تمام نیکیاں دریا میں ڈال کر کب سے

ایڈوکیٹ متین طالب

(ناندورہ )

 تمام نیکیاں دریا میں ڈال کر کب سے

 خلوص رکھا ہے میں نے سنبھال کر کب سے

اجالے ہوگئے سورج کے نام سے منسوب

کہ شمع بجھ گئی خود کو پگھال کر کب سے

ذرا سی چوٹ بھی لگتی تو ٹوٹ جاتا تھا

وہ دل تو رکھ دیا میں نے نکال کر کب سے

بچھڑ کے مجھ سے نظر آتے ہیں یتیم سے وہ

 رکھا تھاجن غموں کو میں نے پال کر کب سے

حواس باختہ ہیں دیکھ کر وہ جیت مری

جو جی رہے تھے غلط فہمی پال کر کب سے

یہ درد یوں ہی نہیں آگیا زباں پہ مری

رکھا ہوں آہوں کو نغموں میں ڈھال کر کب سے

شمار کر نہ سکا وہ مرے ہنر  طالب

جو خوش ہے عیب مرا اک نکال کر کب سے

تبصرے بند ہیں۔