ترے نقش ِ پا کی تلاش میں یہ بجا ہے آبلہ پا ہوئے

ادریس آزاد

ترے نقش ِ پا کی تلاش میں یہ بجا ہے آبلہ پا ہوئے
ترے جبر سے تو نکل گئے تری قید سے تو رہا ہوئے

جو مرے عصا کو نگل گیا مرے ساحرا ! ترا زہر تھا
مرے اعتقاد کے ضعف سے،ترے سانپ سارے عصا ہوئے

ترے شاہکار بشر رہے، تُو خدا ہوا بھی تو کیا ہوا؟
میں تو ایک سنگ تراش تھا مرےسنگریزے خدا ہوئے

وہ ہمارے ہجر کے فیصلے ، جو ورائے عقل و شعور تھے
مجھے اب بھی اس پہ یقین ہے جو غلط ہوئے تھے بجا ہوئے

خسفِ وجودِ شکستہ دل جو ہوا تھاکشورِ جان میں
جو کھنڈر کھڑا تھا بکھر گیا جو ورق پڑے تھے ہوا ہوئے

یہ کہاں کی رسم ہے دوستا! نہ کرم رہے نہ بھرم رہے
یہ بجا کہ ہم سے خطا ہوئی، ترے رنگ و بو پہ فدا ہوئے

تبصرے بند ہیں۔