میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ رویہ

محمد خان مصباح الدین

خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

ایک کہاوت کہی جاتی ہے کہ "جہاں نہ پہونچے روی وہاں پہونچے کوی” یعنی جس جگہ عام انسان کا گزر نہیں ہو سکتا وہاں شاعر کا ذہن پہونچ جاتا ہے لیکن آج اس کہاوت کی تصویر دھندلی ہو گئی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ جہاں سورج کی روشنی کا گزر نہیں ہو سکتا اور جس جگہ شاعر کا ذہن بھی رسائی کرنے سے قاصر ہوتا ہے وہاں میڈیا اور اسکے نمائندے پہونچ جاتے ہیں_

ہم میڈیا کوتین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں؛

مرئی، جس کا تعلق دیکھنے سے ہو۔ مثلا: ٹیلی ویژن اور وی سی آر وغیرہ۔

سمعی، جس کاتعلق سننے سے ہو۔ جیسے: آڈیوکیسٹ، ایم پی3، ریڈیو اور باجے وغیرہ۔

لسانی، جس کا تعلق پڑھنے سے ہو۔ جیسے: اخبار، جرائد، رسالے اور مجلے وغیرہ۔

دوسرے لفظوں میں ہم ان سارے اقسام کوالیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے بھی تعبیر کرتے ہیں

 آج میڈیا کی قوت کا ہر شخص قائل ہےاور انسانی زندگی کا کوئی بھی شعبہ اس سے خالی نہیں اورنئی نسل کی زندگی کا آغاز میڈیا ہی سے ہوتا ہے, اسی لیے اسکو دو دھاری تلوار بھی کہا جاتا ہے جہاں اس سےقوم وملک اور سماج کی فلاح و بہبود کا کام ہوتا ہے وہیں اس سے طرح طرح کی برائیاں بھی جنم لیتی ہیں اور انسانیت کو برائی کی آگ میں جھونک دیتی ہیں آج چاہے مسئلہ حکومت و سیاست کا ہو، چاہے دین کی نشر واشاعت کا ہو، کمپنی، ٹریڈاوربزنس کےفروغ کا معاملہ ہو، جدید تعلیمی وسائل کی فراہمی کی بات ہو، یا کورٹ کچہری کے دنگل کی۔ ہر جگہ اور ہر موڑ پر میڈیا کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ اس مادی دور میں دنیوی معاملات میں منافست کوئی عجیب بات نہیں؛ بلکہ عین تقاضا ہے۔ مگر دین کی نشر واشاعت میں بھی ہر مذہب کے پیروکارجس حد تک آگے نکل چکے ہیں، ہم اس کی گردِ راہ کو بھی نہیں پاسکتے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ نا ممکن اور محال ہو چکا ہے؛ بلکہ معاملہ یہ ہے کہ دوسرے مذاہب کے مقابلہ میں ہم یقینا بہت پیچھے ہیں۔

لوگ تحریف شدہ مذاہب، ترمیم شدہ دین دھرموں اور صرف احبار و رہبان کے ملفوظات ہی نہیں؛ بلکہ اپنے وضع کردہ اصولوں کو بھی دین کا نام دے کر ، اس کی نشر واشاعت میں جس قدر میڈیا کا استعمال کررہے ہیں، ہم اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے ہیں۔ جبکہ لوگ نہ صرف دنیوی اموربلکہ اپنے دینی امور میں بھی ایک دوسرےپر سبقت لے جانے کی پوری کوشش میں ہیں۔ اور یہ بات حقیقت ہےکہ میڈیا کا اٹیک،براہِ راست انسان کے ذہن پر ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ زیادہ مؤثر مانا جاتا ہے۔ اس کے ذریعہ بڑی آسانی سے کسی فکر کو عام کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کی میڈیا سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر دنیا کے سامنےاس انداز سے پیش کرتا ہے کہ عوام اسے بلا چوں چرا سچ ماننے پر مجبور ہو جاتی ہے لیکن جب میڈیا سچ کا علمبر ہو اور اسکا ذمہ دار سچائی کو عبادت سمجھ کر عوام کے سامنے پیش کرنے والا ہو تو اسکی افادیت اور اسکے اچھے اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن جب یہی میڈیا باطل پرست بن جائے اور اپنے چہرے پے دوہرا نقاب ڈال لے تو پھر وہی ہوگا جو اسکے حاکم چاہینگے_

موجودہ دور میں عام شہری ان تماشایوں کے طرح ہیں جو ایک مداری کی ڈگ ڈگی پر اس کے پیچھے دوڑے چلے آتے ہیں، ایک لمحہ کو تماشائی اس مداری کے کرتب کو حقیقت بھی تسلیم کرلیتے ہیں اور کوئی سوچتا بھی نہیں ہے کہ اس کے پیچھے کیا حکمت عملی کارفرما ہوسکتی ہے آج معاملہ بلکل یہی ہے آج کا میڈیا غریبی کو ہائی لائٹ نہیں کرتا ,ظلم وجبر پے کو عوام اور ملک سامنے پیش نہیں کرتا اور نہ ہی عام انسانوں کے مسائل ظاہر کرتا ہے کیوں کہ جس میڈیا کو عوام نے اپنا سربراہ بنا کر رکھا اسکی سربراہی ظالم کر رہے ہیں یہی وج کہ جس میڈیا کو حکومت کے غلط رویے پر سوال کرنے کا پورا حق ہے وہی میڈیا عام انسانوں کے زخموں پر مرحم رکھنے کے بجائے فحاشی اور عریانیت کو ہائی لائٹ کرتا ہے اور فلم اسٹارز ایکٹرس اور ایکٹریس کی گندی تہذیب کو عوام کے سامنے رکھ کر ترقی کا سبق دیتا ہے آج لوگ میڈیا میں سچ کا بول بالا اور جھوٹ کا منہ کالا کرنے کیلیئے داخلہ نہیں لیتے بلکہ اکثر لوگ میڈیا کے میدان میں اپنی کمائی کا ذریعہ کچھ لوگ شہرت اور کچھ لوگ فیشن سمجھ کر قدم رکھتے ہیں اس لیے ایسے نمائندوں سے نہ تو سچائی کی امید کی جا سکتی ہے اور نہ ہی ایمانداری کی, گویا آج کے دور میں مداری کا  کردار کسی حد تک میڈیا ادا کررہا ہے، میڈیا پر دیکھائے جانے والے مواد پر لوگ آنکھ بند کرکے یقین کرلیتے ہیں اور کیوں نہ کریں آخر صحافت کا مقصد ہی یہی ہے کہ عوام الناس کو ملکی تاریخ،تہذیب وتمدن اور پش منظرمیں ہو نے والے اہم سیاسی ، مذہبی ،معاشی، معاشرتی و دیگر واقعات اور صورتِ حال سے آگاہ رکھے، جس میں کہ تصویر کے دونوں رُخ واضح ہوں، لیکن آج اس کے برعکس ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ میڈیا صرف یکطرفہ کردار ادا کررہا ہے۔

میڈیا اگر اپنی حدود قیود میں رہ کر مثبت رویہ اپنا کر نیک نیتی سے اپنے فرائض سر انجام دے تو اس کے حوصلہ افزا نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں۔ بلا شبہ معاشرے کے رویوں سے آگاہ کرنا میڈیا کا فرض ہے مگر بد قسمتی سے میڈیا نےسچائی سے منہ موڑ کر ہمارے  معاشرے میں طرح طرح کے خرافات اور فساد پھیلا رکھے ہیں اور ایسی ایسی افواہیں پھیلا رکھی ہیں کہ عوام لا یعنی باتوں کا شکار ہو کر اصل مقصد کو کھوتے چلے جا رہے ہیں اور اپنی عاقبت اور اپنی شخصیت دونوں کو اندھیرے میں جھونکتے چلے جا رہے ہیں اور قوم وملک کی خوبصورت تصویر دن بدن بگڑتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے ہندوستان پوری دنیا کے سامنے ایک مذاق بنا ہوا ہے۔

قارئین کرام!

میڈیا کو اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے۔ ایک بے گناہ کو شک کی بنا پر گرفتار کیا جاتا ابھی عدالت کسی نتیجے تک نہیں پہونچتی تفتیشی ایجینسیاں اس مسئلے کو حل کرنے کی دن رات کوشش میں لگی رہتی ہیں مگر اس سے قبل آج کا میڈیا اپنا فیصلہ صادر کر دیتا ہے اور پورے منظم طریقے سے اسے دہشتگرد اور نا جانے کون کون سے گروہ سے اسکا تعلق قرار دیا جاتا ہے اور عوام بھی اس بات کو آنکھ بند کر یقین کر لیتی ہے اسکے برعکس ایک حقیقی مجرم جسکی تلاش یا جسکی تفتیش برسوں سے جاری ہوتی ہے اسکا معاملہ سامنے آتا ہے وہیں میڈیا کا دوسرا چہرہ سامنے آتا کہ وہ مجرم کی تصویر کشی کے بجائے کسی لا یعنی بات کو نمک مرچ لگا کر پیش کرتا ہے تاکہ اصل مقصد کیطرف لوگوں کا ذہن نہ پہونچے  جسکا نتیجہ ہیکہ آج ہمارا معاشرہ صرف اخلاقیات سے ہی عاری نہیں ہوا بلکہ اپنا مقصد بھی کھو چکا اور ملک کی نظریاتی اساس کو بھی بھلا بیٹھا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بے حیائی کا ایسا اودھم مچایا جا رہا ہے جو ناقابل بر داشت ہے۔ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر خبر نامہ دیکھنا مشکل ہو چکا ہے۔ ہمارے معاشرے کو دانستہ طور پر بد اخلاقی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ میڈیا کا پیدا کردہ فحاشی اور عریانی کا سیلاب ہر گھر میں داخل ہورہا ہے۔ نوجوان نسل مغربیت کا شکار ہو چکی ہے۔ رہی سہی کسر موبائل فون کے سستے اور گھنٹوں والے پیکجز اور انٹر نیٹ نے نکا ل دی ہے۔ ہماری نوجوان نسل دن رات انٹر نیٹ اور موبائل فون سے اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ اخلاق باختگہ ماحول اپنا رنگ دکھا رہا ہے موبائل فونز اور انٹر نیٹ نے اخلاقیات کا عملی جنازہ نکا ل دیا ہے۔ نوجوانوں میں غیرت و حمیت کی کوئی رمق باقی نہیں رہی۔ جس معاشرہ میں اخلاقی اقدار کا خاتمہ ہو جائے اس معاشرے کو تباہ ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی_

قارئین کرام!

اگر میڈیا کے ذریعے معاشرے میں برائیاں فروغ پا سکتی ہیں۔ تو یقیناً میڈیا ہی کے ذریعے معاشرے میں اچھے رجحانات کو فروغ بھی دیا جا سکتا ہے اور اسکی بہت سی مثالیں بھی موجود ہیں_میڈیا، اس دور کا ایک عجیب وغریب انقلاب ہے۔ اوریہ انقلاب ہرایک کی زندگی میں داخل ہو چکا ہے۔ یہ سچ ہے کہ انسانی زندگی اور معاشرہ کی تشکیل پر اس کے مثبت اور منفی دونوں اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس نازک موڑ پر ار باب فکر وفن اور اصحاب سیم وزر پر، یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ میڈیا کے تمام شعبوں اور شاخوں کو، اور اس کے تمام وسائل کو دنیا میں خوبصورت ماحول کی اشاعت اور انسانیت کی رہبری، امن وسلامتی اور سماج کی ترقی اور ہر اچھے کام کے لیے مسخر کرلیا جائے۔ تاکہ نور وظلمت کے تصادم میں شیشۂ ظلمت وضلالت پاش پاش ہو کر رہ جائے۔ حق کی حقانیت کے مقابلہ میں باطل کو اپنی پستیٔ قامت کا نہ صرف احساس ہو؛ بلکہ حق کے سامنے باطل سرنگوں ہوجائے۔ اور دنیا میں حق کی ترویج کے ذریعہ ایک بار پھر امن کا ماحول قائم ہو جائے۔ ہمیں اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ میڈیا کا اٹیک،براہِ راست انسان کے ذہن پر ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ زیادہ مؤثر مانا جاتا ہے۔ اس کے ذریعہ بڑی آسانی سے کسی فکر کو عام کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ خواہ معاملہ عقائد وعبادات کا ہو، خواہ اخلاق وعادات کا ہو،یا آپسی لین دین کا معاملہ ہو، ہر شعبہ میں میڈیا کا صحیح استعمال ہوسکتاہے۔  اور اس کوصحیح استعمال کے لائق بنانے کے ہم سب ذمہ دار ہیں کیوں کہ میڈیا میں اچھے لوگوں کو سبقت کرنی چاہیئے اور حق کو عام اور باطل کو سر اٹھانے سے روکنا چاہیئے _

اللہ تعالیٰ ہمیں میڈیا کے ذریعہ لوگوں کی صحیح رہنمائی کی توفیق عطافرمائے، آمین

تبصرے بند ہیں۔