تعلیم: مسائل اور امکانات

محمد وجہ القمر

اختصارِ مقالہ:

 تعلیم سیکھنے سکھانے کا ایک عمل ہے یا علم، مہارت، اقدار، تیقن، یقین اور مہذب طریقے کار کو حاصل کرنے کا عمل ہے۔اسے کہانیوں، مباحث، تقاریر، تدریس اور تربیت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے جسے عموماً اساتذہ کے ذریعہ مہیا کرایا جاتا ہے اور اکتساب فیض کے لئے کبھی کبھی ماحولیات و تجربات بھی اہم رول ادا کرتے ہیں جسے ہم رسمی یا غیر رسمی تعلیم کے طور پر جانتے ہیں ۔ اسی مناسبت سے تعلیم ملک کے ارتقا کا ایک اہم جزو ہے اور پوری دنیا کے حالات و کوائف کی تبدیلی میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ لیکن اکثر تعلیم کے حصول میں بہت سی رکاوٹیں آتی ہیں جس کا تذکرہ آگے کریں گے۔ ہندوستانی ماحولیات کے پیش نظر حالیہ سالوں میں اعلیٰ تعلیم کا رجحان بڑھا ہے لیکن آزادی کے بعد بھی اعلیٰ تعلیم کے حصول کا راستہ مسدود نظر آتا ہے اور بہت سارے سوالات کے جوابات اب بھی نہیں ملتے۔ غیر منصوبہ بند طریقے سے اعلیٰ تعلیم کے حصولیابی کے امکانات کو بڑھا دینا، تعلیم یافتہ طبقوں میں بڑھتی بے روزگاری، تعلیمی سوداگری/تجارت، تعلیمی معیار و مقدارکا عدم توازن، مساوات اور ذہانت کی ناقدری اور جہالت وغیرہ۔

یہ چند ایسے تعلیمی ناسور ہیں جو ہندوستانی اعلیٰ تعلیم کو مسلسل کھوکھلا کرتی جارہی ہیں ۔ اسی کے مد نظر ماہرین تعلیم نے اس طرف توجہ دی ہے کہ کیسے ان سارے مسائل کا حل نکالا جا سکے تاکہ مستقبل میں آنے والے بڑے مسائل سے نبرد آزما ہوا جاسکے۔ اسی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کی حصولیابی کے بعد ٹیکنالوجسٹ، سائنسداں، ڈاکٹر، انجینئر، منصوبہ ساز اور تاجروں کی تعداد میں خاصی بڑھوتری ہوئی ہے۔لہذااساتذہ کو اعلیٰ تعلیم کے اصلاحات کے لئے بااختیار بنایا جائے تاکہ دنیاوی اعتبار سے آزاد خیالی اور عالمگیریت( (Libralization and Globlization  کے مطالبہ کو پورا کرنے میں ہندوستان کی حصہ داری ہو سکے۔ اس لئے ابھرتے ہوئے ہندوستانی سماج کے ناگزیر مطالبہ کے اعتبار سے اعلیٰ تعلیم کو جدیدیت، مستقبلی اور تخلیقی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ جدید ہندوستانی سماج کے مطالبات کو بآسانی پورا کیا جاسکے۔

تعارف:

ہندوستان کی طرح کسی بھی ترقی پذیر ملک کے لئے اعلیٰ تعلیم بہت ضروری ہے  اور اسی اعلیٰ تعلیم کی بدولت انسانی و تہذیبی ترقی ہوتی ہے۔ہندوستان کی آزادی سے اب تک اعلیٰ تعلیم پرٹھوس اور منظم نظام کے بجائے صرف تجربات ہی ہورہے ہیں اسی وجہ سے یہاں بڑی تعداد میں ڈاکٹر، انجینئر، سائنسداں اور پروفیسر وغیرہ بڑی تعداد میں ملتے ہیں جن کی پوچھ پوری دنیا میں ہے لیکن خود ہندوستان میں بے روزگاری کے سبب اکثر اعلیٰ تعلیمی صلاحیت کے مالک افراد بیرون ملک کا سفر کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہندستان کے بجائے دوسرے ممالک کی ترقی ہوتی ہے۔ ہندوستان پوری دنیا میں تکنیکی میدان میں دس ملکوں کی فہرست میں شامل ہے اور اس کی پہچان نیوکلیئر پاور اور خلائی پرواز کی وجہ سے ہے۔ اعلیٰ تعلیم ان انسانی مسائل کو پرکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے جن سے انسانی وجود متعلق ہے جیسے سماجی، تہذیبی، اخلاقی، معاشی و روحانی مسائل۔

اعلیٰ تعلیم کے ذریعہ ہی ملک کی تعمیر میں معاون ماہر شخصیات پیدا ہوتے ہیں جن سے ملک کی ترقی بآسانی اور مسلسل ہوتی ہے۔چند سالوں میں ہندوستان دنیا کا عظیم تر ملک بننے والا ہے لیکن نوجوانوں کی صلاحیت کو اعلیٰ تعلیم کے حصول میں استعمال نہیں کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے ملک کی ترقی کا زینہ بمشکل طے ہو رہا ہے۔ نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لئے بے روزگاری دور کرنا ہوگا تبھی جا کر ملک کی ترقی کو صحیح رفتار مل سکے گی ورنہ یہی بے روزگار نوجوان ہندوستانی معیشت کو کمزور کرنے کا سبب بن جائیں گے اور ملک کی ترقی میں حائل روڑہ کا کام کریں گے۔ لہذا اعلیٰ تعلیم کے حصول کو نوجوانوں کے لئے آسان بنانا حکومتوں کا اولین فرض ہونا چاہئے کیوں کہ تعلیم ہی ایک ایسا آلہ ہے جو کسی بھی ملک کی معیشت کا مضبوط ترین ستون ہو سکتا ہے اور اسی وجہ سے تہذیبی، سماجی اور معاشی ترقی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

اعلیٰ تعلیم کے حصول میں موجود رکاوٹیں :

اعلیٰ تعلیم کے حصول میں بہت سارے مسائل درپیش ہیں جن کی وجہ سے پوری دنیا قحط الرجال((Lack of eligible persons کا شکار ہے اور ملکی و بین الاقوامی سطح پر بہترین کارکردگی سے مستثنیٰ نظر آتے ہیں ۔ میں چند ایسے مسائل جن سے ہندوستانی تعلیم دوچار ہے پیش کرنا چاہتا ہوں :

1۔ مسائل کے استنباط میں وقت کا ضیاع:  اعلیٰ تعلیم میں درپیش مسائل کے استنباط میں بیدار مغز اور ماہرین تعلیم بہت سے سیمینار، ورکشاپ اور بڑی بڑی کانفرنسیں منعقد کرتے ہیں اور بہترین عناوین منتخب کئے جاتے ہیں لیکن جب تمام ماہرین کانفرنس ہال میں پہنچتے ہیں تو ہر شخص انفرادی طور پر ایک دوسرے سے تعارف کراتا نظر آتا ہے، آپس میں ویزیٹنگ کارڈ تبدیل کرتے ہیں، اور اپنے مستقبل کی تابناکی کی فکر لئے ایک دوسرے کو خیرباد کہہ جاتے ہیں اور اخیر میں سیمینار یا کانفرنس کا انعقاد کرنے والے منتظمین تمام مہمانان کا شکریہ ادا کرکے اطمینان کی سانس لیتے ہیں — اس طرح مسائل کو سامنے لانے اور اس کا حل پیش کرنے کی خاطر بیدار مغز اور ماہرین کے اکٹھا ہونے کا مقصد فوت ہوکررہ جاتا ہے۔ہمیں سب سے پہلے اس طرف دھیان دینا ضروری ہے۔

2۔ معیاری تدریس میں کمی: تعلیم و تعلم کے معیار میں لگاتار کمی کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کے حصول میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہے کیوں کہ فیکلٹی کی کمی، غیر معیاری تعلیم، قدیم طریقہ تدریس، قدیم طرز پر مبنی نظام تعلیم، جوابدہی کی کمی، تحقیق کی کمی وغیرہ اعلیٰ معیاری تعلیم میں رکاوٹ کی بڑی وجہیں ہیں ۔

3۔ تعلیم و روزگار میں غیر توازن:  Nasscom 2013   کے سروے کے مطابق  19 فیصد طلبا و طالبات اعلیٰ تعلیم میں داخلہ پاتے ہیں اور 3.5   فیصد ہی روزگار سے جڑ پاتے ہیں جس کی وجہ سے ہر سال 20  سے 21  فیصد طلبا و طالبات کا اعلیٰ تعلیم سے کنارہ کشی اختیار کرنا ملک کے مستقبل کے لئے بہت خطرناک ہے جب کہ ہندوستان دنیا کا  17سے 19 سال کے جوانوں کی آبادی والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اگر ایسا ہی رہا تو ہندوستان کی ترقی روز بروز کم ہوتی چلی جائے گی اور ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ہونے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔

4۔ اعلیٰ تعلیم کی معاشی بد حالی: ہندوستانی نظام تعلیم میں اعلیٰ تعلیم پر توجہ کم مرکوزہوپاتی ہے۔ اس کی بالعموم وجہ اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مہنگائی ہے اور اسی وجہ سے مغربی ممالک کی طرح ہندوستانی یونیورسیٹیاں تحقیق و تصنیف پر بہت کم خرچ کرپاتی ہیں۔ حال تو یہ ہے کہ صوبائی سطح پر ہو یا ملکی سطح پر تعلیم پر  20  سے 30   فیصد کا بجٹ ہی پیش ہوتا ہے اور وہ بھی زمینی سطح پر خرچ نہیں ہوپاتا۔ لہذا بہت زیادہ مہنگی تعلیم ہونے کے نتیجے میں مشکل سے 15  سے 20  فیصد افراد ہی اعلیٰ تعلیم کا حصول کر پاتے ہیں ۔

5۔ قدامت پسندانہ طریقہ تعلیم اور ہندوستان کی شناخت خدمت گار کی حیثیت سے :  موجودہ نظام تعلیم میں عالمی سطح پر جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اس کے مطابق ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کو مؤثر بنانے کے طریقہ کار پر منصوبہ بندی نہیں کی جارہی ہے بلکہ اب بھی پروفیسروں کے ذریعہ  زیادہ تر جگہوں پربورڈ اور مارکر کا استعمال ہی کیا جارہا ہے جب کہ موجود تعلیمی فلسفہ سمعی و بصری طریقہ تعلیم پر زور دیتا ہے۔ لہذا اساتذہ کا موجودہ طریقہ تعلیم کے مطابق اپنے آپ کو اپڈیٹ کرنا لازمی ہے تاکہ مؤثر تعلیم فراہم کی جا سکے۔دوسری جانب ہندوستان کی پہچان ایک دماغی سپلائر (  (Mind Supplierکی ہوتی جارہی ہے۔ جب سے  I.T  اور  B.P.Oجیسے تجارتی منڈی کی دھوم مچی ہے ۔ ہندوستان کا اکثر کالج اور یونیورسیٹیاں انھیں تجارتی منڈیوں سے رابطہ کرکے اپنے طلبہ و طالبات کو روزگار بہم پہونچانے کی ہوڑ میں مسابقت کرتی نظر آرہی ہیں جب کہ ان I.T اور  B.P.O جیسے سیکٹرکا ان طلبا و طالبات کے نصابی تعلیم سے کوئی رابطہ نہیں ہے جس کی وجہ سے تحقیقی و تصنیفی عمل پر گہرا اثر مرتب ہو رہا ہے اور محدود تربیت کے ذریعہ انھیں محدود وسائل تک قید کردیا جاتا ہے– یہ ہندوستانی ذہانت کو بالکل زنگ آلود کر رہا ہے اور مستقبل میں اس کے زہر آلوداثرات مرتب ہونے کے امکان ہیں ۔

6۔ تعلیم کی نجی کاری:  موجودہ دور میں تعلیمی نجی کاری نے بنیادی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جیسے تخلیقی، استدراکی اور معیاری تعلیم لیکن تعلیم کی نجی کاری سے مہنگائی بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کا حصول مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔معاشی نظریات کے مطابق آزاد خیال اور عالمگیریت کے قائل افراد میں اس کی پذیرائی ہوتی ہے جب کہ ہندوستان میں پبلک اور پرائیویٹ ادارے ایک جیسا ہی کام کرتے ہیں ۔ہندوستان میں تقریباً پچاس فیصد پرائیویٹ اداروں سے اعلیٰ تعلیم مہیا کرائی جاتی ہے جو یقیناً مہنگی ہوتی ہے۔ اور ایسی حالت میں جب کہ حکومتوں کا تعاون پرائیویٹ اداروں کو نہیں ملتا تو سستی تعلیم کا حصول ممکن نہیں ۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم مہنگائی کی بھینٹ چڑھ چکا ہے اور اگر اسے حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے حکومتوں کی طرف سے مفت نہ کیا گیا تو مستقبل تاریک نظر آرہا ہے نیز   اسے بے جا سیاسی اور سماجی مداخلت سے پاک کرنا اشد ضروری ہے۔

7۔ متعینہ سہولیات اور آموزشی پروجیکٹ کی کمی:  ہم میں سے بہت سے لوگ بہتر اداروں میں تعلیم تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن پوری دنیا بہتر طریقہ تعلیم کی فراہمی میں قاصر ہے اور علاقائی طور پر تعلیم کو مربوط کرنے میں پیچھے رہ جاتی ہیں ۔ اس کی چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ ہندوستان کی کوئی بھی یونیورسیٹی دنیا کی سرفہرست 100 سے 200  یونیورسیٹیوں میں بھی نہیں ہے اور ہندوستان میں بہت سی یونیورسیٹیاں ایسی بھی ہیں جہاں عمومی سہولیات کی کمی ہے اور کلاس روم کی کمی بھی ہے اور وہاں بہت سارے طلبا و طالبات انٹرنیٹ اور وائی فائی کی سہولیات سے اب بھی محروم ہیں ۔ ہندوستان میں طلبا و طالبات کو کتابوں کے بوجھ اٹھانے کی مشق کرائی جاتی ہے لیکن پروجیکٹ کی بنیاد پر انھیں تعلیم فراہم کرنے میں کمی رہ جاتی ہے۔مثال کے طور پر انجینئرنگ اور ڈاکٹریٹ کے طلبا و طالبات کو لاکھوں صفحات پڑھنے کے باوجود نوکریاں نہیں مل پاتیں اور وہ بے روزگاری کی مار جھیلتے ہیں یا پھر پرائیویٹ اداروں میں ان کی صلاحیتوں کا استحصال کیا جاتا ہے اور تقریباً 85 فیصد گریجویٹ طلبا و طالبات بے روزگار رہ جاتے ہیں کیوں کہ ان کی تعلیم اور مختلف کمپنیوں کی ضرورتوں کے درمیان بہت فرق ہوتا ہے۔جب کہ انھیں موجودہ دور کی تکنیکی صلاحیتوں کا ماہر ہو کر ملک و سماج کو اپنی شراکت دینا چاہتے ہیں ۔

8۔ کوٹا سسٹم (سیٹوں کی قید): ریزرویشن  اور کوٹا سسٹم کی قید کی وجہ سے تعلیم کے معیار میں بہت گراوٹ آئی ہے۔ کوٹا سسٹم میں لائق امیدوار کو چاہتے ہوئے بھی نہیں لیا جاسکتا ہے جب کہ غیر مناسب یا غیر لائق امیدوار کو جگہ مل جاتی ہے۔

رکاوٹیں :

ہندوستان دنیا کا عظیم اور واحد ملک ہے جو بڑی تعداد میں اعلیٰ تعلیم کا گہوارہ ہے اور پوری دنیا کی ضرورتوں کی تکمیل کی کوشش کرتا ہے۔ ساتھ ہی یہاں موجود مختلف مذاہب، تہذیب و تمدن، جغرافیائی و ماحولیاتی فرق اور ذات پات جیسے بڑے مسائل سے جوجھ رہا ہے۔ چند مسائل پیش خدمت ہیں :

1۱۔ ہمارا متفاوت طریقہ تعلیم:  تعلیمی اداروں کے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستان جیسی گنگا جمنی تہذیب کی جگہ پر جغرافیائی، شہری و دیہاتی، غریب و امیر کی مطابقت کے ساتھ طریقہ تعلیم کو مروج کرے اور مفید تعلیمی نظام کو لاگو کر سکے۔

2۔ سیاسی مداخلت: بہتیرے ادارے ایسے ہیں جن کے انتظام و انصرام میں قد آور سیاسی لیڈروں  اور بڑے تاجروں کی مداخلت ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے مقصد کے مطابق نوجوان اور باصلاحیت طلبا و طالبات کی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہیں اور ان کے جذبات کا استحصال کرتے ہیں نتیجتاً طلبا و طالبات کی بڑی جماعت اپنے مقاصد کو پس پشت رکھ کر سیاسی میدان کو اپنا مستقبل بنانے پر آمادہ ہوجاتے ہیں ۔

3۔ معاشی مسائل: ہندوستان جیسے وسیع و عریض ملک میں یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کا سامنا تقریباً 75   فیصد طلبا و طالبات کر رہے ہیں ۔معاشی تنگ دستی کی وجہ سے بہت سارے با صلاحیت افرا د بھی اعلیٰ تعلیم کے حصول میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور اس کی وجہ مہنگائی، لگژری اشیاء کا استعمال، بنیادی ضروریات میں کمی، کرپشن اور خود غرضی وغیرہ ہیں اور اس مسئلہ کو  "Earn while learn”  کے فارمولے سے حل کرنا ممکن نہیں ہے۔

4۔ اخلاقی اقدار کی کمی:  سائنس، تکنیک اور تجارتی منڈیوں کی روز افزوں ترقی اور بڑھتی ہوئی تعداد ہماری تہذیب و تمدن اور اخلاقی و سماجی اقدار کے لئے بہت بڑا خطرہ ثابت ہو رہی ہیں ۔جسے ہم نوجوانوں اور کم سن بچوں میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ وہ اقدار کی روایات سے باغی ہوکر اپنی زندگی کو بے تکے انداز میں جینا پسند کرتے ہیں جس کا نتیجہ اخلاقی اقدار کی گراوٹ ہے۔

مفید مشورے:

چند مفید مشورے پیش خدمت ہیں جو اعلیٰ تعلیم کے فروغ میں کسی بھی حکومت، کمپنی، تعلیمی ادارے، والدین اور طلبا و طالبات کا خواب ہو سکتے ہیں ۔

1۔ طلبا مرکوز تعلیم اور متحرک طریقہ کار:  اعلیٰ تعلیمی طریقہ کار میں مناسب تبدیلی کی ضرورت ہے اور اسے مکمل طور پر  Learning to learn, Learning to do, Learning to be,   اور  Learning to become   کے فارمولے کو زمینی سطح پر لازمی قرار دینا۔ متحرک تعلیمی طریقہ کار اساتذہ اور طلبا و طالبات سے مثبت  رویوں اور نئی مہارتوں کو بروئے کار لانا چاہتا ہے۔لکچر والے طریقہ کار کے ماتحت بچوں پر کم تناؤ، خودکار مطالعہ، اساتذہ و طلبا کے آپسی تعلقات، سیمینار اور ورکشاپ کا ہونا لازمی کیا جانا چاہئے اور فاصلاتی تعلیم کو مروج کرنا چاہئے۔

2۔ امتحان میں اصلاحات :  امتحانات کی اصلاحات بتدریج ہونی چاہئے۔ وہ اس طرح کہ سہ ماہی، شش ماہی اور سالانہ امتحانات کی جگہ طلبا و طالبات کی صلاحیتوں کی مسلسل جانچ کا نظم ہونا چاہئے یعنی  Semester system بہتر اور معیاری اصلاحات کے لئے مفید ثابت ہوگا۔

3۔ بین الاقوامی تعاون: ہندوستانی یونیورسیٹیاں تہذیبی و ثقافتی، تحقیق و تصنیفی، ایجادات، تدریس، انسانی وسائل کے فروغ میں بہتر معاونت کرتی ہیں  جب کہ بین الاقوامی سطح کی یونیورسیٹیاں ترسیلات و ٹرانسپورٹ کو فروغ دیتی ہیں اور ایسی سہولیات مہیا کرنے کی کوشش کرتی ہیں جس سے مطمئن زدہ تعلیمی ماحول پیدا ہوسکے۔

4۔ یونیورسیٹیوں کی تعداد میں اضافہ:  ہندوستانی آبادی کے لحاظ سے یہاں یونیورسیٹیوں کی تعداد بھی زیادہ ہونی چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد اعلیٰ تعلیم سے فائدہ اٹھا سکیں ۔اسی سلسلے میں  2005؁ء میں نیشنل نالج کمیشن بنا جس کی سفارشات میں  2015 ؁ء تک  1500یونیورسیٹیوں کے قیام کی بات کہی گئی تھی تاکہ  15 فیصد داخلہ میں اضافہ ہو سکے۔ لیکن اس پر مکمل عمل پیرا نہیں کیا جا سکا۔

5۔ بین ثقافت پروگرام : تعلیم کے ساتھ ساتھ ہندوستان یا بیرون ہند کے سیاحتی و تاریخی مقامات کی سیر تہذیب و ثقافت کے فروغ میں ممد و معاون ثابت ہوگی۔ حکومتوں کو یونیورسیٹیوں اور اداروں کو تعاون فراہم کرنا چاہئے تاکہ یہ مروج ہوسکے اور طلبا و طالبات میں ایک دوسرے کی ثقافت، تہذیب، آرٹ، ادب، مذاہب، تکنیکی ترقی اور انسانی ترقیوں کو بآسانی جاننے کی للک پیدا ہو۔

6۔ معیار کے حصول کے لئے منصوبہ بندی:  ماہرین تعلیم و انتظامیہ کم سے کم تین سالوں میں ہر ادارے کا بخوبی اور پہلو در پہلو معائنہ ضرور کریں تاکہ معیاری تعلیم کے فروغ میں شفافیت آسکے۔ نجی اور پرائیویٹ اداروں کو آگے بڑھ کر اعلیٰ تعلیم کے فروغ میں حصہ لینا چاہئے اور ہمیشہ اچھے گریڈ لینے کی کوشش میں سرگرداں رہنا چاہئے۔

7۔ عالمی معیار کی تعلیم:  ہندوستانی حکومت بیرون ملک تعلیم و تعلم کو فوقیت نہیں بخشتی جب کہ مغربی اور یوروپی ممالک اس مقصد کے تحت اچھا خاصہ فنڈ مہیا کراتے ہیں اور اپنے یہاں آف لائن اور آن لائن دونوں طریقوں پر تعلیمی سہولیات مہیا کراتے ہیں ۔ ہندوستان کو بھی بین الاقوامی طرز کا نصاب مہیا کراکر اعلیٰ تعلیم کو فروغ دینا چاہئے۔

8۔ شخصیت کا فروغ :  تعلیم و تعلم سے شخصیت کا بالکلیہ فروغ ہوناچاہئے تاکہ عالمی پیمانے پرہر سطح پر کامیابی مل سکے۔ بے روزگاری دور کرنے کے لئے تعلیم کو روزگار سے جوڑنا نہایت ضروری ہے تبھی جا کر ہر فرد معیاری تعلیم کے حصول میں اور شخصیت کے فروغ میں دلچسپی لے گا۔ عالمی سطح پر زیادہ روزگار مہیا کرانے اور تشخص کے لئے   BPO  جیسی کمپنیاں زیادہ آسان اور کارگر ثابت ہو سکتی ہیں ۔

9۔ معیاری لائبریری کا قیام:  تعلیمی اداروں میں خصوصاً یونیورسیٹیوں میں مثالی لائبریریوں کا ہونا لازمی کرنا چاہئے تاکہ منفرد و نایاب کتابوں کی موجودگی طلبا و طالبات کو تحقیقی و تصنیفی میدان میں آگے بڑھنے کی کمک دہی کریں گے۔ساتھ ہی ساتھ لائبریریاں آن لائن بھی ہوں تاکہ طلبا وطالبات کے لئے علم کا حصول آسان تر ہوسکے۔

خلاصہ

گویا ہندوستان کو  ’اعلیٰ تعلیم‘  جیسے پہاڑی چوٹی پر پہنچنے کے لئے مختلف گنجلک وادیوں اور پہاڑوں جیسے مسائل سے گزرنا ہوگا جسے بیان کیا گیا ہے۔ ہمیں ایک قومیت کی حیثیت سے اعلیٰ تعلیم میں مثبت فروغ کی کوشش میں تمام مسائل کا سامنا بحسن و خوبی اور پر عزم طریقے سے کرنا ہوگا تبھی جاکر چھوٹے موٹے اور شاذ و نادرمسائل کا بآسانی حل ہوسکے گا اور بڑے مسائل سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت پیدا ہوسکے گی کیوں کہ حکومتیں منفرد طور پر اس مشکل ترین کام کو سر انجام نہیں دے سکتیں بلکہ ہم تمام باشندگانِ ملک کوایک تحریکی بنا ڈالنی ہوگی۔خصوصاً نوجوانوں کو آگے آنا ہوگا اور متحرک و فعال کردار ادا کرنا ہوگا اور طبقاتی تقسیم، مذاہب کی تفریق، معاشی، سیاسی اور سماجی رکاوٹوں جیسے درپیش چیلنجز کو ختم کرکے ملک کی ترقی میں حصہ دار بننا ہوگا۔

حوالہ جات:

1- Higher Education in India: issues, concerns and new directions.

http:// www. ugc.ac.in/pub/heindia.pdf

2- Ramesh G. Indian Higher Education and the Challenges of sustainability: An analytical Note. International Journal of Social Science and Interdiscipilinary Research 2013; 2(a)

3- Bhatia K, Dash MK. National Knowledge Commission- A step towards India’s Higher Education Reforms on India’s Higher Eucation. International Research Journal of Finance and Economic 2010; 53: 469.

4- Joshi K, Vijay K. Indian Higher Education : Some Reflections. Journal of Intellectual Economics 2013; 7(15): 42-53

5- Arunachalam P. Higher Education Sector in India: Issues and Imparatives. Journal of Global Economic 2010; 6, (4)

6- www. linkedin.com/problems with the indian education system.

7- University Grants Commission (UGC) released a report ” Higher education in India at a glance.

تبصرے بند ہیں۔