تخلیقی زاویے: ادبی اور شخصی مطالعے

عالم نقوی

رشید کوثر فاروقی، انجم رومانی، منظور الحسن منظور، شمس اعجاز بھساولی، سکندر احمد، امین الدین شجاع الدین، انتظار حسین اور داؤد کشمیری کی جدائی کے زخم ابھی مندمل بھی نہیں ہوئے تھے کہ ہماری عظیم زبان کے ایک اور عظیم، بطلِ جلیل فضیل جعفری بھی یہ بتاتے ہوئے رخصت ہو گئے کہ تیار  رہو، ہم سب وہیں جا رہے ہیں جہاں کل نہیں تو پرسوں تمہیں بھی آنا ہے !

 ویسے تو، بقول بنجامن فرینکلن ’’بیشتر لوگ صرف ۲۵ سال کی عمر ہی میں مر جاتے ہیں لیکن اس وقت تک دفن نہیں ہو پاتے (اور خود اپنے کاندھوں پر اپنی لاش لیے پھرتے رہتے ہیں ) جب تک کہ وہ ۷۵ (یا پچاسی سال )کے نہیں ہوجاتے ‘‘لیکن وہ لوگ خوش نصیب ہیں جو پینسٹھ، پچھتریا پچاسی برس کی عمر میں  دنیا سے پردہ کرجانے کے بعد بھی نہیں مرتے اور ہر اُس شخص کے دل میں زندہ رہتے ہیں جس نے اُن سے  براہ راست یا با لواسطہ، کسبِ فیض کیا ہو !

لیکن اللہ سلامت رکھے غازی علم الدین کو کہ انہوں نے اپنی اکسٹھ برس کی عمر ہی میں  (پیدائش ۱۹۵۹) باعتبار معیار اتنا اور ایسا کام کر لیا ہے کہ ہم جیسے اکہتر برس کے (پیدائش ۱۹۴۹)قلم گھسنے والے جس کی تمنا ہی کر سکتے ہیں اور بس !

’لسانی مطالعے‘  اور ’لسانی لغت ‘کی اشاعت کے بعد حقیقی اہل زبان  ہونے کی اُن  کی حیثیت تو پہلے ہی دائرہ اختلاف سے باہر تھی لیکن تازہ ترین تصنیف  ’تخلیقی زاویے ‘(۲۰۱۷) نے ثابت کر دیا  ہے کہ قحط رجال کے اس عہد میں اردو ادب کے ہر شعبے میں غازی علم الدین ایک رَجُلِ  مجاہد  ہیں۔

اُن کی سُخن فہمی تو مُسَلَّمُ ا لثُّبوت ہے ہی ، بحر ادب کی شناوری کے ساتھ موتی ڈھونڈ کر لانے کی غیر معمولی صلاحیت اور، بلا شبہ ان کی خورد نوازی اور دوسروں کے کسی بھی  درجے کے اچھے کام کا اعتراف اُن کے  وہ دیگر صفات ہیں جن کا اظہار نہ کرنا، جانتے بوجھتے ہوئےسچائی  کو چھپانے، کتمانِ حق کے مترادف ہو گا۔

معین الدین عقیل یہ لکھنے میں حق بجانب ہیں کہ ’تخلیقی زاویے ‘ میں شامل مضامین اپنی نوعیت اور اپنے مزاج  دونوں میں حد درجہ تنوع رکھتے ہیں۔ ان میں معاصرین پر شخصی مطالعے بھی ہیں، اشعار و افکار کا مطالعہ و جائزہ بھی ہے اور کتابوں پر نقد و تبصرہ بھی۔ اردو زبان کی موجودہ صورت حال پر فکر مندی اور درد مندی تو  ہے ہی۔ اقبال اور غالب سے  غازی صاحب کی محبت اُن کے(کم از کم پانچ ) مضامین میں جا بجا جھلکتی  ہے  اور   کہیں تو  چھلکتی بھی ہے !

رفیع الدین ہاشمی نے  درست لکھا ہے کہ ’’انہوں نے فقط نام کے غازی ہونے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ۔ ۔ علم و ادب کے منفی رویوں کے خلاف جہاد بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ۔ وہ اردو زبان کے معترضین کے خلاف ہر محاذ پر داد شجاعت دیتے نظر آتے ہیں۔ ان کے دائرہ قلم و قرطاس (کی وسعت )کا اندازہ ان کے زیر نظر مجموعہ مضامین (تخلیقی زاویے )سے (بخوبی)ہو جاتا ہے (جو)علم و ادب کے کسی ایک شعبے تک محدود نہیں۔ وہ  قارئین جو  اُن کی سابقہ مطبوعات لسانی مطالعے اور تنقیدی و تجزیاتی زاویے دیکھ چکے ہیں اُنہیں غازی صاحب کی قابل ِرَشک صلاحیتوں کابخوبی اندازہ ہوگا۔ زبان کے پست معیار اور الفاظ کے غلط استعمال کے ضمن میں وہ کسی طرح کا سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ۔ عربی زبان کے ماہر ہونے کی حیثیت سے وہ (اردو میں عربی )لفظوں کے استعمال کاجو معیار قائم کرتے ہیں بعض لوگوں کو اس سے اتفاق نہیں۔ اس کے باوجود غازی علم الدین کی مہارت زبان کاقائل ہونا ہی پڑتا ہے۔ ‘‘

تخلیقی زاویے دو سو چھیتر (۲۷۶)صفحات پر مشتمل کل بتیس(۳۲) مضامین کا مجموعہ ہے جن میں  سے اولین دومضامین ’زاویے ‘ کے عنوان سے ڈاکٹر معین الدین عقیل اور پروفیسر اسلم انصاری کے، غازی صاحب کے فکر و فن اور مجاہدہ  علم وقلم کے بارے میں ہیں اور آخری دو بعنوان ’روبرو ‘ غازی صاحب کے انٹر ویوز پر مبنی ہیں۔ بقیہ سبھی اٹھائیس (۲۸)مضامین ’شخصی مطالعے‘،’نقد و نظر ‘، ’زبان و ادب ‘ کے ذیلی عناوین کے تحت خود غازی صاحب کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔

 شخصی مطالعے کے تحت آٹھ(۸) معرکہ آرا خاکے ہیں جن کے بارے میں  پروفیسر اسلم انصاری نے اعتراف کیا ہے کہ ’شخصی مطالعات ‘ کی اصطلاح میں ’خاکے ‘ کی اصطلاح سے زیادہ وسعت ہے جن میں فاضل مصنف نے سبھی زیر ِمطالعہ اَشخاص کی خوبیوں کو گہری نفسیاتی بصیرت کے ساتھ اُجاگر کیا ہے۔ ’ عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی‘ کے عنوان سے  مولانا سیف اللہ  خالد کا خاکہ تو معرکہ آرا ہے۔ بقیہ خاکے خیال آفاقی، رؤوف خیر، انور سدید، ماجد دیو بندی، شکیل اوج، پروفیسر نگار سجاد ظہیر (رضیہ سجاد ظہیر کی ہمشیرہ ) اور منیر احمد یزدانی کے نہایت دلچسپ اور پر خلوص شخصی مطالعوں پر مشتمل ہیں۔

   ’نقد و نظر ‘ کے ذیلی عنوان کے تحت سب سے زیادہ، پندرہ مضامین ہیں جو  بیشتر کتابوں پر تبصرے ہیں اور ’زبان وادب ‘ کے تحت پانچ مضامین جو سب کے سب صحت  زبان و الفاظ اور اردو کی موجودہ حالت اور اردو والوں کی بے حسی کے تذکرہ دلخراش  پر مبنی ہیں ۔

جس طرح صَدیقِ عزیز ندیم صدیقی عرف متر ستیارتھی کی لازوال کتاب ’پُرسہ‘پڑھ کر ہم نے یہ خواہش کی تھی کہ کاش ہم بھی مر چکے ہوتے تو شاید ’پرسہ ‘ میں ہمیں بھی کہیں جگہ مل گئی ہوتی۔ قرب چالیس یا پچاس سال پہلے سنا ہوا یہ شعر اُن دنوں  بہت شدت سے  یاد آ تا رہا  تھا کہ :

جی میں آتا ہے کہ اِک دن مر کے ہم۔ ۔ ۔ ہمّتِ دُوش ِعزیزاں دیکھ لیں !۔ ۔ ا

اُسی طرح غازی علم الدین کے یہ ’شخصی مطالعے ‘ پڑھ کر یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ کاش ہم بھی کسی لائق ہوتے۔ ۔ کاش  !

تبصرے بند ہیں۔