تقوی کے ظاہری و باطنی پہلو

 محمدعبد اللہ جاوید

ماہ رمضان کی عظمت نزول قرآن کی وجہ سے ہے اور روزوں کا اہتمام‘ اس ماہ کی عظمت کے شایان شان‘ اہل ایمان کا اظہار تشکر ہے۔ روزوں کے ذریعہ تقوی کاپیدا ہونا ممکن ہے اور قرآن مجید سے راہنمائی‘ تقوی سے ممکن ہے…. رمضان المبارک میں ان اہم امور کی بارباریاددہانی ہوتی رہتی ہے۔ گویا قرآن‘ ماہ رمضان اور روزوں کے یہ سہ رخی پہلو‘ مقاصد رمضان کے حصول کا ذریعہ ہیں۔یا یوں کہئے‘ یہ سہ رخی پہلو ماہ رمضان وبعد کی زندگی میں تقوی وپرہیزگاری کی آبیاری کی تمام حکمتیں اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔

روزہ کے ذریعہ تقوی پیدا ہونے کا مطلب ان کیفیات اور احساسات کا مکمل شعور ہے جن کے تحت ایک روزہ دار دن بھر مختلف نیک اعمال انجام دیتا ہےاوربرا‏ئیوں سے دور رہتا ہے۔اسکانہایت توجہ اور انہماک کے ساتھ عبادات کا اہتمام کرنااور معاملات میں شفافیت کا لحاظ رکھنا‘چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بھی بچے رہنا‘اس کے باطن میں موجود تقوی کا پتادیتا ہے۔

اس تقوی میں خدا سے محبت اور خوف کے دونوں پہلو شامل ہیں۔ تقوی‘ صرف خوف خدا اس لئے نہیں ہوسکتا ہے کہ جن اہل ایمان کے اندر اس کی افزائش ہوتی ہے ان کے دل پہلے ہی سے اللہ کی شدید محبت سے مامور ہیں (…وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ …سورہ البقرہ: ۱۶۵)۔ یعنی جن بندوں کے دل میں خدا کی بے پناہ محبت ہے‘ وہی اس سے بے پناہ خوف بھی کھاسکتے ہیں۔

محبت اور خوف‘ انسانی احساسات اور جذبات کے دوپہلو ہیں جو ایکدوسرے سے اسی طرح وابستہ ہیں جیسے ایک سکے کے دو رخ ہوتے ہیں۔نہ محبت‘خوف سے خالی ہوسکتی ہے اور نہ خوف‘بغیر محبت کے کوئی مطلوب ومقصود چیز ہوسکتی ہے۔اس لئے رجوع الی اللہ کی ترغیب بھی انہیں امور کے پیش نظر کی گئی کہ محبت اور خوف کے ملے جلے جذبات کے ذریعہ خداکو پکارا جائے اور اس کی طرف لپکا جائے (سورہ الاعراف: ۶۵‘سورہ الرعد: ۲۱اورسورہ السجدہ: ۶۱)گڑ گڑاتے ہوئے بھی اور چپکے چپکے بھی اس کے حضور اپنی منتیں اور سماجتیں پیش کی جائیں (ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ….سورہ الاعراف:۵۵)۔لہذا ایمان سے مراد اس محبت کے ہیں جس میں خوف کا ایک پہلو مضمر ہوتا ہے اور اس خوف کے بھی ہیں جو اس محبت کے شدید ہونے کی بنا مختلف خدشات کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔بندہ مومن کی یہ دعا‘ اسی حقیقت کی ترجمان ہے جس میں محبت اور خوف کے جذبات کا حسین امتزاج موجود ہے‘رسول اللہﷺ نے وہ دعا اس طرح تلقین فرمائی ہے:

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَ تَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ وَ فُجَآءَۃِ نِقْمَتِکَ وَ جَمِیْعِ سَخَطِکَ (مسلم)

اے اللہ میں تیری پنا ہ چاہتا ہوں تیری دی ہوئی نعمت کے زائل ہونے سے اور تیری عافیت کےچھن جانے سے اور تیری اچانک پکڑ سے اور تیرے ہر قسم کے غصے سے۔

(1) تقوی اور محبت کا پہلو

اب تقوی کے محبت کا پہلو دیکھئے کس طرح ایک روزہ دار بھوک وپیاس کی شدت برداشت کرتے ہوئے اور آرام وسکون تجتے ہوئے کئی نیک کام انجام دیتا ہے؟ وقت پر واجبی ضروریات پوری نہ ہونے پر بھی اس کے کسی معاملہ میں کوئی فرق نہیں آتا؟ عام دنوں میں کوئی ضرورت پوری نہ ہوتو غصہ اور بے قابو ہونا ایک عام بات ہوسکتی تھی لیکن روزہ ہونے کی وجہ سے اب اس کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔ ان سب کے پیچھے اصل محرک اللہ کی محبت نہیں تواور کیا ہے؟ اور تواور چاہے نماز اورروزہ ہو یا زکوۃ وصدقات‘ کسی بھی عمل کامادی اجر فوری ملنے کی کوئی امید بھی نہیں ہوتی‘اس کے باوجود اللہ کی محبت کی بنا ایک بندہ  مومن صابر وشاکربن کرخوشی خوشی یہ نیک اعمال انجام دیتا ہے۔محبت رب ہی وہ حقیقی محرک ہے جو بندہ کو اخلاص کے ساتھ سرگرم عمل رکھتا ہے۔ قرآن مجید میں نیک بندوں کے اعمال کا اسی محبت کے حوالے سے ذکر کیاگیا ہے۔وہ مستحقین کی بے غرض اوربے لوث خدمت صرف اللہ کی محبت کی وجہ سے کرتےہیں۔( إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ……سورہ الانسان: ۹)۔ لوگوں پربے دریغ دولت لٹانے کی بات ہو اس کے لئے بھی اللہ کی محبت ترغیب کا ذریعہ بنتی ہے (وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ….سورہ البقرہ: ۷۷۱)۔

ان بے لوث اعمال کی انجام دہی کی بنا‘ بندہ کوایمان کا وہ مقام حاصل ہوتا ہے جس میں اللہ کی محبت کے علاوہ بقیہ تمام حاجتیں اور تعلقات  کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اس کو فکر لاحق ہوتی ہے تو بس اس کی کہ رب راضی ہوجائے۔اس کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ ادا ہوتے ہیں… اے اللہ ایسا کردے کہ تیری محبت مجھے اپنی جان‘ اہل وعیال اور ٹھنڈے پانی کی چاہتے سے بڑھ کر ہوجائے(اللَّهُمَّ اجْعل حُبَّكَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِن نَفسي، وأَهْلي، ومِن الماءِ البارِدِ –  ترمذي) اور یہ بھی کہ اے پروردگار ایسا کردے کہ مجھےتیری محبت تمام چیزوں کی محبتوں سے بڑھ کرہوجائے (اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ حُبّکَ اَحَبَّ الْاَشْیاءِ اِلیَّ کُلِّھَا–  ترمذي)۔ غرض روزہ کی حالت اوراس میں انجام پانے والی تمام عبادتوں کا ایک زوردار محرک اللہ تعالیٰ کی محبت ہوتی ہے۔

(2) تقوی اور خوف کا پہلو

اب روزہ میں خوف کے پہلو پر غور کیجئے۔روزہ کے دوران قدرت رکھنے کے باوجودایک روزہ دارکا ان سب کاموں سے بچنا‘ جن سے روزہ کے ٹوٹنے یا مکروہ ہونے کے امکانات ہوتے ہیں‘ کس لئے ممکن ہوتا ہے؟ کیا یہ اللہ کے خوف کے علاوہ کسی اور بات سے ممکن ہے؟ وضوکے دوران پانی کی چند بوندوں کو منہ سے حلق کے نیچے اترنے کے لئے لمحوں سے بھی کم وقت درکار ہوتا ہے‘لیکن کیا مجال کے فاصلہ کی اس قدر کم کمیت اور وقت کی اس قدر چھوٹی مقدارکے لئے بھی خدا کی نافرمانی ہو؟ دنیا کا کوئی پیمانہ یا آلہ ایسا نہیں جو بتاسکے کہ کس روزہ دار کے حلق کے نیچے پانی کی کتنی بوندیں اتر گئی ہیں؟ اس قدر چھوٹ ہونے کے باوجود بھی کسی شخص کااپنے آپ کوروکے رکھناکیا یہ واضح نہیں کرتا کہ اسکو خدا کے علیم و بصیر ہونے اور اس کی گرفت کے انتہائی سخت ہونے کے شدید احساس ہے؟یہ محبت آمیز خوف ہی ہے جو بندے کو ناپسندیدہ کاموں سے اس لئے روکے رکھتا ہے کہ کہیں رب ناراض نہ ہوجائے‘ کہیں اعمال ضائع نہ ہوجائیں اور کہیں رب کا عذاب اچانک گھیر نہ لے۔

یہی خوف تقوی کے ایک اعلی معیار کیلئے دھیرے دھیرے راہیں ہموار کرتا جاتا ہے۔جب دل کو خدا کا خوف لاحق ہو تو بندہ پھر کسی اورخوف کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اس کی دلی تمنا تو یوں ظاہر ہوتی ہے کہ اے اللہ ایسا کردے کہ مجھےتیرا خوف ہر طرح کے خوف سے بڑھ کر ہوجائے (وَاجْعَلْ خَشْیتَکَ اَخْوَفَ الْاَشْیاءِ عِنْدِیْ–  ترمذي)۔اوریہ بھی کہ اے اللہ ہمیں تیرےخوف اور خشیت کا اتناحصہ عنایت فرما جوہمارے اور تیری نافرمانیوں کے درمیان ایک زبردست پردہ بن کر حائل ہوجائے (اَللّٰھُمَّ اَقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْیتِکَ مَا تَحُوْلُ بِہٖ بَینَنَاوَ بَینَ مَعْصِیتِکَ –  ترمذي

(3) تقوی اور حسن بندگی

روزہ دار کو محبت اور خوف (تقوی) کی یہ دو بیش بہا خوبیاں میسر آتی ہیں جن کی بنا اس کا ہر عمل انتہائی حسین وجمیل ہوجاتا ہے۔اوراس کی شخصیت جاذب نظر بن جاتی ہے۔والدین کو بچے‘ بیوی کو شوہر‘ اعزہ واقارب کو اہل خاندان‘محلے والوں کو اپنے پڑوسی اورگاہکوں کو اپنے دکاندار اچھے لگنے لگتے ہیں۔کیوں نہ ہو؟جب بندہ کی دلی آرزو یہ ہوکہ محبتوں میں سب سے بڑھ کر اللہ کی محبت ہواورہر طرح کے خوف سے بڑھ کر اللہ کا خوف ہو تو پھر اس کا اخلاقی وجود ایمانی عزیمت کے اعلی معیار پر قائم ہوہی جاتا ہے۔محبت اور خوف کے یہ اعلی جذبات اس کی پسند وناپسند کو‘ اللہ کی پسند وناپسند سے مکمل ہم آہنگ کردیتے ہیں۔اور اس کی دل کی صدا یہ ہوتی ہے کہ اے اللہ جب تو نے دنیا والوں کو دنیا کی چیز یں دے کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی کردی ہیں تو میری آنکھیں اپنی عبادت کے ذریعہ ٹھنڈی کردے (وَاِذَا اَقْرَرْتَ اَعْینَ اَہْلَ الدُّنْیا مِنْ دُنْیاہُمْ ‘فَاَقْرِرْ عَینِیْ مِنْ عِبَادَتِکَ–  ترمذي

رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ یہ تقوی دراصل تمام اعمال کو خوبصورتی بخشتا ہے (فَاِنَّہُ اَزینُ لِاَمرِکَ کُلِّہٖ- مشکوۃ) اور فرمایا کہ یہ تقوی تمہارے ہر اعمال کا سراہے (فانّہ رأس الأمر کلّہمشکوۃ)‘ یعنی وہ مقام ہے جہاں سے عمل بڑا خوشنما دکھائی دیتا ہے۔روزہ دار میں حسن بندگی کے یہ خوشنما پہلو محبت و خوف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ منکشف ہوتے رہتے ہیں۔وہ وہی ہے جو چند دنوں پہلے تھا‘ لیکن اب اس کا عمل ویسا نہیں جیسا پہلے تھا۔اس کی عبادات میں خشوع وخضوع کی گہرائی اور یکسوئی پہلے سے بڑھ کرہے۔ قرآن مجید کی تلاوت بھی پہلے جیسی وقتی نہیں بلکہ اس میں بڑا ہی گہرا شغف اور استقلال پیدا ہوا ہے۔ اس کی گفتگو پہلے جیسی غیر محتاط نہیں بلکہ اس کی زبان سے ہر لفظ پورے شعور کے ساتھ ادا ہوتا ہے۔ اس کے معاملات اور تعلقات میں نرمی واحتیاط پہلے سے کہیں زیادہ درآئی ہے۔یہ ہے کردار کے جلوے جو تقوی کے ظاہری وباطنی پہلوؤں کی بنا پہلے سے کہیں زیادہ حسین و جمیل معلوم ہوتے ہیں۔

کسی عمل سے اگر اللہ سے محبت یا خوف کے پہلو نکال دیں‘ وہ عمل بے جان اور بے رونق نظر آئے گا۔اس کی وقعت اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوگی کہ بس ایک وقتی عمل ہے جو انجام پاگیا‘ نہ کرنے والا پر اس کا کوئی اثر اور نہ ہی اجر کے لحاظ سے اس کا کوئی مقام۔

حسن بندگی اور محبت فاتح عالم

ان سب کے علاوہ حسن بندگی کا ایک اور دلکش پہلو ہے۔جب اعمال بڑے حسن و خوبصورتی سے انجام پانے  لگتے ہیں تو عمل کرنے والی کی شخصیت ازخود ترغیب کا ذریعہ بن جاتی ہے۔وہ تو خود نیک رہتا ہی ہے لیکن اسکے اطراف کا ماحول بھی اس کی نیکی میں رنگنے لگتا ہے۔ کسی فرد کی اخلاقی بلندی کا یہ عالم ہو کہ وہ جہاں رہتا ہو وہاں نیکی سے محبت اور بدی سے بیزارگی کا ایک عام ماحول فروغ پائے۔رسول اللہﷺ کا فرمان ہے کہ تم میں کے سب سے اچھے وہ ہیں کہ جنہیں دیکھے تواللہ یاد آجائے (خياركم الذين إذا رُؤوا ذُكراللهمسند احمد)۔یعنی بندہ مومن کی شخصیت ایسی ہو کہ جس کا خوف خدا‘ لوگو ں میں خدا کا خوف پیداہونے کا محرک بنے اور جس کی خدا سے محبت‘ دوسروں میں اس محبت کے فروغ کا ذریعہ بنے۔کسی کو دیکھنے سے اللہ تعالیٰ یاد آنے کے معنی یہی ہوں گے کہ اس کو دیکھ کر اچھے کام سے رکے رہنا کسی کو گوارہ نہ ہو۔ اوراگر کوئی برے کام میں ملوث ہو تو اس کو دیکھ کر اس کام سے رکے رہنے میں اسے ذرہ برابربھی تامل نہ ہو۔

حسن بندگی اور رب کا دیدار وملاقات

حسن بندگی کا سب سے اونچا سرا وہ خاص ذہنی وقلبی کیفیت ہے جو رب کے دیدار اور اس سے ملاقات کے شوق سے ظاہر ہوتی ہے۔رب کا دیدار اور اس سے ملاقات کا شوق‘ بندہ مومن کی وہ انتہا درجہ کی ایمانی و اخلاقی قوت ہے جو اس کواخلاص وللہیت اور صبر واستقلال کے ساتھ اعمال صالحہ انجام دینے سے میسر آتی ہے۔ رب سے ملاقات کے شوق کے دو حقیقی محرک ہیں۔اول‘ اللہ کی نعمتوں سے استفادہ۔جس قدر شعور کے ساتھ اللہ کی نعمتوں کا استعمال ہوگا‘ بندہ‘ اپنے رب سے اتنا ہی قریب ہوتاجائےگا۔اس لئے رسول اللہﷺنے بشارت دی کہ جو بندہ کھانا کھانے اورپانی پینے کے بعد الحمد للہ کہتا ہے‘ اللہ اس سے راضی ہوجاتا ہے۔دوم یہ کہ نعمتوں کا ختم ہونا یہ احساس دلوں میں زندہ کرتا ہے کہ نعمتیں چاہے کیسی ہی کیوں نہ ہو اور فرد چاہے کیسا ہی صاحب استطاعت کیوں نہ ہو‘ رب کی عطا اور بخشش ہمیشہ کے لئے نہیں ہوتی بلکہ وہ ختم ہوجاتی ہے ۔اس حقیقت سے یہ شعورپختہ ہوجاتا ہے کہ جس منعم حقیقی نے نعمتوں سے سرفرراز فرمایا تھا وہ اپنی تمام تر نعمتوں اور کرامات کے ساتھ باقی رہنے والا ہے۔( مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللَّهِ بَاقٍ – سورہ النحل:۹۶) لہذا رب کے دیدار کا شوق اور اس سے ملنے کی تمنا‘ بندہ مومن کی زندگی میں سانسوں کی طرح رچ بس جاتی ہے۔اس کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ بار بار بس یہی التجاکرتا جائے کہ… اے اللہ میں تجھ سے تیرے دیدار کی لذت اور تیری ملاقات کاشوق مانگتا ہوں۔ ( ….. اللّٰھُمَّ اَسْاءَ لُکَ لَذَّۃَ النَّظْرِ اِلٰی وَجْھِکَ وَ الشَّوْقِ اِلٰی لِقَاءِکَ……  نسائی)۔

اور تواور رب سے ملاقات کے شوق کے آگے اس کیلئے ہر طرح کی ضروریات کا پورا ہونا بھی کوئی معنی نہیں رکھتا‘ بلکہ وہ تو کہتا ہے کہ اے اللہ

تجھ سے ملاقات کا شوق مجھے اس قدر ہو کہ جس کی وجہ سے دنیا کی حاجتوں اور ضرورتوں کا احساس تک میرے اندر باقی نہ رہے (وَاقْطَعْ عَنِّی حَاجَاتِ الدُّنْیا بِالشَّوْقِ اِلٰی لِقَاءِکَ ….ترمذي

روزہ دار کو تقوی کے حوالے سے یہ تین خوبیاں میسر آتی ہیں۔اللہ تعالیٰ کی محبت کا احساس‘ اس سے خوف کھانے والا دل اورنتیجتاً ہر عمل کو حسن وخوبصورتی سے انجام دینے کا جذبہ اورسلیقہ۔اللہ تعالیٰ سے محبت اور خوف کی کیفیات کو مزید جلا بخشنےکیلئے قرآن مجید حرکت وعمل (حسن بندگی) کی ایک بڑی ہی دلکش اور دلنواز دنیا پیش کرتا ہے۔اس  سے متقی لوگوں کے ہدایت حاصل کرنے کے معنی یہی ہیں کہ محبت وخوف کے ملے جلے جذبات اورحرکت وعمل کا پیکر بننے کے عزم کے ساتھ قرآن مجید سے ہدایت حاصل کی  جائے۔ ماہ رمضان اور اس کے بعد کی زندگی‘تقوی کی زندگی ہو اس کیلئے روزہ دار کو چاہئے کہ وہ انہیں خوبیاں کے ساتھ اپنے قرآن مجید سے تعلق کو مستحکم کرنے کی کوشش کرے۔ان شا اللہ اگلی قسط میں  اس سلسلہ کی تفصیلات پیش کی جائیں گی۔

٭٭٭٭٭

1 تبصرہ
  1. ظہُور احمد یادگیر , ہبلی. کہتے ہیں

    مضمون بہت ہی ایمان افروز ہے, چونکہ آج کل لوگ پڑھتے کم ہی ہیں اس لیۓ اس طرح کے مضامین تقریری شکل میں پیش کریں, تو بہت بہتر ہو گا.

تبصرے بند ہیں۔