ترکی میں مغربی فکر کے غلبہ کی تاریخ (2/2)

(مصادر اسلامی کی جدید تعبیروتدوین کی کوشش کا جائزہ)

محمد فیروز الدین شاہ کھگہ

اتاترک کے خلافِ اسلام اقدامات

            مصطفی کمال اتاترک نے جس معاشرہ کی تشکیل کی وہ غیر اسلامی تہذیب و معاشرت کا آئینہ دار تھا۔ وہ خود چونکہ مغربی تہذیب سے مرعوب تھا اس لئے زبرد ستی اس کے نفاذ کے لیے اسلامی اقدار کے خلاف کھلی مہم چلا کر غیر مسلم اقوام کی تقلید کا رحجان پیدا کرتا رہا، جس کی وجہ سے ترکوں کا اسلامی تشخص بری طرح مجروح ہوا۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ نے اپنی کتاب ’مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش‘ میں مصطفی کمال اتاترک کے مزاج اور عادات کا تذکرہ مستند سوانح نگار وں کے حوالے سے کیا ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں :

            ’’اتاترک شراب نوش اور جنسی تسکین حاصل کرنے کا شائق تھا، روحانی تسکین کے لیے اس کے اندر خدا کا اعتقاد نہ تھا، وہ دوسروں کے جذبات کو تسلیم نہیں کرتا تھا، اس نے مذہبی اقتدار سے آزادی حاصل کرنے کی پرزور حمایت کی، اس نے شریعت اور اسلامی قانون کی تشریح کرنے والی عدالتوں کے خاتمے کی وکالت کی، اس کی اصل جنگ مذہب کے خلاف تھی، اس نے اس بات کو نظر انداز کر دیا تھاکہ اسلام ہی کی عطا کی ہوئی وحدت نے وسیع عثمانی سلطنت کی تعمیر کی تھی۔ اس کا عقیدہ تھا کہ خدا کا کہیں وجود نہیں، اس نے ترک قوم کو مذہب کی جگہ مغربی تہذیب کے روپ میں نئے دیوتا سے متعارف کرایا، وہ اسلام اور علماء کی توہین کرتا تھا، وہ اپنی قوم سے کہتا تھا کہ ہم کو ایک مہذب قوم کا سا لباس پہننا چاہئے، دوسری قوم کے لوگوں کو اپنے پرانے فیشن کے لباس پرہنسنے کا موقع نہیں دینا چاہئے، اس نے ترکی ٹوپی کو خلاف قانون اور ہیٹ کو لازم قرار دیا۔ 1927 ء میں مکہ مکرمہ میں مؤتمر اسلامی کے اجلاس میں اسلامی ممالک میں ترکی وہ واحد ملک تھاجس نے ہیٹ پہن کر ترکی کی نمائندگی کی، ملک کو سیکولر اسٹیٹ میں تبدیل کردیا جس میں اسلام کو سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل نہیں رہی…خلافت کے ادارے کو ختم کردیا گیا، شرعی اداروں، محکموں اور اسلامی قانونِ شریعت کو ملک سے بے دخل کرکے سوئٹزر لینڈ کا قانون ِ دیوانی، اٹلی کا قانونِ فوجداری اور جرمنی کا قانونِ بین الاقوامی تجارت نافذکیا گیا، اور پرسنل لا کو یورپ کے قانون دیوانی کے مطابق وماتحت کردیا، دینی تعلیم ممنوع قرار پائی، پردہ کو خلاف قانون قرار دیا، مخلوط تعلیم کا نفاذ کیاگیا، عربی حروف کی جگہ لاطینی حروف جاری ہوئے، عربی میں اذان ممنوع قرار پائی، قوم کا لباس تبدیل ہوگیا”۔ 10؎

        یہی وجہ ہے کہ مغربی تاریخ نویس اور ناقدین ترکی کی تاریخ پرجب بھی قلم اٹھاتے ہیں تو عموماً مصطفی کمال اتاترک کے عہد کو ترکی کی تاریخ کا ز ریں دور قرار دیتے ہیں۔ وہ بسااوقات یہ تاثر بھی دیتے ہیں کہ ترک تاریخ میں اصلاحات کا جو عمل مصطفی کمال کے دور سے شروع ہوا وہ اس کے ذاتی ذوق اور فکر کاترجمان ہے، جس میں کسی بیرونی کوشش کا عمل دخل نہیں ہے۔ اہل مغرب اسی وجہ سے ترکوں کی تاریخ کا حوصلہ افزا یا خوش کن مرحلہ کمال ازم کو ہی قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ تاثر تاریخی حقائق کے بالکل منافی ہے اور اس لیے پھیلا ہے کیونکہ یورپین مؤرخین نے مصطفی کمال کو مسلمانوں کے لیے قبول صورت بنایا تھا، تاکہ اس کو اہل اسلام کی شدید مزاحمت کا سامنانہ کرنا پڑے۔

مذہبی امور پر’کمال ازم‘ کے اثرات

            کمال اور اس کے اتحادیوں نے انقرہ کے سلطان کا تختہ 1922 ء میں گرا دیا اور اس کے ایک دو سال کے اندر استنبول مرکز انتظام و انصرام ٹھہرا۔ 3؍ مارچ 1924ء کو خلافت کے خاتمہ کے ساتھ ہی خاندان عثمانی کے تمام افراد جلا وطن کر دیے گئے، علماء کے حلقے توڑ دئے گئے، 3؍ نومبر کو لاطینی رسم الخط کے نفاذ کا حکم دیا گیا، چالیس سال سے کم عمر ترکوں کو ہدایت کر دی گئی کہ اس رسم الخط کے سیکھنے کے لیے اسکولوں میں جایا کریں، اس طرح عربی اور فارسی کے الفاظ تدریجاً ترکی زبان سے نکال دیے گئے۔ 11؎ مصطفی کمال نے اپنے مغربی اتحاد یوں کے زیر اثر سب سے پہلی اصلاح تعلیم کے میدان میں دینی مدارس کے نظام کے خاتمہ سے کی۔ مذہبی معاملات اور محکمۂ اوقاف کی انتظامیہ کو فی الفور وزیراعظم کے ڈائریکٹریٹ سے منسلک کر دیا، تاکہ ان کی خود مختاری ختم ہوجائے اور تمام مذہبی فیصلے وزیراعظم کی طرف سے ہوں۔ چنانچہ اس حوالے سے سب سے پہلا حکم 3؍اپریل 1924ء کو شرعی عدالتوں کے خاتمہ کی صورت میں آیا۔ تمام سلسلہ ہائے تصوف و طریقت پر 1925ء میں پابندی لگادی گئی اور آخر کار 1928ء میں اسلام بحیثیت مذہب قبول کرنے کی آئینی شق کو ریاست میں منسوخ قرار دے دیا گیا۔ 12؎

            مصطفی کمال نے عورتوں کے پردہ پربراہ راست قانونی پابندی لگانے کے بجائے خود سخت ترین پروپیگنڈا کیا اور عورتوں پرزور دیا کہ وہ ماڈرن اسٹائل اور لباس اختیار کریں۔ اگرچہ عورتوں کے لیے برقعہ پہننا اختیاری رکھا گیا، لیکن رجحان یہی تھا کہ اس کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے۔ 13؎ اس ضمن میں بی۔ کاپورل  (B.Caporal) نے یہ ذکر کیاہے کہ پردہ کو نہ چھوڑنے والوں کا محاسبہ اور مختصر عرصہ کی قید بطور سزا بھی رکھ دی گئی۔ 14؎

            غرض مصطفی کمال نے اپنی مغرب زدگی کی رَومیں بہت سے معاملات میں مداخلت فی الدین کے بے جا اور جسارت آمیز اقدامات کیے۔ 1917ء میں عثمانی عائلی قانون ظاہر ہوا اور 1921 ء میں آئینی اصلاحات کے نام سے اسلامی قانون کی قطع و برید شروع ہوگئی…نئے قانون کی رو سے ترکی میں عیسائی اور یہودی تو اپنے مذہبی امور میں بالکل آزاد قرار پائے، جب کہ مسلمانوں کا مذہب حکومت کا دست نگر رہا۔ 15؎

ترکی میں ’تجدیدو اصلاحِ دین‘ کی حالیہ کوششوں کا ناقدانہ تجزیہ

            اسلامی ممالک میں عمومی اور ترکی میں خصوصی طور پر جدیدیت کی یہ مہم ابھی تک جاری ہے۔ 1996ء میں ’انسانی کا لونیوں ‘ کے موضوع پر ترکی میں اقوام متحدہ کے اسٹیج پر ایک عالمی کانفرس منعقد ہوئی، جس میں سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی زندگی میں مرد و عورت کے درمیان مساوات اور خواتین کی فعّال شرکت پرزور دیا گیا، تاکہ پوری دنیا میں پھیلی ہوئی نوع انسانی کی ترقی کی راہ میں مرد و عورت دونوں شانہ بشانہ مل کر کام کریں۔ 16؎

            اسی طرح کچھ عرصہ سے ترکی کا سرکاری ادارہ برائے مذہبی امور (دیانت) جدید اسلام سے شناسائی کے لیے راہیں ہموار کرنے میں مصروف ِ عمل ہے، خاص طور پر اس کے نزدیک عورت کو معاملاتِ زندگی طے کرنے میں جن دشواریوں یا عصری تقاضوں کی بنیاد پر جن پیچیدگیوں کا سامنا ہے ان کے حل کے لیے احادیث کی نئے سرے سے تعبیر کرنا، نیز احادیث کے وہ الفاظ جو عورت کی حیثیت اور مرتبہ کو مرد کے مقابلہ میں کم تر کرتے ہیں، ان کو احادیث کے پورے ذخیرہ میں سے حذف کرنا بھی اس کی ترجیحات میں شامل ہے۔ 17؎

            حدیث و سنت کی جدید تعبیر و تشریح کے مقصد سے شروع کیے جانے والے اس منصوبہ کے لیے ترکی کی 23 یونیورسٹوں کے تقریباً 80؍ اسکالرز کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ اس کمیٹی کا ہدف یہ ہے کہ وہ ذخیرۂ حدیث کی از سر نومراجعت کے بعد اس میں ضروری حذف و اضافہ کو عمل میں لائے، نیز وہ احادیث جو جدید دور میں زمانہ کے تقاضوں اور ضروریات سے متصادم ہیں، ان کی ایسی تعبیر کرے جس سے احادیث اور زمانۂ حال کے درمیان ایک متناسب مطابقت کا احساس ہو۔ منصوبہ سازوں کے خیال میں ایسی ا حاد یث کے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، سو جلد از جلد ان کو جدید اسلوب (Modern Style) میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

     اس منصوبہ کے سربراہ پروفیسر مہمٹ گورمیز(Mehmet Gormez)نے وضاحت کرتے ہوئے چند مثالیں بھی دی ہیں۔ مثلاً انھوں نے کہا ہے کہ عورت کو محرم کے ساتھ سفر کرنے کی جو پابند ی آں حضرت ﷺ نے لگائی تھی وہ اس دور کے حالات کو مدّنظر رکھتے ہوئے معاشرتی سطح پرلگائی تھی، تاکہ عورت کی حفاظت ممکن ہو، آج کے حالات اس دور سے مختلف ہیں، اسی طرح اب وہ علت بھی موجود نہیں جو اس عہد میں موجود تھی، اس لیے یہ حدیث ذخیرۂ حدیث میں سے حذف کر دینی چاہئے، یا پھر اس کی ایسی تعبیر کی جائے جس سے یہ قدغن ختم ہو جائے۔ 18؎ اسی طرح پروفیسر موصوف نے ایک انٹرویو کے دوران اسلامی حدود اور سزائوں کے بارے میں کہاکہ اس طرح کی کسی چیز کا قرآن میں ذکر نہیں ہے۔ 19؎

            اس منصوبہ کے تین اہم مقاصدبیان کیے گئے ہیں :

         1۔ تاریخی مداخلت کی وجہ سے پیداشدہ غلط فہمیوں کا ازالہ۔

        2۔ احادیث میں معاشرتی، روایتی اورمذہبی عناصر کی توضیح۔

        3۔ حدیث کے صحیح فہم میں لوگوں کی معاونت۔ 20؎

            یہ مقاصد بظاہر نسل نو کے لیے انتہائی مثبت طرز فکروعمل کی نشان دہی کررہے ہیں، لیکن پس منظر میں یہ نصوص اسلامیہ اور بالخصوص حدیث کی تغییر اور تبدیلی کا ایک منصوبہ محسوس ہوتا ہے۔ چنانچہ بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگراحادیث اور دیگر مصادر اسلامیہ پر اس نہج سے غور کیا جائے کہ ان کی تشریح سے عصر حاضر میں اباحیت پسندی کا دروازہ کھل جائے، یا اسلامی حدود و قیود کا سارا نظام بدل جائے توپھر اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے کوئی ایک جزء بھی قابل عمل نہیں قرار پائے گا، آخر پھر آں حضرت ﷺ  کے عطا کردہ احکام و فرامین کی کیا تشریعی حیثیت باقی رہے گی؟۔

            احادیث کی تدوین و تعبیرِ نو کا یہ منصوبہ در اصل عیسائی مصنفین اور ان کے مسلمان حواریوں کی عرصۂ دراز سے جاری کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اس ضمن میں یہاں تین کتابوں کا تذکرہ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جو ترکی میں اسلام کو نئی شکل دینے اور ذخیرۂ حدیث کی دوبارہ چھان بین کی دعوت سے پُر ہیں۔ ان کتابوں میں صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے کیونکہ یہ تو ان کے مندرجات کا ایک چھوٹا سا جزء ہے، بلکہ ان میں ترکی کو سیکولر ریاست میں تبدیل کرنے کا ہمہ جہت منصوبہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ بد قسمتی سے عیسائی لابی کی اس تحریک کے اثرات ترکی کی مجلس امور مذہبی پر بھی پڑے ہیں اوراس وقت تجدید و اصلاح دین کے نام پر مصادر اسلامی کی عصری ارتقاء ات کی روشنی میں تشریح اور حذف و اضافہ کا کام زور شور سے جاری ہے۔ اس پس منظر میں کتب ذیل کا مختصر جائزہ مفید ہوگا۔

1)         تنقیح تفسیر القرآن فی المفہوم المعاصر لعلوم الدین فی

            الجامعۃ الترکیۃ

            (ترکی جامعات میں دینی علوم کی معاصرانہ تفہیم کیلئے قرآنی تفسیر کی تنقیح)

2)         القانون کوسیلۃ لاصلاح الدین و المجتمع

            (قانون دین و معاشرہ کی اصلاح کا ذریعہ)

3)         الحداثۃ و الاسلام والعلمانیۃ فی ترکیا

            (ترکی میں جدیدیت، اسلام اور سیکولرزم) 21؎

            دینی امور میں اصلاح کے نام پر ترکی میں جو کش مکش جاری ہے اس کو ہوا دینے میں ان کتب کا بڑا کردار ہے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی کوششیں پر کشش اسلوب، بہ ظاہر غیرجانب دارانہ تحقیقی انداز اور مخلص جذبات و احساسات کے دعوئوں کے ساتھ کی جاتی ہیں۔ یہی کچھ معاملہ ان کتب کا بھی ہے۔ ان کے ناموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں درست سمت میں اجتہاد کرنے اور عصری تقاضوں کے لحاظ سے پیش آمدہ مسائل کا شرعی اصولوں کی روشنی میں حل تلاش کرنے کی اہمیت و ضرورت پر زور دیا گیا ہے، لیکن ان کا اصل مقصد اسلامی مصادر کے متون کی ایسی صورت پیش کرنا ہے جن کے لیے ان کی تنزیل نہیں ہوئی تھی۔

            پہلی کتاب  تنقیح تفسیر القرآن فی المفہوم المعاصر کا مصنف فیلکس کارنر ہے۔ وہ ایک عیسائی پادری ہے اور گذشتہ کئی برسوں سے انقرہ میں مقیم ہے۔ اس نے اپنی کوششوں سے ترکی کے بلند مرتبہ فقہا ء کے مابین ایک مناقشہ کی فضا پیدا کردی ہے۔ کارنر کی ان سرگرمیوں کا محور یہ ہے کہ قرآن کریم کی تفسیر اور دیگر تشریعی مصادر کی توضیح جدید مغربی تنقیدی اسلوب کے تحت ہونی چاہیے۔

         اس ضمن میں اس نے اپنے ہم نوائوں کی ایک جماعت بھی تیار کر لی ہے جو ماڈرن اسلام کے لیے اس کے شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں۔ انہی میں سے پروفیسر محمد باجاجی بھی ہیں، جن کا نظریہ ہے کہ قرآن اپنی عمومیت کی وجہ سے ہر زمانہ کے لیے ایک لچک دار ضابطۂ حیات ہے، لیکن اس کا اسلوب ساتویں صدی عیسوی والا ہونے کی بنا پر اب اس کے مفاہیم پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ گویا قرآن اُس دور کے لیے تومناسب تھا، لیکن اب اکیسویں صدی میں کسی دوسرے مناسب ِ حال قرآن کی طرف مراجعت لازمی ہے۔ اس کے نزدیک قرآن حقائق کا مجموعہ ہے تومحقق کو بھی چاہیے کہ وہ اس کے واقعی معنیٰ پر دھیان دے، مثلا چوری پر ہاتھ کاٹنے کی حد سے مراد در اصل ہاتھ کاٹنا نہیں، بلکہ چوری کی سزا بیان کرنا ہے۔ 22؎

            واضح رہے کہ باجاجی نے اپنی تعلیم مغرب میں مکمل کی ہے اور وہ اپنے رفقاء کی طرح جدید اسلوبِ تحقیق پر اعتماد کرتا ہے، یہ جدید اسلوب چاہتا ہے کہ جس طرح انجیل کا تاریخ بہ تاریخ ناقدانہ مطالعہ ہوتا چلا آیا ہے، اسی طرح قرآن کا بھی مطالعہ کیا جانا چاہیے۔ 23؎

            اس تفصیل سے بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح جدید مغربی اسالیبِ تحقیق پہلے سے طے شدہ منصوبہ کی تکمیل پر کار بند ہیں۔ ان کا منتہائے فکر یہی ہے کہ کسی طرح قرآن کومتن کے اعتبار سے نہ سہی، کم از کم معنیٰ کے اعتبار سے ہی انجیل کے ہم پلہ قرار دے دیا جائے۔

            فیلکس کارنر کی کتاب کا ایک ذیلی عنوان إعادۃ التأمّل فی الاسلام  یعنی اسلام میں نئے سرے سے غور و فکر ہے۔ ہمارے خیال میں یہ ذیلی عنوان بجا طور پر اس کے مرکزی عنوان کا لب لباب اور خلاصہ ہے۔ 24؎

            تقریباً اسی طرح کے مقاصد کااظہار دوسری کتاب  القانون کوسیلۃ لاصلاح الدین والمجتمع  میں ہوا ہے، جس کے مصنف بالنت اوجر ہیں۔ انہوں نے ترکی میں داخلی سطح پر اسلامی مصادر کی جدید تعبیرات کی طرف رغبت دلانے کے لیے کافی مباحثے منعقد کروائے، جن کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ چاروں فقہی مسالک، جن کی مسلمانوں کا غالب اہل سنت طبقہ پیروی کرتا ہے، دراصل نبی ﷺ کی وفات کے بعد عصری حالات و ظروف کی بنیاد پر وجود میں آئے تھے، پھر بد قسمتی سے اجتہاد کا دروازہ بند کر دیا گیا، جس کو دوبارہ کھولنا چاہیے۔ اس نے ترکی کے فقہاء سے اس بابِ مقفل کے کھولنے کے لیے شدت سے تقاضا کیا۔ اپنی کتاب میں اوجر نے بیسویں صدی عیسوی کے غیر معروف ترک مسلم مفکر ین اور مصلحین کی ایک فہرست ان کے کارناموں کے ساتھ شامل کی ہے۔ اس نے اسلام کے متعدد پہلوئوں اور ثقافتی حدود کی نشان دہی کرتے ہوئے فیلکس کارنر کی طرح تجدید و اصلاح ِ اسلام کے عنوان سے اس میں نئے تناظر سے غور و فکرکرنے کی دعوت دی ہے۔ یہ کتاب بھی کارنر ہی کے خیالات کی تکمیل کی جانب ایک اہم پیش رفت کے طور پر سامنے آئی۔ 25؎

            تیسری کتاب الحداثۃ والاسلام و العلمانیۃفی ترکیا الیف جینار کی تالیف ہے۔ موصوفہ انقرہ میں سیاسی علوم کی استاد ہیں۔ ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ترکی میں اسلام اور سیکولرزم کے مابین موافقت ممکن ہے۔ الیف نے ترک قوم کے نئے نظریاتی (Ideological) تشخص کے لیے انہی دونوں ارکان کو بنیاد قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ 26؎

            اس پورے تاریخی پس منظرکے بعد یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ قرآن و حدیث کے متون اور اسلامی مصادر کی تعبیرو تشریح میں ان تحریفی کا وشوں کے محرّکات کیاہیں ؟ اور وہ کون سے عناصرہیں جواس ناپاک جسارت کے مرتکب ہورہے ہیں ؟

            ظاہر ہے کہ تمام مسلمان علماء اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن اور حدیث کی نصوص میں کسی ذیلی اور فروعی حوالے سے، یا محض اس خیال سے کہ قرآن و حدیث کی کوئی بات بزعم خود قرین قیاس یا موافق زمانہ نہیں ہے، تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ امام غزالیؒ نے اجماع، قیاس اور اجتہاد کے ذریعہ نص میں تبدیلی کے عدم جواز پر بحث کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’ھذا ماقطع بہ الجمہور‘‘ یعنی یہ وہ موقف ہے جس کی قطعیت پر جمہور کا اتفاق ہے۔ 27؎

            باقی رہیں فقہی اصطلاحات: استحسان، استصلاح اور عرف وغیرہ تو ان کے باقاعدہ اصول موجو د ہیں، جن کو علماء اصولیین نے منضبط کر رکھا ہے۔ محض آزاد خیالی کو فروغ دینے کے لیے ان اصطلاحات کو کام میں لانا اسلام اور شریعت کے ساتھ بہت بڑا مذاق اور حدود سے تجاوز ہے۔ اس پس منظر میں انکار حدیث کے جدید محرکات وعوامل کا تذکرہ مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ نے بڑے جان دار انداز سے اس طرح کیا ہے:

            ’’مغربی تہذیب کی قدروں اور پیمانوں، اور اس کے طرز زندگی اور فیشن اور سنت نبویﷺ میں کبھی گٹھ جوڑ نہیں ہوسکتااور اس زندگی کو جو رسول ﷺ سے گہری محبت اور آپ کی ذات پر مکمل اعتماد اور سنت کے مراجع اور ماخذ پر پورے یقین اور اطمینان پر مبنی ہو، مغربی تہذیب کی تعظیم و تقدیس اور اس کو علم انسانی کی آخری دریافت سمجھنے کے تصور کے ساتھ جمع نہیں کیا جاسکتا۔ غالباً بعض اسلامی ممالک کے حکام اور سیاسی لیڈر ان کے سنت پرحملہ اور انکارِ حدیث کا یہی سبب ہے۔ ‘‘ 28؎

مراجعتِ حدیث پروجیکٹ کے بارے میں علماء اسلام کا موقف

            ترکی میں حدیث کی تدوین وتعبیر نو کے بارے میں جاری منصوبہ کے مشمولات اور خدوخال مکمل طور پر تاحال سامنے نہیں آئے ہیں، تاہم موجود تفصیلات کی روشنی میں اس وقت تک جو موقف علماء اسلام کی طرف سے منظر عام پر آیا ہے، اس میں حدیث کی حرمت و تقدیس کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اس کی تشریحی حدود وقیود کی اہمیت وضرورت کو ملحوظ رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔ اسی طرح اس منصوبہ کے نتیجہ میں جو اندیشے اور خدشات پیدا ہوئے ہیں ان کے ازالہ کے لئے تمام علماء نے تقریباً یہ رائے پیش کی ہے کہ اس کام کو کسی ایک ملک یا انفرادی سطح پر ہونے کی بجائے امت کے بہترین علماء کو اکٹھا ہو کر امت کے مجموعی مزاج کو پیش نظر رکھ کرسر انجام دینا چاہئے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو یہ منصوبہ امت میں خلفشار اور زندقہ و الحاد کا سبب بنے گا۔ 29؎

 حواشی و مراجع

1؎        ایڈون اے برٹ، فلسفہ ٔ مذہب، مترجم بشیر احمد ڈار، مجلس ترقی ادب لاہور، جون 1963ء، ص 392

2؎        ڈاکٹر اکمل ایوبی، مقالہ مستشرقین اور تاریخ ترکی در ’اسلام اور مستشرقین‘، مرتبہ سید صباح الدین عبدالرحمن، مطبع معارف اعظم گڑھ، ج 2 ص 192

3؎        دیکھے محمد ارشد قریشی، عیسائیوں اور مسلمانوں کی کشمکش کی تاریخ، مطبوعہ ربوہ (چناب نگر ) سن نداردرد، ص: ی

4؎        اسلام اور مستشرقین، ج 2 ص 192-193

5؎        مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ کیجئے ڈاکٹر اکمل ایوبی کا مقالہ، حوالہ سابق

6؎        تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو سہ ماہی اسلام اور عصر جدید، نئی دہلی، ج 14، شمارہ10، جنوری 1982ء۔ اس رسالہ میں پروفیسر ضیاء الحسن فاروقی نے برنارڈلوئس کے اس مقالہ کا ترجمہ شائع کیاہے، اس کا عنوان ’اسلام‘ ہے۔ اس مقالہ کا انگریزی سے اردو ترجمہ جناب نذیرالدین مینائی صاحب نے کیاہے۔

7-         S Mardin, The Genesis of young otteman thought (princeton: University press, 1962)

8-         S. Mardin, Superwesternization in Urban

life in the Ottoman Empire in the last quater of the 19th century in P. Benedict and E. Tunesterkineds),Turkey: Geograplecal and social perspectives (Leiden: E.j.Brill, 1974).

9؎        مجلہ الاحکام العدلیۃ کا تعارف، اس کی تدوین اور شروح کے بارے میں ڈاکٹرایس ایم زمان کے اس مقدمہ کا مطالعہ کریں جو اس کے اردو ترجمہ کی اشاعت میں کتاب کے شروع میں موجود ہے۔ شائع شدہ از مجلہ ادارہ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد۔

10؎      تفصیل کے لیے دیکھئے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش، مجلس نشریات اسلام کراچی۔ سن ندارد، ص 74 تا 82 ملخصاً

11؎      ولیم ایل لینگر، انسائیکلو پیڈیا تاریخ عالم، مترجم غلام رسول مہر، شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز، لاہور، اشاعت سوم، 1968ء، ص274

12-       Deniz Kandiyoti” Women, Islam and the state”

Dawah Academy, International Islamic University Islamabad, 1991, p22.

13؎      ولیم ایل لینگر، انسائیکلو پیڈیا تاریخ عالم، ص272

14-       Deniz Kandiyoti "Women, Islam and the state” p22

15؎      مولانا شمس تبریز خان، مسلم پرسنل لا اور اس کا عائلی نظام، مجلس نشریات ِ اسلام کراچی، 1983ء، طبع دوم، ص93

16؎      مغربی اقوام کے زیر انتظام اس نوع کی متعدد کانفرنسیں منعقد ہوچکی ہیں۔ کسی قدر تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: مولانا یاسر ندیم، گلوبلائزیشن اور اسلام، دارلاشاعت، کراچی 2004ء، ص 377

17؎      فولکرس شتار، خطوۃ ترکیۃ مھمۃ فی طریق الاصلاح الدینی:اسلام علمانی لعصر حدیث، ترجمۃعبداللطیف شعیب قنطرۃ، مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے:

            www.qantara, de/welcom/show-article.php/-c-579

18-       news.bbc.co.uk/2/hi/europe/7264903.stm.

19-       blogs.reuters.com/faithworld

20-       http://blogs.reuters.com/faithworld/2008

21؎  ایضاً          22؎  ایضاً          23؎  ایضاً          24؎  ایضاً          25؎  ایضاً          26؎  ایضاً

27؎      دیکھئے، امام غزالی، المستصفی، المطبعتہ الامیر یۃ مصر، 1322 ھ، ا /126

28؎      مولانا ابوالحسن علی ندوی، ؒ حدیث کا بنیادی کردار اسلامی مزاج و ماحول کی تشکیل و حفاظت میں، مجلس نشریات اسلام کراچی، 1981ء، ص 41

29؎      اس سلسلے میں عالم اسلام کے چند مشاہر علماء کے تاثرات کے لیے ملاحظہ کیجیے :

(www.jamila-qatar.com/April 2008/pdf/1/3.pdf)

Jamila/April/2008,P62

تبصرے بند ہیں۔