تعلیم سے آتی ہے اقوام میں بیداری

 عبد الباری شفیق

علم ایک ایسا جوہر ہے جو انسان کو ظلمت وتاریکی کی عمیق غار سے نکال کر روشن شاہراہ اور بلندی کی اوج ثریا پر فائز کردیتاہے، تعلیم سے انسان اور اقوام میں بیداری آتی ہے ،صحیح سوچنے وسمجھنے کا شعور پیداہوتاہے،اچھے اور برے کی تمیز پیداہوتی ہے، اسی تعلیم ہی کے ذریعہ اللہ نے نوع  بشر کے باپ حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی ذریت کو تمام مخلوقات پر فوقیت اور اشرفیت وافضلیت بخشی ہے اور اس کی اہمیت ہی کے پیش نظر اپنے آخری نبی جناب محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)پر وحی کا آغاز لفظ «إقراء»سے کیا، اور اسی کےذریعہ عالم کے درجات کو بلند فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿یرْفَعِ اللہ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ﴾(المجادلۃ:۱۱ ) اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور جنھیں  علم دیا گیا،درجات بلند کر دے گا۔

قرآن واحادیث میں بیشمار مقامات پر علم سیکھنے اور سکھلانے والوں کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے جیسا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا:«خیرکم من تعلم القرآن وعلمه» کہ تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرآن سیکھیں اور دوسروں کو سکھائیں،بلکہ ایک حدیث میں بتایا گیا ہے کہ جس طرح ایک نبی کی فضیلت  اپنی امت پر ہوتی ہے اسی طرح ایک عالم کی فضیلت زاہد پر ہوا کرتی ہے،اور اسی تعلیم ہی کی اہمیت کے پیش نظر غزوۂ بدر کے ان قیدیوں کےساتھ جو فدیہ دینے کی طاقت نہیں رکھتے تھے معاہدہ ہوا تھا کہ وہ مدینہ کے دس دس افراد کو جو لکھنا پڑھنا سکھا دیںگے تو آزاد ہو جائیں گے۔

غرض یہ کہ تعلیم کی اہمیت وضرورت اور اس کے فوائد وثمرات سے دنیا کے کسی ذی روح وذی شعور کو انکار نہیں،کیونکہ تعلیم پر صرف قوم وملت کی تعمیر وترقی کا ہی انحصار نہیں بلکہ اس میں قوم کے احساس وشعور کو جلا بخشنے کی قوت بھی پنہاں ہے،اگر آپ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا دورہ کرکے اور اس کی شرح خواندگی کا جائز ہ لیں گے تو آپ کے سامنے یہ سچ خود بخود واضح ہوجائے گا کہ قوم کی تعمیر وترقی میں تعلیم کس قدر معاون و مددگار ہے، اورموجودہ دورمیں اس کی کتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں انہیں قوموں نے ستاروں پر کمندیں ڈالیں ہیں جنہوں نے تعلیم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ، علم کے حصول کی خاطر کافی پریشانیاں برداشت کیں،اپنے گھر بار اور اعزہ واقارب کوچھوڑا اوراپنے جان ومال کی قربانیاں پیش کی،خوش قسمتی سے آج ہمار املک اوراس کے باشندے بھی دیگر اقوام وممالک کی طرح اس طرف خاطرخواہ توجہ دے رہےہیں اور علم کے فروغ اور تعلیم کو عام کرنے میں کوشاں نظرآرہے ہیں،اور تجربات ومشاہدات سے یہ بات بالکل واضح ہےکہ علم کے حصول ہی میں ہمیں حقیقی خوشحالی مل سکتی ہے اور ہم منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں۔

جہالت جو علم کی ضد ہے جس سے سماج میں، برائیاں اور بے حیائیاں جنم لیتی ہیں جو سماج کا سب سے بڑا کینسر اور مہلک بیماری ہے جس کی اس دنیا میں کوئی قدر وقیمت نہیں ،ایک جاہل اگر سماج میں زندہ بھی ہے تو لوگ اسے مردہ ہی سمجھتے ہیں لیکن ایک پڑھا لکھا ذی شعور اپنی قابلیت وشرافت کی وجہ سے لوگوں کے دلوں پر راج کرتاہے اور لوگ اس کو قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اسکی عزت کرتےہیں،گویا علم ہر موڑ و شاہراہ پر انسان کے لئے مفید ہے اور جہالت تاریکی و نقصاندہ ہے،یہی وجہ ہے امام المتقین،سید الاولیاء حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام علم اور مال کے درمیان تقابل کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

رضینا قسمة الجبار فینا

لنا علم وللجھال مال

(ہم خدائے جبار کی اس تقسیم سے راضی ہیں کہ اس نے ہمارے لئے علم اور جاہلوں کے لئے مال  رکھا۔)

آج جب ہم ملکی و عالمی پیمانے پر حالات کا جائزہ لیتے ہیں تومعلوم ہوتا ہےکہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں معاشرتی خرابیوں وبرائیوں،آپسی چپقلش ونا اتفاقی کی سب سے بڑی وجہ جہالت ہے جس کے خاتمے کی ہمیں ہر طرح سے تگ ودو کرنی چاہئے اور تعلیم کے حصول میں انتھک کوشش ومحنت کرنی چاہئے،اپنے بال بچوں اور پاس پڑوس کے افراد کو اس طرف مائل کرنا چاہئے تاکہ ہمارا معاشرہ ایک پاکیزہ اور صاف ستھرا معاشرہ بن سکے،اور اس کے باشندے امن وسکون اور الفت ومحبت نیز بھائی چارگی کی زندگی گذار سکیں،کیونکہ حصول علم وہ روشن شاہراہ ہے جس پر چل کر ہم اپنی تعلیمی پسماندگی کو ختم کرکے سماج کو روشن مستقبل دے سکتے ہیں ،انہیں تاریکی سے نکال کر اجالے کی طرف رہنمائی کرسکتے ہیں۔

تاریخ اسلام کا ادنیٰ طالب بھی اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ جب تک مسلمانوں نے حصول علم کی طرف اپنی توجہ مبذول رکھی وہ ہمیشہ کامیاب وسرخرو رہے ان کی کامیابی کا ڈنکا چہار دانگ عالم میں بجتارہا ،اور اسی علم ہی کی بدولت وہ پوری دنیا پر حکمرانی کرتے رہے لیکن جیسے ہی انہوں نے اس پاکیزہ رشتہ اور عظیم سرمایہ سے منھ موڑا وہ تنزلی وپستی اور پسماندگی کی اس عظیم کھائی میں جا گرے کہ ان کا نام لینے والا کوئی باقی نہ بچا،اور ذلت و رسوائی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان کا مقدر بن گئی۔

اسی طرح یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تعلیم انسان کی سب سے بڑی دولت اور شرف وعزت کی ضامن ہے ،تعلیم ہی وہ شجرہ مثمرہ ہے جس کے رنگین پھول اورخوشبو دل و دماغ کو معطر کردیتے ہیں اور روح کی تسکین کا ذریعہ بنتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ سماج کا ہر ذی علم طبقہ اپنے نونہالوں کو معیاری تعلیم دلانے کی حتی المقدور سعی کرتاہے اور انہیں ملک وسماج کے اچھے سے اچھے اسکولوں اورکالجوں میں داخلہ دلانے میں ایک دوسرے پر سبقت کرتا ہے تاکہ ان کا لخت جگر اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے بہترین ڈاکٹر ،انجینئر، سائنسداں بن سکے اوراپنے پیروں پر کھڑا ہوکر اپنےوالدین اورگھر والوں کا پیٹ پال سکے۔

لیکن ہم موجودہ نظام تعلیم سے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ہم اپنے بچے کو ایک اچھا ڈاکٹر اورسائنسداں تو بنا سکتے ہیں اور اس کی ذہنی وجسمانی صلاحیت کو تو بڑھا سکتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہم اسے ایک اچھا انسان بھی بنا سکیں، اسے قوم وملت کا ایک بہترین خادم بھی بناسکیں،کیونکہ کالجز و یونیورسٹیز کا آزادنہ ماحول بچوں کی تعلیم وتربیت پر بہت گہری چھاپ چھوڑتا ہے اور بچے ان اثرات سے بہت جلد متائثر ہوکر اپنے مقصد حقیقی کو بھول جاتےہیں،ایسی صورت میں والدین ،گھرکے ذمہ داروں کا ایک اہم فریضہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے نونہالوں کےایام طفلی کے حرکات وسکنات پرکڑی نظر رکھیں اور سب سے پہلے انھیں دینی علم سے روشناس کرائیں،سماج کی برائیوں وخرافات سے آگاہ کریں اور ان کی صحیح تعلیم وتربیت کامنظم بندوبست کریں،اسی میں ہمارے لئے خیر ہے۔

ہم نہ تو دنیاوی علوم کے فوائد کے منکر نہیں اور نہ ہی اس کے حصول کے ،لیکن ہم دینی علوم کے حصول کو فوقیت دیتے ہیں جس کاحاصل کرنا ایک انسان کا بنیادی مقصد ہے اور جو لوگوں کو انسانیت کا درس دیتی ہے اور سماج میں رہنے کا گر سکھاتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔