تعلیم سے متعلق ایک گزارش

عاصم رسول

(سری نگر)

صحیح تعلیم و تربیت قوم و ملت کی تعمیر کے حوالے سے اساسی کردار ادا کرتی ہے۔ بل کہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ قوموں کے عروج و زوال کے تعلق سے  تعلیم و تربیت کی بنیادی اہمیت ہوتی ہے۔ دنیا میں انہی قوموں کا ستارۂ اقبال بلند ہواہے جو صحیح تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوئی ہیں۔ اور وہ قومیں انحطاط کی اتھاہ گہرائیوں میں گری ہیں جو تعلیم و تربیت سے تہی دامن ہوگئیں۔ لہذا اسلام نے بھی پڑھنے، لکھنے او رتعلیم و تربیت کے حصول کے لیے بہت زیادہ زور دیا ہے۔ اس سلسلے میں جناب رسول محترم ﷺ پر نازل ہونے والی پہلی ہی وحی کا پہلا لفظ ’’اقرأ‘‘ یعنی ’’پڑھو‘‘ ہے۔

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام نے تعلیم کو کس نگاہ سے دیکھا ہے۔ حیرت انگیز طور پر جس معاشرے میں جناب رسول محترم ﷺ مبعوث کیے گئے، ان میں بہت ساری برائیاں موجود تھیں۔ وہ شراب بیتے تھے، زنا کرتے تھے، ایک دوسرے کے حقوق پر دست درازی کرتے تھے، خانہ کعبہ کا طواف برہنہ کرتے تھے، اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے تھے، خواتین کے ساتھ زیادتیاں کرتے تھے اور لڑکیوں کے پیدا ہونے پر انہیں زندہ زمین میں گاڑ دیتے تھے۔ غرض  عرب معاشرے کو متنوع برائیوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ بالفرض اگرزمانے کے عقلاء و حکماء سے سوال کیا جاتا کہ خالق کائنات کی طرف سے پہلی وحی کیا ہونی چاہئے تھی جس سے وہ وحی کا آغاز کرتا۔ تو کوئی اندازہ نہیں کرسکتا تھا کہ ’’اقرأ‘‘ سے وحی کی ابتداء کی جاتی۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو جو خرابیاں عرب معاشرے میں اس وقت موجود تھیں ان کی بنیادی وجہ جہالت تھی۔ وہ لوگ جاہل تھے، گنوار تھے، ان پڑھ تھے۔ مگر ان برائیوں کی بنیادی جڑ جہالت تھی جس میں وہ لوگ مبتلا ہوگئے تھے۔ اور جہالت کی ضد علم ہے۔ لہذا ان گمراہیوں کی جڑ کو کاٹنے والی چیز علم تھی۔ یہی وجہ ہے رب العالمین نے ’’اقرأ‘‘ کی صدا سے وحی کا آغاز کیا۔ گویا یہ کارگر اور موثر آغاز ہونے کے ساتھ غیر متوقع ابتداء بھی تھی۔

چناں چہ مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ اس حوالے سے رقم طراز ہیں ’’غار حرا میں نبی امی پر یہ پہلی وحی اترتی ہے (جب کہ چھ سو سال کے طویل وقفہ کے بعد زمین کا آسمان سے بلکہ آسمان کا زمین سے وحی ونبوت کے ذریعہ رابطہ قائم ہوا تھا) تو اس میں عبادت کا حکم اور اللہ کی معرفت اور اطاعت وغیرہ کوئی ایجابی، یا بتوں کے ترک کرنے یا جاہلیت اور اس کے عادات واطوار پر نکیر جیسی کوئی سلبی بات نہیں کہی گئی، اگر چہ یہ سب باتیں اپنی جگہ پر اہم تھیں اور اپنے اپنے موقع پر ان کی وضاحت و تبلیغ کی گئی، مگر کلمۂ ’’اقرأ‘‘ سے اس وحی کا آغاز ہوا۔ ’آپ پڑھیے اپنے پروردگار کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھرے سے پیدا کیا ہے، آپ قرآن پڑھا کیجیے اور آپ کا پروردگاربڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعہ سے تعلیم دی ہے، انسان کو ان چیزوں کی تعلیم دے دی جنہیں وہ نہیں جانتے تھے)۔ اس طرح یہ تاریخی واقعہ ظہور پذیر ہوا جس نے مورخین و مفکرین کے غور وفکر کے لیے نئے اور وسیع آفاق مہیا کیے، اور یہ اس حقیقت کا بلیغ اور واضح اشارہ تھا کہ اس نبی امی ﷺ کے ذریعہ انسانیت اور مذاہب کی تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہوگا جو وسیع و عمیق معنوں میں قرأت(خواندگی) اور پڑھنے لکھنے کا وسیع وترقی یافتہ دور اور علم کی حکمرانی کا عہد زریں ہوگا، اور علم و دین دونوں مل کر نئی انسانیت کی تشکیل وتکمیل کریں گے‘‘(اسلام اور علم ص ۱۵)۔

        دین متین نے محض علم کے حصول پر ہی اصرار نہیں کیا بل کہ اس کو مقصدیت عطا کی۔ علم کو رب العالمین نے اپنی طرف نسبت دی۔ اور لطیف انداز میں بتا یا گیا کہ ’’پڑھو اپنے رب کے نام سے ‘‘۔ یعنی وہی علم معتبر و مستند ٹھہرا جس میں خالق کائنات کی ذات مدنظر رکھی گئی۔ بالفاظ دیگر تمام علوم تب ہی انسانیت کی فوزو فلاح کا ذریعہ بنیں گے جب ان کا سر رشتہ رب سے جڑا ہوگا۔ تمام شعبے درست سمت سفر کریں گے جب رب کے احکامات کے تحت ان شعبوں کو چلایا جائے گا۔ ان شعبوں سے مطلوبہ انسان تبھی نکلیں گے جب ان کو معرفت رب ہوگی، وہ اپنے رب کے سامنے پیشی کا احساس رکھتے ہوں گے۔ یہاں تک کہ قرآنی اور دینی تعلیم حاصل کرنے والے بھی انسانیت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گے جب ان کا مقصد مادیت، جاہ طلبی، مال و دولت نہیں بلکہ رب کی رضامندی ہوگی۔ بد قسمتی سے آج یہ جذبہ ماند پڑچکا ہے۔ علم کو رب کی ذات سے جدا کردیا گیاہے۔ پڑھنے لکھنے کی غایت محض جاہ طلبی، شہرت اور مادیت ٹھہری۔ سوچنے والی بات ہے کہ ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد کا اپنے مریضوں کے تئیں غلط رویہ کیوں ہے؟ وہ اپنی مفوضہ ذمہ داریاں اچھی طرح کیوں نہیں نبھاتے؟ انجینئر حضرات کی معتدبہ تعداد رشوت و غبن کے عادی ہوکر تعمیری مواد میں گڑ بڑ کرکے عوام کو اذیت میں مبتلا کیوں کرتے ہیں ؟ بہت سے پروفیسرز، ٹیچرس اور پڑھانے والوں کا اپنے شاگردوں سے ناروا سلوک اور انتقامی کاروائیاں چہ معنی دارد؟

علی ھذا القیاس۔ ۔ !آخر اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کی اکثریت اپنے مقصد ِ حیات سے ناآشنا کیوں ہے؟ چاہے دینی تربیت گاہوں کے فارغ ہوں یا مروجہ تعلیم گاہوں سے نکلنے والے نوجوان۔ ان کے وجود سے ایسے مثبت کارنامے انجام کے بجائے منفی انداز فکر و علم کیوں سامنے آرہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ تعلیم کی مقصدیت سے ناواقفیت ہے۔ حالاں کہ یہ قریبی دور کی بات ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام اس قدر موثر اور طاقت ور تھا کہ ان سے ایسے رجال کار فراہم ہوئے جو دنیاوی اعتبار سے بھی لائق و فائق تھے مگر ان میں خوف خدا، للہیت، آخرت پسندی، انسانیت نوازی اور معاملہ فہمی بھی بدجۂ اتم موجود تھی۔ اس تعلیمی نصاب سے ایسی نابغہ روزگار شخصیتیں فراہم ہوئیں جنہوں نے مختلف و متنوع میدانوں میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے جو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جائیں گے۔ لیکن اب تعلیم نظام کی دو خانوں میں تقسیم اور مقصدیت سے عاری تعلیم نے انسانیت کو فوائد دینے کے بجائے ایسے دکھ دیے ہیں جن کا تذکرہ بھی وحشت پیدا کردیتا ہے اور امت مسلمہ کے لیے یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ نے بڑی عمدہ باتیں کہی ہیں جنہیں یہاں نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں

’’ انگریز کے زمانے میں جب مسلم معاشرے کی اصل قیادت مسلمانوں کے ہاتھ سے چھن گئی تو اس وقت مسلمانوں کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں تھا کہ وہ اسلامی علوم و فنون کے تحفظ کے لیے ایک خالص دینی نظام تعلیم کے قیام پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ یہ ایک دفاعی حکمت عملی تھی اور امت مسلمہ میں مذہب کی باقیات کو بچانے کا واحد طریقۂ کار یہ تھا کہ مذہبی تعلیم کے نام پر جو کچھ کیا جاسکتاہے، وہ کیا جائے اور جس حد تک مسلمانوں کی مذہبی زندگی کو برقرار رکھا جاسکتا ہے، رکھا جائے۔ اس سے پہلے کبھی بھی ایسا نہیں تھا کہ دینی تعلیم اور دنیاوی تعلیم کے دو الگ الگ نظام موجود رہے ہوں۔ چناں چہ مغلیہ دور میں جس نظام تعلیم اور جن درس گاہوں نے، جس نصاب تعلیم اور جس تعلیمی روایت نے مجدد الف ثانی جیسا شخص پیدا کیا، جن کے بارے میں علامہ اقبال مرحوم کا یہ تعارفی جملہ میں ہمیشہ دہرایا کرتا ہوں کہ :the greatest religious genius produced by muslim India(مسلم ہندوستان نے سب سے بڑا جو مذہبی عبقری پیدا کیا، وہ شیخ احمد سرہندی تھے)، اسی نظام میں نواب سعد اللہ خان بھی تیار ہوا تھا، جو مجدد صاحب کی طرح اس نظام کی پیداوار تھا اور جو سلطنت مغلیہ کا وزیر اعظم بنا، وہ سلطنت مغلیہ جو موجودہ افغانستان، پاکستان، ہندوستان، نیپال، بنگلہ دیش، سری لنگا، بھوٹان، سکم، برما جیسی بڑی بڑی ریاستوں کے بیش تر حصے پر مشتمل تھی۔ اس وسیع سلطنت کے نظام کو اس نے شاہ جہاں کے زمانے میں کام یابی سے چلایا تھا۔ پھر استاد احمد معمار جس نے تاج محل بنایا، یہ بھی اسی نظام کی پیدوار تھا۔ یہ تینوں ایک ہی نظام تعلیم کے ثمرات تھے اور ایک ہی نصاب کے پڑھے ہوئے تھے۔

اب دیکھیے کہ ایک وہ شخص جس نے دنیا کی متمدن ترین سلطنت کو اس کے کام یاب ترین ادوار میں قیادت فراہم کی اور اس کا نظام چلا کر دکھایا، دوسرا وہ شخص جو ہندوستان کی تاریخ کا سب سے بڑا مذہبی عبقری ہے، جس کی فکری گہرائی اور روحانی عظمت کو بیان کرنا بھی دشوار ہے اور جس نے برصغیر کی دینی تحریکات پر اتنا گہرا اثر ڈالا کہ بعد کی کوئی دینی تحریک اور کوئی دینی سرگرمی اس کے اثر اور شخصیت کے احترام سے خالی نہیں ہے، اور تیسرا وہ شخص جس نے دنیا کے سات عجائب میں سے ایک عجوبہ بنایا، یہ تینوں افراد ایک ہی نصاب کے پڑھے ہوئے اور ایک ہی تعلیمی نظام کی پیداوار تھے۔ یہی اسلام کا آئیڈیل اور یہی اسلام کا معیار ہے‘‘(محاضرات تعلیم ص ۲۹۷، ۲۹۸) ۔ اگرچہ ان بلند ہستیوں نے یہ کارنامے مختلف میدانوں میں انجام دیے تاہم یہ ایک ہی نظام تعلیم اور ایک ہی نصاب کے پروردہ تھے۔ اس وقت بھی ضرورت ہے کہ تعلیم کو دوئی سے آزاد کیا جائے۔ کرۂ ارض پر فساد برپا ہونے کی ایک بڑی وجہ تعلیم کی غیر فطری تقسیم بھی ہے۔ آج انسان اس تعلیم کی مدد سے تو فضائوں میں اُڑ رہا ہے اور سمندروں کی گہرائیوں میں اتر رہاہے۔ چاند پر قدم رکھنے کے بعد اب مریخ کو مسخر کرنے کی منصوبہ بندیاں ہورہی ہیں۔ لیکن یہی انسان زمین پرانسان کی طرح چلنے سے عاری ہے۔ اس نے ایسی چیزیں بنائی ہیں جن سے پوری انسانیت لمحہ بھر میں ناپید ہوسکتی ہے۔ تباہ کن ہتھیار کی ریل پیل ہورہی ہے جن سے انسان عدمِ تحفظ کا شکار ہوچکا ہے۔ ممالک ایک دوسرے کو مٹانے کی دھمکیا ں دے رہے ہیں۔ بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرنے والے آپس میں دست گریباں ہیں۔ اس کی وجہ یہ کہ جو تعلیم حاصل کی گئی وہ معرفتِ رب سے عاری ہے۔ ستاروں پر کمندیں ڈالنے والا زمین پربحیثیت انسان کی طرح رہنے سے خود کو عاجز پارہا ہے۔ بقول اقبالؔ

 ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا

اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا

  جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا

   زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا

    اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا

   آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا

        بہر حال یہ جو بحر و بر میں انتشار و فساد کی آگ بڑھکی ہوئی ہے۔ اور تعلیم اور خواندگی کا شور و غوغا برپا ہونے کے باوجود عالم گیر سطح پر انسانیت زبوں حالی کا شکار ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ تعلیم کو خالق کائنات سے الگ کردگیا ہے۔ جس کے نتیجے میں تعلیم گاہیں ذبح خانوں کی شکل اختیار کرچکی ہیں۔ ان سے نکلنے والے افراد کردار، اخلاق، انسانیت نوازی اورعدل و انصاف سے خالی ہوتے ہیں۔ اور یہ صورت حال تب تک تبدیل نہیں ہوسکتی جب تک کہ تعلیم کا رخ درست نہ کیا جائے۔ اور علم کو قدیم و جدید، دنیاوی و مذہبی جیسے غیر عقلی و غیر فطری تقسیم سے باہر نہ نکالا جائے۔

علامہ اقبالؔ کے مقولے پر میں اپنے منتشر خیالات کو سمیٹتا ہوں۔ علامہ فرماتے ہیں ’’جدید تعلیم گاہیں نئی نسل کی آنکھیں کھول کر انہیں حقائق اور معلومات سے تو آگاہ کرتی ہیں لیکن ان کی آنکھوں کو آنسوؤں اور دلوں کو خشوع اور خضوع سے بے گانہ ہی رکھتی ہیں ‘‘۔

٭٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔