تواضع کا انعام

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

آج کل آم کا موسم ہے۔ آم کے درخت کی جن ٹہنیوں میں پھل لدے ہوئے ہوتے ہیں وہ جھک جاتی ہیں۔ یہی حال دوسرے پھل دار درختوں کا ہوتا ہے کہ جس درخت پر جتنے پھل ہوتے ہیں اس کی ٹہنیاں اتنی ہی جھک جاتی ہیں۔ یہ قانونِ فطرت ہے۔ کسی چیز پر کوئی بوجھ ہو تو وہ جھک جاتی ہے۔

یہی قانون انسانوں پر بھی لاگو ہونا چاہیے۔ کسی شخص میں جتنی دین داری ہو اسے اتنا ہی تواضع اختیار کرنا چاہیے۔ کوئی شخص جتنا صاحبِ علم ہو اسے اتنا ہی متواضع ہونا چاہیے۔ کوئی شخص اقتدار و منصب کا مالک ہو تو اسے اللہ کا عطیہ سمجھ کر بارگاہ الٰہی میں سجدہ ریز ہونا چاہیے۔ کوئی شخص محض اللہ تعالیٰ کی خوش نودی میں جتنا زیادہ تواضع اختیار کرے گا اتنا ہی زیادہ اسے اللہ کا تقرّب حاصل ہوگا اور اتنا ہی زیادہ اللہ تعالٰی اسے عظمت و رفعت عطا فرمائے گا۔ یہی بات ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالٰی کی طرف منسوب کرکے کہی گئی ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

مَنْ تَوَاضَعَ لِي هَكَذَا رَفَعْتُهُ هَكَذَا  (مسند احمد :309)

"جو شخص میرے لیے اِس طرح جھکے گا میں اسے اِس طرح بلندی عطا کروں گا۔ "

اس حدیثِ قدسی کو اس کے ایک راوی یزید نے ایکشن کے ساتھ بیان کیا۔ انھوں نے جب پہلا جملہ(جو شخص میرے لیے اِس طرح جھکے گا) کہا تو ہتھیلی کے اندرونی حصے کا رخ زمین کی طرف کیا اور اسے نیچے جھکایا اور جب دوسرا جملہ (میں اسے اِس طرح بلندی عطا کروں گا) کہا تو ہتھیلی کے اندرونی حصے کا رخ آسمان کی طرف کیا اور اسے اوپر اٹھایا۔

ہم دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں بہت سے لوگ اِس قانونِ فطرت سے بغاوت کرتے ہیں اور ان کا عمل اس کے برعکس ہوتا ہے۔

کوئی شخص عالم دین بن گیا، اس نے کسی مدرسے سے اعلیٰ تعلیم کی ڈگری حاصل کر لی تو وہ اپنے آپ کو بڑا آدمی سمجھنے لگتا ہے۔

کسی شخص نے کالج یا یونی ورسٹی سے اونچی ڈگری حاصل کرلی اور کسی تدریسی یا انتظامی منصب پر فائز ہوگیا تو اپنے کو بڑا آدمی سمجھنے لگتا ہے۔

کوئی شخص مصنّف بن گیا، اس نے دینی یا عصری موضوعات پر دو چار کتابیں لکھ لیں تو وہ اپنے آپ کو بڑا آدمی سمجھنے لگتا ہے۔

کوئی شخص خطیب بن گیا، دینی موضوعات پر خطابت کے جوہر دکھانے لگ گیا تو وہ اپنے آپ کو بڑا آدمی سمجھنے لگتا ہے۔

کوئی شخص مفتی بن گیا، دینی مسائل میں عوام کی رہ نمائی کرنے لگا تو وہ اپنے آپ کو بڑا آدمی سمجھنے لگتا ہے۔

کوئی شخص کسی مدرسے کا ناظم یا مہتمم ، یا کسی مسجد کا متولی بن گیا تو وہ اپنے آپ کو بڑا آدمی سمجھنے لگتا ہے۔

کوئی شخص کسی کمیٹی کا صدر، یا کسی دینی تنظیم کا کوئی عہدہ دار بن گیا تو وہ اپنے آپ کو بڑا آدمی سمجھنے لگتا ہے۔

بڑا بن جانے کے زعم میں پھر ایسا آدمی ناشائستہ اور گندی حرکتیں کرنے لگتا ہے۔ اپنے کو برتر اور دوسروں کو کم تر سمجھنے لگتا ہے۔ دوسروں کے منہ سے اپنی تعریفیں سن کر خوش ہوتا ہے اور دوسرے اس کے تعریف نہ کریں تو اسے ملال ہوتا ہے۔ پھر یہ مرض جب سنگین صورت اختیار کرلیتا ہے تو ایسا آدمی اپنے منھ سے خود اپنی تعریفیں کرنے لگتا ہے اور اپنی گفتگوؤں میں وہ جملے نقل کرنے لگتا ہے جو دوسروں نے کبھی اس کے بارے میں کہے ہوتے ہیں۔

حالاں کہ کوئی عہدہ یا منصب پانے سے آدمی میں تواضع پیدا ہونا چاہیے، کوئی اعزاز پاکر آدمی میں خاک ساری اور فروتنی آنی چاہیے اور کوئی نعمت پاکر آدمی کا سر بارگاہِ الٰہی میں جھک جانا چاہیے۔

اس حدیث میں اللہ تعالٰی کا وعدہ ہے کہ جو اس کے لیے تواضع اور خاک ساری اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اسے مقامِ بلند عطا فرمائے گا، جو اس کے لیے فروتنی اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اسے رفعت سے نوازے گا، جو اس کے لیے زمین کی طرف جھکے گا اللہ تعالیٰ اسے آسمان کی طرف اونچا اٹھائے گا۔

غور کرنے کا مقام ہے۔

اللہ تعالٰی جس چیز کا وعدہ کرے اس کا پورا ہونا یقینی ہے۔

تواضع کا کتنا بڑا انعام ہے؟!

خاک ساری کی کتنی بڑی جزا ہے؟!

تبصرے بند ہیں۔