرنے نہیں گیا۔ اس کے بر عکس حرم کی خواتین کو حج پر بھیجنے کا چلن عام تھا۔ بیگابیگم یا حاجی بیگم حج کرنے والی سب سے پہلی شاہی مغل خاندان کی خاتون تھیں۔ یہ دربار کے ایک امیر کی بیوی تھیں جو بعد میں ہمایوں کی بیوی بن گئیں۔ بابر کی بیٹی اوراکبر کی پھوپی گلبدن بیگم 1576ء میں حج پر جانے والی شاہی مغل خاندان کی اہم ترین شخصیت تھیں۔ ان کے ہمراہ شہنشاہ اکبرکی مہارانی، بیرم خاں کی بیگم، تقریباًچالیس کنیزیں اور دیگر ملازمین کی ایک بڑی تعداد سلیمی نامی جہاز سے گئے۔ دربار کے افسران بھی ان کے ساتھ تھے۔ یہ دشوار سفر طے کرکے وہ مکہ مکرمہ پہنچیں اور 1582 تک کے دوران قیام چار حج، متعدد عمرے اور دیگر مقامات کی زیارت کی۔ دوسرا دل چسپ واقعہ بیگم بھوپال کے سفر حج کا ہے۔ سکندر بیگم نے 1863 میں مکہ مکرمہ کا حج کیا اس کے بعد سلطان بیگم نے جو ریاست کی سب سے پہلی حکمراں خاتون تھیں نے1903 میں حج کی ادائگی کی۔ سکندر بیگم بھوپال کے عازمین میں پہلی بیگم تھیں۔ یہ 1500 خدام کو ساتھ لے کر پہلے سڑک اورریل کا سفر طے کرتے ہوئے پھر بطور خاص ایک جہاز چارٹر کرکے جنوری 1864 میں جدہ پہنچیں۔ ان کے ہمراہ ان کی والدہ اور سابقہ بیگم بھوپال قدسیہ بیگم تھیں جو راستہ بھر نوٹ بکھیرتی رہیں اور ان کے پیچھے فقیروں کا جم غفیر چلتا رہا۔ مکہ پہنچنے پر شاہی آداب سے تغافل برتنے پر معتوب ہو گیئں کہ شریف مکہ کی طرف سے بھیجی ہوئی کھانے کی پچاس قابوں میں سے انہوں نے کچھ بھی نہیں چکھا لیکن بعد میں شریف مکہ کی طرف سے بھیجے ہوئے شاہی دستر خوان سے انہوں نے کچھ کھا لیا تب پچھلی بے ادبی کا از الہ ہو سکا (شہر یار محمد خاں 2004) پھر تقریباً دس دہا یئوں کے بعد بیگم سلطان جہاں نے 300 ملازمین کے جلو میں ایس ایس اکبر نامی جہاز سے سفر مکہ کا عزم کیا اور ایک برطانوی ہندوستانی مسلم نائب سفیر نے ترکی کے گورنر کے مندوب اور شریف مکہ کے ساتھ ان کا پر تپاک خیر مقدم کیا۔ لیکن اس بار بھی ان کی والدہ کے دورہ کی طرح کاایک سانحہ ہو گیا وہ یہ کی شریف مکہ عون الرفیق بن عبد للہ بن عون نے ان کے لائے ہوئے شاہی سوغات پربے رغبتی بلکہ ترش روئی کا اظہار کیا۔ بیگم سلطان جہاں نے ینبوع Yambo تک بحری سفر کے بعد ایک کارواں کی شکل میں مدینہ منورہ جانے کا عزم کر لیا۔ اس قافلہ میں ان کے ساتھ 200 ترکی فوجی تھے جنہوں نے راستہ کے جنگلی جانوروں سے محافظت کاکام انجام دیا۔ مدینہ منورہ پہنچ کر بیگم نے کافی راحت و طمانیت محسوس کی۔ گورنر مدینہ نے بیگم کے لیے کچھ خاص نظم و اہتمام کیا۔ مسجد( نبوی ) کا آدھا حصہ مردوں کے لیے بند کر کے بیگم کے لیے مختص کر دیا گیا۔ آخر کار 1904 میں بیگم ہندوستان واپس آگیئں۔

            انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستان کی سر کردہ شخصیات کے سفر حج کا ذکر ملتا ہے عالی جناب کلب علی خاں نواب آف رامپورنے 1872 عیسوی میں فریضہ حج اداکیا اور بہت سے نادر مخطوطات ساتھ لائے جن میں حضرت علیؓ کے دست مبارک سے چرمی کاغذ پر تحریر کیا ہوا قرآن کریم کاقلمی نسخہ بھی ہے جورامپور کی شہرئہ آفاق رضالا ئبریری رامپور میں محفوظ ہے اور حضرت علی ؓ کے یوم وفات یا دیگر خاص خاص مو قعوں پر اہل نظر اس کی زیارت سے مستفیض ہوتے ہیں۔ اردو کے مشہور شاعر داغؔ دہلوی نواب صاحب کے ہمراہ تھے۔

            متعدد دانش وروں اور طلباء نے بھی سفر حج کیا جن میں راے بریلی کے سید احمد کا نام بھی آیا ہے۔ (1824) میں انہوں نے وہابیت کو ہندوستان میں متعارف کرایا۔ مولانا صدیق حسن خاں بھوپالی نے 1872 میں، مشہور ادیب غلام محمد منشی نے 1876 میں، مولانا معشوق علی نے 1909میں، مولانا عبد الماجد دریابادی نے 1929 میں حج کیا سید فضل الحسن مولانا حسرت موہانی، جمعیۃ العلماء ہند کے اہم رکن کو تیرہ بارسفر حج کی سعادت حاصل ہوئی آزادی کے بعد کے ہندوستانیوں میں سفر حج پر جانے والی مشہور گلو کارہ بیگم اختر کا نام نمایاں ہے۔ مہتمم دارالعلوم دیوبند مولانا محمد طیب، ڈاکٹر عابد حسین، حیدرآباد کے شہزادہ بصالت جاہ، ممتاز گلوکار محمد رفیع، مشہورو معروف مصّور( پینٹر) ایم۔ ایف۔ حسین، سید عبد الرحمن اور حکیم عبد الحمید وغیرہ سب کو یہ سعادت نصیب ہوئی۔ ۔ ۔ برطانوی ہندوستانیوں میں بھی سفر حج کو سرکاری طور پر اہمیت حاصل رہی۔ برطانوی حکم رانوں نے تھامس کک اینڈ سنس نام کی ایک ٹورسٹ ایجنسی قائم کی جس کے ذمہ سفر حج سے متعلق پاسپورٹ کااجرا، ریل اور بحری جہاز سے حفاظتی طبی سہولیات کے ساتھ سارے ٹرانسپورٹیشن کا انتظام تھا۔ مقامات مقدسہ مکہ معظمہ اورکربلا شریف کی گذرگاہیں اور مزارات شامل تھے۔ (امپیریل گزٹ 5/4 صفحہ 1909-111)  1927 میں دس ممبران پر مشتمل حج کمیٹی ڈی۔ ہیڈلی صاحب کمشنر آف پولس بمبئی کی قیادت میں تشکیل دی گئی۔ اور1932 میں پورٹ حج کمیٹی ایکٹ نافذ کیا گیاجس کے تحت 1959 تک حجاج کرام کے سفر حج کا انتظام یہ حج کمیٹی کرتی رہی جب تک کہ 1959 کا حج کمیٹی ایکٹ پاس نہیں ہو گیا۔

            دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی سفر حج جاری رہا البتہ بہت کم لوگ جاتے تھے اور وہ بھی دشوار و نامساعد حالات میں رہتے۔ ابتدائً1939 میں ہندوستان کے وائسرائے مارکس آف لن لتھ گو نے مسلمانوں کو حفاظتی انتظامات کے فقدان اور بحری جہازوں کی قلت کے پیش نظر سفر حج پر جانے سے روکنے کی کوشش کی تھی جس پر مسلمان مشتعل ہوگئے کہ ’’شوق کہتا ہے تو مسلم ہے بے باکانہ چل‘‘   اور حکومت سے احتجاج شروع کردیا آخر کارسرکار کو سرنگوں ہو کر سفر کی اجازت دینا ہی پڑی اور 1941 میں سرکار نے جہازوں کے حصول اور بندرگاہوں کے لیے کچھ خاص انتظامات بھی کیے۔ دوسری جانب سعودی حکومت نے اپنے کچھ نمائندوں کو پیسہ دے کر ہندوستان بھیجا کہ وہ یہاں لو گوں کوحج کرنے کی تر غیب دلایئں۔

             1959 میں ریزرو بینک نے 10 اور 100 روپے کے نوٹوں کی ایک خاص سیریز ’حج نوٹ‘کے نام سے جاری کی جس پر نوٹ نمبر پر حرف سابقہ(Prefix )کے طورپر HA شائع کیا۔ یہ نوٹ اندرون ملک چلنے والی عام کرنسی نہ تھی بلکہ عرب بینکوں سے معاہدہ کے تحت عرب میں اسٹرلنگ پونڈمیں اور ہندوستان میں یہاں کی کرنسی میں تبدیل ہو جاتی تھی۔ پہلی بار اسپیشل حج نوٹ کا بمبئی کے محمد حاجی صابو صدیق مسافر خانہ میں 3 مئی 1959 کو اجرا کیا گیا۔ مسافروں کے سفری درجات کے مطابق ہی رقم لے جانے کی اجازت ہوئی۔ 1959 میں ڈیک کلاس سے سفر کرنے والے 1200 روپے اور فرسٹ کلاس کے مسافر 1800 روپے لے جاسکتے تھے، ہوائی جہاز کے مسافروں کو 1700 روپے لے جانے کی اجازت تھی۔

            1950 اور 60 کی دہائیوں میں آج کے برعکس ایک دل چسپ بات یہ تھی کہ زائرین اپنی پسند کے معلم کا انتخاب کرسکتے تھے۔ معلم یہاں جگہ جگہ گھوم کر اپنی اپنی خدمات میں دی جانے والی سہولتوں کی تشہیر کرتے اور زائرین کو رجھاتے تھے۔ الگ الگ علاقوں کے عازمین حج الگ الگ معلمین کا انتخاب کرتے۔ مثلاً مطوف فاروق سیف الدین آندھر پردیش کے مسافروں کا انتخاب تھا تو احمد شیخ جمل اللیل بہار اور یو۔ پی۔ کے لوگوں کی پسند تھا۔ جب تک موسّسا کا ادارہ قائم نہیں ہوا تھاتو ایک شیخ المعلمین ہوا کرتا تھا جو تمام معلمین کے امور کا ر کی نگہداشت کرتا۔ 1960-70 کے دوران سعودی حکومت حج کے زمانہ میں دنیا بھر کے اسکائوٹوں کی خدمات لیتی تھی۔ مکہ مکرمہ میں اسکائوٹوں کا سالانہ اجلاس ہوتا جس میں ہندوستانی اسکائوٹس بھی شریک ہوتے رہے۔ کے۔ پی۔ عبد اللہ کی قیادت میں ہندوستان کے یتیم مسلمان بچے اسکائوٹ کے طور پر جاتے رہے۔ جہاز رانی کی سب سے بڑی کمپنی مغل لائن تھی جو 1888 میں قائم ہوئی اور اسی کو ایک برطانوی ایجنسی ٹر نر مورین چلاتی تھی۔ مغل لائن کا اولین جہاز ایس۔ ایس۔ علوی تھا جو 1924 میں بنا، اس

 کے بعد 1930 میں ایس۔ ایس۔ رضوانی آیا۔ یہ دونوں جہاز 1958 اور1959 میں معطل کردیے گئے۔ مغل لائن سے قبل 999 مسافروں کی وسعت والا ایس۔ ایس۔ سعودی تھا۔ ایس۔ ایس۔ محمدی اور ایس۔ ایس۔ مظفری 1460 مسافربردار جہاز تھے۔ ایس۔ ایس۔ اسلامی کی وسعت 1200 تھی۔ ایم۔ وی۔ البر1600، نور جہاں 1756 اور ایس۔ ایس۔ نکوبار 1170 مسافر لے جانے والے جہاز تھے۔ 1962 میں نیشنلائزیشن کے تحت مغل لائن کا نظم شپنگ کارپوریشن آف انڈیا کو منتقل ہوگیا اور بالآخر 1987 میں مغل لائن مستقلاًاس میں ضم ہوگئی۔ سعودی عرب کی مشہور ’’حاجی عبد اللہ علی رضا اینڈ کمپنی‘‘جدہ میں مغل لائن کی ایجنٹ تھی اور ایک ستر سالہ تارک وطن ہندوستانی بزرگ رفیع الدین ایس فضلو بھائی اس کے جنرل مینیجر ہوا کرتے تھے۔ 1927 میں مغل لائن کے جہاز 36ہزار ہندوستانی عازمین میں سے 20ہزار کو لے کر گئے۔ 1930کے اواخر تک ستر فیصد مسافر مغل لائن سے ہی سفر کرتے رہے۔

            سعودی عرب کی داخلی امور کی وزارت کے اعدادوشمار کے مطابق1958 سے 1968 تک کی دہائی میں ہندوستانی زائرین کی تعداد دولاکھ ایک سو تھی جو یمن اور متحدہ عرب سے آنے والوں میں تیسرے نمبر پر رہی۔ یمن سے تین لاکھ اکیس ہزار دو سو اڑسٹھ اور متحدہ عرب جمہوریہ سے دولاکھ بتیس ہزار ستر حاجی آئے۔ 1960میں 14,500ہندوستانی حجاج نے بحری اور 1000 نے ہوائی سفر کیا ہوائی جہاز کرائے پر لینے کا کام حج کمیٹی کرتی تھی۔ حجاز کے لیے بحری اور ہوائی سفر کا آغاز صرف بمبئی سے ہوتا تھا۔ بحری جہاز میں فرسٹ کلاس کا کرایا 1000 ڈیک کا 500 روپے ہوتا تھا۔ بحری سفر کرنے والوں کی تعداد مسلسل کم ہوتی رہی اور 1994 میں تو صرف 4700 ہی رہ گئی۔ آخر کار 1995 میں بحری سفر کو بالکل ختم کر دیا گیا اور عازمین صرف ہوائی سفر ہی کرنے لگے۔ 2000 سے 2004 تک ہندوستانی عازمین کی تعداد ستر ہزار رہی۔ پچھلے تین سالوں میں حجاج کرام کی تعداد38,000 سے 2006 تک 1,57,000 تک پہنچ گئی جو انڈونیشیا کے بعد دوسری بڑی تعداد ہے۔ سن2006 حجاج کے اجتماع کا بے نظیر سال رہا جس میں ایک کیلنڈر سال میں دو حج ہوئے۔ اس سے قبل ایسا ہی 1974 میں ہوا تھا۔ 2006 میں ہی حج مشن کو بہترین نظم کے لیے  9001-2000 EN ISO  کی سند ملی۔ یہ کسی بھی ملک میں حج مشن کا اوّلین اعزاز تھا۔

                        {یمن میں ہندوستانی سفیر ڈاکٹر اوصاف سید صاحب کی انگریزی کتاب: "Hajj: An Indian Experience in the 20th Century”}

تبصرے بند ہیں۔