تصوف اور بھکتی کی اہم اصطلاحات 

مولف: شممیم طارق 

 تعارف و تبصرہ: وصیل خان

نام کتاب: تصوف اور بھگتی کی اہم اصطلاحات

قیمت:  185، صفحات :  412

ناشر:  قومی کونسل  برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی  ۱۱۰۰۲۵

ملنے کا پتہ :  قومی کونسل برائے فروغ اردو، ویسٹ بلاک۔ ۸۔ آر کے پورم نئی دہلی ۱۱۰۰۶۶

 فون نمبر : 26109746  ای میل  urducouncil@gmail.com

تمام مخلوقات میں حضرت انسان کو جو درجہ امتیاز حاصل ہے وہ اس کی ان دو اضافی اورخصوصی صفات کے سبب ہے جو کسی دیگر مخلوق کو ودیعت نہیں کی گئی ہے۔ پہلی صفت نطق، یعنی بولنے کی صلاحیت،اپنے مافی الضمیر کو زبان سے اس طرح ادا کرنا کہ مخاطب اسے بہ آسانی سمجھ لے، منطق کی اصطلاح میں اسے حیوان ناطق اسی لئے کہا گیا ہے۔ دوسری صفت شعور و ادراک ہے یعنی اشیا کی ماہیت و کیفیت کی تفہیم، دوسرے معنوں میں ماضی، حال اور مستقبل کا ادراک، کامل منصوبہ بندی کے ساتھ تسخیر کائنات تک دسترس اور اچھے برے عوامل کی شناخت۔ خدا کی عطا کردہ ان ہی صفات نے اسے اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کردیا ہے۔ یہ دونوں صفات علم سے مختص ہیں اور یہ علم ہی کے سبب ممکن ہے کہ انسان ان صفات کو صیقل کرکے درجہ ٔ تکمیل پر پہنچاسکے۔

بنیادی طور پر علم کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی علوم ظاہری اور علوم باطنی۔ ظاہری علم کا تعلق انسان کی خارجی زندگی سے ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی زندگی کی تشکیل و تعمیر کرتا ہے۔ مختلف فنون مثلاً ریاضی، سائنس، فلسفہ و تاریخ جیسے علوم کے ذریعے نہ صرف اپنی ایک منفرد شناخت قائم کرتا ہے بلکہ سطح زمین پر پھیلے انسانوں سے ربط وضبط پیدا کرکے نئے مکاشفات کی ایک طول وبسیط دنیا آباد کرلیتا ہے اور یہ سلسلہ درازہوتے ہوتے کائنات کی تسخیر تک پہنچ جاتا ہے۔ لیکن چونکہ اس سفر میں مادیت اس کے ہمرکاب ہوتی ہے جس کے بطن فاسد سے ان عوامل کی بھی تخلیق ہوتی ہے جو انسانی حیات کیلئے ازحد ضرررساں ہوتے ہیں۔ ان عوامل کو ہم خودغرضی، ہوس پرستی، بغض و عناد، حصول تعیش اور بدعنوانی جیسے محرکات شر کا نام دے سکتے ہیں جو انسان کو اس کے اصل مقاصد سے دورکرکے ایک ایسی ڈگر پر ڈال دیتے ہیں جہاں فتنہ و فساد کی حکمرانی ہوتی ہےمگر المناک صورتحال یہی ہے کہ ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے آج سبھی ان فتنہ انگیزیوں کے اسیر نظر آتے ہیں۔

علم کی دوسری نوع ہے باطنی علوم جس کا تعلق انسانی کی داخلی دنیا سے ہوتا ہے اس کے ذریعے وہ اپنے اندر کی دنیا کو مصفیٰ و مجلیٰ کرتا ہے اور جب اس کا اندرون روشن ہوجاتا ہے تو باطنی نور اس کی خارجی دنیا کو بھی منورکردیتا ہے اور اس درجہ ٔ کمال پر پہنچ جانے کے بعد اس کا وجود معاشرے کیلئے نعمت غیرمترقبہ بن جاتا ہے۔ تصوف اور سلوک اسی اسرار باطنی کی تفہیم کا نام ہے جس پر چل کر انسان ان تمام خودغرضانہ روشوں سے خود کو آزاد کرلیتا ہے اور اپنے وجود سے ایسی دنیا آباد کرلیتا ہے جہاں عشق و سرمستی کی حکمرانی ہوتی ہے جس میں محرکات شر کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی اور اس کے اثرات آس پاس کے معاشرے کو امن و آشتی سے معمور کردیتے ہیں اور یہ حقیقت از خود واضح ہوجاتی ہے کہ انسانی تہذیب و معاشرے کی یہی اولین پناہ گاہ بھی ہے اور مقصد حیات بھی۔

شمیم طارق علم وادب کے سمندر کے ایک ایسے ہی شناور ہیں جو بیک وقت مختلف النوع شعبہ علوم پر نہ صرف گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ اس بحر بیکراں کی گہرائیوں میں اتر کر ایسے ڈلکتے موتی نکال لاتے ہیں جس کی چمک آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہے۔ وہ ایک اچھےادیب و شاعرہی نہیں ایک قابل اعتماد ناقد اور محقق بھی ہیں جن کی تحقیق علم و معانی کے نئے نئے زاویوں کی سیر کراتی ہے۔ شمیم طارق نے اگر ایک طرف اردو زبان وادب کے حوالے سے اپنی منفرد شناخت قائم کی ہے تو وہیں تصوف پربھی ان کی گراں قدر  تصنیفی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے ان کا شمار تصوف کے رازدانوں میں ہوتا ہے۔ ان دونوں موضوعات پرمستند اوراہم تحقیقی کتابیںتصنیف کرکے بیک وقت ادب اور تصوف دونوں کو ہی انہوں نے مالامال کیا ہے۔

’تصوف اور بھکتی کی اہم اصطلاحات ‘ موصوف کی تازہ ترین تالیف ہے۔ جس میں تصوف اور بھکتی کی ان اہم ترین اصطلاحات پر تحقیقی و توضحیحی کام کیا گیا ہے۔ جسے سمجھےبغیر راہ سلوک کی منزلیں طے  نہیں کی جاسکتیں جس طرح شاعری اور دیگر علوم وفنون کیلئے کچھ مخصوص اصطلاحیں وضع کرلی جاتی ہیں اسی طرح تصوف میں بھی اصطلاحوں کا ایک وافر ذخیرہ موجود ہے جس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا بلکہ یوں کہئےتو زیادہ مناسب ہوگا کہ سالک ان اصطلاحوں کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چل سکتا۔ صوفیاکے یہاں لفظ محبت پر بہت زور دیا جاتا ہے اور واقعتاً بھی یہ محبت بے حد عجیب و غریب شئے ہوتی ہےاس کے اثرات اتنے دوررس اور نتیجہ خیز ہوتے ہیں کہ کوئی دوسری چیز اس کی ہمسری نہیں کرسکتی۔ یہی سبب ہے کہ علامہ اقبال اور دیگر حکماء نے اسے فاتح عالم قرار دیا ہے۔

تصوف انسانی زندگی کیلئے ایسا آب حیا ت ہے جو ایک پرامن معاشرے کی مکمل ضمانت ہے۔ مادیت پرستی کے اس دور میں اس کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔ لیکن  المیہ یہ بھی ہے کہ حصول تعیش کی اس علت نے اب خانقاہوںمیں بھی دستک دینی شروع کردی ہے اور بڑے بڑے شیوخ بھی اس کی زلف گرہ گیر کا شکار ہورہے ہیں جس پر قدغن ضروری ہے۔ مولف موصوف نےان اصطلاحات کو جو جا بجا شذرات کی صورت میں بکھری ہوئی تھیں انہیں یکجا کرکے ایک اہم، بنیادی اور دستاویزی کام انجام دیا ہےجس کی اہل علم خصوصاً اہل سلوک کو ستائش کرنی چاہیئے۔ کتاب کے ابتدائی صفحات سے یہ اقتباس ہم یہاں نقل کررہے ہیں جس سے ان اصطلاحات کی ضرورت اور افادیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

’’عصر حاضر میںتصوف اور بھگتی کےکلیدی الفاظ یا اہم اصطلاحات کی تفہیم و تشریح کی ضرورت زیادہ محسوس کی جارہی ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ دوسرے علوم و فنون کی طرح تصوف اور بھکتی کو بھی ان کی اہم اصطلاحات کے حقیقی معانی ومفاہیم سے واقفیت حاصل کئے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا اور دوسرے یہ کہ صوفیوں اور سنتوں نے تو لفظوں کو معنوی توسیع سے ہمکنار کیا ہی ہے، ان کے مشاہدات و مکاشفات یا واردات پر مبنی تخلیقات کی تشریح کرنے والوں نے بھی ایک ہی اصطلاح کے کئی کئی بلکہ متضاد مفاہیم متعین کئے ہیں جن سے ان کی معنوی کائنات میں وسعت بھی پیدا ہوتی گئی ہے اور ابہام بھی۔ یہ مفاہیم بھی بکھرے ہوئے ہیں، یکجا نہیں ہیں۔ کسی کتاب یا کتاب کے کسی باب میں ان اصطلاحات کو جمع کرنے  اور ان کی تشریح کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے تو اس میں کسی ایک ہی مفہوم کو بیان کیا گیا ہے اور وہ بھی صرف تصوف کی اہم اصطلاحات کا، اس میں بھکتی کی اہم اصطلاحات کی تشریح نہیں کی گئی ہے۔ اس پس منظر میں تصوف او ر بھکتی کی اہم اصطلاحات کی توجیہ و تشریح پر مشتمل فرہنگ کی تیاری و اشاعت کی اہمیت خود بخود اجاگر ہوجاتی ہے۔ ‘‘

کچھ اصطلاحات یہاں نقل کی جارہی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ تصوف باقاعدہ ایک ایسا تدریسی سلسلہ ہے جس پر عمل پیرا ہوکر سالک ایک جہان دیگر آباد کرلیتا ہے جہاں امن و سکون اور انسانی اقدار کی اعلیٰ ترین صفات ابھر تی ہیں جوپوری دنیا کو سیراب کردیتی ہیں۔ باد صبا: ان نفحات کو کہتے ہیں جو شرق روحانیت مرشد سے فضائے قلب سالک پر آتے ہیں اور اس کو مست و بیخود کرتے ہیں۔ بادہ: مستی حقیقی اور اس جذبہ ٔ محبت و عشق الہٰی کو کہتے ہیں جو عالم غیب سے سالک کے قلب پر وارد ہوتا ہے اور اس کو مست کرتا ہے۔ بادہ فروش: پیر کامل کو کہتے ہیں۔ باد یمانی : نفس روحانی کوکہتے ہیں۔ بتخانہ و بتکدہ: عارف کامل کے باطن کو کہتے ہیں جس سے برابر وہ افاضہ ٔ فیض کیا کرتا ہے اور شیون تنزیہی اور مظاہر تشبیہی کا مظہر ہے۔ اسی طرح پوری کتاب نہ صرف اصطلاحات بلکہ اس کی شاندار تشریحات سے لبریز ہے۔ سالکین کیلئے یہ کتاب بے حد مفید و معاون ثابت ہوگی۔ اہل علم خصوصاًمتصوفین کی جانب سے ہم شمیم طارق صاحب کی اس کاوش کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    تصوف کی ایک بہت مشہور و معروف اصطلاح ’فنا فی اللہ‘ ہے۔ اس کی تشریح انتہائی پیچیدہ اور پرخطر ہے۔ ’فنا فی اللہ‘ کی وضاحت کے لیے مختلف نظریے وجود میں آئے، جن میں ’وحدت الوجود‘ اور ’وحدت الشہود‘ سرِ فہرست ہیں۔

    اگر فنا فی اللہ کو سادہ طریقے سے بیان کیا جائے تو یہ ذاتِ حق (اللہ تعالیٰ) کے مشاہدے میں خود کو فنا کردینے کا عمل ہے یہاں تک کہ اپنی ’خودی‘ (ذات یا نفس) فنا ہوجائے اور ہمیشہ باقی رہنے والی صرف اور صرف خدا کی ذات ہی باقی رہ جائے۔

    قرآن کریم کو اگر بدقت نظر دیکھا جائے تو وہ اس ’فنا فی اللہ‘ کے تصور سے خالی نظر آتا ہے، البتہ وہ ’فنا للہ‘ کی تعلیم دیتا ہے۔ جس کا مطلب ہے خدا کے لیے اپنی خواہشات، جذبات، شہوات، رجحانات، تعصبات اور مفادات سب کچھ قربان کردینا۔

    قرآن کے مطابق اسلام کے لفظی معنی اطاعت اور سپردگی کے ہیں۔ جب کہ عبادت کا مفہوم خدا کے سامنے انتہائی عاجزی، تذلل اور پستی اختیار کرنا ہے۔ اور ان دونوں مفاہیم کا خلاصہ ہے ’فنا للہ‘۔

    فنا للہ، فنا فی اللہ کے برعکس کوئی مافوق الفطرت فلسفہ نہیں بلکہ عقل و فطرت پر مبنی ایک انتہائی سادہ اور مربوط نظریہ ہے۔ انسان جب زبان سے خدا کی توحید کا اقرار کرلیتا اور خود کو اس کے سپرد کردیتا ہے تو اگلے ہی لمحے اس کے مشاہدات اور تجربات اسے بتادیتے ہیں کہ اس کا معاملہ ایک انتہائی طاقتور ہستی کے ساتھ ہے۔ لہٰذا وہ اپنے اندر سے سرکشی کی خواہش کو فنا کردیتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ خدا ہی تمام خزانوں کا مالک ہے تو وہ اپنا مال خدا کے قدموں میں ڈال دیتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ وہی خداوند تنہا کارخانۂ قدرت چلارہا ہے تو وہ بے اختیار سجدے میں گر کر اپنے فخر و تکبر کا استیصال کردیتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ خدا اس کے گناہوں پر سزا دینے کی پوری پوری قدرت رکھتا ہے تو وہ اپنیاندر سے گناہوں کی خواہش کو کچل ڈالتا ہے۔ وہ اپنی آنکھوں کی خواہش کو خدا کی ہدایت کے تابع کرتا ہے، اپنے کانوں کی سماعت کو اس کے احکام کے تحت لاتا ہے، اپنی زبان کی گویائی کو اس کے منشا کے مطابق بناتا ہے، اپنے دماغ کے خیالات اور دل کی سوچ کو اس کی اطاعت کے تحت لاتا اور اپنی زندگی کی ہر ہر ساعت ربِ کائنات کے اشارے اور پسند پر گزارتا ہے۔

    فنا للہ کا یہ عمل محدود نہیں۔ کیونکہ یہ خدا کے لیے ہے، اس لیے لامحدود ہے۔ انسان اپنی خواہشات کو فنا کرتے کرتے ارتقا کے منازل طے کرتا رہتا ہے، وہ مسلم سے مؤمن اور مؤمن سے صدیق و شہید کے درجات حاصل کرتا چلاجاتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے خدا کے مقربین کا درجہ مل جاتا ہے۔ لیکن تب بھی وہ خود کو خدا کا غلام ابن غلام ہی سمجھتا ہے۔
    ’فنا فی اللہ‘ کے مدارج غیر حقیقی ہیں جب کہ ’فنا للہ‘ کے مدارج حقیقی۔ ’فنا للہ‘ کا تصور انسان میں تواضع، فروتنی، اطاعت، للٰھیت، صبر، استقامت، توکل ، تسلیم و رضا اور ہمیشہ خدا کی رضا کے حصول کے لیے کوشاں رہنا جیسی عمدہ صفات پیدا کرتا ہے جب کہ ’فنا فی اللہ‘ کا نظریہ انسان کا منتہائے مقصود اس کو قرار دیتا ہے کہ وہ قطرے کے سمندر میں مل جانے کی طرح خدا کی ذات میں ضم اور فنا ہوجائے۔ اس تصور سے انسان کے اندر اپنی بڑائی اور بلندی کا فخر و غرور اور خود پسندی تو پیدا ہوسکتی ہے، عاجزی اور خاکساری نہیں۔

    فنا للہ ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت کی تعلیم قرآن و سنت میں بہت تفصیل سے موجود ہے۔ اور اگر کسی کو فنا للہ کا نمونہ دیکھنا ہو تو وہ پیغمبر عربی کی سیرت کا مطالعہ کرے۔ یہ مطالعہ بتادے گا کہ کیسے نبی برحق نے اپنی پوری زندگی خدا کی اطاعت و فرماں برداری کی، ہمیشہ عجز و انکساری کا اظہار کیا، صبر کیا، ثابت قدم رہے، ہمیشہ خدا پر توکل اور بھروسہ کیا، ہر مشکل میں اُسی کی پناہ اور امان ڈھونڈی۔ اپنی خواہشات کو خدا کی منشا کے تابع رکھا اور خدا کی سچی بندگی کیا ہوتی ہے، پوری زندگی اس کا بہترین نمونہ بنے رہے

تبصرے بند ہیں۔