اردو کے ابتدائی نقوش اور صوفیائے کرام

ڈاکٹرعمیر منظر

اردو زبان کی ابتدائی تاریخ کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ اس کے فروغ صوفیائے کرام کا نمایاں کردار تھا۔ زبان کے تشکیلی مراحل سے اس کی ترقی تک صوفیا کرام کے مختلف سلسلوں نے اس کو اختیار کیا اور اس سے قربت کا محرک بنے۔ اگرچہ صوفیا کرام کا اصل مقصد تبلیغ و اصلاح تھامگر بندگان خدا تک ترسیل و ابلاغ کے ایک ذریعے کے طور پر انھوں نے اس زبان کو اختیار کیا۔ کچھ تو ان کا خلوص اور جدوجہد اور کچھ اردو زبان کا عوامی لہجہ دونوں نے مل کر ایک دوسرے کو تقویت بخشی۔ واقعہ یہ ہے کہ صوفیائے کرام ایک ایسی دنیا کی تعمیر میں منہمک تھے جہاں دنیا داری کا شائبہ تک نہیں تھا بلکہ ایثار و اخلاص کی کارفرمائی تھی۔ اثیارواخلاص کے اسی ماحول میں اردو زبان نے اپنا سفرشروع کیا۔

شمس الرحمن فاروقی نے شیخ بہاء الدین باجن (1388۔ 1506)کو اردو کا پہلا باقاعدہ ادیب قرار دیا ہے۔ شیخ باجن نے خزائن رحمت اللہ کے نام سے اپنا فارسی اور ہندوی کلام کا مجموعہ مرتب کیا۔ اس میں صوفیا کی معروف ومقبول صنف سخن جکری بھی شامل تھی۔ شمس الرحمن فاروقی نے اس کتاب کے بارے میں لکھا ہے :

’’خزائن رحمت اللہ ‘‘میں شیخ نے ایک عرصۂ طویل کے لیے اردو زبان اور ادب کے حدود اربعہ بیان کردیے :اس کی زبان ہندوی ہے، اس کی بحریں ہندستانی بھی ہیں اور فارسی بھی۔ اس کے مضامین مذہبی/صوفیانہ بھی ہیں اور دنیاوی بھی اس شاعر کی جڑیں عوام میں گہری ہیں۔ اور ہردلعزیز بن جانے کی صفت اس میں پوری طرح موجود ہے۔ اس کے معاملات میں زہد، روحانی اور صوفیانہ پاکیزگی نمایاں ہے۔ وطن کی محبت بھی ایک نمایاں وصف ہے۔ (ارود کا ابتدائی زمانہ ص: 70۔ 69)

انسان دوستی اور وطن سے غیر معمولی محبت نے ہی صوفیا کے آستانوں کو مرجع خلائق بنا دیا تھا۔ ان کے یہاں خویش و بیگانے کا لفظ ہی نہیں تھا۔ عام انسانوں کی بھلائی اور رہنمائی کے جذبے کے تحت ہی صوفیا نے ان زبانوں /بولیوں کو اختیار کیا جس کا دائرہ وسیع تھا۔ اور جس میں اتنی قوت تھی کہ اس سے پیغام رسانی ممکن ہو سکے۔ مخلوط زبانوں کا معیار خصوصا مقامی بولیوں اپ بھرنش اور مخلوط زبان فارسی صوفیا کے یہاں زیادہ ملتی ہے۔ قاضی محمود دریائی ( 1419 تا 1534ء) سنت کبیر (وفات 1578) شیخ عبدالقدوس گنگوہی (1455۔ 1538) اور شیخ علی محمد جیوگام دھنی (وفات 1565) کی تخلیقات سے اندازہ ہوتا ہے کہ پندرہویں صدی کے آغاز تک گجرات میں فارسی زبان کے ساتھ ہندوی الفاظ کا بھی استعمال شروع ہوگیا تھا۔ قاضی محمود دریائی سے منسوب کرامتوں کے ذیل میں بعض تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ جس کی کشتی بھنور میں پھنس کر ڈوبنے والی ہوتی تو اس وقت اگر وہ قاضی صاحب کو یاد کرتا یا ان کا ورد کرنے لگتا تو کشی بھنور سے نکل جاتی اسی لیے ان کا لقب دریائی پڑگیا۔ مولوی عبدالحق نے ان کے بارے میں لکھا ہے :

ان کا(قاضی محمود دریائی) مشرب عشق و محبت تھا اور یہی وجہ ہے کہ ان کا سارا کلام اسی رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ زبان ہندی ہے جس میں کہیں کہیں گجراتی اور فارسی عربی کے لفظ بھی آجاتے ہیں۔ کلام کا طرز بھی ہندی ہے۔ چونکہ موسیقی کا خاص ذوق تھا اس لیے ہر نظم کی ابتدا میں راگ راگنی کا نام بھی لکھ دیا ہے۔ …

نینوں کا جل مکھ تنبو لاناک موتی گل ہار

سیں نماؤں نیہ پاؤں اپنے پیر کروں جوہار

(یعنی آنکھوں میں کاجل، منہ میں پان، ناک میں موتی، گلے میں ہار، اس سج دھج سے میں سرجھکاؤں، محبت کروں اور اپنے پیر کو آداب کروں )

(اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیا ئے کرام کا کام، مولوی عبدالحق، ص:58)

 شیخ خوب محمد چشتی کا شمار گجرات کے اکابر صوفیا میں ہوتا ہے۔ گجری کے سب سے بڑے شاعر کے طور پر بھی ان کا ذکرکیا جاتا ہے مگر عبدالقدوس گنگوہی اور سنت کبیر کو یہ اولیت حاصل ہے کہ ان سے پہلے کسی صوفی نے ہندوی /ہندی شمالی ہند میں استعمال نہیں کی۔ خوب محمد چشتی کی مشہور تصنیف ’’خوب ترنگ ‘‘ہے۔ مولوی عبدالحق نے اسے خالص تصوف کی کتاب قرار دیا ہے۔ البتہ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ :

شاہ علی محمد جیوکی کتاب ’’جواہر اسرار اللہ ‘‘اس سے مختلف ہے۔ اس میں عشق و محبت کا رنگ ہے اور قلبی واردات کا ذکر ہے۔ ’خوب ترنگ ‘اس کے مقابلے میں ایک خشک کتاب ہے جس میں صوفیانہ اصطلاحات میں تصوف کے مقامات کا بیان ہے۔

(اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیا ئے کرام کا کام، مولوی عبدالحق، ص:64)

 شمالی ہندکی یہی کھڑی بولی ترقی کرتے کرتے اردو زبان کی شکل اختیار کر گئی۔ ان لوگوں سے پہلے بھی گرچہ شمالی ہند میں دو صوفی شاعروں کا ذکر خصوصیت سے کیا جاتا ہے۔ ایک مسعود سعد سلمان (1121۔ 1046) اور دوسرے امیر خسرو (3125۔ 1253) لیکن جہاں تک ان شعرا کا کے ہندوی کلام کا تعلق ہے تو مسعود سعد سلمان کا ہندوی کلام ابھی تک دستیاب نہیں ہو سکا ہے۔ لیکن ان کے ہندوی کلام کا حوالہ فارسی کے پہلے تذکرہ نگار محمد عوفی اور خود امیر خسرو نے دیا ہے۔ اور امیر حسرو کے ہندوی کلام کے بارے میں اگرچہ ہم پورے وثوق سے تو نہیں کہہ سکتے کہ جو کلام زبانوں پر آج بھی جاری ہے وہ امیر خسرو کا ہی ہے۔ لیکن یہ کلام ان سے منسوب ضرور کیا جاتا ہے۔ صوفیا کرام کی زبان کے تئیں یہ ساری باتیں ابتدا سے لے کر اردو کی ترقی تک جاروی وساری رہیں۔ ذکر و اذکار کی مختلف صورتیں جو ان کے توسط سے عوام تک آئیں ان میں ہی زبان کے فروغ اور وسعت کا راز پوشیدہ تھا۔

سطور بالا میں جس صوفی صنف سخن جکری کا ذکر کیا گیا ہے۔ اسے ذکری بھی کہا جاتا ہے جسے عوامی بول چال نے جکری کردیا۔ اس کے بارے میں یہ کہاجاتا ہے کہ دراصل یہ محنت و مشقت کا ایک گیت تھا جسے عورتیں چکی پیستے وقت گاتی تھیں اس میں کام کے ساتھ ساتھ ذکر بھی ہوتا ہے۔ یہی ذکر ذکری اور پھر جکری ہوگیا۔ البتہ شمس الرحمن فاروقی نے شیخ بہاء الدین باجن کے ذکر میں اس صنف کے ذیل میں لکھا ہے :

اس مجموعے(خزائن رحمت اللہ )میں انھوں نے اپنی تصنیف کردہ ہندی /ہندوی جکریاں بھی شامل کیں۔ جکری اس زمانے میں شمال و جنوب کی معروف ومقبول صوفی صنف سخن تھی (اردو کا ابتدائی زمانہ  ص:69)

زبان کی تشکیل اور ترقی کے انھیں مراحل میں راہ سلوک اور فنا فی اللہ کے جذبے نے حقیت اور مجاز کے پہلو کو نمایاں کیا، جس کا بہت واضح رنگ اردو کی غزلیہ شاعری میں دیکھا جاسکتا ہے۔ شاعری میں حقیقت و مجاز کی یہ کار گزاری صوفیا کی رہین منت ہے۔ اٹھارہویں صدی تک آتے آتے صوفیانہ مضامین ہماری شاعری میں داخل ہونے لگے۔ بعد میں ان شعرا کی تعداد زیادہ ہوگئی جو تصوف کے حقیقی پہلو سے ناآشنا تھے مگر اس مستحکم روایت کا غیر شعوری طور پر حصہ بن گئے، جو ز بان کے تشکیلی مراحل سے گزر رہی تھی۔

اس میں شک نہیں کہ اردو شاعری کی ابتدا ان متصوفانہ خیالات سے ہوئی تھی، جہاں راہ سلوک کی مزلیں طے کرنے کے لیے عشق ضروری تھااور یہی مجازی عشق حقیقی عشق کا زینہ ثابت ہوا۔

یہاں تلاش میر سے میر تقی میرکا وہ اقتباس دہرالینا ضروری ہے جو میر کے والد نے انھیں نصیحت کے طور پر کہے تھے:

بیٹا عشق کرو، عشق ہی اس کارخانے میں متصرف ہے، اگر عشق نہ ہوتا تو نظم کل قائم نہیں رہ سکتا، بے عشق زندگی وبال ہے۔

عشق میں جی کی بازی لگادینا کمال ہے، عشق بناتا ہے عشق ہی کندن کردیتا ہے، دنیا میں جو کچھ ہے عشق کا ظہور ہے۔ آگ عشق کی سوزش ہے، پانی عشق کی رفتار ہے، خاک عشق کا قرار ہے، ہوا اس کا اضطرار ہے، موت عشق کی مستی ہے، زندگی عشق کی ہوشیاری ہے، رات عشق کا خواب ہے اور دن عشق کی بیداری ہے۔ مسلمان عشق کا جمال ہے، کافر عشق کا جلال ہے، نیکی عشق کا قرب ہے، گناہ عشق کی دوری ہے، جنت عشق کا شوق ہے، دوزخ عشق کاذوق ہے، عشق کا مقام عبودیت و عارفیت و زاہدیت و صدیقیت و خلوصیت و شفافیت و خلیت و حبیبیت سے بہت بلند ہے۔ (تلاش میرمترجم پروفیسر نثار احمد فاروقی ص 55)

 ایرانی روایت میں عاشق مرد ہے جبکہ صوفیا کے یہاں مقامی بولی میں عشق کی جوخود سپردگی ہے وہ خالص ہندی روایت ہے۔ کیونکہ ہندی روایت میں پریتم کی اصطلاح کے تحت عشق کا اظہار عورت کرتی ہے۔

ولی ؔنے عشق حقیقی سے عشق مجازی کا جو راستہ دکھایا دراصل اسی تصوف کے زیر اثر تھا، جس کی نہایت روشن مثالیں فارسی شعرا کے یہاں ملتی ہیں۔ دراصل یہ تزکیۂ قلب کا ایک ذریعہ ہے۔ واضح مذہبی تعلیمات کے علی الرغم انسان نے دنیا کی جن نفسانی خواہشات کو اپنایا اور انھیں اپنا رہنما بنایا ان کی شدت اور جذبے کو ختم کرنے کے لیے صوفیاء کرام نے نفس کشی کی تعلیم کو عام کیا۔ جس میں انسانی خواہشات کے مقابلے توکل اور قناعت کو مرکزیت حاصل تھی۔ شعراء نے صوفیا کے انھیں نظریات کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ معاشرے میں انھیں موضوعات کو مقبولیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ان موضوعات کومعاشرے میں جو مذہبی اعتبار حاصل تھا، ولی نے اسے اپنی شاعری کی مقبولیت کا ذریعہ بنایا۔ و لی نے کہا کہ:

عشق میں لازم ہے اول ذات کو فانی کرے

ہو  فنا  فی  اللہ  دائم  یا  د یزدانی  کرے

ولی  کوں نہیں مال  کی آرزو

خدادوست نئیں دیکھتے زر طرف

جسے  عشق  کا  تیر کاری  لگے

اسے زندگی کیوں نہ بھاری لگے

نفس سرکش پر جو کئی پایا ہے یاں فتح و ظفر

دارعقبی  کے  بھتر الحق  وہی منصور ہے

پہلے شعر میں فنا فی اللہ کی تعلیم دی گئی ہے، جب کہ دوسرا شعر توکل اور قناعت پر مبنی ہے۔ تیسرے شعر میں عشق کے تیر کاری کے بعد زندگی کا بھاری لگنا گویا عاشق محبوب کے وصال کا تمنائی ہے۔ اور اسی لیے یہ دنیا بھاری لگ رہی ہے۔ آخری شعر میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ نفس پر قابو پانا ہی اصل فتح مندی اور کامیابی ہے۔

ہماری شاعری میں میر کے یہاں خود سپردگی کی روایت اسی ہندی روایت کا حصہ ہے، جبکہ غالب کی انانیت کا سلسلہ ایرانی روایت سے استوار ہوتا ہے۔

بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں

حالت اب اضطراب کی سی ہے

بندگی میں بھی وہ آزاد ہ خود بیں ہیں کہ ہم

الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا

خواجہ میر درد  (1720– 1785) کو صوفی شاعر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے اردو شعر وادب کی تاریخ میں درد کی قدر و منزلت اور معیار و مرتبہ صوفیانہ شاعر کی حیثیت سے ہی متعین کیاجاتا ہے۔ درد بذات خود نقشبندیہ سلسلے سے تھے، دلی کے پر آشوب دور میں جبکہ تمام شعرا دلی سے لکھنؤ یا بعض دوسرے مقامات کو ہجر ت کررہے تھے مگردرد نے دلی کی چوکھٹ نہیں چھوڑی بلکہ حالات کی حد درجہ خرابی کے باووجود وہ یہیں رہے۔

ْخواجہ میردرد کے کلام میں جہاں ایک طرف ایقان وعقیدہ اور توکل و قناعت ہے تو دوسری طرف یاس وتشکیک کے پہلو بھی نمایاں ہیں قابل غور نکتہ یہی ہے کہ صوفی تو اپنی ہستی کو ایک ایسی ہستی/ذات میں ضم کرنے کا خواہاں ہو تا ہے جو اس سے بلند تر ہی نہیں بلکہ عظیم تر ہوتی ہے او ر ایسے مواقع پر جذبہ کی کارفرمائی زیادہ ہوتی ہے۔ اس طرح کی شاعری میں نا امیدی اور خوف نہیں ہوتا ہے، جب کہ درد کے یہاں دونوں طرح کے اشعار پائے جاتے ہیں اسی لیے شمس الرحمن فاروقی نے درد کو ایک شاعر صوفی قراد یا ہے نہ کہ صوفی شاعر۔ فاروقی نے درد کے کلام کی بنیادی خصوصیت تفکر کا تصوروتفعل قرار دیا ہے۔

جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا

تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

ارض وسماکہاں تری وسعت کو پاسکے

میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما ں سکے

آتش عشق قہر آفت ہے

ایک بجلی سی آن پڑتی ہے

اذیت مصیبت ملامت بلائیں

ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا

اردو کے بیشتر کلاسیکی شعرانے صوفیانہ مضامین باندھے ہیں۔ اٹھارہویں صدی میں تو یہ بات زبان زد خاص و عام تھی کہ ’’تصوف برائے شعر گفتن خوب است ‘‘۔ اردو شاعری کے سربرآوردہ شعرا میں میروغالب کا شمار ہوتا ہے ان کے یہاں بھی صوفیانہ مضامین کی کمی نہیں اور اس میں انھوں نے اعلی سے اعلی مضامین باندھے ہیں۔

اردو زبان و ادب کی انتہائی ترقی کے باوجود اردو کے یہ ابتدائی نقوش آج بھی نہایت اہم ہیں۔ ان کے مطالعہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری تاریخ کے وہ ابواب جہاں جہاں مذہبی رجحانات کی کارفرمائی رہی ہے ہمارے ادبی مورخوں نے دیدہ و دانستہ اسے نظر انداز کردیا ہے۔ اس تناظر میں قرآن مجید کے اردو تراجم کی ابتدائی کوششوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خانوادہ وللہی کے بزرگوں نے اس خدمت سے نہ صرف قرآن پاک کے معنی و مفاہیم لوگوں تک پہنچائے بلکہ اس سے اردو زبان کو تقدس کا درجہ بھی حاصل ہوگیا۔

اس حقیقت کے اعتراف میں کیا تردد ہے اردو کے فروغ اور اس کی ابتدائی نشو ونما میں صوفیا اور صوفیانہ افکار کا غیر معمولی کردار ہے۔ اس زبان میں شیرینی اور حلاوت ہے وہ انھی بزرگوں کا فیضان ہے اور اس بات کا ثبوت بھی کہ جہاں بانی اور کشور صرف شہنشاہوں کا کام نہیں۔ تلواروں کی جھنکار حکومتوں کو زیر نگیں کرسکتی ہے مگر دلوں پر حکمرانی کا اصول ہی کچھ اور ہے۔ زندگی کے مختلف میدانوں میں صوفیااسی اصول پر کار بند رہے۔ وہ خواہ علم و فن اور ادب کا میدان رہا ہو یا سلوک و معرفت کا۔ انھوں نے عشق کی وارفتگی اور جنوں کے پیرہن کے ساتھ دنیائے علم وادب پر جو اثرات مرتب کیے اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ صوفیا کے حکیمانہ جمال و جمال کے سامنے بادشاہوں کا جاہ وجلال بھی نہیں ٹھہر سکا۔ انجذاب و انقیاد اور اخلاص و ایثار کا جو خمار ان بزرگوں کے عمل میں نظر آتا ہے اس کی جھلک ان کی تحریروں میں بھی ملتی ہے۔

کتابیات :

اردو کا ابتدائی زمانہ  ادبی تہذیب و تاریخ کے پہلو، شمس الرحمن فاروقی، آج کی کتابیں، کراچی 1999

اردو کی ابتدائی نشوو نما میں صوفیائے کرام کا کام، مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو (ہند)نئی دہلی۔ 2011

تلاش میر نثار احمد فاروقی (مترجم )مکتبہ جامعہ لمٹیڈ دہلی 1974

تبصرے بند ہیں۔