مسلمان جذبہ ٔ قربانی کو فروغ دیں !

مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری

    اللہ تعالی نے اس کائنات کا نظام یہ بنایا ہے کہ جو محنت کرے گااور قربانی دے گا وہ کامیاب وہ کامران ہوگا، بغیر مشقت کے دنیا میں کسی کو بھی عروج وسربلندی نہیں ملی اور نہ ہی عزتوں کا مقام قربانیاں دئیے بغیر حاصل ہوا ہے، جب تک انسان خود کو کھپاتا نہیں اس وقت کمال پاتا نہیں، یہ اس دنیا کا ایک عام دستور اللہ تعالی نے بنایا ہے۔ کامیابی، نیک نامی، عزت و سربلندی کی خواہش ہے تو پھرخودکو مٹانا لازمی ہے، دانہ جب تک خاک میں نہیں ملتا اس وقت وہ گل وگلزار نہیں بن سکتا، حنا جب تک پتھر سے نہیں گھس جاتی اس وقت وہ رنگ نہیں لاتی۔ راستہ کی روکاٹیں انھیں نہیں ڈراتی جن کے اندر عزم وہمت کی مضبوطی ہو، سفر کی صعوبتوں سے وہ کبھی نہیں گھبراتے جو حوصلہ رکھنے والے اور جدوجہد کرنے والے عظیم انسان ہوتے ہیں۔

   دنیا کی کامیابی بھی محنت اور قربانی میں پوشیدہ ہے اور دین کی کامیابی بھی ایثار وقربانی سے حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا وَاِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْن۔ ( العنکبوت:69)’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انہیں ضروربالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے، اور یقینا اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔

  عید الاضحی کا دن آتا ہے تو ذہن و دماغ میں حضرت ابراہیم ؑاور آپ کے مبارک گھرانے کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں، حج پر جانے والے مسافرانِ حرم ہوں یا مقام پر رہنے والے شیدایان ِ اسلام ان دنوں ہر کوئی سیدنا ابراہیم ؑ ان کی وفاشعار بیوی حضرت ہاجرہ ؓ، اور فرماں برادار بیٹے اسماعیل ؑ کی قربانیوں کو یاد کرتے ہیں اور ان کے کئے ہوئے اعمال کو انجام دے کر اپنی بندگی کا ثبوت دیتے ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑکو اللہ تعالی نے مختلف امتحانات میں ڈالا، طرح طرح کی آزمائشوں سے دوچار کیا، ہر مرحلہ میں وہ ثابت قدم رہے، قربانی دینے سے گریز نہیں کیا، محبت ِالہی میں سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہے، جب بہت ساری قربانیاں دے دیں اور آزمائشوں میں کامیاب ہوگئے تو اللہ تعالی نے آپ کو انسانیت کا امام بنایا، آپ کے تذکروں کو قیامت تک زندہ کردیا، آپ کی اداؤں کی نقل اتارنے کو مسلمانوں کی عبادت کا حصہ بنایا۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اس کا ذکر فرمایا کہ :واذابتلی ابراھیم ربہ بکلمات فاتمھن قال انی جاعلک للناس اماما( البقرۃ:124)اور (وقت یاد کرو) جب ابراہیم کو ان کے پروردگا رنے کئی باتوں سے آزمایا، اور انہوں نے وہ ساری باتیں پوری کیں۔ اللہ نے (ان سے )کہا:میں تمہیں انسانوں کا پیشوابنانے والا ہوں۔

    عید الاضحی کے موقع پردنیا بھر میں مسلمان جانور کی قربانی انجام دیتے ہیں، اور ہرکوئی اپنی حیثیت اور استطاعت کے بقدر کوشش کرتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے صحابہ کرام ؓ کے پوچھنے پر فرمایا کہ :ھی سنۃ ابیکم ابرھیم۔ ( ابن ماجہ :حدیث نمبر3126 ) یہ تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم کی یادگار ہے۔ ایک روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ :عید کے دن قربانی کے عمل سے زیادہ کوئی اور عمل اللہ کے نزدیک محبوب نہیں۔ (ترمذی حدیث نمبر:1409)اس کی اہمیت کو آپ ﷺ نے بیان کرتے ہوئے یہاں تک ارشاد فرمایا کہ :جو آدمی وسعت اور گنجائش کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ نہ آئے۔ ( ابن ماجہ:حدیث نمبر3122)

       اللہ تعالی نے اس قربانی کے نظام کو امت میں باقی رکھ کر یہی چاہا کہ مسلمان ہمیشہ اس واقعہ سے سبق حاصل کریں، اطاعت الہی میں کس درجہ اللہ کے ان نیک بندوں نے اپنے آپ کو مٹایا تھا؟اور حکم خدا کو پورا کرنے میں کیسی کٹھن منزلوں سے گزر کر محبوبیت کے مقام کو حاصل کیا تھا ؟۔ قربانی سے مقصود مسلمانوں کے جذبۂ اندروں کو دیکھنا ہے، ان کی اطاعت و فرماں برداری کوپرکھنا ہے، اتباع و انقیاد کا جائزہ لینا ہے۔ اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالی نے صاف فرما دیا کہ :لن ینال اللہ لحومہا ودمائوھاولکن ینا لہ اللہ التقوی منکم۔ (الحج:37)اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے، نہ ان کا خون، لیکن اس کے پاس تمہارا تقوی پہنچتا ہے۔ قربانی کرتے وقت ایک مسلمان دعا پڑھتا ہے :ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین لا شریک لہ بذلک امرت وانا اول المسلمین۔ ( الانعام:162)بیشک میری نماز، میری عبادت اور میراجینامرنا سب کچھ اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے، اس کاکوئی شریک نہیں ہے، اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے، اور میں اس کے آگے سب سے پہلے سرجھکانے والاہوں۔ ان چیزوں سے در اصل بندہ کے جذبۂ اطاعت کو تازہ کروایاجارہاہے اور عہد و وفا کی تجدید کروائی جارہی ہے، اس کے ذہن ودل میں یہ بات پیوست کی جارہی ہے کہ دنیا میں لئے  میرے سب سے عظیم اور اہم چیز وہ حکم خدا کی پاسداری اور اس کی اطاعت و وفاداری ہے۔ اس کے حکم کو پورا کرنے کے لئے ہر چیز قربان کرنا پڑے تو میں بے دریغ کرنے تیار ہوں جس طرح آج ہی کے دن سیدنا خلیل اللہ ؑنے اپنے بیٹے کو قربان کرنے تیار ہوگئے تھے۔

    بات دراصل یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کی سیرت ہو یا سید البشرسیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی حیات ِ طیبہ ہم مسلمانوں کو یہی پیغام دیتی ہے کہ ہم اپنے اندروہی قربانیوں والے مزاج کو پیدا کریں، وہی جذبہ ٔ ایثار کو زندہ کریں، کامیابی کا تصور اس وقت تک حقیقت میں نہیں بدل سکتا جب تک کہ اس کے لئے جہد ِ مسلسل، عمل ِ پیہم ہمارے اندر نہیں ہوگا۔ ہم قربانی سے سبق لینے والے بنیں کہ جس مقصد کے لئے انسان قربانی دیتا ہے اس میں کامیاب ہوتا ہے، لوگ رات کو نوکری کرتے ہیں اور ساری رات جاگ گزاردیتے ہیں، کوئی گھر سے دور رہ کر قربانیاں دیتا ہے، کوئی خواہشات کو مٹا کر اونچے عزائم و ارمان لیے دن رات محنت اور کوشش میں لگے رہتا ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ انسان جس میدان میں قربانی دیتا ہے، مشقتوں کو برادشت کرتا ہے اس میدان میں ایک نہ ایک دن ضرور کامیاب ہوتا ہے۔ ہمیں دین ودنیا میں کامیاب ہونا ہے تواسی راہ کو پنا ناپڑے گا۔

     آج ہمارے معاشرہ اور بالخصوص نوجوانوں کی صورت حال یہ ہے کہ وہ خواب تو بہت بڑے بڑے دیکھیں گے لیکن اس کے لیے معمولی جد وجہد کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ راتوں کا ایک بڑا حصہ فضول مجلسوں، غیرضروری گفتگوؤں اور لایعنی کاموں میں گزرجاتا ہے، جس وقت لوگ اپنے کاروبار اور کام جاج میں مصروف ہوجاتے ہیں اس وقت ہمارے نوجوانوں کی صبح ہوتی ہے، تعلیم کے میدان میں ہم پیچھے ہیں، کاروبار کی دنیا سے ہم کوسوں دور ہیں، اس لئے کہ محنت اور مشقت والے کام اور قربانی دینے والی چیزوں سے ہم بھاگتے ہیں نتیجہ یہ ہے روزگار کی تلاش اور کسب ِ معاش کی فکروں میں پریشان ہیں، ملازمت کے نہ ملنے پر نالاں ہیں، غیر وں کی ترقی سے سخت ناراض بھی ہیں، ہم سمجھتے ہیں ہرطرح کی کامیابی خود بخود ہمارے قدموں میں آکر گرجائے اور ہم راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر فائز ہوجائیں !خدا کا بنایا ہوا نظام اس  کے بالکل خلاف ہے، نظام ِ الہی یہ ہے کہ دنیا میں جو بھی محنت کرے گا اور قربانی دینے میں پس وپیش نہیں کرے گا چاہے وہ کوئی بھی کامیاب ضرور ہوگا اور دنیا کے حد تک عیش وعشرت اس کو ضرور نصیب ہوگا۔ دنیا میں ہمیشہ وہی لوگ یاد کئے جاتے ہیں جو اپنی فکروں سے ایک جہاں آباد کرتے ہیں، اپنی قربانیوں اور محنتوں سے دلوں کو فتح کرتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ کی زندگیاں ہمارے سامنے اس کا بہترین نمونہ ہیں، جوظاہر میں سیدھے سادھے تھے، بلکہ ضرورت پڑنے پر پیوند لگے کپڑے بھی پہن لیا کرتے تھے، فاقہ کی نوبت آتی تو فاقے بھی براداشت کرلیاکرتے تھے مگر کسی صورت میدان ِ عمل سے بھاگتے نہیں تھے اور ان کے نام سے دشمن کاپنتے تھے، آج بھی ان کے تذکرے دل وجان میں محبتوں کے جذبات کو موجزن کردیتے ہیں۔

    عید الاضحی کا یہ مبارک اور بابرکت دن ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ دین کے میدان میں بھی دنیا کی زندگی میں محنت کرنے والا بنے، قربانی دینے والا بنے، حالات موافق ہوں یا مخالف، طبیعت آمادہ ہو یا نہیں ہر حال میں ہمیں دینی احکامات پر عمل آوری کے سلسلہ میں کوتا ہی نہیں کرنا ہے اور دنیوی لحاظ سے کسی قسم پر بھی پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہونا چاہیے، ہم صرف دوسروں کی ترقی سے خائف نہ ہوں، اور غیر وں کی بلندیوں سے مرعوب نہ رہیں بلکہ میدان عمل کے جو تقاضے ان کو پوراکرنے والے بنیں، ان شاء اللہ اللہ تعالی ہمیں بھی ہماری قربانیوں کی بد ولت دین و دنیا کی ہرکامیابی سے نوازے گا اور عروج وسربلندی عطا کرے گا۔ اس وقت بہت ضروری ہے کہ ہم مسلم نوجوانوں میں یہ شعور بیدار کریں کہ وہ سستی اور لاپرواہی والا زندگی کو بالکل ختم کریں، غفلت اور مدہوشی سے باہر آئیں اور دنیا کے حالات اور تقاضوں کے مطابق خود کو تیار کریں، اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے بنیں، اپنے اندر ایثار وقربانی والا مزاج پیدا کریں، تن پرستی، عیش کوشی، سہولت پسندی سے دامن جھاڑیں، اور زمانہ کے شانہ بشانہ چلنے کے لئے تیار ہوجائیں، ورنہ زمانہ کبھی کسی کی رعایت نہیں کرتا اور وقت کسی کا خیال نہیں کرتا، وہ صرف انہیں کا ساتھ دیتا ہے جو ان کی قدر کرتے ہیں۔

                                     تیری نسبت براہیمی ہے، معمار ِ جہاں تو ہے

تبصرے بند ہیں۔