تکریم انسانیت

صدام پٹیل

موجودہ حالات پر جب غور کیا جاتا ہےتو اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ وہ حالات جو ہمارے مک میں آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد جو چند برس رہے ہے، آخر کہا چلے گئے؟آخر وہ اخوت و محبت جو ہمارے ملک کے لوگوں کا شیوا تھا، کہا چلے گئی؟وہ آزاد فضاء جس میں ہماری نسلیں پروان چڑھنا تھا کدھر چلے گئی؟آخر کیا وجہ ہے کہ اتنے حالات بدلنے کے بعد بھی ہم خاموش ہے؟اور کیوں ہم اس بگڑے اور انسان دشمن ماحول کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتے؟

یہ اور اس طرح کے بہت سوالات ہیں جو میرے ذہن میں گردش کرتے ہے۔ اور میں جستجو میں رہتا ہو کہ ان سوالات کو کیسے حل کروں اور ماحول کس طرح بدل سکتا ہے۔ مگر یہ میری چھوٹی سوچ کا نتیجہ تھا کی میں صرف اپنے ملک کے لوگوں کی ہی سوچ رہا تھا یا یوں کہیے کہ میں اپنے ملک کے لوگوں کو ہی انسان سمجھ رہا تھا۔ جب میں نے اپنی سوچ کو ترقی دی تو علامہ اقبال کہ شعر کہ مطابق

ستاروں کے آگے جہاں اور بھی ہیں

وہ انسانیت جو ہردن، ہر لمحہ اور ہر وقت مر رہی تھی۔ میری نظر گئی اس انسانیت پر جو ظلم کی زنجیروں سے جکڑی ہوئی تھی۔ اس وقت میری نظر میں وہ مخلص افراد بھی آئے جو انسانیت کو بچانے کےلیے خود موت کی آغوش میں چلے جارہے تھے۔ اب اور مزید سوال سامنے آئے ان کو کس طرح حل کریں؟ آخر انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ کیا ان مسائل کا حل بھی ہے؟

جو مسائل آج انسانیت کو درپیش ہے۔ ان میں سے تین کی وضاحت اور ان حل بتانے کی کوشش مندرجہ ذیل میں کی گئی ہیں۔

★تکریم انسانیت کا تصور نہیں یا ناقص تصور:

آج پوری دنیا میں تکریم انسانیت کا ناقص تصور پایا جاتا ہے۔ لوگوں کی نظر میں تکریم صرف اس شخص کی ہوتی ہے جسے وہ جانتے ہے یا وہ جو ان کا قریبی ہو یا وہ جو ان کے شہر کا ہو اور یا پھر وہ جو ان کہ نظریہ حیات سے متفق ہو۔ اور وہ بھی جو تکریم کو صرف اپنے ہم وطن کا حق سمجھتے ہے۔ یہ اور اس طرح کے مختلف تصور ایسے ناقص اور بدترین تصور ہے کہ انھیں اپنانے کے بعد انسان کی حیثیت سرکس کے جانور جیسی ہو جاتی ہے۔ ان کے بعد وہ لوگ بھی جو تکریم انسانیت کہ شعور سے واقف ہی نہیں ان کہ مثال جانوروں سے بھی گئے گزری ہے

سوال اٹھتا ہے کہ تکریم انسانیت کا اصل شعورہے کیا؟ تکریم انسانیت ان دونوں گروہوں سے بہت بلند ہیں جنھیں ہم نے ابھی دیکھا۔ اس لیے کہ تمام انسان یکساں پیدا کیے گئے۔ ایک انسان کو و ہی بنیادی حقوق حاصل ہے جو تمام انسانوں کو حاصل ہے۔ ایک انسان کو جو ضروریات پیش آتی ہے وہ تمام انسانوں کو بھی پیش آتی ہے۔ سب کو سوچنے اورسمجھ نے کےلیے دماغ دیا گیا ہے۔ سب کے جسم میں۔ لال خون دوڑتا ہیں۔ سب انسان ایک ہی جان سے پیدا کیے گئے ہے۔ غرض ہر وہ چیزجو مشرق کے رہنے والے میں پائی جاتی ہے، مغرب کے رہنے والے میں بھی پائی جاتی ہے۔ تو ہم تفریق کس بناء پر کریں اور ہم فرق کرنے والے کون ہوتے ہیں؟تمام انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق حاصل ہے۔ جاہل ہے وہ لوگ جو انسانوں میں اس بناء پر فرق کرتے ہیں کہ یہ انسان کالا اور یہ گوراہے، اس کا قد چھوٹا اور اس کا قد بڑا ہے، یہ فلاع ذات اور یہ فلاع نسل کا ہے، گوشت کھاتا اور یہ نہیں کھاتا ہے اور یہ اس ملک کا اور یہ اس ملک کا ہے۔ یہ اور اس طرح منفی سوچ ان لوگوں کی ہیں جو انسانیت کے دشمن ہے۔ جو انسانوں کو جانور یا اور کوئی مخلوق تصور کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک ایسا نظریہ حیات کو اپنایا جائے جو تمام انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق دیتا ہو۔ جو ذات پات اور رنگ و نسل سے آگے ہو۔

★ ترجیحات کا شعور نہیں:

آج پورے انسانوں میں ہمیں بہت کم لوگ ہی ایسے نظر آتے ہے جو تکریم انسانیت کا صحیح شعور رکھتے ہو۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اتنی بڑی انسانی تعداد میں سے صرف چند انسان ہی انسانیت کی فکر کرتے ہیں؟ دنیا میں ان انسانی گروہ کی کمی نہیں جو اس دنیا میں بسنے والی تقریبا تمام مخلوقات کے حقوق پر زور دیتی ہے۔ مگر انسان کو بھول جاتے ہے۔ آج پوری دنیا میں ہزاروں ایسی NGO’S اور تنظیمیں موجود جو پانی، ہوا، درخت، زمین، جانور، پرندے اور انسانی وسائل کے حقوق کی فکر تو کرتی ہے۔ مگر اس دنیا میں ان انسانوں کی فکر کرنے والا کوئی نہیں جو مفلس ہے، یتیم ہے، بھوک سے مر رہے ہیں، جن کے سر پر چھت نہیں ہے، جن کے حقوق ہر روز پامال کیے جاتے ہیں، جن کی آبرو سے ہر شب و روز کھیلا جاتا ہیں اور وہ مختلف حالات جن کا شکار ہو کر انسان موت کی آغوش یا جرائم کی دنیا میں جلا جاتا ہے۔

یہ غلط ترجیحات ہی کہ سبب ہے کہ انسانوں سے بڑھ کر ان چیزوں کو فوقیت دی جانے لگی اور دی جارہی ہے جو کہ انسانوں کے لیے پیدا کی گئی ہیں۔ یہ غلط ترجیحات ہی ہے کہ انسان ان انسانوں کہ لیے جو ہر روز ظلم و زیادتیوں کا شکار ہورہے ہیں ان کے لیے وہ ساری چیزے جو وہ ایک جانور کے لیے یا کسی اور کےلیے کر سکتا ہیں مگر انسان کے لیے نہیں کرسکتا۔ جب کہ ان کا سب سے زیادہ حق ہیں۔ جو ان کی ہمدردیوں اور مدد کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔

یہ سب نتیجہ غلط ترجیحات کا۔ یہ نتیجہ ہے تکریم انسانیت کے ناقص شعور کا۔ انسان کی کم علمی کا۔ لیکن دنیا میں کچھ ایسے لوگ اور ایسے گروہ موجود ہیں۔ جن کے پاس ترجیحات اور تکریم انسانیت کا واضح خاکہ موجود ہے۔

★ نطام تعلیم انسانیت کا دشمن:

کسی بھی ملک کے مستقبل کو تیار کرنے میں تعلیمی نظام کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال انگریزوں کے دور حکومت میں رائج تعلیمی نطام کی وہ کارستانیاں ہے جن سے ہم واقف ہے۔ ملک کا تعلیمی نطام اگر انسانوں کوجانور اور جانورں میں بھی بھیڑیے، کتے، سور اور وہ مختلف جانور جنھیں ہم برا جانتے ہے تیار کرتا ہے تو اس ملک طلبہ اور نوجوانوں سے اس بات کی توقع کرنا کہ وہ انسانیت کے خدمت بلا تفریق کریں گے۔ احمقانہ روش اور خوش گمانی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اس لیے وہ ممالک جو اپنے آپ کو بشر دوست اور جمہور نواز کے القاب دیتے ہیں۔ ان کےلیے ضروری ہے کہ وہ اپنے نظام تعلیم پر سنجیدگی سے نظر ثانی کریں۔ اور دیکھیں کہ کہی وہ بھیڑیے، کتے اور ان انسانیت کے دشمنوں کی پرورش تو نہیں کرہے ہیں۔ جو آگے چل کر اپنے ملک اور انسانیت کو لوٹے گے، انسانیت کو برباد کرے گے اور دنیا میں فساد برپا کرے گے۔

ان حالات میں ہمیں ایسے تعلیمی نظام اور ایسے معلیمین کی ضرورت ہیں۔ جو ہماری دنیا کے مستقبل کو انسانیت کا درس دے۔ انھیں دنیا میں رہنے والا اور با شعور انسان بنائے۔ انھیں انسانیت کا خدمت گار بنائے۔ اچھائی اور عدل کا علمبردار بنائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔