تعلیمِ نسواں کے باب میں شبلیؔ کا رویّہ – چند اشکالات

پروفیسر صغیرافراہیم

            جنھیں ہم محبوب رکھتے ہیں، ان سے توقعات بھی زیادہ ہوتی ہیں کہ کاش وہ ہمارے لیے یہ بھی کرتے، وہ بھی کرتے۔ وہ شخصیت اگر مثالی ہو تو پھر توقعات کا دامن وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔ شبلیؔ کی شخصیت اسی زمرے میں شامل ہے۔ وہ ہم سب کو عزیز ہیں، بہت عزیز ہیں۔ انھوں نے اپنے عہد کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے، مستقبل کے پیشِ نظر تعلیمی نظام کا جو تصور پیش کیا، اس سے اتفاق بھی ہوا اور اختلاف بھی۔ اگر ذہنی کشادگی اور قومی و ملّی خدمت کا جذبہ حاوی ہو تو اختلاف کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔ بلا شبہ شبلیؔ اپنا ایک مخصوص نقطۂ نظر رکھتے تھے اور اس پر آخر تک قائم رہے۔ انھوں نے نہ تو مغربی علوم و فنون کو بُت بنایا اور نہ ہی مشرقی تعلیم و تربیت کو من و عن قبول کرنے کا بظاہر دینی فریضہ انجام دیابلکہ تقابلی مطالعہ کرکے اپنی بصیرت کے مطابق نتیجہ اخذ کیا اور اس پر مسلسل عمل پیرا رہے۔ اسی لیے تمام عمر ستائش اور تحسین کے ساتھ مخالفت کا بھی سامنا کرتے رہے۔ انھوں نے یورپ کی ترقی اور ایشیا کی تنزلی کو معاصرین یا تعصب کی عینک سے نہیں، اپنی چشمِ بینا سے دیکھا۔ وہ جانتے تھے کہ ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب مغرب، مشرق سے سبق حاصل کرتا تھا، بلکہ مشرق کا تتبع کرتے ہوئے حصولِ علم کی تگ و دو میں مصروفِ عمل رہا، اور اپنی جہدِ مسلسل کی بنا پر دنیاوی علوم و فنون میں بہت آگے نکل گیا۔ اُس کی نِت نئی ایجادات کی چمک دمک نے قدیم قدروں کو پامال کیا۔ مغرب شاطر ایسا کہ رفیقوں اور محسنوں کو مختلف حربوں سے زک پہنچاتے ہوئے کبھی انھیں کمتر ثابت کیا تو کبھی باہمی تعلقات میں اختلافات کے بیج بو دیے کہ وہ ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار ہو گئے۔ شبلیؔ نو آبادیاتی نظام کے اس حربے کے رمز شناس تھے۔ حساس اور بے باک تھے، اپنی خداداد صلاحیتوں کے ساتھ سولہ سال سر سید کی رفاقت میں گزارے تھے اور بعد میں اتنا ہی عرصہ اپنا تعلیمی لائحہ عمل وضع کرنے میں صرف کیا تھا۔ فروغِ علم کے لیے ملک اور بیرونِ ملک کے تعلیمی نظام کا بغائر مطالعہ کیا تھا۔ اس ضمن میں ان کا روم، مصر اور شام کا سفر بہت اہم ہے۔ کیونکہ یہ علمی سفر شبلیؔ کی برسوں کی خواہش تھی۔ وہ 26؍ اپریل 1892ء کو ٹامس آرنلڈ کی سیادت میں قسطنطنیہ کے لیے روانہ ہوئے۔ پورٹ سعید تک وہ آرنلڈ کے ساتھ رہے، بقیہ سفر ان کے مشورے سے اکیلے طے کیا۔ بہت دیر تک کسی کی انگلی پکڑ کر اس کی رہنمائی میں راستہ طے کرنااُن کے مزاج کے خلاف تھا۔

            ’سفر نامہ روم و مصر و شام‘ یہ تاثر دیتا ہے کہ شبلیؔ اکثر سوچتے تھے کہ کیا قدیم و جدید، مشرقی اور مغربی تعلیم کی راہیں الگ الگ ہیں ؟ ہیں تو کیوں ؟ کس طرح نئی نسل دونوں سے استفادہ کر سکتی ہے؟ دین و دنیا کو بیک وقت حاصل کر سکتی ہے۔ شبلیؔ اپنے سفر نامہ میں رقم طراز ہیں :

’’اس سفر میں جس چیز کا تصور میری تمام مسرتوں اور خوشیوں کو برباد کردیتا ہے، وہ اسی قدیم تعلیم کی ابتری تھی۔ یہ مسئلہ آج کل ہندوستان میں چھڑا ہوا ہے اور تعلیمِ قدیم کی ابتری پر عموماً رنج و افسوس کیا جاتا ہے، لیکن میرا افسوس دوسری قسم کا افسوس تھا۔ ہمارے ملک کے نئے تعلیم یافتہ، پرانی تعلیم پر جو رنج و افسوس کا اظہار کرتے ہیں وہ در حقیقت رنج نہیں بلکہ استہزاد اور شماتت ہے—– میں اگر چہ نئی تعلیم کو پسند کرتا ہوں اور دل سے پسند کرتا ہوں تاہم پرانی تعلیم کا سخت حامی ہوں اور میرا خیال ہے کہ مسلمانوں کی قومیت قائم رکھنے کے لیے پرانی تعلیم ضروری اور سخت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ جب یہ دیکھتا ہوں کہ یہ تعلیم جس طریقے سے جاری ہے وہ بالکل بے سود اور بے معنی ہے تو خواہ مخواہ نہایت رنج ہوتا ہے، ہندوستان میں تو اس خیال سے صبر آجاتا تھا کہ جو چیز گورنمنٹ کے سایۂ عاطفت میں نہ ہو اس کی بے سرو سامانی قدرتی بات ہے لیکن قسطنطنیہ، شام، مصر میں یہ حالت دیکھ کر سخت رنج ہوتا ہے۔ ‘‘   (ص، 64)

البتہ قسطنطنیہ میں وہ مطمئن نظر آتے ہیں اور خواتین کی تعلیم کے تعلق سے بھی۔ پھر بھی ذہن میں ابھرنے والے طرح طرح کے سوالات کے پیش نظر شبلیؔیک سوئی اور دل جمعی سے غور و فکر، مطالعہ و مشاہدہ کرکے رفقاء سے تبادلۂ خیال، بحث و مباحثہ کرتے۔ رفتہ رفتہ ان کے ذہن میں قدیم و جدید تعلیم کا معیار و مقصد واضح ہوتا گیا۔ اسی لیے انھوں نے دونوں نظامِ تعلیم میں اصلاح و ترمیم کی تجاویز پیش کیں۔ دراصل اُن کے دور دراز کے سفر کا مقصد بھی یہی تھا کہ وہ صحیح صورتِ حال معلوم کر سکیں۔ عالمی سطح پر ان کے پیشِ نظر تین طرح کے ادارے تھے۔ 1۔ قدیم طرز کے مدارس۔ 2۔ جدید طرز کے جامعات اور3۔ قدیم اور جدید طرز کے سنگم  والے ادارے۔ لہٰذا انھوں نے تینوں طرز کے تعلیمی اداروں کو تنقیدی نگاہ سے دیکھا۔ غور و فکر کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے لیے مغربی تعلیم کے ساتھ مشرقی علوم کے حصول کی وکالت کی۔ ’’مقالاتِ شبلیؔ‘‘ کے حصۂ سوم میں وہ رقم طراز ہیں :

’’جو لوگ قدیم عربی مدارس کو بے کار بتاتے ہیں، وہ بھی تسلیم کر لیں گے کہ دنیا میں کوئی چیز بیکار نہیں ہے، صرف ہم کو ان کا استعمال صحیح طور سے کرنا چاہیے۔ ‘‘

                                                                                                (ص، 143)

شبلیؔ انگریزی کو ہی نہیں یورپ کی دیگر زبانوں کو بھی پسند کرتے تھے اور جدید تعلیم کو حاصل کرنا ضروری سمجھتے تھے مگر اس تاکید کے ساتھ کہ ہم اپنی قدیم تعلیم کے مثبت اثرات سے کسی طورپردست بردار نہ ہوں۔ وہ لکھتے ہیں :

 ’’میرا ہمیشہ سے یہ خیال ہے اور میں نہایت مضبوطی سے اس پر قائم ہوں کہ مسلمان مغربی علوم میں گو ترقی سے کسی مرتبے تک پہنچ جائیں لیکن جب تک ان میں مشرقی تعلیم کا اثر نہ ہو، ان کی ترقی مسلمانوں کی ترقی نہیں کہی جا سکتی۔ بے شبہ مشرتی تعلیم کی جو موجودہ اسکیم ہے وہ نہایت ابتر و غیر ضروری ہے لیکن اسی تعلیم میں ایسی چیزیں بھی ہیں جو مسلمانوں کی قومیت کی روح ہیں اور جس تعلیم میں اس روحانیت کا مطلق اثر نہ ہو وہ مسلمانوں کے مذہب، قومیت، تاریخ، کسی چیز کو بھی زندہ نہیں رکھ سکتی۔ ‘‘

                                                (سفر نامہ روم و مصر و شام، ص186)

(II)

            شبلیؔ نے ’مغرب‘ کوہر کس و ناکس کی طرح قبول نہیں کیا۔ کر بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ ان کا اپنا مزاج، اپنا نقطۂ نظر تھا جس پر عمل پیرا ہونے کی ان میں قوت بھی تھی۔ اسی لیے مشرق و مغرب کے مابین تعلیمی نظام کووضع کرنے میں بھی اپنی شناخت بر قرار رکھنے پر سختی سے عمل کیا، اوروہ اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی رہے۔ اس سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ انھوں نے قوتِ ارادی، تعمیری فکر، شعر فہمی اور علم دوستی کی بدولت اردو زبان و ادب کو تاریخ کے اوراق میں زندہ اور تابندہ کر دیا ہے۔ لیکن ہماری اپنی خواہشیں ایسی ہیں کہ جن کا سلسلہ لامتناہی ہے ایک کارنامہ کے بعد ہم اپنے بطل جلیل سے دوسرے، پھر تیسرے کارنامے کی توقع کرتے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ یہ سراسر زیادتی ہے پھر بھی انسانی مزاج کچھ ایسا ہی ہے۔ ذہن کے کسی گوشے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ترکی کی ترقی کا سبب بیان کرتے ہوئے وہ خواتین کی تعلیم و تربیت اور روشن خیالی کو قابلِ قدر اور قابلِ تقلید قرار دیتے ہیں تو پھر اس کے لیے انھوں نے کوئی عملی قدم کیوں نہیں اٹھایا؟جبکہ اُن کے پیشِ نظر سیرتِ ازواج مطہرات ہوں، جنابِ فاطمہؓ اور حضرتِ زینبؓ کے مثالی کردار ہوں، وقت بھی ہو اور وسائل بھی تو پھر گُریز کیوں کیا؟ اس سوال کو تقویت’ سفر نامہ روم و مصر و شام‘، ( مطبوعہ دار المصنفین، ایڈیشن، 2010ء کے صفحہ نمبر 105، 106 اور107)سے ملتی ہے۔ جس میں وہ ’’ترکوں کے اخلاق و عادات و طرزِ معاشرت‘‘ کے عنوان سے عورتوں کی تعلیم و تربیت، ان کے رہن سہن، لباس، صنعتی مدارس، بورڈنگ ہاؤس وغیرہ پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے بے حد مسرت کا اظہار کرتے ہیں :

’’ترکوں کی تہذیب و ترقی میں جو چیز سب سے زیادہ قابلِ قدر اور قابلِ تقلید ہے وہ عورتوں کی تعلیم و تربیت و طریقۂ معاشرت ہے۔ دنیا کی دو بڑی قومیں یعنی یوروپین اور ایشیاٹک اس مسئلہ میں افراط اور تفریط کے انتہائی کناروں پر واقع ہیں اور اس وجہ سے دونوں کی حالت قابلِ اعتراض ہے۔ ترکوں نے ایسا معتدل طریقہ اختیار کیا ہے جو دونوں خوبیوں کو جامع اور دونوں کے عیوب سے خالی ہے۔ ‘‘                                                                               (ص، 105)

اسی ضمن میں شبلیؔ آگے فرماتے ہیں :

’’لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سرکاری اور خانگی مدرسے کثرت سے ہیں اور پردہ و حفاظت کا ایسا عمدہ انتظام ہے کہ شرفاء کو اپنی لڑکیوں کے بھیجنے میں کچھ تامل نہیں ہوتا۔ ‘‘                                                                                          (ص، 105)

حیرت، استعجاب اور مسرت کا اظہار کرتے ہوئے شبلیؔ لکھتے ہیں :

’’ان مدارس کی وجہ سے تعلیم اس قدر عام ہو گئی ہے کہ زمانۂ حال میں بہ مشکل ایسی عورت مل سکتی ہے جس نے مناسب درجہ تک تعلیم نہ پائی ہو۔ بہت سی عورتیں مضمون نگار ہیں اور مشہور اخبارات میں ان کے آرٹِکل نکلتے رہتے ہیں۔ ‘‘                                                                                               (ص، 106)

ترکوں کے توسط سے ان کے پیش کردہ آزادیٔ نسواں کے اس منظر کو بھی ملاحظہ کیجئے:

’’عورتوں کو چلنے پھرنے میں عام آزادی حاصل ہے۔ ہر درجہ اور رتبہ کی عورتیں بازار میں نکلتی ہیں۔ سیر گاہوں کو جاتی ہیں۔ دعوت کے جلسوں اور علمی مجلسوں میں شریک ہوتی ہیں۔ ‘‘                                                       (ص، 106)

ترکوں کے اس منظر نامے سے شبلیؔبے حد متاثر تھے ایسے میں تجسس اور بھی بڑھتا ہے اور ذہن میں سوال اُبھرتا ہے کہ شبلیؔ کے سامنے اپنے ہم وطنوں کے علاوہ حالیؔ، ڈپٹی نذیر احمد، مولوی ذکاء اللہ اور نواب اسمٰعیل کی تعلیمِ نسواں سے متعلق کاوشیں تھیں۔ اُن کواِس کا بھی علم تھا کہ 1888ء اور پھر 1891ء میں ایجوکیشنل کانفرنس کے جلسے میں لڑکیوں کے مکتب کے قیام کی تجویز منظور ہو چکی تھی۔ نواب شاہ جہاں بیگم اور نواب سلطان جہاں بیگم کی کوششوں سے وہ بہ خوبی واقف تھے بلکہ سلطان جہاں بیگم کی کاوشوں کو تحریری اور تقریری صورتوں میں سراہتے رہتے تھے۔ ان کے پیشِ نظر شیخ عبداللہ کا 1904ء میں شائع ہونے والا رسالہ ’’خاتون‘‘ بھی تھا جس کے صفحۂ اول پر درج تھا :

’’اس رسالے کا صرف ایک مقصد ہے، اپنی مستورات میں تعلیم پھیلانا اور پڑھی لکھی مستورات میں علمی مذاق پیدا کرنا۔ ‘‘

شبلیؔ نے اس کی اشاعت پر مسرت کا اظہار کیا اور جب ’’خاتون‘‘ 1905ء کے شمارہ میں محمد احتشام الدین خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں  ؎

سنو تعلیم کا زمانہ ہے

فرض پڑھنا ہے اور پڑھانا ہے

ڈھونڈے استانیاں نہیں ملتیں

اِس جہالت کا کیا ٹھکانہ ہے

ہے پڑھانا محال خاتونوں

چودہ بند پر مشتمل اس نظم کا شبلیؔ نے والہانہ استقبال کیا جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ بھی دل سے یہ سب کچھ چاہتے تھے مگر عملی قدم اٹھانے میں کچھ مانع ضرور تھا۔ میں یہاں جنجیرہ خاندان کی جدید تعلیم یافتہ خاتون عطیہ فیضی اور ان کی بہنوں (زہرہ اور نازلی) سے گہرے مراسم کا ذکر کرنا نہیں چاہتا اور نہ ہی ان خطوط کا جن پر محمد امین زبیری اور دیگراہلِ قلم نے خوب خوب حاشیہ آرائی کی ہے لیکن اس جانب توجہ ضرور مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ علی گڑھ، بھوپال، دہلی، لاہوراور اٹاوہ میں خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے منصوبہ بند کام شروع ہو چکا تھا۔ خود شبلیؔ کی موجودگی (12-1911ء) میں جسٹس کرامت حسین نے لکھنؤ میں لڑکیوں کے لیے اسکول کا سنگِ بنیاد رکھ دیا تھا، اس موقع پر بھی شبلیؔ نے خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے کسی بڑے منصوبے کا اعلان نہیں کیا۔ آخر کیوں ؟وجہ تسمیہ بے سبب سہی۔ ہم مطالبہ یا شکوہ کے اہل تو نہیں لیکن یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ انھوں نے جس طرح مغربی اور مشرقی نظامِ تعلیم میں اصلاح و ترمیم کی گنجائش نکالی اور مسلمانوں کو مفید اور مناسب مشورے دیے، کاش وہ عورت اور مرد کے تعلق سے حصولِ علم میں حائل تخصیص و تمیز کے افتراق کو دور کرتے ہوئے کارآمد تجاویز پیش کردیتے تو اِس تشنہ گوشے کے سبب جو تشنگی کا احساس ہوتا ہے، وہ بھی نہیں ہوتا بلکہ اُن کے اِس اجتہادی قدم سے مرودں اور عورتوں کی علمی صلاحیتیں ادب اور تہذیب کے اجتماعی مفاد میں سنگِ میل ثابت ہوتیں اور ہم فخر کے ساتھ تعلیمِ نسواں کے علم برداروں سے کہہ سکتے کہ دیکھو شبلیؔ نے اس جانب بھی پہل کی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔