ترقی وکامیابی کے لئے صفاتِ صحابہ ؓ سے متصف ہونا ضروری !

ترتیب: مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری

جمعیۃ علماء ضلع کریم نگر کی جانب سے 24ستمبر 2017ء بروز اتوار بعد نمازِ عشاء مسجد کوثرگودام گڈہ کریم نگر میں’’ جلسہ عظمتِ صحابہؓ ‘‘کا انعقاد عمل میں آیا۔جلسہ کی صدرات مفتی محمدیونس القاسمی صاحب صدر جمعیۃ علماء ضلع کریم نگر نے فرمائی۔اور بطور ِ مہمان ِخصوصی ملک کے ممتاز قلم کار ومصنف، رئیس القلم حضرت مولاناسید احمد ومیض صاحب ندوی نقشبندی مدظلہ (استاذِحدیث وصدر شعبۂ دعوۃ جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآبادوخلیفہ حضرت مولانا ذوالفقاراحمدصاحب نقشبندی، مدیر ماہنامہ ضیائے علم حیدرآباد،سرپرست ماہنامہ الاصلاح کریم نگر)نے شرکت کی اور بصیرت افروز خطاب فرمایا۔اس خطاب کا کچھ حصہ قارئین کے استفادہ کے لئے ذیل میں نقل کیا جارہاہے۔

عظمتِ صحابہؓ کے جلسوں کی ضرورت کیوں ؟

ماہ ِ محر م الحرام کی آمد کے ساتھ ہی ہر طرف سیدنا حضرت حسینؓ کی شہادت اور قربانیوں کاتذکرہ شروع ہوجاتا ہے، اہلِ بیت اطہارکے موضوع پر جلسوں کاانعقاد ہونے لگتا ہے، یقینا اہل ِ بیت سے محبت ایمان کی علامت ہے،ان کی عظمت کا دل میں ہونا ضروری ہے، لیکن اس بات کی بھی سخت ضرورت ہے کہ دیگر شہداء کرام کو بھی یاد کیاجائے، حضراتِ صحابہ کرامؓ کا بھی ذکرِ خیر ہو،صرف ایک ہی شہادت کو بیان کرنا اور دوسرے شہداء کو نظر انداز کرنا یہ بالکل مناسب بات نہیں ہے ۔اسلام کی تاریخ میں شہدا کی ایک طویل فہرست ہے، محرم الحرام کی پہلی تاریخ کو امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق ؓ کی دردناک شہادت واقع ہوئی ہے، حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت بھی ایک الم انگیز شہادت ہے،حضرت حمزہ ؓ کی شہادت بھی عظیم شہادت ہے ۔چناں چہ آج یہ مزاج بن گیا کہ ماہ ِمحرم کے آغاز کے ساتھ ہی ہر طرف حضرت حسینؓ کی شہادت کا ذکر شروع ہوجاتا ہے، اسی لئے ہمیں چاہیے کہ حضرت حسینؓ کی شہادت کے ساتھ دیگر شہدا اور صحابہ کرام ؓ کی قربانیوں کا تذکرہ کیا جائے، اسی پس منظر میں ’’عظمتِ صحابہؓ  ‘‘ کے ان جلسوں کا انعقاد ہوتا تاکہ امت اپنے تمام محسنوں کی قربانیوں یاد کرے اور اہلِ سنت کے طریقے کے مطابق تمام صحابہ کرامؓ سے محبت کرنے والی ہو۔

صحابہ ؓ  کون ہیں ؟

 صحابی ہونایہ دنیا کا سب سے بڑاشرف واعزاز ہے۔صحابہؓ کو صحابہؓ اسی لئے کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریمﷺ کی صحبت پائی، ایمان کی حالت میں نبی کریم ﷺ سے براہِ راست فیض اٹھایا،صحابہ کا مقام ومرتبہ بہت اونچا ہے، قرآن کریم میں اللہ تعالی نے جگہ جگہ ان کی عظمت کو بیان فرمایا۔صحابہؓ دراصل ہمارے اور نبی ﷺ کے درمیان ایک اہم واسطہ اور کڑی ہے، صحابہ ؓکے بغیر ہمارا اسلام ادھورا رہ جائے گا،کیوں کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کی صحبت ِ بابرکت میں رہ کر دین سیکھا،ایمان حاصل کیااور ہم تک پہنچایا،صحابہ سے اعتماد کو ختم کرنا گویا دین سے اعتماد کو ختم کرنا ہے۔صحابہ ؓ کی تربیت نبی کریم ﷺ نے کی ہے ۔صحابہ بظاہر گوشت پوست کے لحاظ سے ہمارے ہی طرح ایک انسان تھے لیکن شرفِ صحبت ِ رسول ﷺ نے انہیں دنیا کے تمام انسانوں میں نبیوں کے بعد معزز ومکرم بنادیا۔نبی ﷺ نے فرمایا:جو صحابہ ؓ سے محبت کرے گاوہ دراصل یہ مجھ سے محبت کی وجہ سے کرے گا،اور جو اُن سے نفرت رکھے گا وہ مجھ سے نفرت کی وجہ سے رکھے گا۔فمن احبھم فبحبی احبھم،ومن ابغضھم فببغضی ابغضھم ۔اس لئے صحابہ ؓ کی عظمت اور محبت ہمارے دلوں میں ہونی چاہیے، اپنے بچوں کو صحابہ ؓ کا تعارف کروانا چاہیے اور ان کی قربانیوں سے انہیں روشناس کروانا چاہیے۔

صحابہ ؓکے بنیادی صفات:

قرآن کریم میں جہاں پر بھی صحابہ کرام  ؓ کا تذکرہ کیا گیا وہاں ان کی صفات کو بیان کرتے ہوئے ان کا ذکر کیا گیا۔قرآن میں جگہ جگہ صحابہ کرام ؓ کی صفات کو بیان کیا گیا۔انسان کی اصل پہنچان اس کی بلند صفات اور عمدہ اخلاق وکردار سے ہوتی ہے، اس اعتبار سے دیکھیں تو صحابہ کرام ؓ  اخلاق واوصاف کے بہترین نمونہ ہیں ۔قرآن میں فرمایا گیا:اشداء علی الکفار رحماء بینھم ۔کہ صحابہ کافروں کے بارے میں سخت تھے لیکن آپس میں ایک دوسرے کے لئے مہربان اور رحم دل ۔ان کے دلو ں میں دوسروں کی محبت تھی، وہ دوسرے کی ترقی سے جلنے والے نہیں تھے،حسد نہیں کرتے تھے، ترقی کرنے والے کی ٹانگ پکڑکر نہیں کھنچتے تھے،بلکہ ان کے دل کے پاک وصاف تھے، ان کے قلوب میں ایثار وہمدردی تھی، تقوی وللہیت تھی، ایک دوسر ے کا احترام تھا،وہ ’’کانھم بنیان مرصوص ‘ ‘کا نمونہ تھے کہ آپس میں اس درجہ متحد تھے کہ سیسہ پگھلائی ہوئی دیوار کی مانند تھے۔آج امت کو ان کے آپسی انتشار اور اختلاف نے دشمنوں کا نوالہ بنادیا ہے، امت ٹوٹی، منتشر، بکھری پڑی ہوئی ہے،دنیا میں کوئی اورقوم نہیں ہے جس کواتحاد کی اتنی عمدہ تعلیمات دی گئیں ہوں جو مسلمانوں کو ملی ہیں، لیکن اس کے باوجود پوری دنیا میں سب سے زیادہ انتشارکا شکار بھی مسلمان ہیں ۔جس سے دشمن فائدہ اٹھارہے ہیں ۔ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ کلمہ کی بنیاد پر متحد ہوجائیں، مسلکوں کی لڑائیوں میں نہ پڑیں، جھگڑوں کو ختم کریں ۔

صحابہ کرام ؓ کی ایک صفت یہ تھی کہ ان کے دلوں میں خوفِ خدا بے پناہ تھا،اگر ان سے کوئی غلطی سرزد ہوجاتی تو اس وقت تک وہ چین سے نہ رہتے جب تک کہ اس کے بارے میں نبی کریم ﷺ کوئی فیصلہ نہ فرمادیتے۔حضرت ابوبکر ؓ کہ جن کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:کل قیامت کے دن جنت کے ہر دروازے سے ابوبکر ؓ کو بلایاجائے گا، اور ایک جگہ فرمایاکہ:میں نے دنیا میں سب کا حق اداکر دیا، ابوبکر کا حق قیامت کے دن اللہ اداکرے گا،اتنی اونچی شان اور بلند مقام رکھنے والے ابوبکر ؓ کا یہ حال تھا کہ وہ کہتے کہ کاش! میں کوئی تنکہ ہوتا کہ جس کے قیامت کے دن حساب وکتاب نہ ہوتا!کاش میں کوئی پرندہ ہوتا کہ جس سے کوئی سوال نہ ہوتا!یہ دراصل ان کے دلوں کے اندر موجود اللہ تعالی کے خوف کا اثر تھا۔

صحابہ کرام ؓ کی ایک امتیازی صفت یہ بھی ہے کہ وہ دین کے لئے قربانیاں دینے والے تھے،پوری مکی زندگی جن کی قربانیوں سے بھری ہوئی ہے۔اسلام کی سربلندی کے لئے ان لوگوں نے ایسی ایسی قربانیاں دیں کہ ان واقعات کو پڑھ کر حیرت ہوتی ہے ۔اسلام کی خاطر سخت ترین آزمائشوں سے انہیں گزرنا پڑا،ناموافق حالات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن کسی لمحہ بھی دین اسلام سے پھرنے یا اس کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوئے۔

 صحابہ کرام ؓ کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اپنے نبی رحمت ِ دوعالم ﷺ سے شدید محبت کرتے تھے، اور اسی محبت میں نبی کریم ﷺ کی اتباع میں ہمیشہ لگے رہتے تھے،محبت ِ رسول ﷺ کے حیرت انگیز واقعات تاریخ وسیرت کتابوں میں بھرے پڑے ہوئے ہیں ۔جب تک دلوں میں نبیﷺ کی محبت پیدا نہیں ہوگی اس وقت تک کامل اتباع کا ذوق بھی نہیں آئے گا،اسی لئے دلوں کو حب ِ رسول ﷺ سے آباد کرنا چاہیے ۔صحابہ کرام ؓ نے زندگی کے ہر شعبہ میں دین کو داخل کیا اور نبوی تعلیمات انسانوں کے سامنے پیش کی،کاروبار میں، معاشرت میں، معاملات میں، ازدواجی زندگی میں، خارجی زندگی میں، گھریلو زندگی میں، دوست واحباب میں، ہر جگہ انہوں رسول کریم ﷺ کی تعلیمات پر عمل کیا۔ان کی زندگیا ں ہم سب کے لئے ایک مثالی نمونہ ہے ۔

ماہ ِ محرم اور ہمارا معاشرہ:

 صحابہ کرام ؓکی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ سنت سے بہت پیار کرتے تھے، نبی ﷺ کے طریقے کے خلاف کوئی کام انجام نہیں دیتے، بدعت سے انہیں نفرت تھی، اور صرف وہی کام کرتے جو نبی کریمﷺ سے منقول ہوتے ۔وہ بے تکلف لوگ تھے، رسم ورواج کے پابند تھے، انہوں نے دین کو رسمی دین نہیں بنایا،ان کے پاس محبت کے لئے دعوے اور نعرے نہیں تھے بلکہ اتباع ہی ان کا اصل سرمایہ تھا، چناں چہ ماہ ِ محرم کے حوالہ سے آج جتنے غیر ضروری وغیرشرعی کام ہورہے ہیں ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔سوگ منانا،ماتم کرنا، خاص قسم کے پکوان کرنا،شربت بنانا ان سب کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔محرم کے مہینہ میں دس محرم کو روزہ رکھنا ہے، اور اس کے ساتھ ایک دن پہلے یا بعد میں روزہ کا اضافہ کرلیں، بس یہی کام کرنے کا ہے، لیکن آج امت نے غیر شرعی بہت سے کاموں کو ایجاد کرلیا ہے۔آج بھی ایسے گھرانے موجود ہیں جہاں نئی شادی شدہ لڑکی کو محرم کے چاند سے پہلے ہی میکہ بھیج دیا جاتا ہے۔محرم کے مہینہ میں شادی خانے بند پڑے ہوتے ہیں، کیوں کہ محرم کے مہینہ کوئی خوشی کا کام نہیں کیا جاتا ۔یہ سب اہل تشیع کے اثرات ہیں ۔ان کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔شہادت کوئی غم وماتم کی چیز نہیں ہے بلکہ یہ تو سعادت اور کامیابی ک دلیل ہے۔شہید کا رتبہ بہت بلند ہے ۔اس پر رونا اور سوگ کرنا یہ دراصل جہالت اور شیعی اثرات کا نتیجہ ہے۔اور پھر ہمارے پاس صرف ایک شہید ہی تو نہیں بلکہ بے شمار شہدا ہیں جنہوں نے اپنے خون سے گلشن ِ اسلام کی آبیار ی کی ہے۔اس لئے ماہ ِ محرم میں جوخرافات انجام دی جاتی ہیں، ان سے بچنا چاہیے، اور اپنے گھرانوں کو بچانا چاہیے، صحابہ کی سیرت بھی ہمیں یہی تعلیم دیتی ہے کہ اتباعِ سنت کے راستہ چلنا چاہیے اور دین میں نئی چیزوں کے ایجاد کرنے اور بدعات کا دروازہ کھولنے سے بچنا لازم اور ضروری ہے۔

دنیا کے حالات اور ہمارے لئے پیغام:

صحابہ کرام ؓ کی سیرت کی روشنی میں ہمیں دنیا کے موجود ہ حالات کو بھی سمجھنا چاہیے کہ آج پوری دنیا میں مسلمانوں پر ظلم وستم ہورہا ہے، قیامت برپا ہے، برما میں بچوں کو ذبح کیا جارہا ہے،عورتوں کی عصمت دری ہورہی ہے، مردوں کا ختم کیا جارہا ہے، شام اور فلسطین کے حالات بھی نہایت الم انگیز ہے۔یہ تمام واقعات اور پرُدرد حالات ہمیں سبق دیتے ہیں کہ ہم صحابہ کرام ؓوالی صفات کو اپنے اندر پیدا کریں، ان کے اخلاق وکردار ہمارے اندر آئیں، اپنے تعلق کو اللہ تعالی سے مضبوط کریں، دلوں کے تزکیہ کی فکر کریں، نوجوانوں کے بگاڑکو دورکرنے کی کوشش کریں، لڑکیوں کو بے حیائی سے روکیں، اور ان صفات کو اختیار کریں جن کی بنیاد پر اللہ کی مدد اترتی ہے اور نصرت کے فیصلے ہوتے ہیں، صرف زبانی تبصروں سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ کامیابی وترقی کے لئے صحابہ کرام ؓ کی صفات سے متصف ہونا ضروری ہے۔جب انسان اپنے آپ کو بناتا ہے تب اللہ کی مدد اترتی ہے۔اللہ کے یہاں ظاہر نہیں دیکھا جاتا بلکہ اعمال اور باطن کی بنیادپر فیصلے ہوتے ہیں ۔جب تک گناہوں کی زندگیوں سے ہم توبہ نہیں کریں گے اور نافرمانی والے اعمال سے باز نہیں آئیں حالات بہتر نہیں ہوسکتے۔مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ نے 1960ء میں جب برما کا دورہ کیا تھا تو صاف فرمایا تھا کہ اگر مسلمان اس ملک میں دین کی محبت اور دعوت کے فریضے انجام نہیں دیں گے تو مجھے آئندہ دور میں سخت حالات کے آنے کا خطرہ محسوس ہورہا ہے، چناں چہ اس مردِ قلندر کی بات آج پوری ہورہی ہے، یہ صرف اس ایک ملک کے لئے ہی خاص نہیں ہے، بلکہ ہمارے ملک کے حالات بھی دن بدن بگڑتے جارہے ہیں، ظلم وستم ہورہا ہے، ایسے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے آپ کو بدلیں، ایمانی صفات اور صحابہؓ  والی خوبیوں کو پیدا کریں، دعوتِ دین کی ذمہ داری کواداکریں، دعوت سے غفلت کے سنگین نتائج ہوتے ہیں ۔اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کریں، بلند عزائم اور تعمیری فکری کے ساتھ نوجوانوں کی تربیت کریں ۔ان عظمت ِ صحابہ ؓ کے جلسوں کا بھی مقصد یہی ہے کہ امت ان مبارک ہستیوں کی زندگیوں کو سامنے رکھ کر اپنی تعمیر کرے اور ان اعمال واوصاف سے اپنے آپ کو مزین کریں ۔

2 تبصرے
  1. آصف علی کہتے ہیں

    مسلمان سارے کافر ہیں۔۔

    انڈیا پاکستان کی تقسیم سے پہلے پنجاب کے دل لاھور سے” پرتاب” نام کا ایک اخبار نکلا کرتا تھا ! جو کہ پرتاب نام کے ایک ھندو کا تھا ! وھی اس کا مالک بھی تھا اور چیف ایڈیٹر بھی !
    ایک دن پرتاب نے سـُرخی لگا دی !

    مسلمان سارے کافر ھیں !

    لاھور میں تہلکہ مچ گیا ،پرتاب کے دفتر کے باھر لوگوں کا ھجوم اکٹھا ھو گیا جو مرنے مارنے پر تیار تھا،، نقصِ امن کے خطرے کے پیش نظر انگریز کمشنر نے پولیس طلب کر لی ! مجمعے کو یقین دلایا گیا کہ انصاف ھو گا اور مجرم کو قرار واقعی سزا دی جائے گی ! تمام مکاتب فکر کی مشترکہ کمیٹی کے پجاس آدمیوں کی مدعیت میں پرچا کٹوا دیا گیا !

    چالان پیش کیا گیا اور میجسٹریٹ نے جو کہ انگریز ھی تھا ،پرتاب سے پوچھا یہ اخبار آپ کا ھے ؟،،جی میرا ھے ! اس میں جو یہ خبر چھپی ھے کہ مسلمان سارے کافر ھیں اپ کے علم اور اجازت سے چھپی ھے ؟ جی بالکل میں ھی اس اخبار کا مالک اور چیف ایڈیٹر ھوں تو میرے علم و اجازت کے بغیر کیسے چھپ سکتی ھے ! آپ اپنے جرم کا اعتراف کرتے ھیں،،؟ جی جب یہ جرم ھے ھی نہیں تو میں اس کا اعتراف کیسے کر سکتا ھوں،،مجھے تو خود مسلمانوں نے ھی بتایا ھے جو میں نے چھاپ دیا ھے ! صبح ھوتی ھے تو یہ لوگ سپیکر کھول کر شروع ھوتے ھیں کہ سامنے والی مسجد واالے کافر ھیں،، وہ ظہر کے بعد شروع ھوتے ھیں تو عشاء تک ھمیں یقین دلاتے ھیں کہ فلاں مسجد والے کافر ھیں اور اتنی قطعی دلیلیں دیتے ھیں کہ میں تو قائل ھو گیا کہ یہ واقعی کافر ھیں اور مجھے یقین ھے کہ عدالت بھی یقین کرنے پر مجبور ھو جائے گی بس اگلی تاریخ پر فلاں فلاں محلے کے فلاں فلاں مولوی صاحبان کو بھی بلا لیا جائے اور جن 50 آدمیوں کی مدعیت میں پرچا کاٹا گیا ھے انہیں بھی اگلی پیشی پہ بلا لیا جائے تو معاملہ ایک ھی تاریخ میں حل ھو جائے گا !

    اگلی پیشی پر تمام متعلقہ مولویوں کو جو کہ صبح شام دوسرے فرقے کے لوگوں کو مدلل طور پر کافر قرار دیتے تھے اور پرتاب نے جن کا نام دیا تھا،، باری باری کٹہرے میں طلب کیا گیا ! مجمعے میں سے تمام افراد کو کہا گیا کہ دیوبندی – اھل حدیث، شیعہ اور بریلوی الگ الگ کھڑے ھوں !

    بریلوی مولوی سے قرآن ہر حلف لیا گیا ،جس کے بعد پرتاب کے وکیل نے اس سے پوچھا کہ دیوبندوں اور اھل حدیثوں کے بارے میں وہ قرآن و سنت کی روشنی میں کیا کہے گا ؟ مولوی نے کہا کہ یہ دونوں توھینِ رسالت کے مرتکب اور بدترین کافر ھیں اور شیعہ بھی کافر ! پھر اس نے دیوبندیوں اور اھلِ حدیثوں کے بزرگوں کے اقوال کا حوالہ دیا اور چند احادیث اور آیات سے ان کو کافر ثابت کر کے فارغ ھو گیا،، جج نے پرتاب کے وکیل کے کہنے پر اھل حدیثوں ، شیعوں اور دیوبندیوں سے کہا کہ وہ باھر تشریف لے جائیں ! اس کے بعد دیوبندی اور اھلِ حدیث مولویوں کو یکے بعد دیگرے حلف لے کر گواھی کے لئے کہا گیا،، دونوں نے بریلویوں ، شیعوں کو مشرک ثابت کیا اور پھر شرک کے بارے میں قرآنی آیات اور احادیث کا حوالہ دیا ! گواھی کے بعد میجسٹریٹ نے بریلویوں کو بھی عدالت سے باھر بھیج دیا اور شیعہ مولوی کو بلایا اس نے بھی دلائل سے دوسرے مسالک کو کافر قرار دیا۔۔
    اس کے بعد پرتاب کے وکیل نے کہا کہ میجسٹریٹ صاحب اپ نے خود سن لیا کہ یہ سب ایک دوسرے کو کافر سمجھتے اور ببانگ دھل کہتے بھی ھیں اور کافر ھو کر عدالت سے نکل بھی گئے ھیں اب عدالت میں جو لوگ بچتے ھیں ان میں سے مدعیوں کے وکیل صاحب بھی ان فرقوں میں سے کسی ایک فرقے کے ساتھ تعلق رکھتے ھیں،، لہذا یہ بھی کافروں میں سے ھی ھیں ! باقی جو مسلمان بچا ھے اسے طلب کر لیجئے تا کہ کیس آگے چلے !

    میجسٹریٹ نے کیس خارج کر دیا اور……..

    پرتاب کو بری کر دیا نیز پرتاب اخبار کو دوبارہ بحال کر دیا !

    (انتخاب)

  2. آصف علی کہتے ہیں

    آج ملکی اوربین الاقوامی حالات وواقعات اس بات کاتقاضہ کرتےہیں کہ قران اورصاحب قران کی عظمت ورفعت کماحقہ بیان کی جاے.

    حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کواسوہ حسنہ کہاگیاہے,قران کوکتاب مبین کہاگیاہے.پیروی قران وصاحب قران میں مسلمانوں کی عظمت کارازپنہاں ہے,قران ہی کےذریعےعروج وزوال ہے.

    لیکن مجھےاس بات پرتعجب ہوتاہےکہ جمیعت العلماءہند(عرف عام میں,منتشرالعلماءہندکہنازیادہ مناسب ہوگا)عظمت صحابہ کانفرنس کیوں منعقدکرتی ہے؟

    کون مسلمان ہےجوصحابہ کی عظمت کامنکرہو.

    اگرغیرمسلموں کوصحابہ کی عظمت بتانی ہوتوسب سےپہلےانہیں عظمت رسول بتانی ہوگی,صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین توشمع رسالت کےپروانےتھے,شمع کےتعارف کےبغیرپروانہ توکچھ بھی نہیں..

تبصرے بند ہیں۔