سود اور اس کی حرمت (قسط 2)

جمشید عالم عبد السلام سلفؔی

قرض دار کی اخلاقی ذمہ داری

      علاوہ ازیں قرض لینے والے کو بھی چاہیے کہ کشادگی کے بعد وہ پہلی فرصت میں قرض ادا کرے اور اس میں کسی طرح کا ٹال مٹول نہ کرے، قرض دینے والے کا شکریہ ادا کرے، اس کے لیے خیر و برکت کی دعا کرے اور اس سے خندہ پیشانی سے ملے۔ سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

((مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، وَمَنْ أُتْبِعَ عَلَى مَلِيٍّ فَلْيَتَّبِع.))

      ترجمہ : ’’صاحبِ حیثیت کا قرض ادا کرنے میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے، اور جو قرض کے لیے کسی مالدار کے حوالے کیا جائے تو چاہیے کہ وہ اسے قبول کرے۔‘‘ [صحيح بخاری کتاب الحوالات باب إذا حال…. صحيح مسلم کتاب المساقاۃ باب تحریم مطل الغنی…. ]

      سیدنا عبد اللہ بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے چالیس ہزار قرض لیا اور آپ کے پاس مال آیا تو آپ نے مجھے واپس کر دیا اور فرمایا :

      ((بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِي أَهْلِكَ وَمَالِكَ، إِنَّمَا جَزَاءُ السَّلَفِ : الْحَمْدُ وَالْأَدَاءُ.)) ترجمہ : ’’اللہ تعالیٰ تمھیں تمھارے اہل اور مال میں برکت عطا فرمائے، بے شک قرض کا بدلہ شکریہ ادا کرنا اور قرض ادا کرنا ہے۔‘‘ [نسائی کتاب البيوع، الاستقراض]

      سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے (اپنے قرض کا) تقاضا کرنے آیا تو اس نے سخت گفتگو کی۔ آپ کے صحابہ نے اس کی طرف بڑھنے کا قصد کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اسے چھوڑ دو کیوں کہ ہر صاحبِ حق، کہنے کا حق رکھتا ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس کے قرض والے جانور کی عمر کا ایک جانور اسے دے دو۔‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم! اس عمر کا تو نہیں ہے اس سے زیادہ عمر کا جانور موجود ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

((أَعْطُوهُ؛ فَإِنَّ مِنْ خَيْرِكُمْ أَحْسَنَكُمْ قَضَاءً))

’’اسے وہی دے دو، کیوں کہ تم میں سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو دوسروں کا حق اچھی طرح ادا کر دے۔‘‘

[صحیح بخاری کتاب الوکالۃ باب الوکالۃ فی قضاء الدیون]

      موجودہ دور میں بہت سے قرض لینے والے افراد ایسے ہوتے ہیں جو وسعت و کشادگی کے باوجود قرض کی ادائیگی میں تاخیر یا ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں اور اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کسی طرح انھیں قرض کی ادائیگی نہ کرنی پڑے، یہی وجہ ہے کہ لوگ اوّلاً قرض دینے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے اور اگر تیار بھی ہوتے ہیں تو پھر مہلت دینے میں تردد کرتے ہیں، اور بسا اوقات محض مال ڈوبنے کی غرض سے قرض پر فائدہ اٹھانے کے بھی خواہاں ہوتے ہیں، لہذا ہر دو فریق کو شرعی دائرے میں رہنے کی ضرورت ہے۔ اللہ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

      ہمارے یہاں سودی کاروبار میں ملوث بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنے اثر و رسوخ اور سیاسی پکڑ کے ذریعہ مکر و فریب اور حیلہ سازی اختیار کر کے حکومت اور سودی بینکوں سے سودی قرض لیتے ہیں تاکہ بعد میں کسی طرح کے مکر و فریب اور اپنے اثر و رسوخ کو استعمال میں لاکر اسے معاف کروا لیں، انھیں اپنے اعمالِ بد کا جائزہ لینا چاہیے، ایک تو سودی لین دین میں شریک ہو کر حرمتِ الٰہی کو پامال کرتے ہیں اور دوسرے قرض کو واپس نہ لوٹانے کی نیتِ بد رکھتے ہیں اور عملاً بسااوقات لوٹاتے بھی نہیں ہیں۔ جب کہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے مطابق اگر قرض لینے والے کی نیت میں کھوٹ پائی جائے تو اللہ تعالیٰ اسے ضائع کر دے گا۔ سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

      ((مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ يُرِيدُ أَدَاءَهَا أَدَّى اللَّهُ عَنْهُ، وَمَنْ أَخَذَ يُرِيدُ إِتْلَافَهَا أَتْلَفَهُ اللَّهُ.))

      ترجمہ : ’’جو شخص لوگوں کا مال لیتا ہے اور اسے ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اللہ اسے ادا کرنے کی توفیق دیتا ہے، اور جو شخص اسے تلف کرنے کے ارادہ سے لیتا ہے اللہ اسے تلف کر دیتا ہے۔‘‘ [صحیح بخاری کتاب فی الاستقراض باب من أخذ…..]

      سیدنا صہیب الخیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

((أَيُّمَا رَجُلٍ تَدَيَّنَ دَيْنًا وَهُوَ مُجْمِعٌ أَنْ لَا يُوَفِّيَهُ إِيَّاهُ، لَقِيَ اللَّهَ سَارِقًا.))

      ترجمہ : ’’جو کوئی آدمی قرض لے اور اس کو ادا کرنے کی نیت نہ رکھتا ہو، تو وہ اللہ سے چور ہو کر ملاقات کرے گا۔‘‘ [ابن ماجہ کتاب الصدقات باب من ادان دینا لم ینو قضاءہ]

      معلوم ہوا کہ قرض دار کی نیت اگر دنیا میں بے ایمانی کرنے کی ہو تو اللہ تعالیٰ اس قرض کے مال کو تلف و برباد کر دے گا اور ایسا شخص آخرت میں اللہ کے سامنے چور ہونے کی حالت میں پیش ہوگا اور اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی سخت بازپرس کرے گا۔ یہ اتنا سنگین جرم ہے کہ اس کی تلافی اور تصفیہ کے بغیر اللہ تعالیٰ کسی کو جنت میں داخل نہیں کرے گا خواہ وہ کوئی شہید ہی کیوں نہ ہو؟ سیدنا محمد بن جحش رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا پھر اپنا ہاتھ اپنی پیشانی پر رکھا پھر فرمایا : ”سبحان اللہ! کتنی سختی نازل ہوئی ہے؟“ تو ہم لوگ خاموش رہے اور ڈر گئے۔ پھر جب دوسرا دن ہوا تو میں نے آپ سے پوچھا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم! وہ سختی کیا ہے جو نازل کی گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

      ((وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَنَّ رَجُلًا قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ أُحْيِيَ، ثُمَّ قُتِلَ، ثُمَّ أُحْيِيَ، ثُمَّ قُتِلَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ مَا دَخَلَ الْجَنَّةَ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ دَيْنُهُ.))

      ترجمہ : ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر ایک آدمی اللہ کی راہ میں قتل (شہید) کیا جائے پھر وہ زندہ کیا جائے، پھر قتل کیا جائے پھر اسے زندہ کیا جائے، پھر قتل کیا جائے اور اس پر قرض ہو تو وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا جب تک کہ اس کا قرض ادا نہ ہو جائے۔“ [نسائی کتاب البيوع، التغليظ في الدين]

      جو لوگ بلاضرورت نہ دینے کی نیت سے قرض لینے میں کوئی عار نہیں محسوس کرتے ہیں یا قرض لے کر اسے بھلا دیتے ہیں انھیں اپنے اخروی انجام کے بارے میں سوچنا چاہیے کہ ان کا کیا حشر ہوگا؟ جب ایک شہید اپنے بقایا قرض کی وجہ سے جنت میں داخل ہونے سے روک دیا جائے گا تو پھر عام لوگوں کا کیا حال ہوگا؟

قرض کی ادائیگی میں احسان

      اوپر درج کی گئی احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ مقروض کو اپنے قرض کی ادائیگی اچھے طریقے سے کرنا چاہیے اور واپسی کے وقت اگر کسی قسم کی شرط نہ ہو اور اس کے پاس وسعت ہو تو لیے ہوئے مال سے بہتر مال یا کچھ زائد واپس کرنا چاہیے، یہ محبوب و پسندیدہ اور مستحب عمل ہے، اس پر وہ اجر و ثواب کا مستحق ہوگا اور قرض خواہ کے لیے وہ اضافی رقم لینا جائز ہے، اور اس کا شمار سود میں نہیں ہوگا کیوں کہ نہ اس نے زائد رقم لینے کی شرط عائد کی تھی اور نہ وہ اس کا متمنی و خواہش مند تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ شریعت نے اسے جائز قرار دیا ہے۔

      لیکن اگر ادائیگی کے وقت کچھ زائد یا دی ہوئی چیز سے بہتر و عمدہ چیز لینے کی شرط لگائی جائے یا اس طرح تحفہ تحائف دینے کا عام رواج ہو کہ آدمی نہ ملنے پر ناراض ہو جائے یا صرف ایسے لوگوں کو قرض دے جن سے کچھ زائد ملنے کی امید ہو تو یہ طرزِ عمل درست نہیں ہوگا یعنی اس لالچ سے دینا کہ ادائیگی کے وقت اس سے بہتر چیز دی جائے گی درست نہیں ہے اور اس طرح کا حرص رکھنا اور شرط عائد کرنا جائز نہیں ہے، البتہ جانوروں کے ادھار لین دین کا معاملہ اس سے مستثنیٰ ہے اس کی تفصیل آگے آرہی ہے إن شاء الله۔ بہرحال مقروض کی طرف سے کسی شرط کے بغیر بطیب خاطر دیا جانے والا اضافی رقم سود نہیں ہے۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں کہتے ہیں :

((وَكَانَ لِي عَلَيْهِ دَيْنٌ فَقَضَانِي وَزَادَنِي.))

      ترجمہ : ’’میرا نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر کچھ قرض تھا تو آپ نے وہ مجھے دیا اور مجھے زیادہ عطا فرمایا۔‘‘ [صحيح بخاری کتاب فی الاستقراض باب فی حسن القضاء]

      سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

((أَدْخَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ رَجُلًا كَانَ سَهْلًا؛ مُشْتَرِيًا وَبَائِعًا، وَقَاضِيًا وَمُقْتَضِيًا الْجَنَّةَ.))

      ترجمہ : ’’اللہ عزوجل نے ایک ایسے آدمی کو جنت میں داخل کردیا جو خریدتے اور بیچتے ہوئے نیز قرض ادا کرتے اور قرض کا تقاضا کرتے ہوئے سہل و نرمی سے کام لیتا تھا۔‘‘

[نسائى کتاب البیوع، حسن المعاملۃ والرفق فی المطالبۃ]

      اسی طرح مذکورہ صورت کے برعکس اگر قرض خواہ یا بائع، مقروض یا مشتری کی حسنِ ادائیگی سے خوش ہو کر ادا کی جانے والی رقم میں کچھ تخفیف کر دے تو یہ تخفیف شدہ رقم مشتری یا قرض لینے والے کے لیے لینا درست ہوگا اور اس کا شمار سود میں نہیں ہوگا، اس کی صورت یہ ہے کہ مثلاً بائع نے اپنے کسی خریدار کے ہاتھوں پانچ سو روپیے کا سامان بیچا اور دونوں کے درمیان طے یہ پایا کہ خریدار اسے ادھار کی یہ قیمت دو ماہ بعد ادا کردے گا مگر پھر اس کے پاس وسعت ہو گئی اور کسی طرح روپے پیسے کا انتظام ہو گیا تو اس نے وقتِ مقررہ سے بہت پہلے ہی طے شدہ قیمت ادا کردیا جس سے خوش ہوکر بیچنے والا سامان کی قیمت میں کچھ تخفیف کردے تو یہ صورت بلا کراہت درست ہوگی اور اس کا شمار سود میں نہیں ہوگا کیوں کہ پہلے سے اس کے لیے کوئی شرط نہیں عائد کی گئی تھی اور یہ مقروض کے ساتھ احسان ہوگا۔

      اس کے برخلاف موجودہ بینکاری کی ’’منفی سود‘‘ (Negative Interest) کو اس پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔ بینکوں کا ’’منفی سود‘‘ بعینہ سود ہی کی شکل ہے اور آپس میں سود کا معاہدہ ہوتا ہے اور دونوں فریق سودی لین دین پر راضی ہوتے ہیں، بینک کی اصطلاح میں منفی سود کے اس عمل کو ’’ڈسکاؤنٹ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ مقررہ وقت سے پہلے ادائیگی کی صورت میں مدیون کے اصل سرمائے میں کچھ تخفیف کر دی جاتی ہے یا بسااوقات اس قرض پر سود کی وصولی نہیں کی جاتی ہے، دونوں صورتیں سودی لین دین کی ہوں گی۔ اس کی مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔

ربا النسیئۃ کی چند شکلیں

      قرض سے متعلق اسلام نے اس قدر واضح تعلیمات ہمارے لیے پیش کی ہیں، ان تعلیمات کو اگر عملی جامہ پہنایا جائے تو سود کی ساری راہیں مسدود ہو جائیں گی مگر زمانہ جاہلیت کی طرح موجودہ دور میں بھی قرض کی صورت میں مہلت دینے پر سود لینے دینے کی مختلف شکلیں رائج ہیں جو صریح طور پر سود ہیں اور ربا النسیئۃ کے ضمن میں آتی ہیں۔ مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ نے ان کی بعض صورتوں کو بڑی عمدگی سے بیان کیا ہے۔ آپ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

      ’’سود دراصل رقم اصل زر سے کچھ زیادہ لینے کا نام ہے اور یہ زائد رقم مقروض یا مدیون کو صرف مدت کے عوض ادا کرنا پڑتی ہے۔ سودخور اپنی رقم ایک مقررہ شرح سے اور ایک مقررہ مدت تک ضرورت مند کو دیتا ہے۔ یہ شرحِ سود ضرورت مند کی ضرورت کے مطابق کم و بیش کر لی جاتی ہے۔ مدت گذرنے پر سودخور اپنی اصل رقم مع سود مقروض سے وصول کر لیتا ہے۔ گویا سود خوار کا سرمایہ ضرورت مند کی بھی کچھ رقم اپنے ساتھ کھینچ لاتا ہے۔ اسے عام زبان میں سود مفرد کہتے ہیں۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

      ﴿وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِ﴾ ترجمہ : ’’جو رقم تم سود پر دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں بڑھ جائے تو ایسا مال اللہ کے ہاں بالکل نہیں بڑھتا۔‘‘ [الروم: 39]

      اب اگر مقروض مقررہ مدت پر اصل رقم اور سود ادا نہیں کر سکا تو سود خوار اصل رقم اور سود کی مجموعی رقم کو اصل زر شمار کر لے گا۔ اور اسی طے شدہ شرحِ سود پر مزید مہلت دے گا۔ اسے عام زبان میں سود مرکب یا سود در سود کہتے ہیں۔ سود در سود کی مدت ایک سال بھی ہو سکتی ہے، چھ ماہ بھی اور تین ماہ بھی حتی کہ اگر ضرورت مند سخت مجبور ہو تو ایک ماہ بھی ہو سکتی ہے۔ اس طرح سود مرکب کی رقم سود مفرد سے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

      ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً﴾ ترجمہ : ’’اے ایمان والو! اضافہ در اضافہ والا سود نہ کھاؤ۔‘‘ [آل عمران: 130]

      سود کی تیسری قسم متی کاٹا یا ڈسکاؤنٹ (Discount) کی ہے۔ اس میں معاملہ برعکس ہوتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ مثلاً (الف) نے کوئی چیز (ب) سے ایک ہزار روپیے میں تین ماہ کے وعدہ پر خریدی اور اسے تحریر لکھ کر دے دی۔ اب (الف) کوئی قابلِ اعتماد فرم یا شخص یا گورنمنٹ خود ہے۔ جس کی تحریر ہنڈی، تمسک یا پوسٹ ڈیٹ چیک کی صورت میں ہے، جسے لینے سے کوئی انکار نہیں کرتا۔ اور (الف) کو سر دست رقم کی ضرورت ہے وہ یہ دستاویز لے کر کسی بنک یا کسی شخص مثلاً (ج) کے پاس جاتا ہے تو (ج) کہتا ہے کہ میں یہ رقم دستاویز ادا کر دیتا ہوں۔ مگر پانچ فیصد کے حساب سے کاٹ لوں گا۔ اور آج ساڑھے نو سو روپیے ادا کر دوں گا۔ تو یہ بھی خالص سود ہے اور تجارتی حلقوں میں اس قسم کا سود بھی مروج ہے۔

      سود کی یہ تینوں صورتیں بالعموم معروف اور مروج ہیں۔ ان تمام صورتوں میں زائد رقم چونکہ مدت یا مہلت کے عوض لی یا دی جاتی ہے۔ لہذا ایسے سود کو شرعی اصطلاح میں ربا النسیئۃ کہا جاتا ہے۔ یعنی مدت یا ادھار کی وجہ سے سود۔‘‘ [دیکھیے : احکامِ تجارت اور لین دین کے مسائل ص: 115-116]

      موجودہ دور میں سودِ مفرد کی ایک شکل موبائل کمپنیوں سے لیے جانے والے لون پر دیا جانے والا زائد رقم بھی ہے۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ اگر آپ کے موبائل میں بیلنس نہیں ہے تو کمپنیاں قرض کے طور پر بشکل لون کچھ روپے لینے کی سہولت دیتی ہیں اور پھر بعد میں جب آپ کے پاس بیلنس ہو جاتا ہے تو دیے گئے رقم سے کچھ زائد رقم آپ کے بیلنس سے کاٹ لیتی ہیں جو کہ پہلے سے متعین ہوتی ہیں، اور یہی زائد رقم صریح سود ہے۔ لہذا ہم مسلمانوں کو اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔(جاری)

تبصرے بند ہیں۔