ترکِ تعلقات نہیں چاہتا تھا میں

افتخار راغبؔ

ترکِ تعلقات نہیں چاہتا تھا میں

غم سے تِرے نجات نہیں چاہتا تھا میں

کب چاہتا تھا تیری عنایت کی بارشیں

شادابیِ حیات نہیں چاہتا تھا میں

مجھ سے تو اے بہشت نظر یوں نظر نہ پھیر

کیا تجھ کو تا حیات نہیں چاہتا تھا میں

میں چاہتا تھا تم سے نہ جیتوں کبھی مگر

کھا جاؤں خود سے مات نہیں چاہتا تھا میں

گزری ہے دل پہ کیسی قیامت میں کیا کہوں

نفرت کی کائنات نہیں چاہتا تھا میں

کیا حال اب ہے تیرے تعاقب میں اے حیات

تُو یوں ہی آئے ہات نہیں چاہتا تھا میں

میں چاہتا تھا راہ میں کچھ مشکلیں مگر

ہر ہر قدم پہ گھات نہیں چاہتا تھا میں

راغبؔ وہ میری فکر میں خود کو بھی بھول جائیں

ایسی تو کوئی بات نہیں چاہتا تھا میں

تبصرے بند ہیں۔