تعلیم نسواں

الطاف جمیل شاہ ندوی

تاریخ کے ان حقائق سے انکار ممکن نہیں ہے کہ کسی بھی قوم کو مجموعی طور پر دین سے روشناس کرانے، تہذیب وثقافت سے بہرہ ور کرنے اور خصائل فاضلہ وشمائلِ جمیلہ سے مزین کرنے میں اس قوم کی خواتین کا اہم اورمرکزی کردار رہاہے اور قوم کے نونہالوں کی صحیح اٹھان اور صالح نشوونما میں ان کی ماو ¿ں کا ہم رول ہوتا ہے۔اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہے۔ اس لیے شروع ہی سے اسلام نے جس طرح مردوں کے لیے تعلیم کی تمام تر راہیں وا رکھی ہیں ان کو ہر قسم کے مفید علم کے حصول کی نہ صرف آزادی دی ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے، جس کے نتیجے میں قرنِ اول سے لے کر آج تک ایک سے بڑھ کر ایک کج کلاہِ علم وفن اور تاجورِ فکر وتحقیق پیدا ہوتے رہے اور زمانہ ان کے علومِ بے پناہ کی ضیاپاشیوں سے مستفیض ہوتا رہا۔بالکل اسی طرح اس دین حنیف نے خواتین کو بھی تمدنی، معاشرتی حقوق کے بہ تمام وکمال عطا کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی حقوق بھی اس کی صنف کا لحاظ کرتے ہوئے مکمل طور پر دئے۔ چنانچہ ہر دور میں مردوں کے شانہ بہ شانہ دخترانِ اسلام میں ایسی باکمال خواتین بھی جنم لیتی رہیں، جنھوں نے اطاعت گزار بیٹی، وفاشعار بیوی اور سراپا شفقت بہن کا کردار نبھانے کے ساتھ ساتھ دنیا میں اپنے علم وفضل کا ڈنکا بجایا اور ان کے دم سے تحقیق و تدقیق کے لاتعداد خرمن آباد ہوئے۔

خواتین کو کمزور حقیر سمجھنا عہد جاہلیت کے شرمناک رواجوں میں سے ایک ہے اسلام نے جدید ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد رکھی جہاں حقوق کو غضب کرنا۔ ظلم وجبر تکبر۔ طاقت کے بے جا استعمال کو ممنوع قرار دیا گیا بیٹیوں کی ولادت کو باعث ِشرم سمجھنا اور اس جیسے دیگر اطوار کی حوصلہ شکنی بھی کی۔انسان تو انسان بلکہ ہر جاندار کے حقوق کا احترام سکھایا۔معاشرہ مرد کا ہی سہی۔ کیا کبھی بھی یہ ثابت کیا جاسکا کہ اس مرد کر معاشرے کی تشکیل کے ذ مے داری میں کبھی عورت کا کوئی عمل دخل نہیں رہا؟صنف نازک کہلانے والی یہ مخلوق اپنے آہنی ارادوں اور انقلابی عزم وہمت کا پیکر ہونے کے باوجود وسیع القلبی۔ مہربانی اور درگزر جیسی خصوصیات کا مجموعہ ہے۔ ان کے حقوق کی پاسداری کی ان کے نام افق کی بلندیوں تک پہنچے۔نظامِ قدرت میں مرکزی کردار عورت ہیں اورعورت کے بغیر دنیا نا مکمل ہے عورت ممتا کا ساگر ہے تو محبت کا دریا بھی ہے ایک بیٹی ہے تو اپنے ماں باپ کے لئے انکی عزت پر آنچ نہ آنے دینے والی بہن ہے تو ساتھ ہی ہنسی خوشی اپنی جاگیر بھائی کو دے دینے والی اور جب ماں ہے تواللہ کے لئے محبت میں مثال بن جاتی ہیں۔

تاریخ میں خواتین اسلام کے نمایاں اور واضح نقوش نظر اتے ہیں۔ نبوت جیسی اہم ذمہ داری کو نبھانے اور ثابت قدمی کے ساتھ دعوت الٰہی کو عام کرنے میں حضرت خدیجہ ؓ حضور ﷺ کی حوصلہ افزائی ہی نہیں بلکہ سب سے پہلے ایمان لاکر ان کی صداقت و امانت داری کی شہادت اور غیر متزلزل ستون بن کر آپ کو سہارا دیتی ہیں۔قرآن کریم نے ( ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم ) کہہ کرمرد اور عورت کے مابین کسی اور بنیاد پر فوقیت کی جڑیں کاٹ دیں اور یہ اعلان کر دیا کہ تم میں سے اللہ کے نزدیک وہی معزز وقابل احترام ہے جو زیادہ متقی و پرہیزگارہو۔

آج ہمارے معاشرے عورتوں کے تعلق سے اسلام سے قبل کی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ خواتین کے بنیادی حقوق غصب کئے جارہے ہیں، انہیں ناقص العقل، فطرتاضعیف وناتواں گردانا جاتا ہے۔اسلامی تعلیمات تاریخ کی داستان بن کر محفلوں وجلسوں میں تو دہرائی جانے کے لئے باقی رہ گئی ہیں لیکن عملی طور پر انہیں بروئے کار لانے کی جدوجہد نہیں کے برابر ہے، بلکہ عملی مظاہرے قول کے برعکس نظر آتے ہیں۔تنگ نظری کی فضا اب تک چھائی ہوئی ہے، آج بھی خواتین کو اپنی زندگی کے فیصلے لینے کا کلی اختیار حاصل نہیں ہے، آج بھی لڑکیوں کے تعلق سے والدین کے برتاو ¿ میں واضح فرق نظر آتا ہے، لڑکوں کو تو اعلی سے اعلی تعلیم دلانے کیلئے والدین رات دن ایک کردیتے ہیں اور اپنی گاڑھی کمائی کا بیشتر حصہ ان کی تعلیم پہ لگا دیتے ہیں، لیکن جب لڑکیوں کی تعلیم کی بات آتی ہے تو یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ ان کو اعلی تعلیم کی کیا ضرورت ہے۔وہ اپنے حققوق کی حصولیابی کے لئے گھروں میں سسکتی رہتی ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کے بجائے ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔  نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو صلاحیت ان میں ابھر کر سامنے آنے والی تھی وہ کہیں نہ کہیں دب کر رہ جاتی ہے۔  اور خود اعتمادی کا قیمتی سرمایہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔  یہاں تک کہ ان کے ذہنوں میں یہ بات پیوست ہو جاتی ہے کہ انکا یہی مقدر ہے۔
اس بات پہ تو زور دیا جاتا ہے کہ ماں کی گود بچوں کے لئے سب سے پہلی درسگاہ ہے لیکن اس درسگاہ کا معلم وہ ہے جو خود اپنا فیصلہ نہیں کر سکتا۔آج تک خواتین اپنے مسائل دریافت کرنے کیلئے مردوں کی محتاج ہیں۔ خواتین کے تعلق سے تنگ نظری کے مظاہرہ ہمارے معاشرے میں بے شمار ہیں اور ظلم کی انتہا اس وقت دیکھنے میں آتی ہے جب اس تنگ نظری کو مذہب کا نام دے دیا جاتا ہے۔ جب خواتین کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو اپنے عیوب پر پردہ ڈالنے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نظر نہیں آتا کہ مغربی تہذیب کا ماتم کیا جائے۔ گرچہ مسلم معاشرے میں طلاق کی شرح کم ہے، لیکن ان مطلقہ خواتین کا کون ذمہ دار ہوگا جن کا کوئی پرسان حال نہیں اگر وہ اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کریں تو یہ کہہ دیناکافی نہیں ہے کہ اس کے پیچھے غیروں کیا زش ہے، بلکہ ہمیں وقت کی نزاکت کو سمجھنا ہوگا۔  حقائق سے چشم پوشی کے بجائے انکا صحیح حل تلاش کرنا ہوگا۔ قرآن وسنت نے خواتین کو جو حقوق عطا کئے ہیں۔ انہیں ان سے محروم کر دیاگیا ہے،کیا یہ تلخ حقیقت نہیں کہ اگر خواتین میراث میں اپنے حقوق کی بات کرتی ہیں تو گھر والوں کے چہرے پہ شکن پڑنے لگتی ہے۔

پس چہ باید کرد

ایسے پر آشوب اورہلاکت خیز ماحول میں بھی اگر ہوش کے ناخن نہ لیے گئے، اور لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کو بھی ”مثَقَّف اور ”روشن خیال“ بنانے کا مخلوط طریقہ کار یوں ہی برقرار رہا، تو ہرنیاطلوع ہونے والا سورج بنتِ حوا کی عزت وناموس کی پامالی کی خبرنو لے کرآئے گا اور پھر دنیا بہ چشم عبرت نگاہ دیکھے گی کہ وہ مقامات، جو انسان کو تہذیب وشائستگی اور انسانیت کا درس دینے، قوم ووطن کے جاں سپار خادم اور معاشرے کے معزز وکامیاب افراد تیار کرنے کے لیے منتخب کیے گئے تھے؛ محض حیوانیت وبہیمیت اور شہوت رانی وہوس کاری کے اڈے بن کر رہ گئے۔ (لاقَدَّر اللّٰہ ذلک)

جامعہ مہد المسلمات

خواتین کو تعلیم دی جائے، اسلام قطعاً اس کی مخالفت نہیں کرتا؛ بلکہ وہ تو اس کی حد درجہ تاکید کرتا ہے لیکن یہ ملحوظ رہے کہ ان کی تعلیم وہی ہو، جو ان کی فطرت، ان کی لیاقت اور ان کی قوتِ فکر وادراک کے مناسب ہو اور ان کی عفت کی حفاظت میں معاون ہو، نہ کہ ایسی تعلیم، جو انھیں زمرئہ نسواں ہی سے خارج کردے اور شیاطین ± الانس کی درندگی کی بھینٹ چڑھا دے ایسے میں ایسی خواتین قابل ستائش ہیں جو گر علمی میدان مین کسی سطح پر کوئی قابل تعریف و قابل ستائش کام انجام دیں ہمیں بہرحال ان کی حوصلہ افزائی کرنے میں پہل کرنی چاہئے جہاں اطراف عالم میں خواتین نے کار ہائے نمایاں انجام دے وہیں ہم گر اپنی وادی پر آشوب کی بات کر یں تو یقینا ہم اپنی بہن بیٹیوں پر فخر محسوس کرسکتے ہین جنہوں نے اس ظلمت کے نرغے میں رہ کر بھی علم و ادب کی شمع جلائے رکھی جہاں اور بہن بیٹیاں ہیں وہیں ہم ایک ایسی بیٹی کی بات کرنے میں خوشی محسوس کریں گئے جس کی کاوش قابل تعریف و ستائش ہے جس نے اکےلئے ہی مشعل علم و ادب اٹھا کر ایک سے ایک بہترین چراغ جلائے جس نے اپنی انگوٹھی فروخت کرکے علم کی پیاسی بیٹیوں کے لئے درس و تدریس کا انتظام کیا میری مراد جامعہ مہد المسلمات کی موسس مبینہ بہن سے ہے اپنے مادری وطن سوپور میں ایک عام سے مکتب سے شروعات کرنے والی یہ بہن مسلسل جدوجہد کرتی رہی خواتین کے لئے مکاتب کا جال پھلایا جہاں ملت کی بیٹیاں اپنے لئے علوم اسلامیہ کی پیاس بجھانے چلی آتی۔ آہستہ آہستہ ان ہی مکاتب نے ایک ادارے کی شکل اختیار کی جس کے لئے گوناں گوں مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑا پر یہ ملت کی بیٹی ہر درد و کرب سے بے نیاز ہوکر اپنے اس گلشن کی آبیاری کرتی رہی۔ جہاں اطراف و اکناف سے غریب یتیم لاچار بیٹیاں آکر سکون کی سانس لینے لگیں۔ اب رب الکریم نے جو دستگیری کی تو سرینگر سوپور میں ایک ہی نام سے دو ادارے شروع ہوئے (اس وقت علاقہ سوناواری میں تیسری شاخ کی شروعات کی گئی جب یہ تحریر لکھی جارہی تھی )جو رب الکریم کی رحمتوں کے سہارے تعلیمی میدان میں نور کی زیاں پاشیاں پھیلانے میں مشغول ہیں۔

تعلیمی سرگرمیوں میں دوسری طرف حالات کی مار کھا رہی بہن بیٹوں کا کرب محسوس کرتے ہوئے اس ملت کی بیٹی نے انصار النساءکے بینر تلے ایک اور کارنیک انجام دیا۔ غریب و لاچار بیواو ¿ں کا ہاتھ بٹایا جائے ان کی ڈھارس باندھی جائے۔ انہیں سہارا دیا جائے ان کی مالی معاونت اور اخلاقی تربیت کا انتظام کیا جائے ہم بخوبی اس بات سے واقف ہیں کہ یہاں ہماری وادی کشمیر میں ایسی خواتین کی کثیر تعداد ہے جو مختلف مسائل کا سامنا کررہی ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسی خواتین زیادہ دیر تک حالات کی مار برداشت نہیں کر سکتی۔ میں اپنے اس عزیز بہن کی کاوش کو امت مسلمہ خاص کر کشمیر کے مسلمانوں کے لئے باعث فخر کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ہماری اس بہن نے ان بے سہاروں کا سہارا بننے کے لئے اپنی کاوشوں کو شروع کرکے اس کے نتائج بھی حوصلہ افزاءبتائے۔ جہاں ایسی بیسیوں بیٹیوں کی معاونت کی گئی جو ابتر سے ابتر حالات کی شکار تھیں۔ باجی اپنے بارے میں کہتی ہیں کہ میں نے صبح سویرے مکتب جانا بچپن سے شروع کیا۔ جماعت اسلامی کے مکتب تھے۔ تب ۶ بجے جانا پڑتا۔عنفوان شباب میں ہی پردہ شروع کیا۔میں متاثر ہوں سید مودودی رحمہ اللہ سے اخوان المسلمون کے کام سے میری کوشش ہے کہ معاشرے میں بچھڑی ہوئی خواتین ابھر آئیں۔

مکتب سے شروع کیا اس سلسلے کو پھر مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ اب دو مدرسے ہیں خواتین کے جہاں خواتین ہی کام کرتی ہیں۔ میں غریب بے سہارا بچیوں کی مدد کرتی ہوں ان کی شادیوں میں کم از کم کچھ سامان شادی کے لئے دیتی ہوں۔

خواتین کی کونسلنگ کرتی ہوں جو معاشرے کی ستائی ہوئی ہوں ان کی ڈھارس باندھتی ہوں۔ یہ کام گر چہ سخت کٹھن اور صبر آزما ہے لیکن میں خواتین میں اسلامی فکر پیدا کرنے کی سعی کرتی رہوں گئی انشا اللہ۔ انہیں علوم اسلامی سے روشناس کراکر ظلمت کے نرغے سے باہر نکالنا ہے۔ اس کے لئے ہمیشہ سے کوشاں ہوں۔

شروع شروع میں کسی نے بھی ساتھ نہ دیا بس میں تھی اور میرا رب تھا۔ ہمت کی۔ حلقہ بڑھتا گیا۔ خواتین جڑتی گئیں اب تو خیر سے چارکے آس پاس معلمہ ہیں جو درس و تدریس کا فریضہ انجام دینے میں مصروف العمل ہیں۔

میرے پاس کچھ بھی نہ تھا اپنی سونے کی انگوٹھی فروخت کی اور اسی رقم سے کام کا آغاز کیا جو اب تک اللہ تعالی کے فضل و کرم سے جاری ہے۔

میں خواتین کی مدد کے لئے ایک الگ طرح سے کام کرتی ہوں۔ بیوائیں بے سہارا یتیم غریب بہن بیٹیاں جو درد و کرب مجھے سناتی ہیں وہ کسی اور کو سنانے کی ان میں قوت نہیں ہے۔ ان کی المناک داستانین ہیں۔ کچھ تو خودکشی پر آمادہ تھیں جنہیں کونسلنگ کی گئی اور وہ اپنی بات پر شرمندہ ہوئیں۔ انصار النساءکے بینر تلے میں ان کا ہاتھ بٹانے کی کوشش کرتی ہوں۔ میں مطمئن ہوں اس حوالے سے جو حقوق اور طریقہ زندگی مجھے اسلام نے دیا ہے۔

اس وقت جو حالات ہیں ان کی مار کی شکار سب سے زیادہ خواتین ہی ہیں جو اس ستم ظریفی سے گناہ کی راہ پر بھی چل سکتی ہیں،لیکن میں کوشش کرتی ہوں کہ ایسا نہ ہو۔ اپنی کوشش کے بارے میں جو نتائج ملے ہیں۔ میں مطمئن ہوں ان کے ساتھ اور عملی جدوجہد کرنا لازمی سمجھتی ہوں بس اپنے بھائی بہنوں کے تعاون کی طالب ہوں  (موصوفہ کو پانچ سو شخصیات مین بھی جگہ ملی )

میدان علمی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ امت مسلمہ اس میدان میں بانجھ نہیں ہے کیوں کہ یہ فخر اسی امت کو حاصل ہے کہ اس کے ہاں بڑی تعداد میں خواتین علماءبھی پیدا ہوئیں ہیں جن کی امام ہم امی عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہہ سکتے ہیں کیونکہ آٹھ ہزار صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے شاگرد ہیں۔

خاتون جنت،سردارانِ جنت کی ماں اور دونوں عالم کے سردار کی بیٹی حضرت فاطمہؓ کی زندگی بھی بے مثال ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ ایک عظیم اور ہمہ گیر کردار کی مالکہ تھیں جو ایک بیٹی کے روپ میں، ایک ماں کی شکل میں اور ایک بیوی کے کردار میں قیامت تک آنے والی خواتین کیلئے نمونہ کردار ہیں جنہوں نے اپنے عظیم باپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا حق ادا کرتے ہوئے بچپن میں سرداران قریش کے ظلم و ستم کا بڑی جرات مندی،شجاعت،ہمت اور متانت سے سامنا کیا۔ ہم فخر کرسکتے ہیں کہ ملت اسلامیہ کے پاس ایسی خواتین تھیں اور اب بھی ہیں جو میدان علمی میں نمایاں حثیت سے جانی پہچانی جاتی ہیں۔

اس بات کااختتام میں مفتی تقی عثمانی کی کتاب ہمارا تعلیمی نظام سے لئے گئے ایک اقتباس پر کرتا ہوں۔ تعلیم نسواں ایک مستقل چیز ہے اور مخلوط تعلیم ایک جداگانہ چیز ہے، ان دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ خلط وہی بے دین اور بے حمیت یورپ زدہ لوگ کرتے ہیں جو فروغ تعلیم نسواں کی آڑ میں مخلوط تعلیم کو فروغ دینا اور عام کرنا چاہتے ہیں۔

اسلامی تعلیمات کی حدود میں رہ کر تعلیمِ نسواں کو زیادہ سے زیادہ عام کرنا چاہیے؛ تاکہ نئی نسل اعلیٰ اخلاق وکردار کی مالک بن سکے؛ مگر معاشی اعانت کے لیے عورتوں کی تعلیم کو ذریعہ بنانا غیرفطری بھی ہے اور غیراسلامی بھی؛ اس لیے کہ قرآن حکیم بیوی بچوں کی کفالت کا ذمہ دار مرد کو قرار دیتا ہے اور اسلامی تعلیمات کی رو سے عورت کی ذمہ داری شرعی فرائض ادا کرنے کے بعد تمام جائز اور مباح امور میں شوہر کی اطاعت کرنا، اس کی حوائج اور سامانِ راحت وآسائش کو مہیا کرنا ہے؛ تاکہ بچے اور شوہر تفریح کے لیے گھر سے باہر جانے کی ضرورت ہی محسوس نہ کریں۔
آگے لکھتے ہیں:

لڑکیوں کا نصابِ تعلیم، نظامِ تعلیم اور معیارِ تعلیم مذکورہ بالا مقاصد کے تحت مرتب ومدون اور مردوں سے بالکل الگ اور جداگانہ ہونا چاہیے۔ اگر تعلیم نسواں سے اس کے صحیح فوائد حاصل کرنے ہیں تو مخلوط تعلیم کو ختم کرنا قطعی لازم ہے۔اس لیے کہ مخلوط تعلیم تو اسلامی روح کے بھی قطعی منافی ہے اور ذہنی وفکری آسودگی اور اخلاقی پاکیزگی کے لیے بھی سمِ قاتل ہے، اس کی اجازت کسی صورت میں بھی نہیں دی جاسکتی ہے۔“ (ہمارا تعلیمی نظام)

تبصرے بند ہیں۔