تشنگی بے کراں ہے پانی دور

افتخار راغبؔ

تشنگی بے کراں ہے پانی دور

جانے کب ہو یہ بے کرانی دور

رہ گیا جسم پاس ہی اپنے

لے گئی دل کو خوش گمانی دور

جانتا ہوں کہ کس طرح ہوگی

رات سے ہو کے رات رانی دور

دور ہونا ترا قیامت تھا

لفظ سے ہو گئے معانی دور

دل سے دل آپ ہی لگیں ملنے

ہو جو اخلاص کی گرانی دور

 تشنہ کامی تھی میرے دل کے پاس

ابرِ باراں کی مہربانی دور

بات ہمت کی ہے زباں کی نہیں

ہو نہ پائے گی بے زبانی دور

 اب بھی آ جائیے کہ ہو جائے

عمرِ الفت کی رائگانی دور

 ضد کا موسم تھا مستقل راغبؔ

ہوتی کس طرح بد گمانی دور

تبصرے بند ہیں۔