تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر

امتہ الصبیحہ

(عالمہ،جامعہ نظامیہ)

قوا انفسکم واھلیکم نارا

تاجدار کائنات نوری مجسم محمدﷺ نے فرمایا ’’تم میں سے جو کوئی بُرائی دیکھے وہ اِسے اپنے ہاتھ سے روکے ‘اگرایسا نہ کرسکتا ہو توزبان سے روکے‘اگریہ بھی نہ ہو تو دل میں بُرا جانے‘‘۔

حیدرآباد ایک ایسا شہر جہاں کی تہذیب وتمدن ساری دنیا میں مشہور ہے۔یہ علماء وفقہ کا مسکن ہے۔ اولیاء اکرامؒ کی سرزمین ہے۔ یہاں کے مسلم وغیر مسلم تمام تہذیب سے آشنا رہے ہیں۔ لیکن جیسا جیسا زمانہ ترقی کرتا جارہا ہے یہاں کے مسلمان بھی دین سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ غیرمذہب کی تقلید‘غیرمذہب کی تہذیب کواپنانااور اس کے رنگ میں رنگ جانے کو باعث فخر سمجھ رہے ہیں۔ حال ہی میں ہم نے اخبارات میں یہ خبر دیکھی اور سوشیل میڈیا پرکئی تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہوئے کہ حیدرآباد میں ایک ایسی انوکھی شادی کی تقریب ہوئی جہاں پر دنیا کے مختلف ممالک سے رقاصاؤں کوبلاکر نیم برہنہ رقص کروایاگیا۔ افراد خاندان ‘ بزرگوں اور رشتہ داروں کے سامنے شادی میں شریک افراد نہ صرف رقاصاؤں پرپیسہ لٹارہے تھے بلکہ ان کے ساتھ ناچ بھی رہے تھے۔ جب ہم نے یہ خبر پڑھی اور سوشیل میڈیا پرویڈیوز دیکھے توہماری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اورہمیں سوچنے پرمجبورہونا پڑا کہ کیا یہی مسلمانوں کی پہچان ہے ؟کیایہ سنت کے مطابق نکاح ہے؟ کیایہی حیدرآبادی تہذیب کی پہچان ہے ؟ جس کی اپنی مسلم تہذیب وثقافت کی وجہ سے ساری دنیا میں الگ پہچان ہے۔ کیا آج ہم نے وہ پہچان کھودی جسے ہمارے بزرگوں نے قائم رکھاتھا؟۔

اوریقیناًمسرفین اصحاب دوزخ ہیں(مومن)۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جو ہمیں شادی بیاہ ‘موت وحیات غرض کہ زندگی کے ہرشعبہ میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ زندگی کے ہرمعاملہ میں ہمارے لیئے شرعی احکام موجود ہیں۔ اسلام سب سے بہتر مذہب ہے جو فطرت کے عین مطابق ہے۔ نبی مکرم سروری عالم محمدﷺ کا فرمان مبارک ہے ’’النکاح من سنتی:نکاح میری سنت ہے‘‘۔ اگرنکاح میرے طریقہ پرکروگے تو تمہیں میں آدھے دین کی ضمانت دیتا ہوں ‘باقی آدھے ایمان کیلئے اپنے رب سے ڈرتے رہو۔ اسلام کے معنی اطاعت کے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول ؐ اطاعت کریں اوراحکامات پرعمل کریں۔ اپنی خواہشات واپنے اغراض اپنے مفادات احکام الہیٰ کے مطابق پورا کرے تب ہی ہماری زندگی کامیاب ہوگی لیکن آج ہم مسلمانوں نے شادی بیاہ کواتنا ہی مشکل بنادیا ہے۔ کہیں جہیز کے نام پر توکہیں خوبصورتی کے نام پر لڑکیوں کااستحصال ہوتا ہے اوراگربات بن بھی جائے تومسلکی اختلافات کی وجہ سے بھی شادی بیاہ میں رکاوٹیں پیش آرہی ہیں۔ اور اگرکہیں شادی ہوبھی جائے تو اس میں اتنا اسراف دیکھنے کوملتا ہے کہ آنکھیں دنگ رہ جائیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتے ہیں : ان اللہ لا یحب المسفرین :بے شک اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کوپسند نہیں فرماتا۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان مبارک ہے کہ جو مال تو نے دکھاوے وشہرت کیلئے خرچ کیا وہ شیطانی حصّہ ہے(درمنثور)۔ جو رسم ورواج بے حیائی ‘ فضول خرچی کودعوت دیتی ہے وہ سب حرام وناجائز ہے۔ اگر صاحب ثروت لوگ اپنی شادیاں سنت کے طریقہ سے اور سادگی سے کرے تو اس میں ایک غریب لڑکی کی شادی ہوسکتی ہے۔ ہم مسلمانوں کوچاہئے کہ ایسی شادیوں کابائیکاٹ کرے جس میں اسراف زیادہ ہو۔ ایسی شادیوں سے اجتناب کرے جس میں رقص وسروی کی محفلیں منعقد ہوتی ہے جس میں لاکھوں روپیہ رقاصاؤں پرلٹایا جاتا ہے۔

اسلام ایک بھلائی والا دین ہے جو اس کے قوانین پرعمل پیرا ہوگا وہی نجات کا راستہ پائے گا‘ جواسلام کے اصول وضوابط اس کی تعلیمات وہدایات پرعمل نہیں کرے گا دنیا وآخرت میں اس کے لیئے ذلت ورسوائی ہے۔ دوزخ اس کا ابدی ٹھکانہ ہوگا۔حلال کی کمائی کی تلاش بھی فرائض کے بعد ایک ہم فریضہ ہے۔ اپنے ایمان کی حفاظت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ رزق حلال کمانا اورکھانا ہے۔ حرام کی روزی کے جہاں کئی نقصانات ہے وہی ایمان کے ضائع ہونا بھی شامل ہے۔ جب شراب نوشی وحرام کے کھانے کی لت پڑجائے توانسان کے منہ سے کفریہ کلمات نکلتے ہے اور آہستہ آہستہ ایمان سے دور ہوتاچلاجاتا ہے اورکئی برائی کے کاموں میں لگ جاتا ہے اور دین سے دوری اختیار کرتا چلاجاتا ہے۔ جب مسلمان مذہب سے دورہوجاتا ہے تو ان میں جرأت وبہادری ‘حیا وغیرت مندی جیسی خصوصیات ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد وہ غیرقوم کاغلام بن کررہنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔

آج ہم مسلمان قوم دین سے اتنے دور ہوگئے ہیں اور دنیا کی رنگینی ‘اس کے لہوولعب میں اس قدر گم ہوگئے کہ اسلامی اقدار کی پامالی کررہے ہیں۔ آج ہماری نوجوان نسل کا یہ المیہ ہے کہ رات رات بھرآوارہ گردی کرنا ‘انٹرنیٹ کا غلط استعمال‘حقہ پارلر ‘رقص وسرور کی محفلوں میں شرکت‘ شادیوں میں بینڈ باجوں میں ناچنا اوراب تویہ عالم ہوگیا کہ نیم برہنہ عورتوں کو باہر کے ممالک سے بلاکرمحفلیں سجائی جارہی ہیں۔ ہائے افسوس۔ ۔۔۔۔۔!!

ہم مغربی تہذیب کے اتنا دلداہ ہوگئے ہیں کہ ہم خود مسلمان ہوکر دین سے بے زاری اختیار کررہے ہیں اور ہماری قوم پستی کی جانب چلے جارہی ہے۔ آج دنیا کی تمام قوموں میں مسلم قوم ہرشعبہ میں سب سے پیچھے چلے جارہی ہے۔ ہماری وہ ایمانی حرارت ہی ختم ہوگئی جو کبھی مسلمانوں کا شعار ہواکرتی تھی۔ آج ہم خود اپنا وقار کھودیئے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہرجگہ ہمیں ذلت ورسوائی مل رہی ہے۔ مسلمان قوم کی اخلاقی اوردینی صحت کوبرقرار رکھنے کیلئے سب سے بڑا ذریعہ ہے کہ اس کے ہر فرد میں غیرت ایمانی ہو۔ جس کوحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حیا سے تعبیر فرمایا۔ حیا ایمان کے ساتھ ہے۔ جب دونوں میں سے کوئی ایک چلاجائے تو دوسرا خود بہ خود چلاجاتا ہے جیسا ہی انسان بے حیا ہوجاتا ہے اس کا ایمان بھی کمزور ہونا شروع ہوجاتا ہے اور بے حیائی کے کاموں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ہمارے سامنے ماضی کی کئی ایسی مثالیں موجود ہے کہ جب جب مسلمان قوم اپنے دین سے دوری اختیار کیا تب تک ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا۔

سورہ انفال میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: واتقو ا فتنۃ لا تصبین الذین ظلموامنکم خاصۃ : بچواس فتنہ سے جو صرف ایسے لوگوں کو مبتلائے مصیبت نہ کرے گا جنہوں نے تم میں سے ظلم کیا ہے۔ ابن عباسؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’’برائی کو اپنے سامنے ٹہرنے نہ دو‘اگر تم برائی سے رواداری برتو گے اور اس کوپھیلنے دوگے تو اللہ کی طرف سے عذاب عام نازل ہوگا اس کی لپیٹ میں اچھے اوربُرے سب آجائیں گے۔

فی زمانہ ایمان کی سلامتی کا سب سے بڑا ذریعہ علم دین ہے۔جس کے لیے علمائے دین کی صحبت اختیار کرنا ہوگا۔ اگرہم اپنی آنے والی نسلوں تک ایمان کوصحیح پہنچانا چاہتے ہیں تو ہم کوخود دین سیکھنے اور سکھانے کی ضرورت ہے۔ اس لئے ہم کواسلام نے یہ بتایا کہ تم میں بہترین قوم وہ ہے جو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور بُرائی سے روکتے ہیں اوراللہ پرایمان رکھتے ہیں۔

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر 

تبصرے بند ہیں۔