آصفہ کی موت عصری کرب کی ہے داستاں

احمد علی برقیؔ اعظمی

آصفہ کی موت عصری کرب کی ہے داستاں
عالمِ انسانیت ہے سن کے جس کو نوحہ خواں

ہیں وہ وحشی اور درندوں سے بھی بدتر بدنہاد
دے رہے ہیں مجرموں کا ساتھ جو قانون داں

آٹھ سالہ بچی کی عصمت دری پر ہیں جو چُپ
ہوں گی اُن کے پاس بھی اپنی چہیتی بیٹیاں

ڈوب جائیں جاکے چُلو بھر وہ پانی میں کہیں
سینکتے ہیں اس پہ جو اپنی سیاسی روٹیاں

جن کے سینے میں دھڑکتا ہے دلِ درد آشنا
آج ہیں اِس صدمۂ جانکاہ سے وہ نیم جاں

دیکھئے مِت ہندو و مُسلم کی عینک سے اسے
جان سے ہوتی ہیں پیاری سب کو اپنی بچیاں

ہوسکے توکیجئے سنجیدگی سے اس پہ غور
میں نہیں کہتا مِلائیں آپ میری ہاں میں ہاں

اپنے ہم وطنوں سے برقیؔ کی یہی ہے التجا
ساتھ دیں اک دوسرے کا بھول کر سب تلخیاں

تبصرے بند ہیں۔