تمام نیکیاں دریا میں ڈال کر کب سے
ایڈوکیٹ متین طالب
(ناندورہ )
تمام نیکیاں دریا میں ڈال کر کب سے
خلوص رکھا ہے میں نے سنبھال کر کب سے
…
اجالے ہوگئے سورج کے نام سے منسوب
کہ شمع بجھ گئی خود کو پگھال کر کب سے
…
ذرا سی چوٹ بھی لگتی تو ٹوٹ جاتا تھا
وہ دل تو رکھ دیا میں نے نکال کر کب سے
…
بچھڑ کے مجھ سے نظر آتے ہیں یتیم سے وہ
رکھا تھاجن غموں کو میں نے پال کر کب سے
…
حواس باختہ ہیں دیکھ کر وہ جیت مری
جو جی رہے تھے غلط فہمی پال کر کب سے
…
یہ درد یوں ہی نہیں آگیا زباں پہ مری
رکھا ہوں آہوں کو نغموں میں ڈھال کر کب سے
…
شمار کر نہ سکا وہ مرے ہنر طالب
جو خوش ہے عیب مرا اک نکال کر کب سے
تبصرے بند ہیں۔