تشنگی بے کراں ہے پانی دور
افتخار راغبؔ
تشنگی بے کراں ہے پانی دور
جانے کب ہو یہ بے کرانی دور
…
رہ گیا جسم پاس ہی اپنے
لے گئی دل کو خوش گمانی دور
…
جانتا ہوں کہ کس طرح ہوگی
رات سے ہو کے رات رانی دور
…
دور ہونا ترا قیامت تھا
لفظ سے ہو گئے معانی دور
…
دل سے دل آپ ہی لگیں ملنے
ہو جو اخلاص کی گرانی دور
…
تشنہ کامی تھی میرے دل کے پاس
ابرِ باراں کی مہربانی دور
…
بات ہمت کی ہے زباں کی نہیں
ہو نہ پائے گی بے زبانی دور
…
اب بھی آ جائیے کہ ہو جائے
عمرِ الفت کی رائگانی دور
…
ضد کا موسم تھا مستقل راغبؔ
ہوتی کس طرح بد گمانی دور
تبصرے بند ہیں۔