تعدد زوجات: حکمتیں اور مصلحتیں

منورعلی مصباحی

نکاح وشادی در اصل اجنبی مردوعورت کے درمیان دو شرعی گواہوں کی موجودگی میں ہونے والے اس تعلق کا نام ہے جو مہذب اور شرعی طریقے پر جنسی خواہش کی تسکین ؛ نسل انسانی کی افزائش؛ اور سماجی تعلقات کی مضبوطی کا سبب بنتا ہے۔

شادی ونکاح سے متعلق اسلام کی تعلیمات بہت واضح اور وسیع المفہوم ہیں۔ پیغمبر اسلام ﷺنکاح کی ترغیب دلاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:نکاح میری سنت ہے جو میری سنت سے انحراف کرے وہ میرے راستے پر نہیں۔ یوں تو شادی کا تصور دیگر مذاہب عالم میں بھی ہے مگر جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو اس نے ہمارے سامنے ایسا  نظام نکاح پیش کیا جس کی مثال پیش کرنے سے اقوام عالم قاصر ہیںِ،جب ہم نظام نکاح کی بات کرتے ہیں تو اسکے دائرے میں زوجین کو پیش آنے والے تمام مسائل کا حل ہوتا ہے ،اگر بنظر غائر اسلام کامطالعہ کیا جائے تو اسلام کی حقانیت کو تسلیم کیے بغیر چارہ کار نہیں مگر کچھ نام نہاد محققین،تعدد نکاح کو لے کر اسلام اور پیغمبر اسلام پر طرح طرح کے اعتراض کرتے ہیں ۔شرعی  نقطہ نظر

لیکن اللہ رب العزت نے قران مجید میں صاف صاف الفاظ میں چار تک شادیاں کرنے کا اعلان فرمایا؛فرمان باری  تعالی  ہے : اگر تمیں یہ اندیشہ ہے کہ تم یتیموں کی (سرپرستی میں انصاف سے کام نہ لے سکوگے ،تو تم متعدد عورتوں کے ساتھ نا انصافی سے بھی ڈرو) لہذا جو عورتیں تمہیں اچھی لگیں،ان میں سے دو، تین یا چار سے شادی کرو اور اگر اندیشہ ہو کہ دو میں بھی انصاف نہ کرسکوگے تو صرف ایک سے شادی کرو،، مذکورہ آیت کے متعلق مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت کا مطلب اور پس منظر اس طرح ہے :قبل اسلام اور آغاز اسلام میں اہل عربیتیموں کی کفالت میں نا انصافی کا اندیشہ کرتے تھے مگر کئی کئی شادیاں کرنے اور بیویوں کےساتھ نا انصافی کا اندیشہ نہین کرتے تھے،، اسلام نے عورتوں کے ساتھ ہورہی اس نا انصافی کے خلاف آواز بلند کی ،جیسا کہ ترمذی کی حدیث میں ہے کہ ایک صحابی جن کا نام غیلان بن سلمہ ثقفی تھا اسلام لائے ان کی آٹھ بیویاں تھی جو انھیں کے ساتھ مشرف با اسلام ہو چکیں تھیں ،مگر حضورﷺ نے آپ کوحکم دیا کہ ان میں سے صرف چار رکھیں

آج امت کا اجماع ہے کہ کسی بھی امتی کے لیے بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں رکھنا جاٰئز نہیں ہے،ہاں حضور علیہ الصلوۃ و السلام جتنی چاہیں بیویاں رکھ سکتے ہیں ،لیکن یہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی خصوصیت ہے۔ مگر یاد رہے کہ اسلام کا تعدد زوجات کا حکم چار شرطوں کے ساتھ مشروط ہے: (1)  شوہر تمام بیویوں کے درمیان لباس،رہائش اور شب باشی میں انصاف و برابری کرسکتا ہو۔(2) نفقہ پر قدرت، تمام بیویوں کے اخراجات برداشت کرسکتا ہو۔(3) بیک وقت دو  سگی بہنوں کو نکاح میں جمع نہ کرے۔ (4) صرف چار پر ہی اکتفا کرے،چار سے زیادہ شادی نہ کرے۔

مصلحت:

اسلام  نے تعدد زوجات یعنی چند بیویاں رکھنے کا حکم کیوں دیا؟ اور اس میں کیا کیا حکمتیں کارفرما ہیںِ،اس سے متعلق علماء نے چند حکمتیں بیان کی ہیں:

(1) حاجت زمانہ :

کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پہلی بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہوتی ہے،جبکہ شوہر کو اولاد کی خواہش ہوتی ہے،اسے حفاظت نسل اور حفاظت میراث کا محافظ درکار ہوتا ہے۔اب ایسی صورت میں اس کے سامنے دو ہی راستے ہوتے ہیں یا تو وہ بے اولاد مرجائے یا پھر دوسری شادی کرلے،ہر عقلمند جانتاہے کہ دوسری صورت ہی بہتر ہے کیونکہ اس میں مال و دولت کی حفاظت کے ساتھ ساتھ حفاظت  نسب بھی ہے۔

نیز عصر حاضر میں عورتوں کی بڑھتی تعداد بھی اسی کی مقتضی ہے۔ اعداد و شمار کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں مردوں کی بنسبت تین فی صد عورتیں زیادہ ہیں،سعودیہ عربیہ میں گیارہ فی صد عورتیں زیادہ ہیں۔ ادھر ماہرین طب کی تحقیق یہ ہے کہ دنیا میں مرنے والوں میں مردوں کی تعداد زیادہ ہے،کیونکہ مردوں میں امراض بھی زیادہ جنم لیتے ہیں اور مرد حضرات حادثات کا شکار بھی زیادہ ہوتے ہیں۔لہذا عورتوں کی تعداد کی بڑھوتری اور مردوں کی تعداد کی کمی بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ایک سے زائد شادی کرنا جائز ہونا چاہئیے۔

(2) شہوت کی کثرت:

بعض مردوں میں عورتوں کی بنسبت شہوت نفسانی بہت زیادہ ہوتی ہے، صرف ایک عورت کے ذریعے اس کے جذبات کی تسکین نہیں ہوپاتی، حالانکہ ایسی صورت میں اس کے جزبات کی تسکین اشد ضروری ہے ورنہ زناکاری کے دلدل میں پھنسنے کے قوی امکانات ہیں۔لہذا اسلام نے مرد کو ایک شدید سماجی بیماری اور شرعی گناہ سےبچانے کے لیے بھی یہ آفشن رکھاہے۔

(3) قومی طاقت و قوت کا  حصول:

شادی و نکاح کا تعدد افزائش نسل کا سبب  ہے، جوکہ قوم کی قوت و مضبوطی کا اہم  سبب ہے۔عالمی منظر نامہ دیکھ لیجیے زیادہ آبادی والے  ملک کم آبادی والے ملکوں سے فوجی پاور اور صنعتی ترقی میں  بہت آگے  ہیں۔ چین اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔معترضین کی جانب سے ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتاہے کہ جب امتی کو ایک ساتھ چار بیوی رکھنے کی اجازت ہے اور قرآن نے چار ہی کی اجازت دی ہے تو پھر پیغمبر اسلام نے چار سے زیادہ شادیاں کیوں کیں؟ اس کے بھی متعدد جوابات دیے گئے ہیں۔

(1)حضور کی خصوصیت:

امتی کے لیے چار اور نبی کے لیے لاتعداد کا جواز صرف حضور ہی کی خصوصیت ہے،کیونکہ حضور علیہ السلام اپنی خواہش سے نہ تو کچھ بولتے ہیں اور نہ کچھ کرتے ہیں،بلکہ مرضئ مولی اور حکم مولی ہی پر آپ کے اقوال و افعال کا دارو مدار ہوتاہے کیونکہ قرآن کا فرمان ہے: یہ اپنی خواہش سے کچھ نہں بولتے۔(سورہ نجم)۔قرآن حکیم کا حکم بالکل سچ ہے جو لوگ حضور علیہ السلوۃ و السلام کو جھوٹا اور مفتری کہتے ہیں اور (معاذ اللہ) قرآن کو ان کے جھوٹوں کا مجموعہ کہتے ہیں،اگر وہ اپنے دعوی میں سچے ہیں تو قرآنی چیلینج کے مطابق اس کی نظیر پیش کریں تبھی تو ان کے دعوی کی تصدیق ہو سکے گی۔، لیکن ہزاروں سال کا عرصہ گزرچکا ہے مگر منکرین قرآن  اس کی نطیر ہیش کرنے سے قاصر ہیں اور نہ مستقبل میں پیش کر سکیں گے۔ہماری سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ قرآن  نے یہ کہا کہ حضور اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتے ،لہذا حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے جو بھی کیا وہ حکم الہی تھا اور قرآن حکیم کے مطابق تھا۔

(2) غلط رسم و  رواج کا خاتمہ:

سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کا دور کرنا رسول پاک کا اولین فریضہ تھا۔سماجی بے راہ رویوں کے خلاف آپ نے منظم اور با امن جہاد کیا، جس کا ایک طریقہ یہ بھی اختیار کیا کہ شادی سے متعلق پھیلی خرابیوں کا سد باب عملی طور پر کیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ زینب بنت جحش کا نکاح خاص اسی مقصد کے تحت ہوا۔دراصل اس زمانے میں منہ بولے بیٹے سے متعلق یہ رسم چلی آرہی تھی کہ وہ لوگ منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کا درجہ دیتے تھے۔ مثلا جس طرح حقیقی بیٹا میراث پاتا تھا اسی طرح منہ بولا بیٹا بھی میراث کا حقدار سمجھاجاتا تھا۔اس رواج کی بنیاد پر بہت سے حقداروں کے حقوق کی پامالی ہوتی تھی۔ حضور علیہ الصلاۃ و السلام نے اس رسم کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے حجرت زید بن حارثہ کو متبنی بنایا یعنی منہ بولا بیٹا بنالیا، پھر اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت جحش کے ساتھ ان کا نکاح کرادیا،پھر کچھ دن بعد حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے حضرت زید بن حارثہ سے کہا کہ وہ زینب کو طلاق دے دیں،انھوں نے طلاق دے دی؛ پھر عدت گذرنے کے بعد آپ ﷺ نے حضرت زینب سے نکاح کرلیا،حالانکہ رسم زمانہ کے اعتبار سے یہ بڑا معیوب سمجھا جاتاتھا کیونکہ وہ لوگ منہ بولے لڑکے کو بعینہ حقیقی لڑکے کا درجہ دیتے تھے،مگر آپ علیہ الصلوۃ و السلام نے عمل کرکے بتایا کہ منہ بولا لڑکا، حقیقی لڑکے کی طرح نہیں ہے ورنہ حضور ﷺ حضرت زینب بنت جحش سے نکاح نہ کرتے کیوںکہ حقیقی لڑکے کی بیوی سے نکاح جائز نہیں ہے۔

(3)دیگر قبائل و اقوام کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنا:

حضورﷺ اعدائے اسلام کے ساتھ تعلقات جوڑ کر انہیں اسلام سے قریب لانا چاہتے تھے۔ تاریخ نگار بتاتے ہیں کہ حضرت صفیہ بنت اخطب کا نکاح اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔کہاجاتاہے کہ حی بن اخطب آپ ﷺ کا بہت بڑا دشمن  تھا، اس کی بیٹی صفیہ غزوۂ خیبر میں گرفتار ہوئی،حضور ﷺ نے اس کے سامنے دو صورتیں رکھی تھیں،ایک تو یہ کہ فدیہ دیکر آزاد ہو جائیں یا آپ ﷺ کی زوجیت اختیار فرمالیں۔ حضرت صفیہ نے بخوشی دوسری صورت اختیار فرمالی۔ تاریخ گواہ ہے اس نکاح سے پہلے یہودی ہر جنگ میں کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کے خلاف بر سر پیکار رہے یا کسی دشمن اسلام کے معین و مددگار،لیکن اس نکاح کے بعد اسلام کی ابتدائی تاریخ میں مسلمانوں کے مقابل نہ آئے۔

(4)داخلی سنتوں کی نشرواشاعت:

تعدد زوجات کا سب سے اہم مقصد یہ تھا کہ حضورﷺ کی داخلی سنتوں کو عام کرنے والا نیٹ ورک وسیع ہوجائے،  داخلی  سنتوں سے مراد  یہ کہ حضور کی سنتیں  بنت حوا تک  بھی مکمل طور ہر  پہنچ جائیں کیونکہ خارجی سنتوں کو عام کرنے کے لیے صحابۂ کرام کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک موجود تھا۔

یہ چند حکمتیں ہیں جو علماء اسلام نے بیان کی ہیں، لیکن بحیثیت مسلمان ہم اس بات کے مکلف ہیں کہ کسی اسلامی مسئلہ و حکم کی حکمت اگر ہماری سمجھ میں نہا بھی آئےتوب بھی ہمیں اس مسئلہ کا انکار نہیں کرنا چاہیے۔

1 تبصرہ
  1. munawwar ali کہتے ہیں

    تحریر کو شائع کرنے پر ادارہ کا شکرگزار ہوں۔

    منور علی مصباحی رام پوری
    9411490413

تبصرے بند ہیں۔