تخصص فی الافتاء میں ’رد المحتار‘ کی اہمیت

شادمحمد شاد

افتاء کے کام میں سب سے زیادہ اہمیت ”رد المحتار “کی ہے جو علامہ خصکفیؒ کی کتاب ”درمختار“ پر علامہ شامیؒ کا لکھا ہوا حاشیہ ہے۔ جس طرح اس کتاب کا متن، اس کی شرح تمام کتبِ فقہ میں امتیازی مقام رکھتا ہے، اسی طرح اس کا حاشیہ  بھی تمام حواشی میں سب سے بہتر اور جامع ہے۔

 مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب دامت برکاتہم نے ”آدابِ فتوی نویسی“ میں ”رد المحتار“ کے مکمل تعارف کے ساتھ اس کی اہمیت کی چند وجوہات بھی  بیان کی ہیں، جن کا خلاصہ طالبِ علم ساتھیوں کے سامنے رکھنا اہم ہے۔

 اس حاشیہ کی اہمیت کی وجوہات درج ذیل ہیں:

1۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ علامہ شامی ؒ دوسرے مصنفین سے متاخر ہیں ، انہوں نے پچھلے تمام فقہاء کی کتابوں کو سامنے رکھ کر یہ کتاب تصنیف کی ہے، لہذا اس کتاب میں فقہاء امت کی بارہ صدیوں  کی محنت اور تحقیقات کا نچوڑ  آگیا ہے۔

 2۔ دوسری وجہ اس کتاب کا مستند ہونا ہے۔ مصنف نے کوئی بات نقل کرتے وقت صرف نقل پر اعتماد نہیں کیا، بلکہ نقل کے ساتھ اس بات کا خوب التزام کیا ہے کہ  کس قول کا قائلِ اول کون تھے اور اس قائل کی اپنی اصلی عبارت کیا ہے؟ کیونکہ کبھی ناقلِ اول سے غلطی ہوجاتی ہے ، بعد والے حضرات کو علم نہیں ہوتا اور وہ ناقلِ اول پر اعتماد کرتے چلے جاتے ہیں اور یوں وہ غلطی صدیوں تک چلی آتی ہے۔ اس کی کچھ مثالیں علامہ شامیؒ نے ”شرح عقود رسم المفتی “میں بیان کی ہیں۔

3۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ کتاب نہایت جامع ہے۔علامہ شامیؒ کی عادت یہ ہے کہ سابقہ تمام اقوال و مباحث کو سامنے رکھ کر تطبیق یا ترجیح کی صورت بیان فرماتے ہیں۔ اگرچہ متقدمین کی کتابیں رسوخ فی العلم میں بہت بڑھ کر ہیں، لیکن مفتی کے لیے ”رد المحتار“ سے استغناء نہیں ہے۔

 دوسری کتب ِ فقہ سے فتوی دینے کے لیے بہت سی کتب کو دیکھنا پڑتا ہے ، کیونکہ ترجیح میں اختلاف ہوسکتا ہے یا کوئی قول مطلقا ذکر ہوتا ہے، جس کے اندر اہم قید ہوتی ہے اور وہ قید کسی دوسرے فقیہ نے ذکر کی ہوتی ہے۔ لیکن ”رد المحتار “کا مطالعہ کرنےوالا اتنی محنت بسے بےنیاز ہوجاتا ہے اور غلطی کا امکان بھی کم سے کم ہوجاتا ہے۔ اسی لیے یہ کتاب آج تک اہلِ فتوی حضرات کے لیے مرجع ہے۔

4۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ علامہ شامیؒ نے نہایت احتیاط سے کام لیا ہے ،ان سے افراط وتفریط نہیں دیکھا گیا۔

مفتی  اعظم حضرت مفتی محمد شفیع ؒ فرماتے ہیں:

 ”علامہ ابن عابدین  شامیؒ انتہائی وسیع المطالعہ ہونے کے باوجود اس قدر تقوی شعار اور محتاط بزرگ ہیں  کہ عام طور سے اپنی ذمہ داری پر کوئی مسئلہ بیان نہیں کرتے ،بلکہ جہاں تک ممکن ہوتا ہے  اپنے سے پہلے کی کتابوں میں  کسی نہ کسی کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں۔اگر ان اقوال میں بظاہر تعارض ہو تو ان کو رفع کرنے کے لیے بھی حتی الامکان  کسی دوسرے فقیہ کے قول کا سہارا لیتے ہیں اور جب تک بالکل مجبوری نہ ہوجائے خود اپنی رائے ظاہر نہیں فرماتے۔ اور جہاں ظاہر فرماتے ہیں وہاں بالعموم آخر میں ”تامل یا تدبر“ کہہ کر خود بری ہوجاتے ہیں اور ذمہ داری پڑھنے والے پر ڈال دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بسااوقات الجھے ہوئے مسائل میں ہم جیسے لوگوں کو ان کی کتاب سے مکمل شفاء نہیں ہوپاتی۔لیکن یہ طریقہ ”رد المحتار“میں رہا ہے ،مگر چونکہ علامہ شامیؒ نے ”البحر الرائق“ کا حاشیہ ”منحۃ الخالق“ اور ”تنقیح الحامدیہ“ بعد میں لکھا ہے ،اس لیے ان کتابوں میں مسائل زیادہ منقح انداز میں آئے ہیں ،جنہیں پڑھ کر فیصلہ کن بات معلوم ہوجاتی ہے۔“(البلاغ مفتی اعظم نمبر)

کتاب سے استفادہ کا طریقہ:

 1۔ سب سے پہلے مسئلہ کے مظان متوقعہ متعین کریں، یعنی یہ مسئلہ کس کتاب اور کس باب سے تعلق رکھتا ہے؟صلوۃ سے،یا زکوۃ سے یا بیوع سے یا حظر واباحت وغیر ہ سے۔

 2۔ اس کے بعد پہلے فہرست میں  دیکھیں ،کیونکہ شامیہ  کی فہرست میں اہم مسائل پر باقاعدہ  "مطالب” کے نام سے عنوانات قائم کیے گئے ہیں ۔ممکن ہے مسئلہ کسی مطلب کے تحت بعینہ مل جائے۔

 3۔ اگر مطالب میں مسئلہ نہ ملے تو  متعلقہ کتاب، باب یا فصل کا متن دیکھیں ۔ وہاں اگر صراحت سے نہ ملے تو متن کے کسی مسئلہ سے مناسبت ہو تو اس کی شرح دیکھیں  اور پھر حاشیہ بھی دیکھ لیں۔

 4۔اگر ان مقامات پر بھی مسئلہ نہ ملے تو  تقریبا ہر باب کے آخر میں "فروع” کے عنوان سے اہم متفرق مسائل ہوتے ہیں، ان میں دیکھیں۔اس کے بعد اشعار ہوتے ہیں ،یہ بھی اہم مسائل پر مشتمل ہوتے ہیں ،ان کا حاشیہ دیکھیں۔

 5۔ اگر پھر بھی مسئلہ نہ ملے تو "کتاب الفرائض” سے پہلے "مسائل شتی” کے عنوان کے تحت ہر باب کے رہ جانے والے مسائل کو ذکر کیا گیا ہے، ان میں تلاش کریں۔ پھر بھی نہ ملے تو جہد مسلسل  جاری رکھیں  اور سابقہ ترتیب کا اعادہ کریں۔

 جب بھی مسئلہ مل جائے تو سیاق و سباق کی روشنی میں مسئلہ کی مکمل بحث پڑھنا ضروری ہے، یعنی متن، شرح اور حاشیہ۔ بلکہ جہاں بحث ختم ہورہی ہو ، اس سے بھی تھوڑا آگے تک دیکھیں، کیونکہ بسا اوقات قیود اور ترجیح وغیرہ آخر میں بیان ہوتی ہے۔اگر مصنف نے "کما سیجیء” لکھا ہو یا "کما ذکرنا” وغیرہ لکھا ہو تو اس مقام کو تلا ش کرکے ضرور دیکھیں۔

تبصرے بند ہیں۔