علامہ عبدالرشید داؤدی

فانیؔ ایاز گولوی

تقریباَ ہر ایک انسان اس شخصیت کے بارے میں جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علامہ و مولانا عبدالرشید دواوئودی صاحب کو علم کے نور سے منور کیا ہے اور ان کے خطاب صرف جموں وکشمیرتک ہی محدود نہیں بلکہ پورے عالم میں مشہور و معروف ہیں۔ اس شخصیت کو کون نہیں جانتا ہے جس کو دیکھ کر خدا یاد آتا ہے اور ایسی سحربیانی جو ہر ایک کے قلب میں گھر کر جاتی ہے ان کے بیانات ایسے موثر ہیں کہ ایک بار اگر کوئی سنتا ہے تو ضرور عمل کرنے کی چاہ قلب میں پیدا ہو تی ہے اورہرایک انسان کو برائی کی جانب روک کر اچھے راستے کی جانب گامزن کرنا بس یہ ہی مشن ہے امیر اعلیٰ تحریک صوت الاولیاء کا۔ یہ ان کی محنتوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج پورے جموں کشمیر اور بیروں ممالک میں بھی ان کی شریں بیانی کو لوگ ترستے ہیں اور وقتاَ فوقتاَ بلا کر لوگ اپنے قلب کو علم کی نور سے منور کرتے ہیں۔ اگر ان کی حیات کا ذکر کیا جائے تو شائد تھوڑے سے وقت میں انہوں نے دین اسلام کا بہت بڑاکام سر انجام دیا ہے اور شب وروز تبلیغ میں مصروف رہتے ہیں۔

داؤود ی صاحب1979؁ء میں گائوں بدرو یاری پورہ کولگام میں پیدا ہوئے۔ اور ان کے والد کا نام الشیخ عبدالرحمن تھا۔ اور 1994؁ء میں مشہور ومعروف دینی ادرہ، ادارہء تحقیقات اسلامی میں انہوں نے داخلہ لیا جس کے سربرہ مفکر اسلام جناب ڈاکٹر قاضی نثارتھے تقریباََ پانچ سال کی مدت تک بڑی محنت و مشقت کر کے دوران تعلیم ہی انہوں نے اول نمبر پرکشمیر یونیورسٹی سے عالم و فاضل کی ڈگری حاصل کی۔ قابلیت او رمحنت کو دیکھ کر اسی مدرسے میں ان کو پڑھانے کا حسین موقعہ میسر ہوا۔ تدریسی میدان میں قدم رکھتے ہی وادی کشمیر کے ارد گرد سے اسلامی کانفرسوں میں دعوت کا سلسلہ برق رفتاری اختیار کر چکا۔ اس دوران افسوس کی بات یہ ہوئی کہ مفکر اسلام ڈاکٹر قاضی نثار اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے جو عوام اہلسنت کے لئے مشعل ِ راہ تھے لیکن آہستہ آہستہ دینی خدمت کرنے والے ڈاکٹرکے جانے کے ساتھ ساتھ عقائد اہلسنت کی کشتی دوبنے لگی۔ اچانک قاضی صاحب کی موت کے المناک حادثے نے عوالم اہلسنت کو اپنی منزل سے کوسوں دور کیا جس کے بعد عوام اہلسنت کی نگاہیں ایسے قائد کی تلاش میں تھی جو اہلسنت کے عقائدکا تحفظ کرتا۔ جس کے بعد عوام اہلسنت کی نگاہیں ایسے قائدکی تلاش و جستجو میں لگی ہوئی تھی جو اہلسنت کے عقائد و معمولات کی نشر و اشاعت کر کے اس کارواں کو کسی منزل کی جانب راغب کرتا۔

ایسے خطرناک حالات میں دائودی صاحب نے عوام اہلسنت کی امیدوں پر کھرا اترنے کی کوشیش کی اور وقت کی نزاکت کو مدنظر رکھ کرتدریسی میدان کو بصورت مجبوری سمجھ کر خیر آباد کہا۔ اور اپنے آپ کو دین کی تبلیغ کے لئے خاص کر دیا۔ یہ تبلیغی دور تقریباََ 2000؁ء سے شروع ہوا۔ آہستہ آہستہ پورے جموں و کشمیر میں جن میں کولگام، بارہ مولہ، شوپیاں ، گاندر بل، سرینگر، ڈوڈہ، کشتواڑ، راجوری، پونچھ، جموں، ریاسی، مہور، ادھم پور، گول، رام بن وغیرہ کے علاقوں میں پھر سے اس چراغ کو روشن کرنے میں کامیاب ہونے لگے اور آ ج ان کے خطاب صرف جموں کشمیر کی سر زمین پر ہی نہیں بلکہ بیروں ریاستوں اور بیررون ممالک میں بھی مشہور ہیں ۔ نومبر 2005؁ء میں ٹہب ضلع پلوامہ میں مولانا داوئودی صاحب پر نامعلوم شخض نے ہملہ کیا جس میں ان کے ساتھ سات آدمی شہید ہوئے اورخود داوئودی صاحب بھی زخمی ہوئے اور ایک سال تک گھر میں زیر ِعلا ج رہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے دین کی خدمت کے لئے چنا تھا اور اس کے بعد انہوں نے پھر سے اپنا مشن شروع کیا۔

2005؁ء میں جب کہری بل مٹن میں دو روزہ کانفرس کا انعقا د ہوا تو ایک 25سالہ نوجوان نے اپنی تحریک کا اعلان کیا تولاکھوں فرزندان توحید اور عاشق رسول ﷺجھوم اُٹھے چارسو تحریک صوت الاولیاء کی صدائیں بلند ہوئیں اور اس تحریک کی بنیادباغ نوگام اشاجی پورہ اسلام آباد میں ڈالی گئی جو آ ج تحریک صوت الاولیاء جموں و کشمیر کے نا م سے مشہور ہے اور آج تقریباََ اس تحریک سے منسلک  25000یوٹس ہیں جو ان کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں ان میں ایک یونٹ مدینہ منورہ میں بھی ہے جو اس مشن آگے چلانے میں ساتھ دے رہی ہے۔ اور ہزاروں کی تعداد میں جموں و کشمیر میں درسگاہ چل رہے ہیں اور تحریک صوت الاولیاء کے ادارے میں تقریباََ 300 سے زائد طالب علم پڑ ھ رہے ہیں اور ہر سال 7,8فاضل اور 10کے قریب حافظ فارغ ہوتے ہیں ۔ جہاں پر اچھے عالم دین اور ادارے میں کمپیوٹر کے علاوہ لائبریری بھی رکھی گئی ہے۔ جو طلبا کے لئے آرام و آسائش کا ذریعہ ہے۔

 2007؁ء میں انہوں نے مصر کی یونیورسٹی الثقافتہ سنہ سے تصوف کی ڈگری حاصل کی۔ اور واعظ و تبلیغ میں کام کرتے رہے اور بعد میں داوئودی صاحب کو بیرون ریاستوں سے بھی دعوت نامے آنا شروع ہو گئے  ان میں پنچاب، ہریانہ، یوپی، حیدرآباد، مراد آباد، راجستھان وغیرہ وغیر ہ ریاستیں شامل ہیں اوراللہ تعالیٰ کے کرم سے اور نبیﷺ کی عنایت سے داوئودی صاحب کو آہستہ آہستہ بیرون ممالک میں بھی دعوت نامے آنا شروع ہو گئے۔ جن میں ایران، یمن اورعرب  قابل ذکر ہیں اسطرح  سے ان کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا گیا۔ اور سال 2017؁ء کے مارچ میں اللہ تعالیٰ نے داوئودی صاحب کو ایک عظیم نعمت سے نوازا جب ان کو گجرات جانے کا موقعہ ملا تو وہا ں ان کی ایک نیک بزرگ کے ساتھ ملاقات ہوئی جن کے ابا و اجداد بغداد سے آکر گجرات کی سر زمین پر سکونت پزیر ہوئے تھے۔

 انہوں نے داوئودی صاحب کو تحفے میں موئے مقدس حضور ﷺ اور موئے پاک غوث اعظم کے علاوہ بہت سارے تبرکات سے سر فراز ہوئے اور جب انہوں نے کشمیر کی سرزمیں پرقدم رکھا تو لاکھوں فرزندان توحید اور عاشقان رسول ﷺنے ان کا استقبال کیا جہاں پور ی وادی میں خوشی کے لہر دوڑی او ر ان تبرکات سے فیضیاب ہوئے یہ ان کی محنتوں کا نتیجہ ہے جو اللہ نے ان کو نوازا ہے اور سال 2017؁ء میں ہی داوئودی صاحب کواللہ تعالیٰ نے حج بیت للہ کی زیارت نصیب فرمائی اور مکہ مدینہ کی سر زمین پر دنیا کی عظیم ہستیوں سے ملا قات ہوئی۔ ان میں الشیخ عمر بن حفیظہ یمنی، ڈاکٹر آصف اشرف جلالی چیرمین لبیک یا رسول اللہ پاکستان، الشیخ عمر بن عزیز مکہ مکرمہ، نوردین مکہ مکرمہ، بغداد شریف غوث اعظم کے سجادہ نشیں سید خالد جیلانی البغدادی، سید مظفر حسین شاہ پاکستان، الحاج خواہ صوفی محمد انور مدنی مدینہ، مصطفائی پاکستان، سد ممتاز قادری کے بھائی بھی شامل ہیں۔

 اللہ تعالیٰ جب اپنے بندے سے محبت کرتا ہے تو وہ فرشتوں سے کہتا ہے کے اے فرشتو ں میں فلاں شخض سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو اور روئے زمین کے تمام انسانوں میں بھی اس کی محبت ڈال دو۔ یہ سب اللہ کا کر م ہے جو ہر وقت میں کسی نہ کسی کو اپنے دین کے خاطر چن لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے داوئودی صاحب کو بہت کچھ نواز ا ہے پورے جموں و کشمیر میں علامہ داوئودی صاحب کو ایواڈس سے نوازا جاتا ہے اسی طرح سے  18نومبر 2017؁ء میں ان کوامام احمد رضا مومنٹ بنگلور نے سالانہ کانفرس میں بحثیت مہمانِ خصوصی کے طور پر شامل کیا اور انہوں نے  تواریخی تقریر کرنے پر امام احمد رضا ایواڈ سے نوازا  جو عوام اہلسنت کے لئے باغث فخر ہے۔

بہت ہی محنت اور لگن کے ساتھ داوئودی صاحب دینی کام میں مصروف ہیں ابھی انہوں نے  اپنے ادارے کے ساتھ مسجد بنا ئی ہے جس کی لمبائی 100فٹ اور چوڑائی 80فٹ ہے اور ابھی تیسری منزل کا کام زیر تعمیر ہے موئے مقدس کے لئے تیسری منزل پر نور خانہ تیار کیا جا رہا ہے امیر اعلیٰ تحریک صوت لاولیاء کو اللہ تعالیٰ مزید دینی کام کرنے کی توفیق عطافرمائے آمین۔ اور مجھ جیسے ناچیز کو ایک عالم دین کی حیات پر لکھنے کا موقعہ ملا۔ اللہ تعالیٰ مجھے ایسے باعمل پرہیزگار اور عاشق رسولﷺ کی صحبت میں ہر گھڑ ی رکھے آمین۔

تبصرے بند ہیں۔