آصفہ کی موت عصری کرب کی ہے داستاں
احمد علی برقیؔ اعظمی
آصفہ کی موت عصری کرب کی ہے داستاں
عالمِ انسانیت ہے سن کے جس کو نوحہ خواں
…
ہیں وہ وحشی اور درندوں سے بھی بدتر بدنہاد
دے رہے ہیں مجرموں کا ساتھ جو قانون داں
…
آٹھ سالہ بچی کی عصمت دری پر ہیں جو چُپ
ہوں گی اُن کے پاس بھی اپنی چہیتی بیٹیاں
…
ڈوب جائیں جاکے چُلو بھر وہ پانی میں کہیں
سینکتے ہیں اس پہ جو اپنی سیاسی روٹیاں
…
جن کے سینے میں دھڑکتا ہے دلِ درد آشنا
آج ہیں اِس صدمۂ جانکاہ سے وہ نیم جاں
…
دیکھئے مِت ہندو و مُسلم کی عینک سے اسے
جان سے ہوتی ہیں پیاری سب کو اپنی بچیاں
…
ہوسکے توکیجئے سنجیدگی سے اس پہ غور
میں نہیں کہتا مِلائیں آپ میری ہاں میں ہاں
…
اپنے ہم وطنوں سے برقیؔ کی یہی ہے التجا
ساتھ دیں اک دوسرے کا بھول کر سب تلخیاں
تبصرے بند ہیں۔